مولانا ابولکلام آزاد اور انشائیہ نگاری

0
1176

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر محمد اسد اللہ

مولانا ابولکلام آزاد کی جامع الصفات شخصیت میں مقرر،مفسر، مدبّر، فلسفی اور انشائیہ نگار اپنی اپنی مسندوںپر تشریف فرما نظر آ تے ہیں۔ان تمام کی بے نقابی کے لئے مولانا نے الگ الگ پیرایہ ٔاظہار وضع کیا۔ الہلال اور البلاغ کی اشاعت کے ساتھ ہی ان کا طرزِنگارش مقبول ہو نے لگا تھا۔صحافیانہ زبان جس کی پشت پر عصرِحاضر کے گراں بار مسائل اور کاندھے پر اخبار کی پالیسی کا جوا موجود ہو ،چوکڑیاںبھر نا بھول جاتی ہے ،ہر نوں کی طرح آزاد انہ قلانچیںمارنا ادبی زبان کا طرہ امتیاز ہے۔ مولانا نے اس دشتِ پر خار میں اپنی انفرادیت کے نقوش ثبت کئے اور اعلیٰ ذوق سے زبان و ادب کی آبیاری کی۔مولانا ابولکلام آزاد کی خطابت جس جذباتی وارفتگی اور ادبیت کا مرقع ہے اس میں روایتی ناصحین کا انداز نہیں بلکہ ایک مدبر کا اندازِفکر اور حساس ادیب یا شاعر کے لب و لہجہ کی رعنائیاں موجود ہیں۔نثر نگاری میںان کا یہی اسلوب غبار ِ خاطر کے خطوط میں نمایاں ہے ۔ لطیف جذبات و احساسات کے اظہار کی بدولت غبار ِ خاطر کے خطوط میں انشائیہ کی جھلکیاںنظرآتی ہیں۔ان خطوط کے متعلق محمد ارشاد نے لکھا ہے :
اردو زبان و ادب کی خوش نصیبی ہے کہ اسے اپنی تاریخ کے مختصر سے عرصے میں ایک ایسا معجز نگار صاحبِ قلم مل گیاجس کے مکاتیب زبان و بیان اور وسعتِ فکر و نظر کے اعتبار سے سینیکاؔ،پلوٹارکؔاور مونتین کی تحریروں کے مقابلے میں پیش کئے جا سکتے ہیں۔۱
غبارِ خاطر مولانا کے وہ خطوط ہیں جو انھوں نے 1943 سے 1945 کے درمیان نواب صدر یار جنگ ،مولانا حبیب الرحمٰن شیر وانی کے نام لکھے۔ ان خطوط کی تخلیق میںبعض ایسے عناصر کار فرما ہیںجن کا وجود انشائیہ کی تخلیق کے لئے ازبس ضروری ہے۔مثلاً انشائیہ نگار شخصی سطح پر وارداتِ قلبی کا انکشاف کر تاہے جیسے کسی بے تکلف دوست سے اپنی ذہنی ترنگیں بیان کر رہا ہو۔ بعینہ یہی حالت مولانا ابوالکلام آزاد کو اس وقت میسر آئی جب قلعہ احمد نگر میں اسیری کے دوران سیاست کی متلاطم ہیجان انگیز لہروں سے نجات حاصل کر نے کے بعد انھیں ایک گوشہ تنہائی میسر آیا۔ان لمحات میں مولانا کے خیالات ،جذبات اور افکار کے پر دوں میں ہو نے والی جنبش ان کے خطو ط میںریکارڈ ہوئی اور اسی ارتعاش کی اوٹ سے ان کی شخصیات کی جھلکیاںنظر آتی ہیں۔ان خطوط میں یہی خود انکشافی انشائیہ نگاری سے عبارت ہے۔غبارِ خاطر کے خطوط فوراً مکتوب الیہ تک نہیںپہنچے۔ مولاناکے سیکریٹر ی محمّد اجمل خان نے اس سلسلے میں لکھا ہے۔
قلعہ احمد نگر کے زمانے میںدوستوںسے خط و کتابت کی اجازت نہ تھی اور حضرت مولاناکی کو ئی تحریر باہر نہیں جا سکتی تھی۔پندرہ جون 1945 کو جب مولانا رہا ہو ئے تو ان مکاتیب کے مکتوب الیہ تک پہنچنے کی راہ بار ہوئی۔ ۲
