ماہنامہ اصلاح کا ’نماز نمبر ‘

0
518

عالم نقوی

ادارہ ٔاِصلاح کا قیام ۱۸۷۵ءمیں اور جریدہ ٔاِصلاح کا اجرا ۱۸۹۸ء میں عمل میں آیا تھا ۔زیر تبصرہ نماز نمبر رمضان المبارک ،شوال ا لمکرم ۱۴۳۹ ھ (مئی جون ۲۰۱۸ء) کا مشترکہ ۳۲۲ صفحات پر مشتمل ضخیم شمارہ ہے جس میں قرآن و حدیث اور دانش و حکمت کی رُو سے ،کم و بیش ،ہر اُس سوال کا شافی جواب دینے کی قابلِ صد آفریں کوشش موجود ہے جو دینِ حنیف کے اِس عظیم اور واجب رُکن کے تعلق سےمختلف ذہنوں میں وقتاً فوقتاً اٹھتے رہتے ہیں ، پیدا کیے جاتے ہیں یا مستقبل میں کبھی بھی سر اُٹھا سکتے ہیں۔ماہنامہ اصلاح کا یہ نماز نمبر کوزے میں سمندر بھرنے کی بہترین اِمکانی ’سعیِ حاصل‘ ہے۔ ہم اس کے لیے مدیر محترم مولانا جابر جوراسی اور اُن کی پرخلوص ادارتی ٹیم کی خدمت میں ہدیہ خلوص و تبریک پیش کرنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں ۔
درج ذیل عناوین سے اس شمارے کی جامعیت کا اندازہ لگایا سکتا ہے :
نماز دین کا ستون ہے ۔نماز قرآنی آیات کی روشنی میں ۔نماز معراج(النبی ﷺ) سے ( بندے کی) معراج تک ۔معرفت معبود اور نماز ۔آداب نماز ۔نماز معاشرے کی اصلاح کا اہم عنصر ۔ مسجد اور مسلمان ۔وضو ،غسل اور تیمم کا فلسفہ۔اذان ایک الٰہی پیغام ۔فلسفہ ٔنماز ۔ عظمت ِ نماز ۔فضیلت نماز ۔ اسرار ِ نماز ،مقدمات نماز کے اسرار ۔نماز جمعہ اور اس کی اہمیت ۔ نماز کے خیر ا لعمل ہونے کا راز ۔ سجدہ۔ ۔اوقات نماز ۔اول وقت نماز کی فضیلت ،بالخصوص نماز ظہر ۔شرائط نماز کی حکمتیں اور معنویتیں ۔اسرار و رموز نماز ۔ تصور عبادت اور نماز ۔ ارکان نمازکی معنو یتیں ۔ترک نماز گناہ کبیرہ۔ ۔شرح تعقیبات نماز پنجگانہ ۔امام جماعت کی اہمیت اور اس کے فرائض ۔ نمازی کے آداب اور محاسبۂ نفس ۔ نماز شب(تہجد) اور اس کے اثرات ۔ نماز شب اور اس کے فوائد ۔نماز میں قرأت ۔ نماز جماعت کی فضیلت ۔نماز کیا صرف عبادت الٰہی ہے ؟۔ عورتوں کی نماز ۔نفاق زدہ کی نماز ۔نماز اور اہل بیت ؑ۔ نماز نہج ا لبلا غہ کی روشنی میں ۔اصحاب حسینی کی نماز ۔یورپ میں اوقات نماز کے تعین کا مسئلہ ۔بچوں کو نمازی کیسے بنائیں ؟۔نماز کے طبی فوائد ۔ جسم انسانی پر نماز کے اثرات۔ نماز اور معاش ۔نماز در آئنہ کتاب (نماز کے موضوع پر شایع کتابوں کی فہرست )۔ان میں کئی عنوانات ایسے ہیں جن پر مختلف علما و دانشوروں کے ایک سے زائد مضامین شامل اشاعت ہیں ۔
نماز نمبر میں شایع مضامین کی قدر و اہمیت کا اندازہ لکھنے والے علماء و عباقرہ کی درج ذیل فہرست سے لگایا جا سکتا ہے: آیت اللہ سید راحت حسین رضویؒ گوپالپوری ۔آیت اللہ العظمیٰ سیستانی ۔آیت اللہ العظمیٰ روح اللہ الموسوی خمینی ۔ آیت اللہ شہید دست غیب شیرازی ۔آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای۔ ۔آیت اللہ العظمیٰ شیخ ناصر مکارم شیرازی ۔علامہ محمد جواد مغنیہ ۔آیت اللہ مصباح یزدی (قم )۔علامہ علی حیدر نقویؒ (مدیر اول ماہنامہ اصلاح )۔حجت الاسلام شیخ نجم الدین طبسی (قم)۔آیت اللہ سید حمید الحسن۔ علامہ سید ذیشان حیدر جوادی ؒ۔آیت اللہ سید شمیم الحسن ۔علامہ سید رضی جعفر نقوی (کراچی) آیت اللہ سید عقیل الغروی ۔علامہ روشن علی خاں ؒ۔مولانا مقبول احمد (سوئیڈن)۔