غالب کی ایک غزل کے قوافی

0
250

[email protected] 

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ہارون رشید کی علمی
دیانت داری کو سلام

مکرمی!20۔جولائی کے اودھ نامہ میںڈاکٹر ہارون رشید کا ایک بہت اہم علمی مضمون”غآلب کی ایک غزل کے قوافی” نظر نواز ہوا۔ان کے علمی،ادبی اورتنقیدی شعور کا اعتراف ہر انصاف پسند صاحب علم کرتا ہے۔یہ مضمون بھی ڈاکٹر ہارون رشید کے قلم سے نکلا ایک شاہکار ہے۔
ہماری تنقید اور تحقیق کا سب سے بڑا موضوع “غالب” ہی ہے۔ہر شارح نے شعریات کے غالب کی تشریح و توضیح مختلف انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ناقدین کی یلغار کے درمیان ڈاکٹرہارون رشید نے غالب کے شعری مزاج کو دریافت کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔کلام غالب کو جس معیارو میزان پر انھوں نےپرکھا ہے اس کا رقبہ وسعت آمیز ہے۔ہارون نے جس ژرف بینی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ان کی شعر فہمی اور نگاہ کی تہہ داری کا اندازہ ہوتا ہے۔واقعی ڈاکٹر ہارون نےفیس بک پر شکیل گیاوی کے ایک مطلع اور تین اشعار سے شروع ہونے والی بحث کو نہ صرف مضمون کی شکل میں شائع کیا بلکہ ایسے پہلو بھی تلاش کیے ہیں جن پرکسی شارح کی نظر اب تک نہیں پہونچی۔ڈاکٹر ہارون کی علمی دیانت داری کو سلام۔ہم سے کم علموں کو غالب سےکیا نزدیک تر۔
ڈاکٹر زیبا محمود
صدر شعبہ اردو
گنپت سہائے پی جی کالج،سلطانپور یو۔پی۔

مضمون” غالب کی ایک غزل کے قوافی” بڑا کارنامہ

محترم ڈاکٹر ہارون رشید صاحب کا مضمون “غالب کی ایک غزل کے قوافی” کے عنوان سے اودھ نامہ اردو اخبار میں نظر نواز۔ ہوا بڑی مسرت ہوئ کہ انہوں نے بہت ہی مدَلل اور بامعنی گفتگو فرمائ ہے اور ادب کے میدان میں ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ۔
ویسے تو میں بہت پہلے سے انکی ادبی اورشعری صلاحیتوں کا معترف ہوں مگر مضمون پڑھنے کے بعد انکی قدر و منزلت میری نظروں میں اور بڑھ گئ ہے ۔چوں کہ میں عربی زبان سے پوری طرح واقف نہ ہونے کی بنیاد پر محترم شکیل گیاوی صاحب کے اشعار کے قوافی تسلی، معنی، افعی،تقوی، عیسی پر تبصرہ یا ادبی گفتگو کرنے سے قاصر رہا۔
اپنی خوبصورت غزل میں جس شعری شعور کے ساتھ قوافی کا استعمال شکیل گیاوی صاحب نے کیا ہے وہ قابل ستائش اور قابلِ مبارکباد ہیں اردو ادب میں جہاں تک میری اپنی معلومات ہے کہ غالب کے بعد تقریباً ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں آج تک کسی شاعر نے ان قوافی کو اپنی شاعری میں استعمال نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی مضمون نگار یا تنقید نگار نے اس پر اپنا قلم اٹھایا ہےجب کہ غالب کی غزل میں یہ قوافی موجود ہیں جس کے لئے ڈاکٹر ہارون رشید صاحب اور شکیل گیاوی صاحب قابل ستائش ہیں
محترم ہارون رشید صاحب کی پوری ادبی گفتگو جو فیس بُک کے حوالے سے مجھ تک پہنچی ہے اس گفتگو کو جس طرح مضمون کا جامعہ پہنانے کا کام جناب ہارون رشید صاحب نے کیا ہے وہ ایک اچھا ادیب اور فنکار ہی کر سکتا ہے جسکی داد دینے کے لئے الفاظ کم ہیں میں انکو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور انکے اس ادبی کارنامہ شعری شعور اور ادبی سخاوت کے لئے انکی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں۔
مہتاب حیدر صفی پوری
اندرا نگر لکھنو

