9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عبد المنان صمدی
مرزا علی رضا کو یوپی شہر سنبھل میں رہتے ہوئے دو سال سے زائد ہوگیے.. ان کی عامل بیگ سے جن کا تعلق سبنھل کے قریب مشہور شاعر جگر مراد آبادی کا شہر مراد آباد سے ہے سنبھل پہلے ضلع مراد آباد ہی میں آتا تھا… لیکن مسلم اکثریت یا سیاسی رہنماؤں کی کاوشوں کے سبب آج سنبھل پیتل نگری مراد آبادسے الگ کردیا گیا
ویسے سنبھل خود اپنی ذاتی تاریخ کے سبب بھی جانا جاتا ہے ہے.. ہندوستان کی تاریخ میں ایک حکمراں ایسا بھی گزرا ہے جس نے سنبھل کو ہندوستان کا مرکز (یعنی راجدھانی) کا درجہ دیا.
اس کے علاوہ سنبھل میں سرائے کثیر تعداد میں ہیں. جن کی اپنی انفرادی تاریخ جس کا تذکرہ یہاں ممکن نہیں.. ایک سروے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سنبھل میں تقریباً ٥٢ سرائے ہیں. جن میں چند مشہور سرائے کے نام کچھ اس طرح ہیں..
دیپاسرائے
میاں سرائے
نوری سرائے
سرائے ترین
اور چودھری سرائے..
مرزا علی رضا اور عامل بیگ سنبھل کے چودھری سرائے میں رہتے ہیں.. سنبھل کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں کے نہ صرف عمر دراز یا بالغ بلکہ بچے بھی اس روانی عمدہ عمدہ گالیاں دیتے ہیں، جس روانی سے انسانی جسم میں خون دوڑتا ہے. اور گالی دینے کے لئے کوئی خاص موقع یا لڑائی جھگڑا کا ہونا شرط نہیں.. فقط گالیوں کا ذخیرہ ہونا شرط ہے..
مرزا علی رضا اکثر اس بات پر غور کرتے تھے کہ سنبھل کے لوگ کس قدر روانی کے ساتھ گالیاں دیتے ہیں اور ماشاءاللہ ذرہ برابر بھی اٹکتے نہیں… ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مرزا علی رضا اور عامل بیگ رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی کے لیے چودھری سرائے کے چوراہے تک نکلے… کچھ دیر چہل قدمی کر نے کے بعد واپسی میں مرزا نے دیکھا کہ ایک بچہ کھیل کے دوران اپنے دوست کو ماں، بہن کی نفیس گالیاں دے رہا ہے.. اور کوئی لڑائی یا جھگڑے کے سبب سے نہیں صرف کھیل کو صحیح کھیل کے تلقین کے لیے اس کو بہن والی گالی کا سہارا لینا پڑھ رہا تھا..
مرزا علی رضا نے عامل بیگ سے کہا دیکھ رہے ہیں بیگ صاحب اس بچے کو کیسے کیسے خوبصورت کلمات سے اپنے دوست کو مخاطب کر رہا ہے. اگر دیکھا جائے تو اس کی عمر 8یا 9 سے زائد نہ ہوگی.. اور کس قدر حسین و خوبصورت کلمات سے اپنے دوست کو نواز رہا ہے… بیگ صاحب نے مرزا سے پوچھا مرزا صاحب آپ کو اس بچے کی حرکت پر افسوس ہورہا ہے یا پھر غصہ آریا ہے
دونوں..
لیکن مجھے تو اس کی جسارت اور جذبہ پر حیرت ہورہی ہے کہ وہ اس عمر اتنا بڑا جذبہ رکھتا ہے جس عمر میں ہم اور اپنی ناک تک صحیح سے نہیں پہچ سکتے تھے.. اور اگر عورت ذات کے بارے میں کوئی غلط خیال بھی آجاتا تو استغفار کے ورد میں مشغول ہوجاتے تھے. ہم تو اپنی شریکِ حیات سے بھی خلوت ایسے مخاطب ہوئے.. جیسے جیل خانہ میں قیدی جیلر سے ہوتا ہے…
کیا بہودہ بات کر رہے ہیں آپ بیگ صاحب…
بہودہ بات نہیں حقیقت بیان کر رہا ہوں
کیسی حقیقت؟؟؟
ذرا سوچئے یہ بچہ جو کلمات اپنے دوست کے استعمال کررہا ہے کیا وہ کلمات آپ میرے لیے استعمال کر سکتے ہیں
ہرگز نہیں…
آپ کے لیے کیا وہ تو میں اپنے کسی دشمن کے لیے بھی نہیں کر سکتا…
پھر تو ان گالیوں میں جس فعل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کو آپ سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کبھی بھی عملی جامہ نہیں پہنا سکتے.
یقیناً…
لیکن آج آپ کس طرح کی بہودہ باتیں کیے جارہے ہیں بیگ صاحب…
نہیں جناب یہ بات بظاہر بہودہ ضرور ہیں. لیکن سوچئے آپ اس عمر میں تمام تقاضوں کو پورا کرنےکی قوت رکھنے کے باوجود ان کلمات کو نہ اپنی زبان پر لاسکتے ہیں اور نہ ہی ان کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں
جبکہ یہ بچہ اس چھوٹی سی عمر ان کلمات کا نہ صرف یہ کہ بخوبی استعمال کر رہا ہے بلکہ وقت آنے پر یہ قوت بھی رکھتا ہے کہ ان عملی جامہ بھی پہنا سکے…
حد ہوگئی آپ سے بیگ صاحب مسلمل غیر مہذب فعل کو مہزب بنانے کی کوشش کئے جارہے ہیں ، بھلا کوئی اپنے دوست کی بہن کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے،،
بیگ صاحب نے مسخرے انداز میں کہا بہت آسانی سے کر سکتا ہے…
مرزا… وہ کیسے؟؟؟؟
اس کو شریکِ حیات بناکر…….
علی گڑھ