میرا امتحان

0
283

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

وجاہت علی سندیلوی

کچھ لوگ چاند پر پہنچ گئے ، کچھ مریخ کا چکر لگا آئے، کچھ خلاء میں چل قدمی کر آئے، کچھ ایورسٹ کی چوٹی پر چڑھ گئے، کچھ سمندر کی تہہ کی خبر لے آئے، کچھ انٹارٹکا میں جھنڈا لگا آئے وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے ان سب کی ہمت، جرأت اور مہم جوئی کی دل کھول کر داددی۔ لیکن اب آپ سے کیا چوری ہمیں ان پر کبھی رشک نہیں آیا اور ان کے کارناموں کو خود دہرانے کا جی ہرگز نہ چاہا۔ بلکہ سچ پوچھئے تو دل ہی دل میں ہم نے ایسے لوگوں کے ہوش و حواس کو کچھ مشکوک ہی سمجھا جو تھوڑی سی واہ واہ کی خاطر اپنی جان کو جوکھم میں ڈال دیتے ہیں۔ جو حضرات اپنی جان کی بازی لگاکر ہم جیسے انسانوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیںان کی جتنی بھی تعریف و تحسین کی جائے کم ہے۔ ہم اکثر نوجوان کو ایسے حضرات کی تقلید کر نے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی ترغیب بھی دیتے رہتے ہیں لیکن خود ہم رشک انھیں لوگوں پر کرتے ہیں جو اپنے اعصاب کی صحت اور توازن کے بل بوتے پر نتیجے سے بالکل بے پرواہ ہو کر جو جی میں آتا ہے کر بیٹھتے ہیں اور اندیشۂ سود و زیاں سے ہمیشہ بے نیاز رہتے ہیں۔
مثلاََ ہمارے جو ملاقاتی سرکس میں گولے کے مانند توپ سے داغے جاتے ہیں اور پچیس تیس میٹر خلاء میں قلابازیاں کھاتے ہوئے ایک جال میں جا گرتے ہیں ہم ان کی تعریف بہت کرتے ہیں لیکن ہم رشک کرتے ہیں اپنے دوست لائق صاحب پر جو گھر سے کسی ضروری چیز کی خریدداری کے لئے لائے ہوئے سب روپے تاش کی ایک نشست میں ہارجانے کے بعد ہنستے ہوئے واپس جاتے ہیں اور اپنی بیگم صاحبہ کو روپوں کے غائب ہو جانے اور اپنے دیر سے واپس آنے کی کوئی ایسی معقول وجہ بتا کر فوراََ اطمینان سے سوجاتے ہیں کہ بیگم صاحبہ کی چیخ اور پکار سے آدھا محلہ دیر تک جاگتا رہتا ہے۔
ہمیں رشک آتا ہے تو اپنے پڑوسی پانڈے جی پر جو نگر پالکا کے چنائو میں لگاتار دو مرتبہ آزاد امید وار کی حیثیت سے ضمانت ضبط کروانے کے بعد بھی بڑے سکون قلب اور پر امید انداز سے تیسری مرتبہ پھر آزاد امید وار کا اپنا ایک خود ساختہ جھنڈا لے کر میدان میں اس شان سے کود پڑے ہیں جیسے اب تک جوکچھ ہوا تھاوہ ہوا ہی نہیں اور وہ پھر گلی گلی اپنی جیپ پر لائوڈ اسپکیر سے چلاتے پھر رہے ہیں ’’جو ہم سے ٹکرائے گا، چور چور ہو جائیگا‘‘۔سڑک بنوائے گا، شرماجی ، بلب جلوائے گا، شرما جی مہرلگائو شرما جی کی ناک پر ، ان کا انتخابی نشان ناک ہے اور انھیں اس کی بالکل فکر نہیں کہ وہ خود ان کے پوسٹرہی پر کٹی ہوئی نظر آتی ہے۔
