مسجد کی مرکزیت اور ابدیت

0
145

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

عالم نقوی

محمد ساجد صحرائی نے یہ کتاب ’’مسجد کی مرکزیت اور ابدیت: شریعت کی روشنی میں‘‘ مرتب کر کے اور بابری مسجد فاؤنڈیشن، دہلی نے اُس کی اِشاعت کا بیڑا اٹھا کر بلا شبہ ایک بڑی خدمت انجام دی ہے جو فرض کفایہ کی ادائگی کے مترادف ہے ۔مرتب ھٰذا نے اپنے پیش لفظ میں بالکل درست لکھا ہے کہ ’اسلام میں مساجد کاوہی مقام ہے جو انسانی جسم میں دل کا ہے ۔قرآن فرماتا ہے :’اللہ کی یاد سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے ‘(الرعد آیت۲۸)اور ’میری یاد کے لیے نماز قائم کرو ‘(طٰہ آیت ۱۴)ظاہر ہے کہ اقامت صلوٰۃ کا تصور مسجد ہی سے وابستہ ہے۔ اسی لیے حضور ﷺ نے مساجد کو ’ریاض الجنۃ ‘ جنت کی ایک کیاری (ترمذی) اور ’بیت المتقین ‘(مشکوٰۃ بحوالہ مسلم ) متقیوں کا گھرقرار دیا ہے ۔’اللہ کے نزدیک دنیا کی بہترین جگہ مسجد ہے ( مشکوٰۃ )۔ دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں کے برخلاف ، مساجد اُمت ِمسلمہ کی لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہیں جہاں اقامت صلوٰۃ کے ساتھ اعتکاف بھی ہے اور درسگاہوں کے ساتھ دعوتی مراکز بھی ۔قرن ِ اول میں تو مساجد ،مجاہدین فی سبیل اللہ کی تیاری کی جگہ ، زخمیوں اور مریضوں کی خیمہ گاہ اور مال غنیمت کی تقسیم کا مرکز بھی ہوتی تھیں ۔مسجدوں ہی میں نکاح بھی اور بوقت ضرورت طلاق و لعان کے فیصلے اور مہمانوں کے قیام و طعام کا نظم بھی ۔حقیقت یہ ہے کہ مسجدیں مسلم معاشرے کا مرکزِ اعصاب Nerve Centreہیں ۔اسی لیے دنیا کی تمام مساجد کا رخ بھی ایک ہی ہے :
بیت اللہ !مسجد بنانے والوں کی صفت بھی یہ بیان کی گئی ہے کہ ’یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کسی سے نہیں ڈرتے (سورہ توبہ آیت ۱۸۱)مساجد شعائر اسلام ہیں اور ان کی تعظیم کرنے والے متقی ( سورہ حج آیت ۳۲) اور مسجدیں اللہ کی ملکیت ہیں (سورہ جن آیت ۱۸)اس لیے مساجد سے دستبرداری کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں۔ ان میں عبادت سے روکنے والوں ،خرابی پیدا کرنے والوں اور اجاڑنے والوں کو زمین کا سب سے بڑا ظالم قرار دیا گیا ہے (سورہ بقرہ آیت ۱۱۴)مگر شیطان کا اتباع کرنے والے ہمیشہ توحید کے ان مراکز کے خلاف سازشیں کرتے رہے ان میں اہل ایمان کے دائمی دشمن ’یہود و مشرکین ،ملحدین اور وہ عیسائی فرقے جو محض نام کے عیسائی اور عملاً یہودیوں سے بڑے یہودی تھے اور ہیں،ہمیشہ سب سے آگے رہے۔بد قسمتی سے مسلمانوں کا مسئلہ شروع سے آج تک یہ رہا ہے کہ ایک تو انہوں نے’تَوَاصَوا بِا لحَق و تواصو ا بالصبر ‘(العصر آیت ۳)کا حق ادا کرنے میں ( بالخصوص ہندوستان میں کئی سو سالہ دور حکومت کے دوران )غیر معمولی کوتاہی اور غفلت برتی اور دوسرے قرآن کریم کے اس انتباہ کو نظر انداز کرتے رہنے کے عذاب ِمسلسل میں گرفتار ہیں کہ ’’ تم صاحبان ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤگے اور اہل ایمان کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو ،جنہوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں، یہ اس وجہ سے کہ اُن میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اورتکبر (غرورِ نفس اور گھمنڈ تو) بالکل نہیں پایا جاتا ‘‘(المائدہ ۸۲)۔