لہریں

0
246

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

ٓٓٓاحمد رضا

وہ خاموشی سے نیم شکستہ چارپائی پر بیٹھا سامنے دیوار پر آویزاںکلینڈر کو دیکھ رہا تھا، اس کی ویران آنکھیں صاف بتا رہی تھیں کہ وہ کسی گہرے صدمے سے دوچار ہوا ہے اس کی گھومتی نگاہیں گزشتہ کل کی تاریخ پر جا رکیں ،اور ساتھ ہی اس کے ذہن کے پردوں پر ایک اذیت ناک حادثہ ابھرنے لگا۔
’’رامو آج تم کام پر نہیں آیا‘‘ رامو نے مڑ کر دیکھا کہ اس کاہم پیشہ دوست کالو ہے جو دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا ۔
’’ہاں اب ہم کبھی نہیں جائیگا‘‘ رامو نے پھرکلینڈر کی طرف اپنا رخ کرتے ہوے کہا۔
نہیں جائیگا ؟ تم کا کچھ معلوم بھی ہے؟سیٹھ جی نے تم کا بلایا ہے،کالو نے اس کے پاس آتے ہوئے کہا ۔
’’ہا ں کہہ تو دیا اب ہم کبھی نہیں جائیگا‘‘ کہہ دیہوسیٹھ حرام کھور سے ،سالا کام تو کراتا ہے کتو ں کی ماپھک اور حساب مانگنے پر مارتا ہے گدھوں کی ماپھک اور اوپر سے جبردستی کا کھرج بھی ڈال دیتا ہے۔
سیٹھ دھنی رام شہر کے گنے چنے مالداروں میں شمار کیے جاتے تھے شہر سے کچھ دور ساحل کے قریب ان کی روئی دھونائی کی ایک فیکٹری تھی جس میں رامو اور کالو جیسے نہایت ہی کمزور طبقے کے لوگ کام کیا کرتے تھے ۔
’’دیکھ رامو ،بات آئی گئی ہوگئی اب کاہے کو تو اپنے پیٹ پر لات مارتا ہے، آخر ہے تو سیٹھ ہمارا ہی نا، اچھا تو بتا بھلا کوئی اپنے ماں باپ سے ناراج ہوتا ہے نہیںنا، تو پھر کاہے کو مفت میں ٹینشن لیئے جا رہا ہے دیکھ شام کو جاکر سیٹھ صاحب سے مل لیہو۔
شام کے پانچ بج چکے تھے، رامو نے اپنے گھر کے دروازے کو ہولے سے بند کر کے فیکٹری کا رخ کیا مگر آج اس کی چال میں پہلی سی تیزی نہ تھی ،ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم کی پوری توانائی سلب ہو گئی ہو،یا پھر جیسے اس کے کاندھو ں پر سو من کا بوجھ لدا ہواہو،وہ دل برداشتہ تھا ،وہ پھر سے سیٹھ دھنی رام کی فیکٹری کا رخ نہیں کرنا چاہتا تھا، اسے نفرت تھی سیٹھ دھنی رام سے جو مچھڑوں اور کھٹملوں کی طرح غریبوں کاخون چوس رہا تھا وہ ایک ماہ کی تنخواہ پر دگنے محنت کرواتا تھا ،اس کے ناچاہنے کے باوجود بھی اس کے پیروں میں پڑی ہوئی بیڑیاں اس کو دوبارہ سے دھنی رام کے فیکٹری کی جانب لیئے جا رہی تھیں ۔وہ گردو پیش کے ہنگامے سے بے خبر خاموشی سے چلا جارہا تھا اسے آج پورا ماحول و فضااداس محسوس ہو رہا تھا ساحل پر اٹھتے ہوے دریا کا نظارہ بھی اسے بے کیف معلوم ہو رہا تھا ،خوش الحان پرندوں کی آوازیں بھی اسے سماعت پر بار محسوس ہو رہی تھیں ۔اسے دور سے روزانہ کی طرح ساحل سے کچھ فاصلے پر وہ فیکٹری نظر آئی جو اس کی ذہنی کوفت کا باعث تھی ،وہ اسی ہاں، اور نا،کی درمیانی کیفیت میں کھڑے ہو کر کبھی فیکٹری کو دیکھتا تو کبھی اپنی پشت کی جانب مڑ کر واپسی کی راہ کو پھر وہ دفعتََااپنے داہنے ہاتھ کی جانب مڑ کر ان لہروں کو دیکھنے لگا جو ساحلوں سے ٹکڑا کر اپنی زندگی کا ثبوت دینے کے بعد خود کو فنا کر رہی تھیں۔