علامہ سید حسن عباس فطرت (پونہ )۔علامہ ابن علی واعظ ۔مولانا ناظم علی خیر آبادی ۔مولانا محمد غافر باقری جوراسی۔ مولانا سید محمد عسکری (دہلی)ْ۔مولانا سید فرمان حسین شعبہ دینیات اے ایم یو علی گڑھ ۔ڈاکٹر محمد رضا رجب نژاد (تہران)۔مولانا سید حسین مہدی حسینی ۔مولانا سید شمشاد حسین رضوی (ناروے)۔ مولانا شیخ ابن حسن املوی ۔مولانا سید احمد رضا حسینی (ٹورنٹوکناڈا) مولانا حسین احمد زین پوری ۔مولانا رئیس احمد جارچوی (دہلی) ۔مولانا فارقلیطا علی حسینی ابن قیس ؔزنگی پوری ۔مولانا منظر صادق زیدی ۔مولانا محمد حجت قمی ۔مولانا سید احسان حیدر جوادی مرحوم ( جن کا ابھی پچھلے ہفتے ممبئی میں انتقال ہوگیا )۔مولانا ڈاکٹر گلزار احمد جونپوری۔مولانا شہوار حسین نقوی ۔مولانا سید حمید الحسن زیدی۔ مولانا سید محمد رضا غروی ۔مولانا مراد رضا رضوی ۔مولانا رضا امام رضوی ۔مولانا سید احمد رضا (قم المقدسہ )۔مولانا سید اصطفے رضا رضوی (لکھنو) ۔مولانا مرزا عسکری حسین ( کویت ) ۔مولانا سید نجیب ا لحسن زیدی (قم المقدسہ) مولانا عابد رضا نوشاد ۔مولانا حسنین باقری ۔مولانا امین حیدر حسینی (بنارس) ۔مولانا حیدر عباس رضوی (ہادی ٹی وی )مولانا عازم باقری ۔مولانا محفوظ رضوی ہلوری ۔پروفیسر عراق رضا زیدی (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) ڈاکٹر منظور رضوی ( نیو جرسی امریکہ ) ڈاکٹر سید ابو طالب زیدی (لندن ) ۔سید عالم حسین رضوی ۔ڈاکٹر اسد عباس رضوی ۔ڈاکٹر کلب سبطین نوری ۔سید محمد مہدی باقری ۔محترمہ حنا حیدر عابدی (قم المقدسہ ) اور محترمہ فاطمہ رفعت عابدی ۔
لیکن نماز کی ایک دل نواز صفت کے بارے میں قدرت اللہ شہاب نے جو لکھ دیا ہے وہ آج بھی اپنا جواب آپ ہے ۔ اپنی مشہور زمانہ خود نوشت ’شہاب نامہ ‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ’’دنیاوی حکمرانوں کے علاوہ چھوٹے موٹے رئیسوں ،نوابوں اور سرکاری افسروں تک رسائی حاصل کرنے کے لیےجو دوڑبھاگ ،منت خوشامد ،سفارش اور دوسرے ہتھکنڈے استعمال میں لائے جاتے ہیں ان کی فہرست طویل ہے لیکن رب ا لعالمین اور احکم ا لحاکمین کے دربار میں حاضر ہونے کے لیے صرف ’باوضو ‘ ہونے کی شرط ہے ۔اس کے علاوہ نماز کی نیت کرنے میں نہ کسی پیر فقیر سے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہے نہ کسی ۔۔دفتر سے پرمٹ بنوانا پڑتا ہے ۔نہ کوئی ٹکٹ خریدنے کی شرط ہے ۔۔نہ کوئی پی اے راستے میں حائل ہے ۔نہ کوئی دربان ٹوکتا ہے ۔انسان کے اپنے نفس کے علاوہ عبد اور معبود کے اس راز و نیاز میں کوئی حجاب بیچ میں نہیں آتا ۔۔عقلی طور پر تو میں نے نماز کی آسائش ،سہولت اور افادیت کو کشادہ دلی سے تسلیم کر لیا لیکن عملی طور پر بڑی حد تک محرومی شکار رہا ۔نماز کا وعقت آتے ہی میرے اعصاب پر کاہلی ،سستی اور کسل مندی کا ایسا شدید حملہ ہوتا تھا کہ میں مایوس ہو کر یہ سمجھ بیٹھتا تھا کہ ایسی نماز کا فائدہ ہی کیا جو رغبت اور شوق سے ادا نہ کی جائے ۔ لیکن ایک روز قرآن کریم کی تلاوت کے دوران سورۃ النساءکی آیت نمبر ۱۴۲ نے اچانک میری آنکھیں کھول دیں ۔ ۔۔’’اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بہت کاہلی سے کھڑے ہوتے ہیں صرف آدمیوں کو دکھلاتے ہیں ،۔۔۔