مشترکہ تہذیبی بکھراؤ اوررسالہ تہذیب الاخلاق

0
143
[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

صغیر افراہیم
سرسیداحمد خاں کی تحریروں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے مشرقی خصوصاً ہندوستانی تہذیب وثقافت کی وکالت و تعریف کی ہے اور وہ اِس لیے کہ ہندوستان روزِ اول سے ہی امن وانسانیت کا گہوارہ اور ظلمتوں کی فضاؤں میں دمکتا ہوا ماہتاب رہاہے۔ موہن جوداڑو اور ہڑپّا ، اَجنتا اور ایلورا کے نشانات، قطب وتاج کے اونچے مینار اِس کی عظمتوں کے گواہ ہیں۔ اِس وادیِ گنگ وجمن میں مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں تاہم اِن سب کی قومی حیثیت ایک ہے۔ جس طرح چمن میں کھلنے والے رنگارنگ کے پھول اپنی اِنفرادیت کے باوجود گُلدستے میں مجموعی حیثیت اِختیار کر لیتے ہیں۔ اُسی طرح جُدا جُدا شکل وصورت اور زبان وعقائد کے لوگ قومی اعتبار سے ایک ہی صف میں شامل ہوکر محمود وایاز کی طرح تمیز ختم کردیتے ہیں۔ اُن کے عقائد، رسم ورواج ایک دوسرے سے مُتاثر ہیں۔ یہ قدرِ مشترک اس مردم خیز خِطے کی دین ہے جس میں زمانہ قدیم سے ایسی برگُزیدہ اور معزز شخصیتیں پیدا ہوتی رہی ہیں جنھوں نے علم وحکمت، شعروادب اور رُشدوہدایت کے ساتھ ساتھ اصلاحِ ملک وملت، اور قوم ووطن کی بے لوث اور قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں، اور سب مذہبوں کی توقیر وتعظیم کی ہے۔ قومی اِتحاد، پیار ومحبت، امن اور رواداری کی جیتی جاگتی مثال ہے ’اردو‘ ۔
سرسید احمد خاں کی نگارشات خصوصاً ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی تحریریں اِس بات کی بھی گواہ ہیں کہ زبانِ اردو، ہندوستانی ادب میں مشترکہ تہذیب کا اشاریہ ہے۔ جس نے دین ودنیا کی کشاکش کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان میں زندگی کے اصل مقصد کو جاننے کے تجسّس کو تیز کیا ہے۔ یہ کُرید عوام وخواص دونوں میں رہی ہے اور جب دونوں کے ماننے والوں نے کسی ایک پہلو پر توجہ دی ہے تو وہ پہلوامن وانسانیت کامرکز بنگیا ہے۔ اِسی محور نے کثرت میں وحدت کا تصور دیا ہے۔ مِلی جُلی تہذیب کوفوقیت دی ہے اور مساوات کے جذبے کو اُبھارا ہے— ماضی کے دُھندلکے میں جھانک کر دیکھیں تو ہمارے ملک میں آریوں کی آمد سے عقائد، افکار، خیالات، نظریات، رسم ورواج میں اشتراک واختلاف کا دور آیا ہے۔ یہ دورآریاؤں اور داوڑوں کا ہو، بودھ، جین، براہمن کا یا پھر مسلمانوں کا۔ لیکن اِسی اختلاف کی رحمت نے مفاہمت اور یگانگت کی راہ بھی نکالی ہے۔ انسانی محبت، رواداری اور بھائی چارے کوفروغ دیا ہے۔
۱۸۵۷ء سے پہلے مُتحدہ ہندوستانی قومیت کا تصوّر تھا جس پر نو آبادیاتی نظام نے ضرب لگائی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان کی جِدوجہدِ آزادی کا مطمحِ نظر انگریزوں سے مکمل طور پر نَجات یا اُس سے کم درجے پر اُن کی عملداری میں رہتے ہوئے دستوری تحفظات کو یقینی بنانا تھا۔ ہندو ، مسلم اور سکھ سبھی کا نقطۂ نظر انفرادی حوالوں سے مخصوص ہونے کے باوجود مجموعی طور پر ہندوستان متحدہ قومیت کا علمبردار تھا۔ اسباب و علل تلاش کیے جائیں تو وطن کی آزادی کا مرکزی نقطہ کبھی بھی، کسی بھی سطح پر تقسیمِ ملک نہیں رہا ہے۔ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں سے اگر چہ علیحدگی کا مطالبہ دن بدن شدّت اختیار کرتا گیا لیکن شاید اُن بزرگوں کے بھی وہم و گمان میں اِس طرح سے تقسیمِ ہند کا تصور نہ رہاہوگا جس میں انسانیت، محبت، مروت اور بھائی چارے کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ مٹھی بھر لوگوں نے جس شدّت سے اپنے جُداگانہ تشخص کی آواز اُٹھائی کہ ہماری تہذیب و ثقافت الگ ، ہماری زبان اور اُس کی ساخت الگ، ہمارے رہن سہن کے طور طریق الگ، ہمارے رسم و رواج، تیج تہوار الگ تو اِس زہریلی سوچ اور اُس کے برملا اظہار نے صدیوں کی ثقافتی میراث کو بے دردی سے روند دیا۔ تنگ نظری پر مبنی یہ نعرے جلد ہی مذہبی مُنافرت اور پھر بٹوارے کا سبب بن گئے، ورنہ اس سے پہلے ہندو، مسلم اور سکھ اکٹّھے تھے۔ لڑائی مذہب کے نام پر نہیں، تاج و تخت کی، اقتدار کی تھی۔ اِسی لیے سماجی تانا بانا مضبوط تھا۔ زندگی میں تسلسل تھا لیکن سیاست اور اقتدارنے انھیں بانٹ دیا ، بکھیر دیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وقتی فیصلے کے اِتنے بھیانک نتائج اور دُور رس منفی اثرات ہوں گے۔ یہ واقعہ کچھ اِس انداز سے وُقوع پذیر ہوا کہ سب کو حیرت و استعجاب میں مبتلا کر گیا، اور یہ طلسم ابھی بھی ٹوٹ نہیں سکا ہے کہ جب سب کی کوششیں برطانوی سامراج سے آزادی تھی تو پھر کاندھے سے کاندھا ملاکر جتن کرنے والے آپس میں کیوں ایک دوسرے کے بد ترین دشمن ہو گئے۔
