مولانا ابوالکلام آزاد کی متنوع شخصیت

0
293
[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

بلقیس مقبول
عزت وقار اور یادگار کے طور پر قومی رہنمااور پہلے وزیر تعلیم ابوالکلام آزاد کے ولادت (۱۱؍نومبر) کے موقع پر ملک بھرمیںقومی یومِ تعلیم منایاجاتاہے۔ مولانا کی ہمہ گیر شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ ایک دانشور، مفکر، فلسفی، خطیب ، سیاست داں، صحافی، مصلح، مجاہدآزادی غرض ان کی شخصیت کا احاطہ کیاجائے وہ کسی گہرے سمندر سے کم نہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد ۱۱؍نومبر1888 کومکّہ معظّمہ میں پیداہوئے۔ انھوں نے 13 برس کی عمرمیں فقہ، منطق، حدیث، ادبیات پر مہارت حاصل کرلی۔ مولانا نے ۱۱ سال کی کم عمری میں شعر کہناشروع کیااور مولوی عبدالواحد کی رائے پر آزاد تخلص پسند کیا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک مقصد حیات تھا۔ وہ زندگی کاایک نصب العین رکھتے تھے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصّہ ادبی اور سیاسی میدان میں گزرا۔ مولانا نے سب سے پہلا رسالہ ماہ نامہ ’’نیرنگِ عالم‘‘ 1899 میںجاری کیا۔ یہ رسالہ صرف آٹھ مہینے تک جاری رہا۔ اس کے بعد انہوں نے 1900 ء؁ کے اواخر بارہ سال کی عمر میں’’المصباح‘‘ ہفتہ وار کی ادارت کی۔ جس میں علمی مضامین ، تاریخ اور سوانح شائع ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں مولانانے ’’احسن الاخبار‘‘ ، ’’تحفۂ احمدیہ‘‘ اور’’خدنگِ نظر‘‘لکھنؤ سے وابستہ ہوکر متنوع موضوعات پر مضامین لکھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مولاناآزاد کی صحافتی زندگی کاآغاز بچپن ہی سے ہوا۔
1903 ء؁ میں مولانا آزادنے کلکتہ سے ایک 15 روزہ اخبار’’لسان الصدقی‘‘ جاری کیا۔ اس کے کئی مقاصد تھے۔ اوّل سوشل ریفارم، دوسرا اردوزبان کے علمی لٹریچر کے دائرے کووسیع کرنااور تیسرا مقصد ترقی وغیرہ۔ 1912ء؁میں کلکتہ سے ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ ابوالکلام آزادکے زیر ادارت اُردو زبان وادب اور صچافت و سیاست ومعاشرت کے لیے ایک صورِ اسرافیل بن کر نمودار ہوا۔ اس کااہم مقصد ہندوؤںاورمسلمانوںمیں اتحادپیداکرناتھا۔ الہلال میں علمی،سیاسی اور تہذیبی مسائل پر اظہار خیال ہوتاتھا۔ جب انگریزی حکومت نے ’’الہلال‘‘ کی ضمانت ضبط کر لی تھی تومولانانے ہار نہ مانتے ہوئے ۔ دوسرا اخبار’’البلاغ‘‘ کے نام سیدوبارہ شائع کرناشروع کیا۔ اس میں ادب ،تاریخ ،مذہب اور معاشرت کے مسائل بیان کئے جاتے تھے۔مولاناکی شخصیت متنوع ہیں۔ وہ جنگ کے ایک دلاورغازی ہی نہیں تھے اور نہ ہی صرف مسلمانوں کے لیے مثبت تصوّر رکھنے والے شعلہ بیان مشخّص اور بیدار مغزی عالمِ دین ہی نہیں تھے بلکہ انگریزوںکے خلاف لڑنے والے مجاہدِآزادی کے ایک صاحبِ ہمّت امیرِ لشکر تھے۔