‘‘ اس کسل کو ریاء کے ساتھ مشروط کرنے سے میرے ذہن نے یہ سہارا پایا کہ یہاں کسل سے مراد کسل اعتقادی ہے ،کسل طبعی نہیں ۔یعنی یہ ملامت طبعی کسل پر نہیں جس سے غالباً کوئی بھی مبرا نہیں میں نے اپنے دل کو ٹٹولا اپنی کاہلی اور سستی میں نہ تو اعتقاد کی کمزوری پائی اور نہ ہی ریاء اور نمائش کا دخل محسوس کیا ۔اس کے علاوہ سورۃ ا لا نبیاء کی آیت نمبر ۲۱ بھی میرے لیے خضر راہ ثابت ہوئی ۔۔’’ان لوگوں سے ان کا حساب نزدیک آپہنچا اور یہ غفلت میں ہیں ۔اعراض کیے ہوئے ہیں ۔۔‘‘ اس سے مجھے یہ تسلی ہوئی کہ غفلت مذمومہ وہ ہے جس میں جان بوجھ کر اعراض یعنی ٹال مٹول ہو ۔خالی غفلت کی مذمت نہیں کیونکہ عادتاً اس سے کوئی خالی نہیں ۔چنانچہ میں نے ہمت کر کے اپنی تمام کاہلی اور غفلت کے باوجود کسی حد تک نماز ادا کرنے کی پابندی اختیار کر لی ۔۔لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور رکاوٹ راستے کا پتھر بن کے سامنے آ کھڑی ہوئی (کہ)کبھی نماز میں دل لگتا ہے کبھی نہیں لگتا۔ کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار ۔کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے تو کبھی پریشاں خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں ۔۔لیکن رفتہ رفتہ یہ بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیر کے لیے ابتدا میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہےاس کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں پڑتے ۔اس میں روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں ۔اور بعد میں اُس پر بڑے عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں ۔اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی ،کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے ۔بنیاد کی خوبصورتی اور بد صورتی پر نظر نہ کی جائے جو کچھ جس طرح بھی ہو سکے کرتا رہے ۔جیسے نماز ،گو ناقص ہی ہو ،مگر ہو حدود میں تو وہ ہوجاتی ہے ۔اسی پر عمل کرتے رہنے سے نماز کامل کا دروازہ بھی اپنے وقت پر کھلنا شروع ہوجاتا ہے ۔ نمازکے دوران وساوس اور پریشاں خیالیوں کے بارے میں ان کے اختیاری اور غیر اختیاری ہونے کا فرق ضرور محسوس اور معلوم کرتے رہنا چاہیے ۔جو وسوسے اور خیال انسان اپنے دل میں خود لاتا ہے انہیں روکنا اس کے اپنے اختیار میں ہے ۔اس اختیار کو استعمال کرنا اس کا اپنا فرض ہے ۔اس اِ ختیار کو استعمال میں لانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنی توجہ نماز کے الفاظ کے معانی کی طرف پھیر دے ۔ یا اپنا دل خانہ کعبہ کی جانب مرکوز کرے ۔ دل میں بیک وقت دو خیالات سمانے کی گنجائش نہیں ہوتی ۔۔سورہ احزاب کی آیت نمبر ۲۳ میں ارشاد الٰہی ہے :’’ ۔۔اللہ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ۔۔‘‘۔دل ایک وقت میں دو طرف متوجہ نہیں ہوتا ۔ ۔اسی لیے جونہی دل نماز کے معانی یا خانہ کعبہ کی جانب متوجہ ہوگا اُسی وقت وسوسے کو وہاں سے دیس نکالا مل جائے گا ۔۔اس کے برعکس جو وسوسے غیر اختیاری طور پر پیدا ہوں اُن کی جانب نہ التفات کرے نہ توجہ دے بلکہ انہیں نظر انداز کر کے ایسے گزر جانے دے چھلنی سے پانی گزر جاتا ہے ۔