ماضی میں تقسیمِ ہند کا اعلان سب کے لیے حیران کُن تھا۔ یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا اور اس فیصلے سے پید اہونے والی قیامتِ صغریٰ پر ایک نے دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ تشدّد کے طوفان میں ہر چیز اتھل پتھل ہو گئی۔
مُشترکہ تہذیب کے بکھراؤ کی شدّت، رشتوں کی بگڑتی معنویت، اُس وقت نکھر کر سامنے آتی ہے جب ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ دانش مندوں کی بنائی ہوئی سرحدوں کو ردّ کردیتا ہے اور ’’لاجونتی‘‘ کو بسانے کا سلسلہ شروع ہوتاہے۔ اُس دَور کے تقریباً تمام بڑے ادیبوں کے ہاں اِس کا بھرپور تصور ملتاہے۔ اُنھوں نے انسانی رشتوں اور عقیدوں کے احترام میں، عارضی طور پر جو دراڑ پڑی تھی اُسے نہایت منظم طریقے سے پُر کیا، اور یہ احساس دلایا کہ ہم دسہرہ اور محرم ،دیوالی اور شب برات مل کر منایا کرتے تھے۔ مسلمان شوق اور جذبے کے ساتھ رام او رکرشن کے کردار بننے کے لیے بیتاب رہتے تھے تو غیر مسلم ، حضرتِ عباس کا عَلَم لیے ہوئے ماتم کرتے دِکھائی دیتے تھے۔ اِس یک جہتی اور مشترکہ وراثت کے مناظر قلی قطب شاہ سے سید محمد اشرف تک کی تخلیقات میں بخوبی نظر آتے ہیں۔
حیرت واستعجاب ہی نہیں باعث عبرت بھی ہے کہ’’کتنے ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ اور ’’کتنے پاکستان ‘‘ کا مکالمہ اُس سرزمین پر رونما ہورہا ہے جس کی ہزاروں سال پُرانی تہذیب ہے بلکہ مختلف تہذیبوں کے اِشتراک سے وجود میں آئی اور پھر اپنوں اور غیروں کی بنا پر اُسے تقسیم جیسے سانحہ کا سامنا کرنا پڑا۔ عمل اور ردّعمل کے بعد ادیبوں، فنکاروں اور دانش وروں کی بدولت جب ایک ٹھہراؤ کی صورت پیدا ہوئی تو احساس ہوا کہ ہم نے بہت کچھ کھویا ہے اور مسلسل کھوتے جارہے ہیں۔
پچھلی تین چار دہائیوں کامنظر نامہ شدّت پسندی اور بُوالہوسی کی وجہ سے اور بھی بدلا ہوا ہے۔ جہاں آج کے کچھ ادیب، ادب کے تمام آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تلقین کررہے ہیں کہ ہمیں تلخیوں کو بھول کر خوشیوں کو گلے لگانا ہوگا، وہیں زمینی حقائق یہ بھی واضح کررہے ہیں کہ حکمرانوں ،سیاست دانوں کو تو چھوڑیے بیش تر صاحبِ شعور حضرات نے بھی مادّیت کے اثر کو قبول کرلیا ہے، اسی لیے چہار جانب افراتفری ہے، نفسا نفسی ہے۔ اِس انتشار بھرے ماحول میں جب کہ بین الاقوامی سیاسی اور اقتصادی خطرات ہمارے سروں پر منڈلارہے ہیں، اندرونی خلفشار اور بدامنی کی فضا ایکتا اور اتحاد کو تباہ کرکے ہماری تہذیب کی جڑوں کو مزید کھوکھلا کررہی ہے۔ ایسی پُرآشوب صورتِ حال میں شعوری ولاشعوری طور پر، ہمارے ذہنوں میں عدم اعتماد، بے یقینی، شکوک اور نفرت کی چنگاریاں بھڑک رہی ہیں۔ جس کی بنا پر معاشرتی بُنت، مایوسی، حال سے ناآسودگی، اور ماضی سے بے اعتباری شدّت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ان حالات میں ضرورت اِس بات کی ہے کہ ماضی قریب وبعید کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی، آپسی رواداری اور اخلاقی روایات سے اُن عملی نمونوں کو ادب میں بحسن وخوبی تحلیل کردیا جائے تاکہ اتحاد، آپسی میل جول اور صلح وآشتی کی حکایتیں مزید موجزن ہوں۔ بلاشبہ اِس صالح عمل سے سرسید کی روح کو بھی تسکین پہنچے گی اوراُن کا وہ پیغام جو دسمبر ۱۸۷۰ء سے ، تہذیب الاخلاق کے ذریعے منظر عام پر آنا شروع ہوا تھا اُس کا نتیجہ مزید کارآمد ہوسکے گا۔
ضضض
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here