مخالف کے جال میں پھنسے تو سب پھنسے

0
236

9415018288

مخالف ہمیشہ سے چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور کبھی بھی پیدا نہ ہو، اس کے لئے وہ، ہر وہ حربہ اپناتا ہے جس سے مسلمان ہر روز ایک نئے مسئلہ میں الجھارہے اور اسے ہی سلجھانے میں اپنی ساری طاقت ضائع کردے، خاص طور پر جب ملک میں کہیں بھی الیکشن ہورہے ہوں اور وہاں مسلمان اتنی تعداد میں ہو کہ ان کا ایک بھی فیصد ووٹ اِدھر سے اُدھر ہونے پر نتیجے بدل جائیں اور وہی ہورہا ہے۔ پورا ملک اس وقت ایک اُس شخص کے خلاف اپنی طاقت کو ضائع کررہا ہے جس کے پشت پناہوں نے یہ کرایا ہی اس لئے ہے کہ مسلمان الیکشن بھول کر قرآن کو بچانے میں لگ جائے جس کو قیامت تک باقی رکھنے کا وعدہ خود اللہ نے کیا ہے۔
سلمان رشدی کے بعد بھی اس کی نمائندگی کرنے والے ابھی باقی ہیں اسی لئے وقتاً فوقتاً قرآن پر کسی نہ کسی طرح سے اعتراض کرتے رہتے ہیں اُن ہی میں سے ایک نے سپریم کورٹ میں ایک رِٹ پٹیشن ڈالی ہے کہ قرآن کی 26 آیتوں کو قرآن سے ہٹایا جائے کیونکہ ان آیتوں کو قرآن میں خلفائے راشدین نے اپنی طاقت کے زور پر جبراً شامل کرایا ہے اور ان ہی آیتوں کی بنیاد پر پوری دنیا میں دہشت گردی پھیل رہی ہے۔ جبکہ عالم اسلام کے سبھی فرقے اس ایک بات پر متفق ہیں کہ موجودہ قرآن جس حال میں ہمارے ہاتھوں میں ہے اس میں ذراسا بھی زبر زیر کا اضافہ یا کمی نہیں ہے یہ سب کا سب اللہ کا کلام ہے اور یہ پورا قرآن علم، میل محبت، اتحاد، امن و امان کے پیغام کے سوا کچھ نہیں۔
سب جانتے ہیں کہ موصوف کو 100 انجمنوں کی سفارش پر قائد ملت نے اپنا لخت جگر بناکر اپنے خون جگر سےسینچ کر اتنا تناور درخت بنا دیا کہ اگلے پانچ سال تک دن رات قوم اور ملت کی خواتین اور عماموں کو سڑکوں پر لاکر بھی اس کا ایک بال بیکا نہ کرسکے۔ اگلے چار سال دونوں ایک ہی اقتدار کے ساتھ رہ کر شہ مات کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس مخالفت کی آگ نے موصوف کو اندر سے اتنا کھوکھلا کردیا کہ وہ اپنے وجود کو بچانے کیلئے وہ سب بھی کرنے کو تیار ہوگئے جس کے شاید وہ اہل نہ تھے۔ قرآن کی 26 آیتیں تو دور اگر 6 آیتیں بھی وہ پڑھ کر بتادیں کہ ان آیتوں کا صحیح مفہوم کیا ہے تو بڑی بات ہے لیکن آج یہ رواج ہوگیا ہے کہ جیسے اُردو اخباروں کے وہ ایڈیٹر بنے بیٹھے ہیں جن کو اُردو آنا تو دور شین قاف بھی درست نہیں ویسے ہی آج قرآن پر وہ تبصرہ کرنے کو تیار ہے جسے قرآن کے نقطے کی بھی خبر نہیں۔
موصوف کو جو لوگ جانتے ہیں وہ اُنہیں خوب جانتے ہیں کہ وہ دھارے کے خلاف کبھی نہیں چلتے، مایاوتی اقتدار میں تھیں تو قائد ملت کی جیل کی فوٹو ان کے ڈرائنگ روم سے ہٹوا دی۔ اعظم خاں اقتدار میں آئے تو ان کے دایاں ہاتھ بن گئے اور جب ان کا زوال ہوا تو ان سے برأت اختیار کرکے موجودہ حکومت سے زیڈ کیٹگری کی سیکوریٹی لے لی، لیکن ہوشیار مخالف سب سے پہلے اپنے مہرے کی ہر دُکھتی رگ پر پیر رکھتا ہے، یہی یہاں بھی ہوا پاپ کا گھڑا اتنا بھر چکا تھا کہ مداری جو جو کہتا گیا کرنا ان کی مجبوری بنتی چلی گئی۔ آج سے نہیں گذشتہ چار برسوں سے موصوف کا استعمال اس طریقے سے کیا جارہا ہے کہ مسلمانوں میں کسی طرح سے انتشار بنا رہے، یہ کہیں سے بھی متحد نہ ہونے پائیں۔ سپریم کورٹ میں رِٹ بھی اسی کا ایک حصہ ہے یہ رِٹ اس کے لئے ہرگز نہیں کہ اس میں سے کوئی اَن پڑھ جاہل کورٹ سے ایسا کہے گا اور کورٹ ایسا کردے گی، بلکہ اس لئے ہے کہ ناسمجھ مولوی سڑکوں پر آجائیں، احتجاج کریں، دھرنا مظاہرہ کریں، سڑکوں پر مارچ کریں اور یہ سب اخبار کی سرخیاں بنیں ٹی وی پر بحث ہو اور مسلمان یہ بھول جائیں کہ ملک کے کئی صوبوں میں الیکشن ہورہے ہیں اور اس کو اس میں کیسے حصہ لینا ہے ورنہ آسان طریقہ ہے کہ ملک بھر میں سبھی تھانوں میں خاموشی کے ساتھ موصوف کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جاتی جس سے جیل کے باہر کی زندگی ان سمن کا سامنا کرنے میں گذر جاتی۔ ویسے بھی حالات اتنے بد سے بدتر ہوچکے ہیں کہ توبہ اگر قبول ہو، تو اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ورنہ موصوف اس سیکوریٹی سے کیونکر محفوظ رہیں گے کیونکہ موت باہر سے کسی شئے کے آنے کا نام نہیں بلکہ جسم سے روح کے نکل جانے کا نام ہے اور اس کے لئے کوئی سیکوریٹی کام نہیں آئے گی۔

 

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here