وسوسہ سے قلب کو خالی کرنے کی طرف متوجہ ہونا یہ خود ایک وسوسہ بن جاتا ہے ۔وسوسے کی طرف متوجہ ہونا تو اپنے قصد سے ہے ۔چاہے اُسے دفع کرنے ہی کا قصد کیوں نہ ہو ۔ ۔اس لیے دَلدَل کی طرح اس میں اور زیادہ دھنسنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کی مثال بجلی کے تار کی سی ہے ۔اگر دفع کرنے کی نیت سے بھی ہاتھ لگائے تو کرنٹ تو لگے گا۔ غرض یہ کہ نماز کے دوران دل میں غیر اختیاری وسوے آنے کی وجہ سے مایوسی یا پریشانی کا شکار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔در اصل انسان کا قلب تو ایک سُپر ہائی وے کی مانند ہے ۔اس پر بادشاہی سواریاں بھی گزرتی ہیں ۔امیر کبیر بھی چلتے ہیں ۔غریب اور فقیر بھی گزرتے ہیں۔خوبصورتوں اور بدشکلوں کی بھی یہی گزرگاہ ہے نیکوکاروں ،پارساؤں اور دینداروں کے علاوہ کافروں ،مشرکوں، مجرموں اور گناہگاروں کے لیے بھی یہ شارع عام ہے ۔ لہٰذا ،عافیت اسی میں ہے کہ اس شاہراہ پر جیسا ٹریفک بھی خود بخود آئے ،اُسے خاموشی سے گزر جانے دیا جائے ۔ ۔اگر اس ٹریفک کی طرف متوجہ ہو کر اسے بند کرنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوشش کی گئی تو ،دل کی سڑک پر خود اپنا پہیہ جام ہوجانے کا شدید خطرہ ہے ۔ اس راستے کا ٹریفک سگنل صرف سبز بتی پر مشتمل ہوتا ہے ۔اس میں سرخ بتی کی ان کے لیے کوئی جگہ نہیں !(شہاب نامہ ص ص ۱۱۵۱۔۱۱۵۶)
اصلاح کے زیر تبصرہ نماز نمبر میں ڈاکٹر روشن تقی کا مضمون ’لکھنؤ کی کچھ مظلوم مسجدیں‘ ۱۴ ایسی مسجدوں کے بیان پر مبنی ہے جن کاآج کوئی پرسان حال نہیں جو اپنے آپ میں اہل لکھنؤ کی بے حسی کا مرثیہ ہے ۔ہمیں اس مضمون سے پہلی بار یہ پتہ چلا کہ اودھ گزٹ ۱۸۸۷ کے ریکارڈ کے مطابق ’غدر‘ کے قتل عام ،تباہی و مسماری کے ۱ٹھائیس سال بعد بھی وہاں ۲۲۶ مسجدیں موجود تھیں ۔ڈاکٹر روشن تقی نے لکھا ہے کہ لکھنؤ میں سب سے پہلی ’خانہ شماری ‘۱۸۵۶ میں ہوئی تھی جس کے مطابق اس وقت لکھنؤ کی آبادی تقریباً دس لاکھ تھی اور اس میں ۴۳۵ محلے آباد تھے ۔(لیکن جب) ۱۸۷۱ میں ملک کی پہلی مردم شماری انگریزوں نے کروائی تو لکھنؤ کی مجموعی آبادی محض دو لاکھ ۷۳ ہزار ایک سو ۲۶تھی اور صرف ۳۹۴ محلے آباد ( رہ گئے) تھے ۔(یعنی ) ٓبادی تقریباً ۷۰ فی صد کم اور ایک سو اکتالیس محلے غائب ہو گئے تھے (لہٰذا یہ )اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۴۱ محلوں کی مسماری میں کم از کم اَسّی(۸۰) مسجدیں بھی زمین بوس ہو گئی ہوں گی (نماز نمبر ص ۲۴۰)۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد اور بالخصوص گزشتہ چار برسوں کے فاشی راج میں ہریانہ ،جھارکھنڈ اور بہار وغیرہ میں نماز سے بالجبر روکے جانے اور بعض مساجد کی بے حرمتی کے جو شرمناک اور عبرتناک واقعات پیش آئے ہیں وہ ہم غفلت کے ماروں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں ضرورت اس کی ہے نہ صرف ہر شہر کی ’مظلوم مسجدوں ‘ کا پتہ لگا کر انہیں آباد کرنے کی کوشش شروع کی جائے بلکہ سر جوڑ کے بیٹھا جائے اور نماز سے اور با لخصوص نماز جمعہ سے روکے جانے کی سنگین وارداتوں کے فوری تدارک اور مستقل سد باب کے اقدامات کیے جائیں ۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here