اچانک اس کی آنکھیں شعلوں کی مانند دہک اٹھی ،مٹھیاں بھیچ گیں، سینہ کسی لوہار کی بھٹھیوں کی طرح پھولنے لگا جسم کے تمام حصے کسی چٹان کی طرح سخت ہو گئے، پھر ایک آواز فضا میں گونجی ’’ہم کسی کے غلام نہیں‘‘ اسے سمندر کی وہ لہریں سبق سکھا گیئںجس کی ہمت ساحل سے بار بار ٹکرا کر فنا ہونے کے باوجود بھی پست نہیں ہو رہی تھی ۔اب وہ ذہنی طور پر دھنی رام کی غلامی کے زنجیروں سے آزاد ہو چکا تھا اب اس کی مریل چال میں جان آچکی تھی اس کے قدم ہوائوں سے بات کرنے لگے تھے اب اسے فیکٹری پہنچنے کی جلدی تھی اتنی جلدی کہ اس کا ہر اٹھایا ہوا قدم منزل سے قریب ترہونے کے باوجوداسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اسے بہت طویل سفر کرنا ہے وہ سیٹھ دھنی رام کو اپنے سینے کے جوالا مکھی کی آگ میں جلا کر بھسم کر دینا چاہتا تھا دھنی رام ایک ایسا بھیڑیا تھا جس کے نزدیک روپئے پیسوں کے علاوہ انسانی رشتوں کی کوئی قیمت نہ تھی وہ تیزی سے دوڑ رہا تھا،پھر اس کے آنکھوں کے سامنے منیاکا وہ المناک منظر گھومنے لگا جس کو سیٹھ دھنی رام قرض چکتا نہ کرنے کے عوض میں اپنے گھر پر نوکرانی کے طور پر رکھ لیا تھا، وہ منیا سے دن بھر جانوروں کی طرح کام لیا کرتا تھا، اور بدلے میں منیا کو کیا ملتا؟دو وقت کی رکھی سکھی روٹی جس کو جانور بھی منھ نہ لگائے وہ دن بھر بات بات پر سیٹھ دھنی رام کی ڈانٹ پھٹکار بھی سنتی رہتی تھی، کبھی کبھار سیٹھ دھنی رام کی شدت کی انتہا اتنی بڑھ جاتی تھی کہ اسے زودو کوب بھی کیا کرتا تھا اور وہ خاموشی سے سہے جاتی تھی، اور نتیجہ کیا نکلا؟ وہ دن بہ دن اندر سے کمزور ہوتی چلی گئی اور پھر کئی طرح کی بیماریوں کا شکار بھی ہو گئی، اور ایک دن اچانک آنگن میں کام کرتے وقت غش کھا کر فرش پر منھ کے بل گڑ پڑی ،سر پھٹ گیا، سر سے خون بہنے لگاجسم میں اتنی طاقت بھی باقی نہ تھی کہ وہ کچھ کر سکتی تھی، پھر اس پر دھیرے دھیرے نیم بے ہوشی طاری ہوتی چلی گئی ،جسم اکڑنے لگا ،آنکھیں سرخ ہونے لگیں ،ایڑیاں رگڑنے لگی، اور رگڑتے رگڑتے ایڑیاں ہمیشہ کے لئے موت کے منھ میں چلی گئی۔اور منیاکا شوہر اس کا کیا؟ وہ بھی توکئی مزدوروں کے ساتھ بیماریوں کے زد میں آ کر ہمیشہ کے لئے دنیا چھوڑ چکا تھا ، وہ زندگی کا اکثر حصہ سیٹھ دھنی رام کے نام کر چکا تھا لیکن اسے ملا کیا سوائے موت کے ؟کچھ نہیں ،اور جب علاج کے لئے روپیہ مانگا گیا تو ڈانٹ پھٹکار کر بھگا دیئے گئے؟ اور کہا گیا کہ ـــمر رہے ہیں تو مرنے دوسالوں کو ،کیا میں ٹھیکا کھول رکھا ہوں سبھوں کے علاج کے لئے؟ ۔