اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا کوئی رجسٹرڈ فورم ہو، جس میں علماء اور اسلامک اسکالر ہوں، جن کا ایک پینل ہو، وہ ہی چینل ڈبیٹ کیلئے اتھرائزڈ ہو اور آج یہ کام بخوبی نیشنل پروگریسیو فورم کرسکتا ہے کیونکہ اس میں ایسے سبھی لوگ ہیں۔
میڈیا کا کچھ حال یہ ہے کہ اگر کسی علاقے میں چوری ہو اور پولیس اتفاق سے انہیں پکڑلے اور ان کے نام کمال، عثمان، نعمان ہوں تو دوسرے دن اخباروں اور چینل کی ہیڈنگ ہوگی کہ ’’شہر میں اسلامی چوری‘‘ اور جب میڈیا سے یہ پوچھا جائے کہ آپ نے ہی ہیڈنگ کیوں دی؟ اس کا اسلام سے کیا تعلق؟ تو وہ بڑی معصومیت سے کہیں گے کہ صاحب وہ چور جو پکڑے گئے ہیں اُن سبھی کے نام مسلمان ہیں اس لئے یہ اسلامی چوری نہیں تو اور کیا ہے جبکہ کسی ایک دھرم کے لوگ ہر روز چوری کرتے، قتل کرتے، آبروریزی کرتے، بدعنوانی کرتے پکڑے جاتے ہیں لیکن دھرم کے نام پر ان کا کبھی میڈیا ٹرائل نہیں ہوتا لیکن ایک خاص دھرم کا کہیں نام آیا اور چینل اپنے اپنے کام میںلگ گئے اور مسلم نما مسلمانوں کو بٹھاکر دن بھر بحث و مباحثہ کرنے لگتے ہیں کہ قرآن میں یہ لکھا ہے، حدیث میں یہ لکھا ہے سنت یہ ہے وغیرہ وغیرہ ان میں سے کوئی مسلم نما مسلمان یہ نہیں پوچھتا کہ جب دہلی میں نربھیا کی آبروریزی ہوئی تو اس میں ایک ہی دھرم کے سب لوگ تھے تو کیا اسے ایک دھرم خصوص کی آبروریزی مانی جائے؟ آسارام جیسوں کی حرکت کیا کسی دھرم کی حرکت ہے؟ کوئی مولانا اس کی صفائی دیتے نہیں نظر آیا کہ اس کا دھرم سے کوئی سروکار نہیں ایسے ہی جب کسی دہشت گردانہ واقعہ میں کسی مسلم نما مسلمان کا نام آتا ہے تو اسے میڈیا فوراً اسلامی دہشت گردی کہہ کر اپنا ٹائم پاس کرنے لگتا ہے لیکن جب جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ جیسے علاقوں میں سیکڑوں جوان مار دیئے جاتے ہیں تو کبھی کسی دھرم سے اس دہشت گردی کو نہیں جوڑا جاتا۔
یہ سب اس لئے کہ آج ہمارے پاس کوئی ایسا فورم نہیں ہے جس کی بات مسلم وائس قرار پائے آج جب ملک مشکل دَور سے گذر رہا ہے، وزیراعظم ہند اپنے سبھی باشندگان وطن کو اس موذی مرض سے بچانے کیلئے جو بن پڑرہا ہے وہ کررہے ہیں لیکن میڈیا ہمیشہ کی طرح وزیراعظم ہند کا ساتھ دینے کے بجائے کورونا کا ’اسلامی کرن‘ کررہا ہے، نظام الدین، پیرا میڈیکل ڈاکٹرس یا نوئیڈا کے اسپتال کی جو خبریں ایک مذہب خصوص سے جوڑکر دن رات بحث کررہا ہے جبکہ یہ ویسے ہی حرکتیں ہیں جیسے سبھی مذاہب کے لوگ ہر روز کرتے رہتے ہیں لیکن میڈیا کہیں اسے چھپے کہہ کر تشریح کرتا ہے کہیں پھنسے کہہ کر تشریح کرتا ہے جبکہ چینل کے اپنے کچھ منصوبہ بند مسلم نما مولویوں کو چھوڑکر، سبھی مسلمان، مسلم علماء اور دانشور اس پر ایک رائے ہے کہ کورونا کا کوئی مذہب نہیں وہ جتنا ہندوئوں کے لئے جان لیوا ہے اتنا ہی مسلمانوں کے لئے بھی، مذہب اس پر کوئی آستھا پیدا نہیں کرتا اسی لئے جس طرف مسلمان سجدہ کرتے ہیں وہاں بھی اس وقت پابندی ہے، ایران اور عراق کی سبھی عبادت گاہیں بند ہیں ایسے کسی مسجد میں چند لوگ نماز پڑھتے دکھاکر چینل کیا ثابت کرنا چاہتاہے یہ وہی جانتا ہے۔ ملک کا ہر مسلمان اپنے وزیراعظم ہند میں آستھا رکھتا ہے اس کٹھن دَور میں وہ پوری طرح سے ان کے ساتھ ہے، سبھی مسلمان، اسلامی اسکالر اور علماء اس ایک بات پر بھی ایک رائے ہیں کہ جو ملکی مفاد کے خلاف کام کرے، اس کٹھن دَور میں انتظامیہ، ڈاکٹرس اور حکومت کا تعاون نہ کرے اس کے خلاف میڈیا ٹرائل کرنے سے بجائے قانون کے تحت سخت سے سخت کارروائی کی جائے چاہے ان کے نام مسلمانوں جیسے ہی کیوں نہ ہوں، سب اس ایک بات پر بھی ایک رائے ہیں کہ جو اسپانسرڈ آئی ٹی سیل کے ذریعے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے ویڈیو جاری کئے جارہے ہیں ان کے خلاف سب سے پہلے سخت کارروائی کی جائے۔ مسلمان نظر آنے والے مسلم ویڈیو کی تصدیق نیشنل پروگریسیو فورم کے اسلامی اسکالر اور علماء سے پہلے کرالی جائے تب انہیں مسلم وائس قرار دیا جائے۔
اس لئے آستھا سے اوپر اُٹھیں، حکومت کا ساتھ دیں، ایسے میڈیا سے بچیں، وزیراعظم کی سنیں، اپنی بھی حفاظت کریں اور دوسروں کو بھی تحفظ دیں۔
مسلمان وزیراعظم ہند کی سنیں، اُن کا ساتھ دیں اور مسلمانوں کو بدنام کرنے والی میڈیا کا بائیکاٹ کریں
Also read