مولانا ابوالکلام آزاد : ایک کثیرالجہات شخصیت

0
310

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

داؤد احمد

بیسویں صدی کی تاریخ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان کا دامن ایسی بہت سی شخصیات سے منور دکھائی دیتا ہے جن کے افکار و تصورات نے عام انسانوں کے شعور کو جلا بخشنے کا کام کیا ہے ۔ان سیاسی و سماجی رہنماؤں میں ایک اہم نام مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد ان نابغۂ روزگار لوگوں میں سے تھے جو اپنے عہد سے بڑے اور وقت سے آگے ہوتے ہیں۔وہ ہماری تاریخ،تہذیب اور علوم کا اعتبار تھے اور ملک و قوم کا افتخار بھی۔بلکہ یوں کہیے کہ مولانا آزاد کی شخصیت کثیرالجہات تھی۔وہ عالم ،مفکراور مفسرقرآن تھے،شاعر و ادیب اور انشاپرداز بھی۔خطیب تھے ،صحافی تھے اور مصلح قوم بھی۔مجاہد آزادی تھے،ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار اور ماہر تعلیم بھی تھے۔جب مہاتما گاندھی کے مشورے اور پنڈت نہرو کی منشا پر انھوں نے وزارت تعلیم کا عہدہ قبول کیا تو سائنس اور کلچر کی ذمہ داریاں بھی انھیں سونپی گئی اور بعد ازاں سائنسی تحقیقات کا شعبہ بھی انھیں کے سپرد کیا گیا۔ملک کے استحکام ،اس کی تعلیمی ترقی اور رواداری کے فروغ میں مولانا کی خدمات آزاد ہندوستان کی تاریخ میں روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن،یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی تشکیل کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بقا،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ترقی اور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی کھڑگ پور کا قیام مولانا کے وہ اہم اور قابل ذکر کارنامے ہیں جن سے ملک کے تعلیمی،معاشی اور سماجی حالات بہتر ہوئے اور قوم سر بلندی کی طرف گامزن ہوئی۔اپنے گیارہ سالہ عرصۂ وزارت میں مولانا نے ملک میں قائم تعلیمی اداروں کی تعداد کو دو گنی کی اور تعلیمی بجٹ کو دو کروڑ سے بڑھا کر تیس کروڑ تک پہنچا دیا،جسے ملک و قوم کی عظمت اور تعلیم و تہذیب سے ان کی محبت کا نتیجہ کہنا چاہیے۔
مولانا نے اردو ،انگریزی،فارسی اور عربی کی بے شمار کتب کا مطالعہ کیا ۔ان کا حافظہ غضب کا تھا ،جو کتاب ایک بار پڑھ لیتے دماغ میں محفوظ ہوجاتی،جو شعر ایک بار سن لیتے عمر بھر کے لئے یاد ہوجاتا ۔انھوں نے کم عمری میں لکھنا شروع کیا تھا ۔اخبار میں ان کے مضامین پڑھ کر لوگ سمجھتے کہ ان کا لکھنے والا کوئی بزرگ عالم ہے۔انھوں نے کئی کتابیں لکھیںجن میں ترجمان القرآن،تذکرہ اور غبار خاطر بہت مشہور ہیں۔اس کے علاوہ آزاد نے سیکڑوں انقلابی مضامین الہلال اخبار میں لکھے جس کے پڑھنے سے عوام میں آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی ۔ملک کی آزادی کے لئے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے والے مجاہدین آزادی کے لئے وہ ایک حوصلہ مند سپہ سالار تھے تو مسلم مذہبی حلقوں کے لئے وہ ایک تعمیری سوچ اور فکر رکھنے والے شعلہ بیان مقرر اور بیدارذہن عالم دین تھے ۔مسلمانوں کی نئی نسل کے لئے قدیم تاریخ اور تہذیب و تمدن سے روشناس کرانے والے ایک مورخ تھے تو کانگریس پارٹی کے لئے اندھیرے میں چراغ کی حیثیت رکھتے تھے۔انھوں نے زندگی کے آخری لمہے تک ملک و قوم کی بے لوث خدمت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ہندوستان کے ایک سچے سپوت ہیں۔