بے شک اس سے قبل اسی سورہ مائدہ کی آیت ۵۱ میں کہا گیا ہے کہ ’’اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کواپنا دوست اور سر پرست نہ بناؤ کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ،تم میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے گا وہ انہیں میں شمار ہو جائے گا ،بے شک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ‘‘لیکن قرآن کریم انسانوں کا نہیں خالق و پروردگار کا کلام ہے جس میں نہ کوئی تضاد ہے نہ اختلاف ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ یہود و مشرکین اور نصاریٰ بالعموم سب ایک ہی زمرہ ء دشمنانِ اہل ِایمان میں شامل ہیں ۔ المائدہ ،آیت ۸۲ کے مطابق صرف وہ نصاریٰ اس کلیہ سے مستثنیٰ ہیں جو’ ’عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر ہوتے ہیں اور جن کے اندر تکبر نہیں پایا جاتا ‘‘۔مثال کے طور پر یہ خصوصیات آنجہانی مدر ٹریسا اور پوپ جان پال دوم اور انہی کے جیسے معدودے چند خواص ِنصاریٰ سے متعلق ہیں ، لیکن ان کی اکثریت اسی حکم ِ عام کا حصہ ہے جسے المائدہ آیت ۵۱ میں یہود و مشرکین کے ساتھ رکھا گیا ہے واللہ اعلم بالصواب ۔
البتہ نہایت واضح اور دو ٹوک انداز میں ہمیں منع کیا گیا تھا کہ ’’خبر دار مؤمنین ایل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست (ولی و سر پرست ،یار و مددگار )نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہ ہو گا اِلّا یہ کہ تمہیں اُن سے کوئی خوف ہو(کہ تم اُن کے ظلم سے بچنے کے لیے ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ )مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں بالآخر اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ‘(آل عمران ،آیت ۲۸)’سورہ مائدہ کی آیات ۵۶ اور ۵۷ میں ایک’ خوشخبری ‘کے ساتھ ، اِس ’تحدید‘ کی تکرار کی گئی ہے کہ ’’اے ایمان والو تمہارا ولی تو بس اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں ۔اور جو بھی اللہ ،رسول اور صاحبان ایمان کو اپنا ولی و سرپرست بنائے گا تو بے شک اللہ ہی کی جماعت (حزب اللہ )غالب آنے والی ہے ۔تو اے ایمان والو خبر دار اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تماشہ بنا رکھا ہے اُنہیں ،اور دیگر کافروں کو کبھی اپنا ولی اور سرپرست نہ بنانا اور ہمیشہ اللہ ہی سے ڈرتے رہنا اگر تم مؤمن ہو ۔‘
مرتب کتاب ہی کے لفظوں میں ’کعبۃ اللہ میں بت رکھنے سے لے کر بیت المقدس پر قبضے کی مسلسل کوششیں ، مشہور مسجد قرطبہ سمیت اسپین کی ہزاروں مساجد کے ساتھ وسطی ایشیا،روس اور چین میں مساجد ہر دور میں شیطانی ظالموں کا نشانہ بنتی رہیں ۔خود ہمارے ملک میں مشرکین کے ذریعے مغلوں کے زمانے سے لے کر انگریزوں کے دور تک اور پھر تقسیم کے وقت ہزاروں مساجد کو منہدم کرنے ،بت خانہ بنانے ،گودام اور باڑے بنانے اور رہائش گاہیں بنانے سے لے کر انہیں اجاڑنے کی ہر طرح کی کوششیں کی گئیں ۔
آزاد ہندوستان میں حکومت کے زیر سایہ بابری مسجد کے منبر پر مورتی رکھنے سے لے کر دولت آباد (اورنگ آباد ) کے قلعے کی عظیم الشان شاہی مسجد کی محراب میں ’بھارت ماتا کی مورتی ‘نصب کر دی گئی ۔دھار (ایم پی) کی تاریخی مسجد کو بھوج شالہ کے نام پر قبضہ کرنے سے لے کر لال قلعہ دہلی ،گول گنبد بیجا پور ،بی بی کا مقبرہ اورنگ آباد اور تاج محل آگرہ کی عظیم الشان مساجد سمیت ہزاروں مسجدوں کو آثار قدیمہ کے نام پر مقفل کر کے نمازیوں کے لیے بند کر کے انہیں امتداد زمانہ سے خود ہی منہدم ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد کے دن دہاڑے انہدام کے علاوہ ملک کی مزید ساڑھے تین ہزار مسجدیں اور ان سے بلند ہونے والی اذانوں کے ذریعے اللہ کی کبریائی کا اعلان نشانے پر ہیں تو کہیں عام مقام ات پر نماز پڑھنے ،بالخصوص نماز جمعہ پڑھنے پر جبری پابندیاں ہیں ۔