اب رامو بالکل اپنا آپا کھو چکا تھا ، اب وہ کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے بس میں نہیں تھا ،بس اسے ایک ہی چیز دکھائی دے رہی تھی ، وہ تھی بدلا ،اپنا بدلا ،اپنی محنت کا بدلا ،اپنے جذبات کا بدلا ،اپنون کا بدلا جنہوںنے اپنے جان گنوائے تھے،ایسا بدلا جس سے دھنی رام کا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے،وہ اسی عالم میں سیٹھ دھنی رام کے دوسری منزل کی طرف گئی سیڑھیوں کو ایک ساتھ پھلانگتے ہوئے تیر کی طرح کمرے میں داخل ہوا دھنی رام رامو کو اس طرح اپنے کمرے میں آتے دیکھ کر قہر آلود نظروں سے دیکھا مگر دھنی رام کو فوراََ ایسا محسوس ہوا کہ رامو کی سرخ آنکھوں سے ایک ساتھ کئی شعلے نکل کر سیٹھ دھنی رام کے پورے وجود کو اپنے لپت لے لئے ہوں، اچانک سیٹھ دھنی رام کی ایک چیخ کمرے میں گونجی ارے یہ کیا ہوا ؟یہ دھواں کیسا؟یہ آگ کیسی ؟اور پھر چیخ پکار کی آوازیں سنائی دینے لگیں، ہر طرف افرا تفری مچی تھی، فیکٹری میں کہیں آگ لگ گئی تھی، اور چشم زدن میں پورا کارخانہ آگ کی لپیٹ میں آچکا تھا رامو بے خوف و خطر دھنی رام کے سامنے مسکرا رہا تھا جیسے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہوپھر اس نے تیزی سے نیچے آنے والی سیڑھیوں کی طرف چھلانگ لگا دی، کسی چیز کی گرنے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی مگر اس نے مڑ کر دیکھا نہیں ،رامو کی یہ سعی بھی بے سود ثابت ہوئی کیونکہ نیچے کے تمام راستے آگ کی وجہ سے مسدود ہو چکے تھے وہ پھر واپس پلٹا اور انہیں سیڑھیوں سے اوپر چڑھنے لگا، پھر وہ رک کر سیڑھیوںپر بے ہوش دھنی رام کو دیکھنے لگا جس کے کپڑوں میں آگ لگی ہوئی تھی دھنی رام کے جلتے بدن کو دیکھ کر رامو کے بدلے کی آگ بجھ گئی اس کے اندر کا انسان جاگ اٹھا،پھر وہ تیزی سے دھنی رام کے جسم سے جلتے کپڑوں کو جدا کرنے لگا اور اسی حالت میں دھنی رام کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے چھت کے آخری سرے پر پہنچااور وہاں سے دھنی رام کو لیئے نیچے کی طرف چھلانگ لگا دی ۔
تین ہفتے بعد۔۔۔۔رامو سیٹھ دھنی رام کے کمرے میں داخل ہوا،آو،آو،رامو،آو،میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا اور پھر سیٹھ دھنی رام اپنی جیب سے نوٹوں کی ایک موٹی گڈی نکال کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا ،رامو یہ رہی میری جان بچانے کی قیمت تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ کتنے ہونگے پورے ایک لاکھ ہیں رکھ لو اور ہاں پچھلی ساری باتیں بھول جائو میں نے تمہارا قرض بھی معاف کر دیا ہے، رامو چپ چاپ نوٹوں کی گڈی اٹھا کر باہر نکل آیا ’’سالا رسی جل گیا پر بل نہیں گیا ‘‘اوپر سے جبر دستی کا کھرج بھی ماف کرتا ہے یہی تو کھرابی ہے ان جیسے امیروں کی جو ہر چیج کی قیمت پیسوں سے لگایے پھرتا ہے ،کمینہ دو شبد پیار کی بات نہیں کر سکتا تھا ،اچھا ہوتا اسے یو ںہی آگ میں جل مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہوتا۔
سیٹھ دھنی رام کچھ دیر بعد اپنے کمرے سے باہر آیا ،دیکھا ،دروازے کے کنارے نوٹوں کی گڈی پڑی ہوئی ہے جو اس نے رامو کو دیے تھے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here