مولانا آزاد ایک حساس ذہن کے مالک تھے ۔انھوں نے ہندوستانی معاشرے کے معاملات و مسائل کا گہرا مطالعہ کیا تھا ۔۔انھوں نے ہندوستانی عوام کی زندگی کو قریب سے دیکھا اور سمجھا تھا ۔ وہ عوام کے اندر سوئی ہوئی انسانیت کو جگانا چاہتے تھے ۔کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ جب تک عوام کے اندر کی چنگاری کو شعلہ نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک یہ ملک غلامی کے طوق سے نجات حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے لئے وہ ہندو مسلم اتحاد کے نہ صرف قائل تھے بلکہ وہ اسے حصول آزادی کے لئے لازمی قرار دیتے تھے۔ان کے نزدیک مذہب ،ذات پات،فرقہ،قوم اور کسی طرح کی گروہ بندی کی حب الوطنی کے سامنے کوئی حیثیت نہ تھی۔مولانا آزاد کا خیال تھا کہ مسلمان جنگ آزادی کے مرکزی دھارے سے ذرا بھی الگ بنتے ہیں تو اس سے ملک اور ملت دونوں کا بڑا نقصان ہوگا اور ملک میں نفرت کی ایک دیوار کھڑی ہوجائے گی ۔انھوں نے ایک طرف مسلمانوں کو قدم قدم پر ہوشیار کیا کہ وہ کسی طرح کے بہکاوے میں نہ آئیں اور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر انگریزی حکومت کو ملک سے نکال باہر کرنے میں ہر محاذ پر ساتھ ساتھ رہیں تو دوسری طرف انھوں نے کانگریس کو بھی خبردار کیا کہ مسلمانوں کے جائز حقوق کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔انھوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے سیاسی مطالبوں کو منوانے کے لئے کسی طرح بھی نفاق کی راہ اختیار نہ کریں۔
وطن کی آزادی کے لئے مولانا ابوالکلام آزاد نے بہت قربانیاں دیں اور کئی بار جیل گئے ۔گاندھی جی ان کی ذہانت،قابلیت اور تدبر کو مانتے تھے ۔جواہر لال نہرو ان کو بڑا بھائی کہتے تھے ۔جب ہندوستان آزاد ہوا تو مولانا ابوالکلام آزاد کو ہندوستان کا پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا۔وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالتے ہی مولانا نے یہ عزم کیا کہ ہندوستان میں تعلم و تعلیم کی ایسی پختہ بنیاد ڈالی جائے جس پر آنے والی نسلیں ایک عالی شان محل تعمیر کرنے کا کام بخوبی انجام دے سکیں۔وہ کہا کرتے تھے کہ تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد میں سمجھتا ہوں ہمارے لئے ہر حال میں ضروری کام عوام کی تعلیم ہے یہی کام سب سے زیادہ اہم ہے اوراسی کام سے ہمیں دور رکھا گیا۔مولانا آزاد نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعہ عوام میں بحیثیت وزیر تعلیم اس زمانے میں ملکی و ریاستی سطح پر تعلیمی سر گرمیوں کو مربوط کرنے کی کوشش کی ۔مولانا آزاد نے مرکزی اور ریاستی سطح پر ملک میں تعلیم کو عام کرنے کے لئے کئی اہم اقدام اٹھائے۔ نئے اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا۔ انھوں نے تعلیم و تحقیق کے جو مراکز قائم کئے ان میں سنگیت اکیڈمی،ساہتیہ اکیڈمی اور للت کلا اکیڈمی قابل تعریف ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد ، آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے ۔اس وقت ملک کے حالات کیسے تھے اس تلخ حقیقت سے ہم آپ خوب اچھی طرح واقف ہیں ۔ویسے نازک حالات میں مولانا آزاد نے جو نظریۂ تعلیم پیش کیا وہ آج بھی اپنی معنویت رکھتا ہے ۔آج جب ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں تو جدید علوم و فنون کو اپنانے کی دور میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔لیکن مولانا آزاد نے اس پرآشوب دور میں ہی ’’میکالے‘‘ کے نظام تعلیم کو ترک کرکے جدید نظام تعلیم کو اپنانے کی وکالت کی تھی۔انھوں نے ۱۸؍فروری ۱۹۴۹؁ء کی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ :
’’ میکالے کا مقصد برطانوی خیر خواہ تیار کرنا تھا لہٰذا ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ موجودہ نظام تعلیم ہماری قومی ضروریات کس حد تک پورا کرتا ہے‘‘۔
مولانا نے عصری ضروریات کے پیش نظر موجودہ تعلیمی نصاب میں خاطر خواہ تبدیلیاں بھی کیں ۔مولانا قومی یکجہتی ،مشترکہ تہذیب،مشترکہ قومیت اور ہندو مسلم اتحاد کے حق میں تھے۔ مولانا آزاد نے اسکول اور کالج کے طلبہ کے لئے ایسا نصاب مرتب کرایا جو سماجی،تہذیبی ورثے سے مالا مال ہو اور ہندو مسلم ،سکھ، عیسائی کے اتحاد کا ضامن بھی ہو جو ہمارے ملکی و قومی سرمایہ کو منتشر ہونے سے بچائے اور مذہبی و طبقاتی فرق کی دیواروں کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو۔ملک بھر کے ہر نوجوان کو تعلیم یافتہ بنانے کے لئے ملک بھر میں اسکولوں اور کالجوں کے قیام کا لائحہ عمل تیار کیا۔بطور چیئر مین آف سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن انھوں نے مرکزی و ریاستی سطح پر مختلف ادارے تشکیل دیئے جن کا مقصد موجودہ تعلیمی نظام کی حکمت عملی اور کار کردگی کو یقینی بنانا تھا۔ وزیر تعلیم کی حیثیت سے مولانا نے ابتدائی تعلیم کو لازمی بنانے کی پرزور وکالت کی اور ۶؍ سے ۱۴؍ سال کے ہر بچے کو مفت تعلیم فراہم کرنے کی حکمت عملی تیار کی۔
انھوں نے تعلیم نسواں ،پروفیشنل تعلیم اور صنعت و حرفت کو بھی اہل وطن کے لئے ضروری قرار دیا۔ان کی کوششوں سے ۱۹۴۸؁ء میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد ملک میں اعلیٰ تعلیم کی سہولیات مہیا کرانا تھا جو اس زمانے میں نہیں تھی ۔ ۱۹۵۶؁ء میں انھوں نے یو جی سی (یونیورسٹی گرانٹس کمیشن) قائم کرکے اعلیٰ تعلیم کو زیادہ وسائل عطا کئے۔ مولانا آزاد پنڈت نہرو کے اس قول سے متفق تھے کہ اگر ہندوستانی یونیورسٹیاں اپنے کام کو بخوبی انجام دیں تو یہ ملک کی ترقی میں ایک اہم قدم ہوگا۔آزاد نے دیگر علوم فنون کے ساتھ فنی تعلیم کی ضرورت بھی محسوس کی اور اس کے لئے آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن کے نام سے ایک مرکزی ادارہ قائم کیا۔انھوں نے ۱۹۵۱؁ء میں کھڑک پور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی قائم کیا جو بعد میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھڑک پور کے نام سے مشہور ہوا۔بعد ازاں ملک کے دیگر شہروں میں بھی اس طرح کے کالجوں کی شاخیں قائم کی گیئں جو اس دور میں ملک کی تعلیمی ترقی میں کوشاں ہیں۔
غرض کہ آج ہندوستان تعلیمی میدان میں جن بلندیوں کو چھو رہاہے ان کی بنیادوں میں مولانا ابوالکلام آزاد کی فکر،سوچ،تدبر اور دور اندیشی بہر حال موجود ہے۔مولانا آزاد کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ملک کو آزادی نفاق اور عدم اتحاد پر ملے ،وہ پہلے اتحاد کے قایل تھے پھر آزادی وطن کے۔’’ انڈیا وینس فریڈم‘‘ اس بات کی شاہد ہے کہ اگر اس وقت کے دیگر رہنما مولانا آزاد کے خیالات سے ذرہ برابر بھی اتفاق کر لیتے تو آج ہندوستان دنیا کا واحد سپر پاورSuper Power ملک ہوتا۔مولانا آزاد نے ایک بار کہا تھا :’’تم لوگ پانی اور کیچڑ کو دیکھ کر بارش کا یقین کرتے ہو ،میں اس کو ہوا میں سونگھ کر جان لیتا ہوں‘‘۔
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو:فخرالدین علی احمد گورنمنٹ پی۔جی کالج محمودآباد،سیتاپور
موبائل : 8423961475

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here