ہمیں رشک آتا ہے تو اپنے دوست شاکرعلی مسکینؔ پر، جن کو قدرت نے جہاں ایک طرف موٹاتازہ شاعر بنایا ہے وہاں دوسری طرف ستم ظریفی سے ان کے گلے میں جاپانی گڑیا والی چیں چیں قسم کی آواز بھر دی ہے۔ اس زیادتی کی وجہ سے غزل پڑھتے وقت انہیں نہ صرف غیر معمولی طور سے چیخنا بلکہ حلق کی مدد کے لئے ناک کا بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اب سامعین مشاعرہ کی اس بد ذوقی کو کیا کہیے کہ ادھر مسکین صاحب مائک پر نغمہ سرائی کے لئے تشریف لاتے ہیں اور ادھر ان پر پاگل پن کا شدیدترین دورہ پڑجاتا ہے اور وہ جامۂ انسانیت کو چاک کر کے کتے بلی اور بکرے کی بولیاں بولنے لگتے ہیں۔ سامعین کی اس گستاخی اور بدتمیزی پر ان کی جتنی بھی ملامت کی جائے کم ہے لیکن حضرت مسکین کو بھی داد نہ دینا ظلم ہوگا کہ وہ سامعین کے اس رویہ کو کس وعدئہ وصل تک بھول جانے والے محبوب کی طرح بالکل فراموش کر دیتے ہیں اور ہرہونے والے مشاعرے میں بلائے جانے کا انتظار کیے بغیر تازہ حجامت بنوا کر چست چوڑی دارپاجامہ اور فوری استری کی ہوئی سیاہ شیروانی پہن کر ڈائس پر جلوہ افروز نظر آتے ہیں۔ اگر اپنی عاقبت اندیشی سے منتظمین مشاعرہ ان کو غزل پڑھنے کا موقع نہیں دیتے تو وہ باقاعدہ خفا ہو جاتے اور دوران مشاعرہ ہی ان کو بے نقط سنانے لگتے ہیں۔ اس صورت حال کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہوتا ہے کہ منتظمین کے خلاف مورچہ قائم کرنے میں سامعین بھی حضرت مسکین کا ساتھ دیتے ہیں ، کیونکہ دونوں ہی کی دل کی دل ہی میں رہ جاتی ہے۔ اکثر تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر سامعین کو پہلے سے یہ سن گن مل جاتی ہے کہ حضرت مسکین کو دعوت سخن نہیں دی جائے گی تو وہ اپنے دل کی لگی دوسرے شاعروں پر بجھانا شروع کر دیتے ہیں اور یہ مثل صادق آجاتی ہے کہ دھوبی سے زور نہ چلے گدھے کے کان امیٹھے۔ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ اب اکثر شاعر صاحبان کسی مقامی مشاعرے میں شرکت کرنے سے پہلے منتظمین سے یہ قسم کھلواتے ہیں کہ وہ ان کو اپنا کلام سنانے کی دعوت دینے سے پہلے حضرت مسکین کو ضرور پڑھوا چکے ہونگے۔ غالباََ اس خیال سے کہ سامعین کو ہوٹنگ اور شور و غوغامچانے کی کوک ان کی باری آنے سے قبل ہی ختم ہو چکی ہوگی۔
ہمیں ان مصنفین پر بالکل رشک نہیں آتا جن کی کتاب تصنیف ہونے سے قبل ہی ناشرین ان کا گھیرائو شروع کردیتے ہیں یا جن کی کتابیں مطبع کی روشنائی خشک ہونے سے پیشتر فروخت ہوجاتی ہیں اور ناظرین باتمکین اگلے اڈیشن کے لئے پیشگی قیمت جمع کرتے نظر آتے ہیں ہمیں رشک آتا ہے تو اپنے عزیز حمیدا للہ کی ہمت مردانہ اور جرأت رندانہ پر جو خدا جھوٹ نہ بلوائے آٹھ کتابوں کے بلاشرکت