ڈاکٹر ہارون رشید کی
علمی بصیرت کو سلام

تحقیق اور جستجو کا جذبہ اور جنون اسی طرح کے نتائج برآمد کرواتا ہے۔شکیل گیاوی کے چند اشعار پراتنا غور اتنی فکر نہ تو کوئی کرتا اور نہ ہی کوئی اہم سبب سامنے تھا۔آپ کو نہ صرف بے چینی ہوئی بلکہ آپ نےغالب کی غزل کی رسائی سےقبل کئی رابطے بھی کئے،میں صرف اتنا بتا سکا کہ شکیل گیاوی نے جو قوافی صرف کئے ہیں ۔وہ درست ہیںمگر یس کی تحریک کہاں سے ملی میرے علم میں نہیں تھا۔آپ ے بنیاد تک پہنچ کر ایک را ت میں وہ سب نکال لیا جو کمال ہے۔اس خوبصورت اور تجزیاتی مضمون کی مبارکباد اور آ پ کی علمی بصیرت کو سلام۔شکیل گیاوی کو خصوصی دعائیں کہ ان کی ادبی شرارت اس طرح رنگ لائی
واصف فاروقی
کرسی روڈ لکھنو

اودھ نامہ کو مبارکباد

21/جولائی کے اودھ نامہ میں ڈاکٹر ہارون رشید کا مضمون ” غالب کی ایک غزل کے قوافی” نظر نواز ہو۔مضمون کی جتنی تعریف کی جائے ،کم ہے۔ زبردست مبارکباد،مضمون بہت علمی ،تفصیلی ، معیاری اور دلچسپ ہے۔جس کے لئے اودھ نامہ اور مضمون نگار دونوں کو مبارکباد۔جو سوالات مضمون نگار نے اٹھائے ہیں وہ بہت اہم ہیںان کے جوابات علمی حلقوں سےآنا چاہئیں۔مضمون کی کامیابی کا اندازہ اسی امر سے ہو جاتا ہے کہ مضمون جتنے لوگوں تک اخبار اور اخبار کی ویب سائٹ کے حوالے سے پہنچا ہے وہاں وہاں اس مضمون پر بحث چھڑ گئی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ک چھ لوگ دانستہ مصلحتا خاموش ہیں۔ڈاکٹر ہارون کا یہ سوال بہت اہم ہے کہ اگر تقوی اورعیسی کو تق وی اور عی سی باندھا جا سکتاہےتواضحی،عقبیٰ،ا سریٰ، کبریٰ ،اخریٰ، اعلیٰ،بشریٰ،صغریٰ،مولیٰ اوربطحیٰ وغیرہ کو بھی یائے ساکن ما قبل مکسور باندھا جا سکتا ہے۔بہر حال میں یقین کے ساتھ یہ کہ سکتا ہوں کہ اب اس زاوئے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گا اوراس بحث کو آگے برھانے میںڈاکٹر ہارون رشید کا یہ مضمون ممدو معاون ثابت ہوگا۔
محمد سراج الدین سیف
گولہ گنج ۔لکھنو

تنقیدی صلاحیت کا اعتراف

آپ کی علمیت اور تنقیدی صلاحیت کا معترف میں شروع سے رہا ہوں۔شکیل گیاوی کی “ادبی شرارت”نے جو بحث چھیڑی اسے آپ نے تن تنہا اپنے کاندھوں پر نہ صرف اٹھایا بلکہ اس بحث کے حوالے سے ایسے اہم سوالات بھی قائم کئے جن پر اہل علم کو غور کرنا لازم ہے۔ ۔ ۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر غالب کے متذکرہ قوافی درست ہیں تو تب سے آج تک کسی نے اس طرح کے قوافی کیوں نہیں باندھے اگر غلط تھے تو کسی نقاد محقق یا شارح نے اس پر سوالیہ نشان کیوں نہیں لگایا۔
ایک بہت علمی اور معیاری مضمون کی مبارکباد
قمر سیتا پوری
سیتا پور روڈ ۔لکھنو

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here