غضب کیا تیرے وعدوں پہ اعتبارکیا

0
228

غلام علی اخضرؔ

برسوں سے ہندوستان کے عوام کانگریس حکومت کے خیالی وعدوں سے بور ہوچکے تھے ،اس لیے2014کے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی بنام مودی پارٹی کو ان کے نئے وعدوں ،نئے چہروں، ڈیجیٹل انڈیا،نئے انڈیا وغیرہ کا خواب دکھانے اور وعدوں پر اْتر نے کی بھرپور امید جگانے، سب کا ساتھ سب کا وِکاس، زیادہ سے زیادہ نظم و ضبط اور کم سے کم حکومت جیسے نعروں سے، پھر یہ کہ ہندتوا، مندر مسجد کا مسئلہ ، کامن سول کوڈ جیسے مسئلہ الیکشن کے درمیان ووٹ بینک کمی آنے کے ڈرسے اور موقعے سے میڈیا نے بھی خوب شخصی سیاست پر زور دے کر ایک موٹی رقم حاصل کرنے اورہندوستان کی سیاست میں بدلائوپیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ان تمام فارمولوں نے ہندوستان کے عوام کو باورکرایا کہ یقیناً ہمیں ایک ایسا مسیحا مل گیا ہے جو حقیقت میں اپنے سینے کے اندر وطن کی محبت اور عوام کا درد رکھتا ہے۔ حالاں کہ وزیر اعظم نریندرمودی نے قبرستان اور شمشان، عید اور دیوالی پر بیان دے کر اپنا اصلی چہرہ دکھادیا تھا، پھر بھی عوام نے بنام مودی ، نئی سرکاراور ملک کے نئی سمت میں جانے کی امیدپر ان باتوں کو پس پشت ڈال کر خوب دل کھول کر ووٹ دیا۔ جس سے مودی ہندوستان کے نئے وزیر اعظم کے طورپر سامنے آئے۔ مودی جی ہندوستان کے وزیر اعظم بنتے ہی بیرون ملک کے ایسے دور ے پر جانے لگے اور اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں جیسے کہ برسوں سے پلان بنا رکھے تھے اور عوام سے کیے وعدوں کو پورے کیا کریں گے۔ اب تو ان مسائل پر بولیں اور غورو فکرکرنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں۔بس ایک ملک کے دورے سے آنے کے بعد دوسرے ملک کے دورے پر جانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔مودی حکومت کے 4 سال سے زیادہ کا وقفہ گزررہا ہے۔ ان چارسالوں میں 52سے زائد ممالک میں گھومنے میں اب تک 355کڑور روپے خرچ ہوچکے ہیں، اور نہ جانے پانچ سال پورے ہوتے ہوتے اور کتنے روپے خرچ ہوں گے۔
بی جے پی کے قومی صدر اَمت شاہ نے بہار کے انتخاب کے دوران یوپی کے ہندوووٹ بینک کو مضبوط کرنے میں یہ بول کرکامیا ب نکلے کہ ’’اگر بی جیپی ہار گئی تو پاکستان میں دیوالی منائے گا‘‘ ہمارے ملک کی سیاست میں ہندو مسلم میں پھوٹ ڈال کر جان پیدا کرنا ہوتو بس پاکستان کے نام پر کوئی مدعا عوام کے سامنے پیش کردیں۔ عوام بھی اتنے سیدھے سادے ہیں کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنا ان کے درمیان کب سودمند ہوگااور کب فارمولہ فیل کرجائے گا، ہمارے سیاسی لیڈ روں کو خوب آتا ہے اور عوام بھی ایسے ہی ہیں کہ ان باتوں پر سوال کرنے کی بجائے خود اس میں حصہ دار ہوجاتے ہیں۔ یوپی میں بی جے پی الیکشن جیتنے کے بعد ایک ایسے شخص کے ہاتھوں حکومت کا باگ ڈور آرایس ایس کے اشاروں پر راجناتھ سنگھ کے بجائے بدنام زمانہ مسلم مخالف یوگی آدیہ ناتھ کو منتخب کیا، پھر کیا تھا کہ یوپی کی مختلف جگہوں پر مسلم مخالف تنظیمیں پردے سے باہر آکر کھلے عام مسلمانوں کو لوجہاد، گئو کشی،ہندوستان ہندئوں کا ملک ہے، پاکستان کے نام کے ساتھ نعرے بازی کرنا اور طرح طرح کے ہتھکنڈے اپناکر قتل عام کرنا شروع کردیا جو آج تک ملک کی مختلف جگہوں سے آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں۔ سرکار چپ چاپ تماشہ دیکھتی رہتی ہے۔حیرت کہ ہندوستان میں مختلف مسلم مخالف تنظمیں ایسی موجود ہیں کہ خود سرکار اس کی پشت پناہی کرتی ہے۔ ابھی خود کچھ دنوں پہلے امریکہ کے ایک تحقیقی ایجنسی نے آرایس ایس تنظم کو ایک دہشت گرد تنظم قرار دیا اور یہ بات سچ بھی ہے کہ اس تنظم نے آزادی سے پہلے سے اب تک صرف ہندوستان میں ہندومسلم کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ہندتوا ذہنیت کو فروغ دینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ یہی زہر آج ہندوستان میں عام ہوتا جارہا ہے۔ حال ہی میں غازی آباد میں ایک لڑکی کو مسلمان ہونے کی وجہ سے اسکول سے نکال دیاگیا۔ جب اسکول انتظامیہ سے ان کے والد نے سوال کیا تو جواب حیران کن تھا ’’تم مسلمان ہو اور حکومت یوگی آدتیہ ناتھ کی ہے، اس لیے تمھاری بیٹی اس اسکول میں نہیں پڑھ سکتی۔ تم ایک آتنک وادی ہو‘‘۔ جب سے ہندوستان میں بی جے پی نے اکثریت حاصل کی ہے، نفرت کا بازار اور زیادہ گرم ہوگیا ہے۔ نوجوان نیتائوں کی اشتعال انگیزباتوں میں آکراور گندی سیاست میں پھنس کر کچھ لوگ اپنی زندگی کو بنانے کی بجائے ہندومسلم نفرت کی آگ میں چھلانگ لگادیے ہیں۔ بی جے پی حکومت دوسری حکومتوں کو جنگل راج اور غنڈہ راج خوب کہتی ہے اور اپنی حکومت میں ہوئے ظلم و ستم کو نہ جانے دیکھنے سے کیوں اندھی ہوجاتی ہے۔ غضب کی بات تو یہ ہے کہ جب انھی پارٹیوں سے مل کر حکومت بن جاتی ہے تو پھر نہ جانے کیسے جنگل راج ختم ہوجاتا ہے۔ ملک میں نوٹ بندی کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بتایا جارہا تھا کہ آتنک واد پر روک لگے گا۔ G.S.Tکی وجہ سے ملک میں ترقی ہوگی، مگر حیرت یہ کہ نتیجہ سامنے آنے کے بعد سب کچھ الٹا ہوگیا۔ خبروں کے مطابق ملک پہلے سے ترقی کے بجائے تنزلی کے دریامیں ہچکولے کھارہا ہے۔ ’’بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو‘‘ کا نعرہ بھی ناکام نکلا۔ حال ہی میں انٹرنیشنل تنظیم تھامسن رائٹر فائونڈیشن نے اپنے سروے میں ہندوستان کو عورتوں کے لیے سب سے زیادہ غیرمحفوظ ملک قرار دیا۔ جس سے ہمارے ملک کا وقار پوری دنیا کے سامنے مجروح ہوا۔ اس بات سے ہماری سرکار کو عوتوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی سخت قدم اٹھا نا چاہیے تھا ،لیکن یہ جواب کے چکر میں لگ گئی۔اگر حکومت جواب کے چکر میں نہ پڑ کر عورتوں کی حفاظت کے لیے سخت قانون بناتی اور شراب پر پابندی لگا دیتی تو شاید ملک میں عورتوں اور بچیوں کو آئے دن ظلم و بربریت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ حال ہی میں لکھنوئومیں سنسکرتی رائے کی اور مندسور میں کلاس2کے بچی کے ساتھ جو درد ناک واقعہ پیش آیا، حکومت اگر ان جیسے واقعات کو سنجیدگی سے لیتی اور ملزموں کے ساتھ سخت رویہ اپناتی تو شاید نربھیا ، آصفہ، اُنائواور سورت وغیرہ کے بعد سنسکرتی اور مندسور کی معصوم کلی کے ساتھ پھر یہ معاملے پیش نہ آتے۔ 22جون کو 17سالہ سنسکرتی رائے جو اپنے مضمون کی سال دوم میں گورمنٹ پالی ٹینک لکھنوئوکی چھاترا تھی،سال اول میں وہ ہاسٹل میں ہی رہ کر پڑھائی کی ، سال دوم میں ان کو ہاسٹل نہ ملنے کی وجہ سے وہ باہر روم لے کر پڑھائی کرنے لگی۔ امتحان ختم ہوتے ہی 21جون کی کی رات اسٹیشن گاڑی پکڑنے جاری تھی کہ اسی درمیان میں ان کی عصمت کو درندوں نے تار تار کرکے ان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اسی طرح مندسور(مدھیہ پردیش) میں 7سالہ بچی کو اس کے اسکول سے کسی چیز کا لالچ دے کر لے گیا اور پھر اس کے ساتھ درندگی کا وہ کام انجام دیا کہ انسانت شرم سار ہوگئی۔ تحقیق کے لیے جب ٹیم اسکول پہنچی تو معلوم چلا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کا تار چوہوں نے کاٹ دیا ہے۔ آخر اسکول انتظامیہ اپنے نظام کوکیوں نہیں درست رکھا؟اس پر اسکول انظامیہ سے سوال ہونا چاہیے۔ اگر اسکول انتظامیہ نظام کو بہتر رکھتی تو آج بآسانی ملزم کو پکڑلیا جاتا۔ واضح رہے کہ پولیس نے معاملے میں عرفان عرف بھیو کو گرفتار کیا ہے اور پانچ دن کے ریمانڈ پر بھی لیا ہے۔ ایس پی نے بتایا ہے کہ ہم ملزم سے پوچھ کچھ کریں گے۔ ادھر مندسور کے مسلمانوں نے اور تنظیموں نے ملزم کی پھانسی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ ایسے شخص کو ہمارے سماج میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں جان کی اب جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے۔ کبھی ہجومی آتنکی گائے کے نام پر تو کبھی مذہب کے نام پر، کبھی بچہ چوری کے نام پر کسی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔ کیا ہمارے ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں ہے کہ جس سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف عدالت سخت کاروائی کرے،جس سے ملک کا نظام مکدر ہونے سے بچایا جاسکے۔ اب تک حکومت اپنے تمام وعدوں میں کھری اترنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ ملک کا نوجوان روزگار کے لیے در درکی ٹھوکریں کھارہا ہے،ریلوے نظام دن بدن بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے، نفرت کا بازار گرم ہے۔’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘بس ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ افسوس!کہ ہم نے تیرے وعدوں پر اعتبار کر لیا، بس اسی کی سزا بھگت رہے ہیں اور یہ اچھے دن ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
ایم ،اے اردو،دہلی یونیورسٹی۔دہلی
7275989646

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here