علم کی دولت

0
151

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

زبید خان

توحید قیوم سر کا لاڈلا اور اکلوتا بیٹا تھا۔وہ چاہتے تھے کہ وہ بھی ان کی طرح پڑھائی میںاول پوزیشن لے کر ان کا نام روشن کرے مگر اس کا دھیان پڑھائی میںکم شیطانی اور کھیل کود میں زیادہ رہتا تھا۔اسکول کے امتحانات میںوہ پاس تو ہوجاتا لیکن کوئی پوزیشن نہ ملتی۔ قیوم سر اپنے بیٹے کے لئے بہت اداس رہتےاور اسے سمجھانے کی خوب کوشش کرتے۔مگر توحید پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ اکثر اس کی شکایتیں بھی آنے لگی تھیں۔ وہ اپنے ابو کے اسکول ہیڈماسٹر ہونے کی وجہ سے سب بچوں پر خوب رعب جماتا، مار پیٹ کرتا اور ان سے اپنا ہوم ورک بھی کرواتا،وہ کہتامیرے ابوہیڈماسٹر ہیں وہ مجھے کچھ نہیںکہتے۔سب بچے اس کا حکم مانتے اور جو وہ کہتا کرتے ۔ اسی وجہ سے امتحان میں اس کا رزلٹ یہ تھا کہ وہ بمشکل پاس ہوا۔
فیضان اس کا ہم جماعت تھا جو اسکول کے بس ڈرائیور کا بیٹا تھا ۔ وہ بہت ہی ذہین اور ہونہار طالب علم تھا۔وہ اپنے اساتذہ کی عزت کرتا اور اپنے ساتھی دوستوں کی پڑھائی میںمدد بھی کرتا تھااور ساتھ ہی اسکول میں ہونے والی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔اساتذہ ہمیشہ فیضان کی تعریفوں کے پل باندھتے تھے جس کی وجہ سے توحید اس سے نفرت کرنے لگا تھا۔
توحید اب کسی بچے سے کچھ نہ کہتا مگرفیضان کو اکثر بچوں کے سامنے ڈانٹتا اور ذلیل کرتا کہ تمہارے ابو تو بس ڈرائیور ہیںاور تم لوگ غریب ہو۔غریب کی کوئی عزت نہیںہوتی۔فیضان خاموش ہوجاتا اور کچھ نہ کہتا۔ایک دن کلاس میںکچھ بچوں نےبھورو سر سے شکایت کی کہ ان کی چیزیں جیسےکاپی، پینسل اورقلم آئے دن غائب ہوجاتےہیں۔آج بھی کئی بچوں کی چیزیں غائب ہیں ،آپ ہی کچھ کیجیے۔بھورو سر نے دو بچوں ایان اور ریحان کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ بچوں کے بیگ چیک کریں۔ جب انہوں نے سارے بچوں کے بیگ چیک کیے تو توحید کےبیگ سے بہت سارے نئے قلم اور پینسل نکلے جنہیں دیکھتے ہی آئینہ اور دوسرے طلبہ نے کہا ” سر یہ ہمارے ہیں ” توحید نے بڑی معصومیت سے کہا” سر یہ قلم اور پینسل میں نے نہیں چرائے” ، مگر کسی نے اس کی بات پر یقین ہی نہیں کیا اور نہ ہی اس کے حق میں کسی نے بات کی۔ فیضان نے کہا “سر توحید ایسی کوئی حرکت نہیں کر سکتا”۔توحید اسےدیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس نےفیضان کے ساتھ کتنی زیادتی کی اور وہ پھر بھی اس کا ساتھ دے رہا ہے۔اگلے دن جیسے ہی فیضان کلاس روم میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا ناظم توحید کے بیگ میںکچھ ڈال رہا تھا۔وہ خاموشی سے باہر آگیا۔جب کلاس کا وقت ہوا سب بچے کلاس روم میں آگئے اور جب کلاس میں تارا میم آئیں تو فیضان نے کھڑے ہو کر کہا “میم آج میںنے دیکھا ناظم توحید کےبیگ میں کوئی چیز ڈال رہا تھا۔”
تارا میم نے سختی سے پوچھا تو ناظم گھبرا گیااور کہنے لگا “میم توحید میری ساری چیزیں لے لیتا تھا اور میں ڈر کے مارے خاموش رہتا تھاکیوں کہ اس کے ابو ہیڈماسٹر ہیں ،اس لیے میں نے یہ سب کیا تاکہ وہ سب کے سامنےذلیل ہو” یہ کہہ کر اس نے اپنا سر نیچے کی طرف جھکالیا۔توحید بہت شر مندہ تھا۔ اسے اندازہ ہوا کہ میم نےفیضان کی بات پر اس لیے یقین کیاکہ وہ اپنے علم اور اساتذہ کی عزت کرنے کی وجہ سے ایک بہتر مقام بنا چکا تھا۔وہ کہتا رہا کہ اس نے چوری نہیںکی مگر کسی نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا۔اس واقعے نےتوحید کو بالکل بدل دیا۔اس نے اب بچوں کو تنگ کرنا بھی چھوڑ دیا تھا ۔فیضان کئی دن سے اس بات پر غور کر رہا تھا کہ توحید اب وہ پہلے والا توحید نہیں رہا ،اب وہ سچ مچ بدل گیا تھا۔اب وہ سب کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آتا، اساتذہ کی عزت کرتا اور پڑھائی پر توجہ دینے لگا ہے۔اب وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ عزت صرف علم سے اور دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے اور اچھا سلوک کرنے سے ملتی ہےکسی اور کام سے نہیں۔
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here