خطوط لکھتے وقت ممکن ہے یہی احساس مکتوب نگاری کی عمومی سطح سے مولانا کو خود کلامی کی سطح تک لے گیا ہے۔خود کلامی کی اسی کیفیت میںمولاناکے خطوط مکتوب نگاری کی عام ڈگرسے ہٹ کر انشائیہ کی راہ پر چل بڑے۔ مولانا ابوالکلام کے خطوط کا انداز ان کے ہم عصر اور دیگر مشاہیر کے خطوط سے قطعی جدا گانہ ہے۔ ان خطوط میںتنوع اور موضوعات کی رنگارنگی کے علاوہ علمی اور فلسفیانہ مباحث بھی موجود ہیں۔ ان مباحث پر جب مولاناکا قلم اپنی گرفت مضبوط کر نے لگتا ہے تو انشائیہ کا دامن ان کے ہاتھوںسے چھوٹ جاتا ہے مثلاًغبارِخاطرکا ایک خط اس طر ح شروع ہوتا ہے۔
صبح کے ساڑھے تین بجے ہیں۔اس وقت لکھنے کے لئے قلم اٹھایا تو معلوم ہوا سیاہی ختم ہو رہی ہے۔ساتھ ہی خیال آیا کہ سیاہی کی شیشی خالی ہوچکی تھی نئی شیشی منگوانی تھی ،مگر منگوانا بھول گیا۔ میں نے سوچا۔تھوڑا پانی کیوںنہ ڈال دوں؟
یکایک چائے دانی پر نظر پڑی میں نے تھوڑی سی چائے فنجان میںانڈیلی اور قلم کا منہ اس میںڈبو کر پچکاری چلادی پھر اسے اچھی طرح ہلا دیا کہ روشنائی کی دھوون پوری طرح نکل آئے اور اب دیکھئے کہ روشنائی کی جگہ چائے کے تند و گرم عر ق سے اپنے نفس ہائے سرد صفحہ قرطاس پر نقش کر رہا ہوں۔۳
اس خالص انشائی بر تائو اور چائے سے حاصل ہو نے والی گرمی سے موضوع کو مزید کھلنا چاہئے تھا لیکن اس کے بعد پوری تحریر جس کا سلسلہ اگلے خط سے بھی جڑا ہوا ہے ایک علمی موضوع پر اظہار ِخیال کے تقاضے پورے کر نے میں صرف ہوئی ہے۔اس کی علمی حیثیت سے قطع نظر اس قسم کے خطوط انشائیہ کا مزاج پیش کر نے سے قاصر ہیں۔ دوم یہ کہ خطوط کا فارم بہر حال خطوط ہی کے زمرے میں شامل کیا جائے گا البتہ ان خطو ط کے بعض حصے انشائیہ کی خصوصیات پیش کر تے ہیں۔ڈاکٹر انور سدید مولانا آ زاد کے ان خطوط کو انشائیے کی طرف جزوی اور غیر شعوری پیش قدمی قرار دیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں :
انشائیے کے اس قسم کے پر لطف ٹکڑے ’غبارِ خاطر ‘ کے خطوط میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں اور انہیں تاثر کی وحدت میں پرونے کے لیے قطع و برید کی ضرورت بھی پڑتی ہے ۔اس کی وجہ ہی ہے کہ ابوالکلام آ زاد نے انشائیہ کی صنف کو شعوری سطح پر قبول نہیںکیا اور نہ اپنے اس مخصوص انداز کو مزید وسعت دی ۔۴
غبارِخاطر میںزاغ و بلبل ،چڑیا چڑے کی کہانی اور چائے کے متعلق مولانا کے تاثرات میں انشائیے کی جھلکیاںنمایاں ہو ئی ہیں۔اس کا اندازہ حکایات ِ زاغ و بلبل کے اس اقتباس سے کیا جا سکتا ہے۔ روز صبح روٹی کے چھوٹے ٹکڑے ہاتھ میں لے کر نکل جاتے اور صحن میں جا کھڑے ہو تے۔پھر جہاںتک حلق کام دیتا آآآکرتے جاتے اور ٹکڑے فضا کو دکھا دکھاکر پھینکتے رہتے۔ یہ صلائے عام مینائوں کو تو ملتفت نہ کر سکی البتہ شہرستان ِہوا کے دریوزہ گران ِہر جائی یعنی کووں نے ہر طرف سے ہجوم شروع کر دیا۔ میں نے کووںکو شہرستان ِہوا کا دریوزہ گر اس لئے کہا ہے کہ کبھی انھیں مہمانوںکی طرح کہیںجاتے نہیں دیکھا۔ہمیشہ اسی عالم میں پایا کہ فقیروں کی طرح ہر دروازے پر پہنچے ،صدائیںلگائیں اور چل دئے ،فقیرانہ آئے صدا کر چلے۔۵
