شاعرقصیدہ (طنز و مزاح)

0
208
عزادار حسین ساجدؔ جلالپوری
ویسے قصیدہ قصد سے بنا ہے ۔لیکن اس کے لغوی معنی مغز یا گو دے کے ہیں۔جسے عام بول چال میں بھیجا کہا جاتا ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ اللہ نے جس شاعر کے بھیجے میں علم بھیجا ہے وہی تو قصیدہ لکھ پائے گا ورنہ دوسرا آدمی تومشکل میں پڑ جائے گا ۔ویسے اردو میں قصیدے زیادہ تر بادشاہوں ،امیروں و رئیسوں کی شان میں کہے گئے ہیں ۔اسی لئے بعض نقاد اسے چاپلوسی،خوشامد پسندی اور جھوٹی تعریف سے منسوب کرتے ہیں صاف بات ہے کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے عام انسانوں کوبھی کیا کیا کرنا پڑتا ہے ۔تو ہمارے شعراء کو بھی اللہ نے ایک عدد شکم سے نوازا ہے اور رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے چند برس بعد تو یہ تعداد واحد سے جمع میں تبدیل ہو جاتی ہے لہٰذا پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لئے ان کو محنت ،جتن اور لگن سے کا م توکرنا ہی پڑے گا چونکہ قدیم زمانے میں جب انڈسٹری،فیکٹری کا زمانہ نہیں تھا تو زیادہ تر لوگ شاہی درباروں سے وابستہ رہتے تھے جو جس لائق ہوتا اپنی خدمات پیش کرتا شعراء حضرات چونکہ موٹا کام کرنے سے عاجز تھے ۔لہٰذا یہ قلعہ،دربار ، محل وغیرہ کی تعمیر میں حصہ نہ لیکر بادشاہوں کی شان میں اپنے لفظوں، جملوںاور اشعار سے قصیدوں کے محل تعمیر کرتے تھے ۔ کوئی بھی خاص موقع ہوتا تو حضور کی شان میں قصیدوں کا نذرانہ لیکر دربار میں پہنچ جاتے اور اگر ظل سبحانی کو قصیدہ زیادہ پسند آگیا تو انعام و اکرام کی بارش ہو جاتی ورنہ قحط کا شکار ہو جاتے ۔کچھ واقعات ایسے بھی ملتے ہیں کہ ایک ایک قصیدہ کے عوض شاعروں کو اشرفیوں اور سونا،چاندی سے تول دیا گیا ۔
کچھ شعراء جب یہ واقعات پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں تو بہت پچھتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاش ہم اس زمانے میں ہوتے ۔ایک شاعر تو اکثر یہ مصرعہ پڑھتے رھے ہیں کہ
ع
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج تک وہ ایام پلٹ کر نہیں آئے۔
کچھ قصیدہ نگار شعراء قصیدہ کہنے پر آمادہ ہیں۔لیکن ان کو بادشاہ اور دربار میسر نہیں ہے یعنی لوہا گرم ہے لیکن اس کو کوئی پیٹنے والا نہیں ہے ۔جس سے کوئی نئی چیز عالم وجود میں آئے۔ایک بزرگ شاعر جنھوں نے اپنے آباؤ اجداد سے بادشاہوں ، وزیروں، امیروں کے واقعات اپنے ’’ذاتی کانوں‘‘ سے سنے ہیں ۔اور ان کی عنایا ت،نوازشات کی بارشوں کو آنکھوں سے برستے دیکھا ہے ۔ان کو اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ کاش اس دور میں میری ولادت ہوئی ہوتی تو میںبھی قصیدہ لکھ لکھ کر امیروں کی فہرست میں شامل ہوتا وہ تو آج کل کے امیروں اور سرمایہ داروں پہ طنز کر کے کہتے ہیںکہ ٹاٹا،برلا ،امبانی،وغیرہ دریا دل نہیں ہیں ورنہ یہ ہمیں اپنے بنگلہ اور محل سے وابستہ Attachکر لیتے ۔اور ہمارا وظیفہ معین کر دیتے ۔اگر یہ ادب نواز ہوتے تو ہم سے قصیدہ کی فرمائش کرتے اور ہم پوری کرتے ۔’’لیکن یہ دولت کے پجاری ہیں ، علم کے پجاری نہیں‘‘۔
ویسے پہلے قصیدہ کہنے والے شاعروں کازیادہ تر وقت درباروں میں ہی گزرتا تھا اور ان کو وہاں مستقل قلعہ میں حاضری دینی پڑتی تھی ۔اگر ان کے دروازے پر دستک دی جاتی تو اندر سے ان کی زوجہ محترمہ کی شاعرانہ آواز آتی کہ ؎