مولانا کو 1944 ء؁ میںانگریزی حکومت نے جب قلعہ احمدنگر کی سلاخوںمیں قیدکرلیاتومولانانے اپنی مستقل مزازجی کے ساتھ ہر صعوبت کوبرداشت کرتے ہوئے اپنے قلم کی روانی کواسیر نہیں ہونے دیا۔ جس سے حب الوطنی، قومی یکجہتی کے اعلیٰ سے اعلیٰ مثالیں پیش کیں۔ اس نظر بندی کے دوران مولانا نے غبارِ خاطر خطوط کا ایک مجموعہ مولاناحبیب الرحمن شیرانی کولکھے۔ یہ ان کے خطوط کاپہلا مجموعہ تھا۔آزادی ہند کے بعد مولاناآزاداس سچائی پر وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز ہوئے کہ تعلیم کے بغیرہندوستان ترقی نہیں کرسکتااور تعلیم ہی کے ذریعہ اس ملک کودنیا بھر کے ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں کی صف میں کھڑا کیاجاسکتاہے۔ اسی چیز کے تحت وہ ۱۱ سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ تقریباً مولاناپہلے رفیع الدرجات رہنماتھے جنہوں نے اپنی قوت کے زور کے ساتھ ہندوستان کی متحدہ قومیت کاتصور پیش کیااور ملک کے عوام و خواص کے لیے اپنی تمام تر ذہنی، علمی اور استددلالی صلاحتیں صرف کردیں۔
وزیر تعلیم کی ارادت کے دوران انہوں نے تعلیم کے فروغ کی راہ میں بہت سے ایسے کارنامے انجام دیے جن کوکبھی فراموش نہیں کیاجاسکتاہے۔ انہوں نے سب سے پہلے 6 سال سے لے کر 14 سال تک کے بچّوں کے لیے تعلیم کو لازمی قرار دیا۔ اور مولانانے تعلیم میں تربیت حاصل کرنے اور مقاصد کی تکمیل کے لیے ٹھوس قدم اُٹھاکر کئی اداروں کوقائم کیا۔
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن(UGC) ان کاایک اہم کارنامہ ہے۔ جس کا پہلااجلاس 1953 میں ہوا۔ انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز(Indian Council relations)  ، نیشنل اکیڈمی آف لیٹرز(National Academy of letters) ، انڈین کونسل فار سوشل سائنس (Indian Council for Sciences) اور سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم کے لئے IIT  اور IIM  کے ادارے قائم کیے۔ غرض ہندوستان میں تعلیمی راہیں ہموار کرنے میں مولاناکااہم کردار ہے۔ وہ آخری دم تک ملک کی اعلیٰ اور فنّی تعلیم کے لیے کوشاں رہے۔وہ ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ حقیقت تویہ ہے کہ مولاناکے علم اور صلاحیتوںکافائدہ مہاتماگاندھی ، جواہر لعل نہرواور سردار پٹیل نے اُٹھایا۔ مولانا کی شخصیت کااعتراف کرتے ہوئے نہروں نے کہاتھا کہ :
’’میں سیاست کاطالب علم ہوں اور میں نے سیاست کی کتابیں ہندوستان میں سب سے زیادہ پڑھی ہیں۔ یورپ کے دورے میں سیاست کاقریب سے مطالعہ کرنے کاموقع ملااور میں سمجھتاہوں کہ میں نے سیاست کے اعلیٰ ترین علم سے واقفیت حاصل کرلی ہے۔ لیکن جب ہندوستان پہنچ کر مولانا آزاد سے باتیں کرتاہوں تومعلوم ہوتاہے کہ وہ بہت آگے ہیں۔‘‘مولاناآزاد اپنی زندگی کے آخری مرحلے تک قومی خدمات انجام دیتے رہے اور ہندوستان کایہ روشن مینار 22؍فروری1958 کو گُل ہوگیا۔
(ایم۔اے ،شعبۂ اُردو: علی گڑ ھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)
………………
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here