غیرسرکاری مولوی اگر بیدار ہوتے؟

0
230

9145018288

سرکاری مولوی تو اس قدر بیدار ہیں کہ اقتدار بعد میں بدلتا ہے وہ گرگٹ سے بھی پہلے اپنا رنگ بدل لیتے ہیں ان کی اپنی مجبوری بھی ہے، یہ وفادار ہیں، ان کے جن کا وہ نمک کھاتے ہیں، اس لئے ان سے اس کی توقع کہ وہ احتجاج کریں، بے معنی ہے۔اور صرف سرکاری مولوی ہی کیوں؟ تمام مسلم آرگنائزیشن جو مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں اس کے نمائندے نہ صرف حکومت سےاپنے ذاتی رسوخ بڑھاتے ہیں بلکہ اپنی مالی حیثیت میں بھی دن دونی رات چوگنی ترقی کرتے ہیں، لیکن لاکھوں مسجد کے وہ امام جن کے پیچھے یہ 20 کروڑ مسلمان دن میں پانچ بار نماز پڑھتے ہیں، اگر وہ بیدار ہوتے تو ہر طرف پولیس جو مسلمانوں پر یک طرفہ ظلم کررہی ہے اس کے مظالم سے مسلمانوں کو بچا سکتے تھے۔ صرف مظفرنگر میں 67 مسلمانوں کی دُکانیں سیل کردی گئیں۔ہزاروں لوگوں کو پولیس گرفتار کرچکی ہے اور ابھی بھی دن رات دبش جاری ہے۔ دبش کے نام پر بے قصور، لاچار مسلمان عورتوں کی بے حرمتی ہورہی ہے لیکن ہمارے سرکاری مولوی نمک کا حق ادا کرنے کی وجہ سے اور غیرسرکاری مولوی حضرات بیدار نہ ہونے کی وجہ سے خاموش ہیں ورنہ مسلمان علاقوں میں یہ آتشزنی، توڑپھوڑ ہرگز نہ ہوتی۔ یقینی طور پر ابھی بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مسلمانوں کی ناسمجھی کا نتیجہ ہے یا کسی کی سوچی سمجھی سازش؟ اگر ہمارے غیرسرکاری مولوی بیدار ہوتے تو ایسا ہرگز نہ ہوتا۔ انہیں این آر سی اور سی اے اے کے بارے میں صحیح طریقے سے معلوم ہونا چاہئے تھا۔ انہیں اسے اچھی طرح سے سمجھنا چاہئے تھا کہ اس کے پیچھے اصل سیاست کیا ہے؟ ان تمام غیرسرکاری مولویوں کو قومی ہمدری رکھنے والے وکلاء سے تبادلہ خیال کرنا چاہئے تھا پھر اپنے شک کو سرکاری عملے کے سامنے رکھنا چاہئے تھا اور جب بات نہ بنتی تو پھر اُن ہندو بھائیوں کو اپنے ساتھ لینا چاہئے تھا جو ہماری لڑائی دن رات لڑتے ہیں اور سب کو ایک ساتھ پورے ہندوستان میں جمعہ کے دن اپنی اپنی مسجدوں سے نکل کر بہت ہی پرامن طریقے سے ایک طے شدہ جگہ پر احتجاج کرنا چاہئے تھا۔ اور تب تک ڈٹے رہنا چاہئے تھا جب تک آپ کی بات سنی نہ جاتی۔ تب شاید آپ کو روکنے کا کوئی بہانہ نہیں ہوتا اور اگر تب کوئی روکتا تو آپ کے ساتھ وہ بھی ہوتے توجو آپ کے ساتھ آج نہیں ہیں۔کیونکہ پورے ملک میں ایک بے چینی ہے، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب سڑکوں پر ہیں اور ملک میں کیوں دنیا کے تعلیم یافتہ ملک بھی اس سے الگ نہیں ہیں۔ احتجاج تو لندن اور ممبئی جیسے شہر میں بھی ہورہا ہے اور یقینا ہونا بھی چاہئے کیونکہ آئین نے ہم سبھی باشندگانِ وطن کو اس کا حق دیا ہے کہ اگر ہم کسی بات سے رضامند نہیں ہیں تو اس کی مخالفت کریں لیکن پرامن۔ اس مخالفت میں آتشزنی اور توڑپھوڑ کی کوئی جگہ نہیں، کسی سرکاری جائیداد کو نقصان پہنچانا ملک کا نقصان کرنا ہے ویسے بھی تشدد کا ساتھی کوئی نہیں۔ سرکاری نقصان ملک کی غداری کے مانند ہے اور ملک کے غداروں کا ساتھ کبھی کوئی نہیں دے سکتا۔ یوگی جی نے بالکل ٹھیک کہا کہ سرکاری نقصان کی ذمہ داری فکس کی جائے گی اور اس کی وصولی نقصان کرنے والے کی جائیداد سے کی جائے گی۔ایسا ہی ہونا چاہئے کاش یوگی جی آسام کے بھی وزیراعلیٰ ہوتے اور وہاں بھی ایسا ہی کیا جاتا ۔ کاش یوگی جی اس وقت بھی ہوتے جب 1984 ء میں سکھ فسادات ہوئے.1992 ء میںبابری مسجد کے لئے رتھ یاترا یا اس کے شہید ہونے کے وقت جو سرکاری جائیدادوں کو نقصان پہنچایا گیا ۔پھر چاہے 2002 ء کا گجرات ہو یا سماج وادی پارٹی کے وقت کا مظفرنگر یا پھر ابھی جاٹ آندولن میں جس میں کروڑوں روپئے کی قومی جائیداد کا نقصان ہوا۔ لیکن کوئی بات نہیں جب جاگے تبھی سویرا۔ بس یہ قانون مسلمانوں کے لئے ہی نہ کام کرے بلکہ سب کے لئے ہو تو ہی ملکی مفاد میں ہوگا ورنہ مسلم دشمنی کے سوا اور کیا کہا جائے گا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here