غزل

0
152

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر نبیل احمد نبیل

یہی سوچ کر میں چلا پیچھے پیچھے
کبھی تو کہے گا کہ آ پیچھے پیچھے
جنھیں چاند تاروں سے جانا تھا آگے
انھیں لے گئے رہنما پیچھے پیچھے
میں کچے مکاں کو کہاں لے کے جاؤں
کہ ہر دم ہے کالی گھٹا پیچھے پیچھے
زمیں پاؤں میرے جکڑنے لگی ہے
یہ کون آ گیا سر پھرا پیچھے پیچھے*
نظر میں ترا راستہ آئنہ تھا
بکھرتی گئی گردِ پا پیچھے پیچھے
ازل سے ہے یہ روشنی کا مقدر
چراغ آگے آگے ہوا پیچھے پیچھے
نکل آیا میرے مقابل میں سورج
کہ سایا کوئی چل پڑا پیچھے پیچھے
ہر اک شخص یوں بھاگتا پھر رہا ہے
کہ جیسے ہو کوئی بلا پیچھے پیچھے
مری ناؤ ساحل کی جانب جو نکلی
بھنور آ گیا ڈھونڈتا پیچھے پیچھے
میں کیا مانگتا مڑ کے اپنے خدا سے
خدا کا ہے حسنِ عطا پیچھے پیچھے
زمیں پر ٹھہرنا بھی دشوار ہوگا
اگر آسماں آ گیا پیچھے پیچھے
نہ رکنے کی ہمت، نہ چلنے کی طاقت
یہ کس جرم کی ہے سزا پیچھے پیچھے
محبت کا اظہار میں نے کیا تھا
ہے مدّت سے خلقِ خدا پیچھے پیچھے
نبیل اب تو جس راستے پر چلا میں
وہی لے گیا راستہ پیچھے پیچھے

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here