مولاناآزاد کے خطوط کے متعلق یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مولانا یہ جانتے تھے کہ ان کے مکتوب الیہ تک نہیں پہنچ پائیں گے۔غبارِ خاطر میں مولانا نے ہرچند اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کو بے نقاب کیا ہے، مغربی دانشوروں،مسلم اور عیسائی مورخوںکے خیالات کو پیش کیا ہے۔غبارِ خاطرعلم اور واقعات کا مجموعہ ہی نہیںبلکہ اس میں مولانا نے اپنے نہاںخانہ دل کی متاعِ گرں مایہ کی بے نقابی کا بھی اہتمام کیا۔اپنے دکھ، اپنی تنہائی کو بھی ان خطوط کا حصہ بنایا ہے۔اس کتاب کا نا م بھی اس خود انکشافی کا مظہر ہے جو انشائیہ کا اہم جوہر ہے۔ یہ محض زخموں کی آر ٹ گیلری نہیں،ان سانحات کو مولانا نے ایک ایسے روشندان میںتبدیل کر دیا جہاں سے وہ کاروبارِ حیات کو باندازِ دیگر دیکھتے ہیں۔ان خطوط میں ان کی اہلیہ کی رحلت کے واقعہ پر ان کی سوچوںکی سطح پر ابھرنے والے دائرے ہوں،چائے اور چڑیوں سے متعلق ان کے لطیف احساسات ہوںیا اپنے ہم عصروں کے درمیاں اپنے مقام کا احساس ہو ،یہ تمام خطوط انشائیہ کے ایک اہم وصف، انکشافِ ذات کا ادبی اظہار ہیں۔
درج ذیل اقتباسات سے ان خطوط کی انشائی کیفیت کا اندازہ لگ یا جا سکتاہے۔التفات و تغافل کی ان عشوہ گریوں کی ابھی جلوہ فروشی ہو ہی رہی تھی کہ ناگہاں ایک تنومند چڑے نے جو اپنی قلندرانہ بے دماغی اور رندانہ جرتوں کے لحاظ سے پورے حلقے میں ممتاز تھا،سلسۂ کار کی درازی سے اکتا کرایک بے باکانہ قدم اٹھادیااور زبان ِ حال سے یہ نعرۂ مستانہ لگاتگاتا ہوابہ یک دفعہ دانوں پر ٹوٹ پڑا ۔( غبارِ خاطر)
لوگ بازار میں دکان لگاتے ہیں تو ایسی جگہ ڈھونڈ کر لگاتے ہیںجہاںخریداروں کی بھیڑ لگی ہو۔میں نے جس دن اپنی دکان لگائی تو ایسی جگہ ڈھونڈ کر لگائی جہاں کم سے کم لوگوں کا گزر ہو سکے۔فکر و نظر کی عام راہوںمیں جس طرف بھی نکلنا پڑا اکیلا ہی نکلنا پڑا ،جب مڑ کے دیکھا تو گردِراہ کے سوا کچھ دکھائی نہ دیااور یہ بھی اپنی ہی تیز رفتاری کی اڑائی ہوئی تھی۔( غبارِ خاطر)
اب اس دنیا میںجو قلعے سے باہر ہے اور اس میں جو قلعے کے اندر صرف ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا۔چشمِ زدن میں یہ بھی طے ہو گیا اور ہم قلعے کی دنیا میں داخل ہو گئے۔غور کیجئے تو زندگی کی تمام مسافتوں کا یہی حال ہے۔خود زندگی اور موت کا باہمی فاصلہ بھی ایک قدم سے زیادہ نہیں ہو تا۔( غبارِ خاطر)
حواشی
۱۔محمد ارشاد ۔فنون ،جولائی اگست۱۹۸۳ص۴۶
۲۔محمد اجمل خان،مقدمہ غبارِ خاطر،ص5
۳۔مولانا ابوالکلام ا?زاد،غبارِ خاطر ،ص147
۴۔ڈاکٹر انور سدید ۔انشائیہ اردو ادب میں ،۱۹۸۵، ص ۱۸۸
۵۔مولانا ابوالکلام ا?زاد،غبارِ خاطر ،ص 246
رابطہ: 9579591149

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here