کرنا ہے ملاقات تو دربار میں جاؤ
 ایک شاعر نے شاید اسی لئے کہا ہوگا ؎
چلئے کچھ دیر ذرا مل لیں کسی غالب ؔسے
حضرت ذوقؔ تو وابستہ ہیں دربار کے ساتھ
کیوں کہ استاد ذوقؔبہادر شاہ ظفرؔ کے دربار سے وابستہ ہی نہیں بلکہ ان کے استاد بھی تھے اور بادشاہ نے ان کے ایک قصیدہ پر خوش ہوکر ’’خاقانی ٔ ہند‘‘ کا خطاب عطاکیا تھا ۔
بعض نقادوںکا قول ہے کہ قصیدہ لکھنے کے لئے درباروں سے وابستگی کوئی عیب کی بات نہیں ۔روٹی روزی کے لئے انسان حرام کام تک کر ڈالتا ہے یہ تو رزق حلال ہے ۔تھوڑا خوشامد پسندی ہی سہی ۔ایک نقاد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ قصیدہ کے شعراء توان راویانِ حدیث سے بہتر ہیں جنھوں نے جھوٹی حدیثیں گڑھ کر اپنا شکم بھرا تھا ۔ اس کی دلیل کے طور پر وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیںکہ ایک بار حضور کی وفات کے بعدعکہ میں ایک تاجر کے یہاں پیاز کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھااور سڑنے کی نوبت آگئی تو انھوں نے ایک صحابی سے کہا تو انھوں نے کچھ فیصدی درہم پر معاہدہ کرکے ایک حدیث گڑھ دی اور مکہ میں یہ اعلان کر وایا کہ جو شخص عکّہ کی پیاز خرید کر مکّہ میں کھائے تو اس پر جنت واجب ہو جائے گی ۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب پیاز کھانے سے جنت واجب ہو تو کیا کہنا۔بتاتے ہیں کہ یہ اعلان سنتے ہی تاجر کی پیاز اتنی تیزی سے ختم ہوگئی کہ اس کے چھلکے تک بک گئے۔ جب اس صحابی سے کسی نے کہا کہ حضور ؐ نے یہ حدیث اپنی حیات مبارکہ میں کبھی نہیں بیان کی تو انھوں نے اس کو خاموش کرکے دھیرے سے کہا کہ اپنے پیٹ کے لئے بھی ایک دو حدیثیںگڑھنی پڑتی ہیں۔
خیر یہ تو درباری قصیدہ کی بات تھی ۔ہمارے یہاں ایسے قصیدوںا ور شعراء کی تعداد بھی بہت ہے جو بزرگان دین ،انبیاء،اولیا کرام اور ائمہ کرام شان میں کہے گئے ہیں ۔یہ خالص قصیدہ(Original )کی کٹگری میں آتے ہیں۔اور یہ دنیا وی مال و زر کو چھوڑ آخرت میں کام آنے کے لئے کہے گئے ہیں ۔ ان کی تخلیق کا مقصد کسی بادشاہ کی خوشامد نہیں بلکہ بادشاہ دین و دنیا کی سر خروئی ہے اور یہی قصیدہ کااصل مقصد ہے ۔ کیونکہ دنیاوی دولت تو دنیا میں ختم ہوجائے گی اگر بچے گی تو ورثہ میں تقسیم ہو جائے گی  لیکن وہ دولت جو آخرت میں آپ کو مالا مال کردے وہ سب سے اہم دولت ہے اور حدیثوں میں یہاں تک لکھا ہے کہ قصیدے کی ایک ہیئت پر جنت میں ایک بیت بنتا ہے ۔اس لئے ہمارے شعراء کو دربار میسر نہیں لہٰذا پوری توانائی مذہبی قصیدے لکھنے پر صرف کر دی اور جنت میں ہزاروں لاکھوں گھروں اور محلات کے مالک بن گئے۔بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ مذ ہبی شعراء آخرت میں بہت بڑے بلڈر اور پرا پرٹی ڈیلر کے طور پر ابھریں گے ۔اور غزل گو شعراء ان کے پیچھے چلیں گے اور ان سے ایک گھر لینے کے لئے منت سماجت کریں گے۔اور پھر قصیدہ نگار شعرا ء کا ہاؤ باؤ محشر میں دیکھنے کے لائق ہوگا۔اور یہ آخرت میں امیر ترین لوگوں میں شمار ہوں گے ۔
تب ان کو اس بات کا احسا س ہی نہیں خوشی کی انتہا ہوگی کہ اچھا ہوا کہ ہم نے بادشاہوں کی شان میں قصیدے نہیں کہے لیکن آج جب میدان محشر میں سارے شعراء فقیرنظر آتے ہیں ہم جنت کے کئی فلیٹوں اور محلات کے مالک ہیں ۔
   موبائل۔9415581432
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here