غیرے مصنف ہیں یہ آٹھوں کتابیں انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کرخود اپنے مصارف سے چھپوائی ہیں۔ شاید ہی کس کے لئے کسی ادارے سے انہیں جزوی امداد اشک ملیل کی طرح ملی ہو۔ ان میں سے ہر ایک کے لئے انہوں نے کاتبوں کے گھروں کی دھول چھانی ایک دوسے ہاتھا پائی بھی کی، کاغذ کے تاجروں سے لڑبھڑ کران کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرائی، مطبع والوں کے گھروں کے سامنے بھوک ہڑتال کی۔ مقدمہ اور تعارف لکھنے والوں کے گھروں پر خود جاکردعوت نامے تقسیم کیے اور صرف اسی رسم میں اتنے روپے صرف کر دیے کہ جتنے اپنے لڑکے کی دعوت ولیمہ میں بھی نہیں کئے تھے۔ اور پھر ہواکیا؟ آٹھوں کتابوں کے بنڈل ، سوائے ان چندکتابوں کے جو رسم اجرا کے موقع پر بطور تبرک تقسیم کی گئی تھیں یا جنہیں اظہار خلوص میں حمیداللہ اپنے چند عزیزوں اور دوستوں کے سرتھوپ آئے تھے یا جنہیں بغرض تبصرہ چندرسالوں کو بھیجا گیا تھا، ان کے چھوٹے سے گھر میں الماریوں پر، نعمت خانے کے اوپر، چارپائیوں کے نیچے اور مرغی کے ڈربے کے برابر رکھے ہوئے ہیں، بچے ان پر اونچا نیچا کھیلتے اور مرغے ان پر کھڑے ہو کر بانگ دیتے ہیں۔حمیداللہ کی ناولوں اور افسانوں کا مرکزی خیال ہمیشہ اصلاحی ہوتا ہے۔ وہ اصلاح کے لئے طرح طرح سے عوام اور خواص کو جھنجھوڑتے ہیں کبھی ان کا مذاق اڑاتے ہیں، کبی انہیں عبرت دلاتے ہیں، کبھی ان پر لعن طعن بھی کربیٹھتے ہیں اور کبھی زیادہ جوش میں آکر ہیروئین کے ہاتھوں، زیادہ جہیز مانگنے ولے ہیرو کا قتل بھی کروا دیتے ہیں ،ظاہر ہے کہ اگر ان کی یہ سب تخلیقات عوام تک پہنچ گئی ہوتیں تو اب تک ہمارے سماج کا تھوڑا بہت سدھار تو ضرور ہی ہوگیا ہوتا۔ لیکن کاش کہ بنڈلوں میں بندان گونگی کتابوں سے بچارے حمیداللہ ہی کی کچھ اصلاح ہوجاتی۔
آج سویرے منہ اندھیرے سے ہواخوری کے واسطے جانے کے لئے جیسے ہی اپنے مکان کا صدر دروازہ کھولا، حمیداللہ کو اپنا منتظر پایا۔ پوچھا ’’کیسے؟خیریت؟‘ اس نے بغل سے نکال کر ایک کتاب کا مسودہمیرے ہاتھوں میں رکھ دیا آپ کومیری اس نئی کتاب کا مقدمہ لکھنا ہے‘‘۔ میرامنہ تعجب سے کھلے کا کھلا رہ گیا ’’اجی تم اپنی نویں کتاب شائع کرانا چاہتے ہو؟‘‘جی میں تو آیا کہ کہہ دوں ’’نوشیرواں صاحب یہ نواں میڈل کہاں رکھو گے؟‘‘لیکن اس نے اس کا موقع ہی نہیں دیا‘‘ دیکھئے پروفیسر دلگیر نے بڑی شاندار تقریظ لکھی ہے اور علامہ سیف الحق نے دیباچے میں قلم توڑ دیا ہے، مشہورؔ صاحب تعارف اور میرے خاندانی حالات لکھ رہے ہیں۔
اب آپ ایسا چمتکار مقدمہ لکھ دیجئے کہ جی ہاں! بس! سنا ہے کہ آج کل انعام دینے والے ادارے کتاب کے مواد کے بجائے اس کی لکھائی، چھپائی ، گٹ اپ اور اس کے مقدموں وغیرہ ہی پر انعام دیتے ہیں بھائی صاحب اب یہ میرا نہیں آپ کا امتحان ہے۔
qqq

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here