سید صباح الدین عبد الرحمن ’ہندوستان کے سلاطین ،علما ء اور مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر ‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’۔۔مسلمانوں کے دور حکومت میں ہندو راجاؤں کے ہاتھوں مسجدوں کے انہدام کی مثالیں بھی بکثرت موجود ہیں ۔چنانچہ وجےنگر کے راجہ نے احمد نگر پر غلبہ پایا تو وہاں کی مسجدوں کو منہدم کر ڈالا اور ان کے احاطے میں (فحاشی کے اڈے ) قائم کیے۔ حضرت مجدد ؒ نے اپنے مکتوبات میں جہانگیر سے اصرار کیا ہے کہ وہ اپنے دور کی منہدم مسجدوں کو پھر سے تعمیر کرائے ۔شاہجہانی عہد میں بہت سی مسجدیں مسمار کر دی گئ تھیں اور ان کی جگہ مندر بنا دیے گئے تھے ۔شاہجہاں کو خبر ہوئی تو اس نے (مجرموں کو )کوئی عام سزا تو نہیں دی (جو یقینی طور پر دی جانی چاہیے تھی )لیکن جن مسجدوں کو گراکر مندر بنائے گئے تھے انہیں پھر سے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ۔مرہٹے (مراٹھا) جب ستارہ اور یرلی کے قلعوں میں داخل ہوئے تو انہوں نے بیجا پور کے حکمرانوں کی تعمیر کردہ مسجدوں کو مسمار کر ڈالا ۔‘‘
زیر تبصرہ کتاب مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے اِس متفقہ نقطہءِ نظر کی قرآن و سنت پر مبنی تمام شرعی تفصیلات پر مشتمل ہے کہ’ مساجد مسلمانوں کی ملکیت نہیں ،براہ راست اللہ سبحانہ تعالی کی ملکیت ہیں لہٰذا اُن سے کسی بھی صورت میں اور کسی بھی قیمت پر دست بردار نہیں ہوا جا سکتا‘ ۔رہ گئی مصلحت تو بقول مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ’’جو لوگ سوچتے ہیں کہ بابری مسجد کے قضیے میں مسلمانوں کے پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے ہم آہنگی پیدا ہوگی (تو ملک کے موجودہ حالات شاہد ہیں کہ یہ خام خیالی محض ایک سراب ہے ۔)آزادی کے بعد سے اب تک کے تہتر برسوں کے دوران ہزاروں فسادات (اور منظم نسل کشی کے سنگین اور ہولناک واقعات) ہو چکے ہیں ،ان میں شاید پانچ فیصد بھی بابری مسجد کے تنازعے کی وجہ سے نہیں ہوئے ۔بات یہ ہے کہ نفرت کے ایجنڈے کو فروغ دینا ہی آر ایس ایس کا واحد سیاسی ایجنڈا ہے ۔‘)جس نے دوبارہ براہ راست اقتدار تک پہنچایا ہے اور جس کو ملک گیر نسل کشی تک پہنچا کر وہ اگلے پچاس برسوں تک مسلسل اقتدار پر قابض رہنا چاہتے ہیں ۔ امن کے لیے انصاف کے قیام اور معاشی استحکام سے انہیں کوئی لینا دینا نہیں ۔مستقبل کے جو آثار نظر آرہے ہیں اس کے نتیجے میں مسلمان صبر آزما حالات سے دو چار ہو سکتے ہیں ۔ویسے تو صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے راست ٹکراؤ سے بچنے کی تدبیر ضرور کرنی چاہیے لیکن جان و مال ،عزت و آبرو اور شعائر دینی کا دفاع اور اس کے لیے ’حسب ِاِستطاعت حصول ِقوت ‘(الانفال ۶۰)بھی واجب ہے ۔اس دینی، اخلاقی اور قانونی حق کے استعمال سے غفلت خود کشی کے مترادف ہوگی ۔٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here