شعور ہی تعلیم کا زیور ہے 

0
163
عارفہ مسعود عنبر،
تعلیم کا شعور سے رشتہ ایسے ہی ہے جسے پھول کا خوشبو سے، چاندنی کا چاند سے، سورج کا روشنی سے، پھول اپنی خوشبو کے سبب ہی فضاء کو معطر کرتے ہیں، ان کی خوشبو میں وہ کشش ہوتی ہے کہ چلتا راہگیر بھی چند لمحات کے لئے رک کر اپنے ذہن کو تازگی اور روح کو سکون بخشنا چاہتا ہے ۔لیکن اگر پھولوں سے ان کی خوشبو کو الگ کر دیا جائے تو وہ صرف سجاوٹ کے کام ہی آ سکتے ہیں، نہ روح کو مہکا سکتے ہیں نہ ذہن کو معطر کر سکتے ہیں، اسی طرح اگر چاند سے اس کی چاندنی کو الگ کر دیا جائے تو وہ صرف سیاہ دھبہ کے سوا۔کچھ نہی رہےگا، چاند اپنی چاندنی سے ہی تمام عالم کو ٹھنڈک اور روشنی عطاء کرتا ہے ،سورج سے اگر اس کی ضیاؤں کو چھین لیا جائے تو وہ آسمان میں اپنا وجود ہی کھو دیگا اور اپنے اندھےرے اور سیاہیوں سے دنیا کو اور زیادہ  پریشانیوں میں ڈال دیگا یہی حال ہماری تعلیم کا بھی ہے شعور کے بغیر تعلیم بھی ایسی ہی ہے جیسے خوشبو کے  بغیر پھول، چاندی کے  بغیر چاند، روشنی کے بغیر سورج، اگر انسان کے پاس صرف تعلیم ہے اور اسے شعور نہیں تو اکثر دیکھ گیا ہے کہ وہ انسان اپنی تعلیم کا غلط استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے ،انسان تعلیم حاصل کرکے اور اپنے پاس بہت ساری ڈگریوں کا اثاثہ اکھٹا کرکے خود کو بہت بڑا سرمایہ دار سمجھنے لگتا ہے، اور اپنے آپ کو اس عالیٰ مقام پر محسوس کرنے لگتا ہے جہاں پہنچ کر اس کو ہر چیز بہت چھوٹی نظر آنے لگتی ہے اور وہ انا پرستی میں اس قدر ڈوب جاتا ہے کہ انسانی حقوق کو پامال کرنے میں اسے ذرا سی بھی ازیت محسوس نہیں ہوتی، غریب اور کم علم اشخاس کو وہ حقارت کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے، اس کے ساتھ مراسم رکھنے، کھانے پینے ،آنے جانے ،اٹھنے بیٹھنے میں وہ اپنی توہین محسوس کرنے لگتا ہے، اس طرح وہ اپنی تعلیم کی دولت سے معاشرے کو فیضیاب کرنے کی بجائے بہت ساری خرابیاں پیدا کرنے کا زمہ دار بن جاتا ہے ۔اپنے اس عمل سے  لوگوں کو احساسِ کمتری کا شکار بنانے کا گناہ بھی وہ اپنے سر لے لیتا ہے ،تعلیم کی اہمیت و افادیت سے کبھی انکار نہیں کیا گیا ہے اور نہ کبھی کیا جا سکتا ہے، تعلیم ہی وہ زینہ ہے جس کی ایک ایک سیڑھی پر قدم
 رکھ کر ا نسان تمام  ناہمواریوں، ناکامیوں، محرومیوں، اسودگیوں کو ہرا کر کامیابی کی ان منازل پر پہنچتا ہے جہاں پہنچ کر وہ خود میں اعتماد محسوس کرنے لگتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک ہمارے پاس شعور کا زخیرہ نہ ہوگا تعلیم کا سرمایہ مکمل نہیں ہو سکتا شعور کے بغیر ہم اپنی تعلیم کا صحیح استعمال نہیں کر سکتے، شعور ہی تعلیم کا زیور ہے، تعلیم کے صحیح استعمال کا طریقہ ہمیں شعور ہی سکھاتا ہے، شعور کی ٰایک منزل یہ۔بھی ہے کہ۔وہ نہ۔صرف انسانی جزبات کو قابو کرنے کا سلیقہ سکھاتا ہے بلکہ برے اخلاق کاجواب بہترین اخلاق سے دےنے کا درس بھی دیتا ہے جس سے بد ترین دشمن کو بھی ایک بہترین دوست میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، شعور کی یہی وہ سطح ہے جہاں وہ تعلیم پر بھی فوقیت حاصل کر لیتا ہے، یہ شعور آتا کہاں سے ہے؟ کیا شعور حاصل کرنے کے لئے بھی تعلیم کی طرح مدرسے، درسگاہیں ،اسکول،کالج ‘ہوتے ہیں ؟نہیں، یہ شعور اتا ہے والدین کی نصیحتوں پر  عمل کرنے سے، انسانی جزبات کی قدد کرنے سے، ادبی مجالس میں شرکت کرنے سے، انسان چاہے جتنا پڑھ لکھ کیوں نہ لے لیکن اگر اس میں محبت، عطاعت ، خلوص ،ہمدردی ،انسانیت جیسے جزبات کے عناصر موجود نہیں ہیں تو وہ۔جاہل ہی رہےگا، اور کبھی بھی با شعور نہیں ہو سکتا جیسا کہ ابلیس کو اللہ نے بے شمار تعلیم اور عبادات سے نوازا تھا جس پر اسے غرور آ گیا اور وہ اپنی تملیم اور عبادات کے عزم میں یہ بھول گیا  کہ وہ کس عظیم الشان ہستی ہے حکم سے انکار کر رہا ے۔یہی زعم اس کے زوال کی وجہ بنا، اسی وجہ سے تعلیم کے ساتھ ساتھ شعور بھی نہایت ضروری ہے، تعلیم کے لئے اہمیت رکھتا ہے جیسے جسم کے لئے لباس  کی، شعور انسان میں حسن اخلاق پیدا کرتا ہے جس سے تعلیم کے حسن میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔۔۔۔
مراداباد
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here