موجودہ سائبر سیکوریٹی نظام میں معاشیات کا ڈیجیٹل کرنا قابل عمل ہے

0
144

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

ذیشان مصطفی

ہندوستان میں ڈیجیٹل سفر کا آغاز آج سے تقریباً ۳۲ ؍سال پہلے ۱۹۸۷ ؍میں ATM سے ہو چکا تھا ،پھر Mobile Banking اور Internet Banking کا وجود عمل میں آیا، لیکن ابھی تک ہمارا ATM محفوظ نہیں بلکہ اس کی حالت پرانے زمانے کی PCO کی طرح ہوگیٔ ہے۔ ظاہر ہے جب ہزاروں ،لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کی معاشیات کو ڈیجیٹل کرنے کا بیڑا اُٹھایا جائے تو مالی تحفظات کی فراہمی کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا ، بلکہ اولین فریضہ اس کی حفاظت ہی کا ہوگا۔سارے ڈیجیٹل نظام کا دارومدار اسی پر ہے کہ وہ ہمیں تحفظات فراہم کرے اگر اس میں وہ ناکام ہے ،جیسا کہ موجودہ سائبر سیکوریٹی نظام ،تو پھر یقینا یہ نظام قابل عمل نہیں ،بلکہ موجودہ نظام کا مالی تحفظات کی فراہمی میں اس قدر کوتاہ ثابت ہونا کہ ۸۰ سے ۹۰ فیصد تک دھوکہ دری کا امکان پیدا ہو جانا ،موجودہ نظام کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔
جب ہم اس معاشی سائبر سیکوریٹی نظام کا اعداد و شمار اور مثالوں کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہیں تو حیران و ششدر رہ جاتے ہیں کہ دنیا کی ۵۰ فیصد آبادی بینک کاری نظام سے ہی واقف اور منسلک نہیں ،چہ جائے کہ ان کا ڈیجیٹل کرنا ۔ الیکٹرونک بینک کے اس دور میں E-mail کے ذریعہ جواب تو ضرور آجاتا ہے لیکن لُوٹا گیا پیسہ واپس نہیں آتا ،اگر آتا بھی ہے تو نہ جانے کتنے سال لگ جاتے ہیں بلکہ عمریں بیت جاتی ہیں ۔ اکتوبر ۲۰۱۷ ؍ میں ۳۲؍لاکھ معلومات غائب ہوگئیں ، HDFC ،AXIS ،SBI اور Yes Bank کے کارڈ کا ڈاٹا چوری ہوگیا ،جسے ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا معاشی دھوکہ شمار کیا جاتا ہے۔ اُس وقت NPCI (National Payment Corporation Of India ) نے اعلان کیا کہ سبھی ضروری اقدامات اٹھا لیے گئے ہیں اور گراہکوں کو فکر مند ہو نے کی ضرورت نہیں ، لیکن آج تک وہ سرد بستے میں پڑے ہیں اور رقم کے اصل حقدار محروم ہیں۔ NPCI ہی کی رپوٹ کے مطابق Cyber Fraud کے معاملے میں ہر سال ۳۰۰ ؍فیصد کی بڑھو تری ہو رہی ہے ۔ پچھلے ۵ ؍سالوں میں Debit Card اور Credit Card کے ذریعہ لین دین میں دھوکہ دری میں ۶؍ گنا اضافہ ہوا ہے ۔
فروری ۲۰۱۷ ؍میں بنگلہ دیش کے سینٹرل بینک سے ۶۶۰ ؍کروڑ کے برقی چوری ہونے کا معاملہ سامنے آیا ، جو دنیا کا سب سے بڑا بینک کا دھوکہ گردانا جانے لگا،اور وہ روپے ابھی تک واپس نہیں لائے جاسکے ۔جب خود بینک اپنا پیسہ واپس لینے میں ناکام ہے ، تو ہم غریبوں کا تو خدا ہی مالک ہے ۔
Economic Times کی رپوٹ کے مطابق ہندوستان کے ۷۰ ؍فیصد ATM مشینوں کو Hack کرنا، اس سے ڈاٹا یعنی پیسے چرا لینا کوئی مشکل کام نہیں کیوں کہ یہ سبھی پرانے Window Xp نامی سوفٹ ویئر پر چلتے ہیں جس کو Microsoft کمپنی نے اپریل ۲۰۱۴ ؍ہی سے Update کرنا بند کردیا تھا ۔ پوری دنیا کے ATM مشینوں کو ہر پانچ سال میں تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ وہ Updated رہ سکے ، لیکن افسوس کہ ہندوستان میں بیس بیس سال کے بعد بھی وہی پرانی مشین اور پرانا سوفٹ وئیر جس کا نتیجہ ہم سب کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔
یہ آن لائن لٹیروں کا گروہ ایسا نہیں کہ صرف ہندوستان ہی میں ہے بلکہ روس، رومانیہ، امریکہ، چین، برطانیہ، جاپان اور فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے محفوظ نہیں ۔ امریکہ میں صرف دو سال میں (۲۰۰۸سے ۲۰۱۰) ۳۱؍لاکھ کروڑ، برطانیہ میں ۱۱؍ہزار کروڑ، فرانس میں ہر سال ۴۳؍ہزار کروڑ اور جاپان میں (۲۰۱۶میں ) ۸۵۰؍کروڑکے سائبر فراڈ واقع ہوئے، اور ہر سال بڑے ممالک کو ۴۵۸؍بلین ڈالر (۶۸؍ہزار کروڑ) کا نقصان اٹھانا پڑرہا ہے ۔
موجودہ سائبر سیکوریٹی نظام میں نقلی ATM کارڈ بنا کر پیسے نکال لینا ، ڈاٹا Hack کرلینا، بینکوں سے کروڑوں کا چوری ہوجانا،اور واپس ان پیسوں کا نہ ملنا ،سافٹ وئیر کو Upgrade نہ کرنا،پانچ سالوں میں مشینوں کا نہ بدلنا، بینکوں کا آپس میں ڈاٹا کے متعلق تال میل نہ ہونا،۳۵؍کروڑ آبادی کا اَن پڑھ ہو نا،عوام الناس کا ڈیجیٹل کے تئیں بیدار نہ ہو نا،ڈیجیٹل لیٹریسی اور ڈیجیٹل سیکوریٹی پر چین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا بینک J.P Morgan کے دو ہزار کروڑ کے مقابل ہندوستان کا ایک عشر عشیر بھی خرچ نہ کرنا، Cyber Policing اور Cyber Insurance کا کوئی اصول اور نظام ہی نہ ہونا ، یہ سب اعداد و شمار اور مثالیں اس تلخ حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ موجودہ سائبر سیکوریٹی نظام میں معاشیات کو ڈیجیٹل اور Cashless کرنا قابل عمل تو در کنار مالی بربادی کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔
جواہر لعل نہرو یونیورسیٹی، نئی دہلی،7309532957

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here