سید محی الدین قادری زور کا نظریۂ آغازِ زبانِ اردو

0
1693

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ
لسانیاتی تحقیق کے میدان میں اردو زبان کے حوالے سے جن تین مقتدر علمی شخصیات نے پچھلی صدی میں غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے ان کے نام ہیں حافظ محمود خاں شیرانی 1880-1946) (،سید محی الدین قادری زور (1904-1962) ، اور مسعود حسین خاں1919-2010) (۔یہ تینوں شخصیتیں ایک لحاظ سے ہم عصر تھیں، لیکن محمود خاں شیرانی، محی الدین قادری زور سے پہلے وفات پا گئے تھے اور مسعود حسین خاں،زور کے انتقال کے بعد کافی عرصے تک بہ قیدِ حیات رہے تھے۔ ہر چند کہ ان تینوں اکابرینِ لسانیات کا اردو زبان کے تاریخی حوالے سے علمی میدان مشترک تھا، تاہم اردو کے آغاز و ارتقا کے سلسلے میں ان کے درمیان نظریاتی اختلافات پائے جاتے تھے۔ محی الدین قادری زور اگرچہ محمود خاں شیرانی کے کافی حد تک ہم خیال تھے، لیکن بعض امور میں وہ ان سے (شیرانی سے) پورے طور پر اتفاق نہیں کرتے تھے، اور مسعود حسین خاں نے ان دونوں (شیرانی اور زور) کے لسانی نظریوں سے شدید اختلاف کرتے ہوئے اردو کے آغازو ارتقا کا اپناایک الگ نظریہ قائم کیا تھا۔ (1)
متذکرہ تینوں لسانی محققین کی دل چسپی اردو زبان کے حوالے سے تاریخی لسانیات سے تھی۔ محی الدین قادری زور نے یورپ میں رہ کر اور مسعود حسین خاں نے یورپ اور امریکہ میں اپنے قیام کے دوران میں لسانیاتِ جدید (Modern Linguistics)  کی تربیت حاصل کی تھی۔ محمود خاں شیرانی اگرچہ جدید لسانیات یا تاریخی و تقابلی لسانیات کا کما حقہٗ علم نہ رکھتے تھے، اور نہ اس سلسلے میں انھوں نے یورپ یا امریکہ کی دانش گاہوں کی خاک چھانی تھی،(2) تاہم وہ ’علمِ السنہ‘ (Philology)سے بہ خوبی واقف تھے۔ محمود خاں شیرانی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’پنجاب میںاردو‘ 1928 میں شائع کی جس میں انھوں نے اردو زبان کے سرزمینِ پنجاب میں پیدا ہونے کا نظریہ پیش کیا۔(3) محی الدین قادری زور اس نظریے کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’یہ بات عجیب ہے کہ اردو اور پنجابی کے اصل تعلق کی نسبت کسی یورپی ماہرِلسانیات کا ذہن اب تک منتقل نہیں ہوا۔ اس کی طرف سب سے پہلے ہندوستانیوں ہی کی توجہ منعطف ہوئی اور ہندوستانی اہلِ قلم ہی نے اردو اور پنجابی کے اس بنیادی تعلق کو سب سے پہلے بے نقاب کیا۔ چنانچہ 1928 میں پروفیسر حافظ محمود شیرانی نے اپنی کتاب ’پنجاب میں اردو‘ میں اس خیال کو نہایت واضح انداز میں دلائل کے ساتھ پیش کیا تھا۔‘‘(4)
سید محی الدین قادری زور نے اپنے قیام یورپ کے زمانے میں لسانیات سے متعلق اپنی پہلی کتاب Hindustani Phoneticsکے نام سے تصنیف کی جو 1930 میں پیرس (فرانس) سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب اگرچہ بنیادی طور پر اردو صوتیات (Phonetics) کا توضیح و تجزیہ پیش کرتی ہے، لیکن اس میں اردو کے آغاز و ارتقا سے بھی بحث کی گئی ہے۔ لسانیاتی موضوع پریہ ان کی سب سے اہم کتاب ہے۔ گیان چند جین 1923-2007) (نے اپنے ایک مضمون میں اس کتاب کو لسانیات میں ان کا ’’اصل کارنامہ‘‘ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’ڈاکٹر زور کو لسانیات کی تاریخ میں کوئی مقام دیا جائے گا تو اسی کی بدولت‘‘۔ (5)لسانی موضوع پر اور اردو کے آغاز و ارتقا سے متعلق ان کی دوسری کتاب ’ہندستانی لسانیات‘ ہے جو ان کے یورپ سے ہندوستان واپس آنے کے بعد 1932 میں حیدر آباد سے شائع ہوئی۔ ان کتابوں کے علاوہ انھوں نے اردو لسانیات کے حوالے سے کئی مضامین بھی قلم بند کیے ہیں جن میں ’’اردو اور پنجابی‘‘ (مطبوعہ رسالہ ’نقوش‘ ]ادبِ عالیہ نمبر [، لاہور، بابت جولائی 1960) ،اور ’’اردو کی ابتدا‘‘ (مطبوعہ مجلّہ ’اردوئے معلی‘ ]لسانیات نمبر[، شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، بابت 1962) خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان مضامین کے مطالعے سے زور کے نظریۂ آغازِ زبانِ اردو کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
سید محی الدین قادری زور پہلے اردو اسکالر ہیں جنھوں نے آج سے پون صدی سے بھی قبل یورپ کی دانش گاہوں میں لسانیات کی اعلیٰ تربیت حاصل کی تھی اور تحقیقی مقالہ لکھ کر لندن یونیورسٹی سے 1929 میں لسانیات میں پی ایچ۔ ڈی(Ph.D).کی سند حاصل کی تھی۔ اس کے بعد وہ ڈی۔ لٹ(D. Lit.)کی ڈگری کے لیے فرانس چلے گئے تھے اور پیرس یونیورسٹی میں مشہور فرانسیسی ماہرِ لسانیات ژول بلاک 1880-1953) ( کی رہنمائی میں “Gujrati Form of Hindustani”(ہندستانی کی گجراتی شکل) پر تحقیقی مقالہ لکھنا شروع کردیا تھا جو بہ وجوہ پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
پیرس میں اپنے قیام کے دوران میں محی الدین قادری زور وہاں کی سوربون یونیورسٹی سے بھی کچھ عرصے تک منسلک رہے تھے۔ وہاں انھوں نے تجرباتی صوتیات (Experimental Phonetics)کی تربیت حاصل کی تھی، اور مختلف صوتی آلوں کی مدد سے اردو صوتیات سے متعلق عملی کام انجام دیا تھا۔ اس کام کے چند نمونوں کے عکس انھوں نے اپنی کتاب Hindustani Phonetics (1930)میں شامل کردیے ہیں۔اس سے پہلے لندن میں اپنے قیام کے دوران میں بھی انھوں نے اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں صوتیات کی تربیت حاصل کی تھی۔
جس زمانے میں محمود شیرانی کی کتاب ’پنجاب میں اردو‘ 1928) (شائع ہوئی ، اس سے ایک سال قبل محی الدین قادری زور نے بھی لندن یونیورسٹی میں اردو اور پنجابی کے رشتے پر غور و خوض کیا تھا، چنانچہ ان کے ’’مطالعے اور تلاش و جستجو‘‘ میں بھی یہی بات آئی تھی کہ اردوپنجاب میں پیدا ہوئی۔ وہ شیرانی کے اس نظریے سے کہ اردوپنجاب میں پیدا ہوئی اتفاق تو کرتے ہیں، لیکن اس بات کی بھی صراحت کرتے ہیں کہ جس وقت ’’اردو پنجاب میں بنی‘‘ اس وقت پنجاب اور دو آبۂ گنگ وجمن یعنی دہلی کے شمال مشرقی علاقے سے متصل مغربی یوپی کی زبان میں بہت کم فرق تھا، نیز یہ کہ برج بھاشا، کھڑی بولی اور جدید پنجابی زبانیں بعد کو پیدا ہوئیں۔ وہ اپنے مضمون ’’اردو کی ابتدا‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اِس کتاب ]’پنجاب میں اردو‘[کی اشاعت سے ایک سال قبل ہی راقم الحروف اردو کے آغاز و ارتقا کے موضوع پر لندن یونیورسٹی میں لسانی تحقیقات میںمصروف تھا۔ میرے مطالعے اور تلاش و جستجو میں بھی یہی حقیقت ]کہ اردو پنجاب میںپیدا ہوئی[بے نقاب ہوئی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ میں نے یہ واضح کیا کہ جس زمانے میں اردو پنجاب میں بنی اس وقت پنجاب اور دو آبۂ گنگ و جمن کی زبان میں بہت کم فرق پایا جاتا تھا۔ برج بھاشا، کھڑی بولی اور جدید پنجابی زبانیں بعد کو عالمِ وجود میں آئیں۔‘‘(6)
محی الدین قادری زور نے لندن یونیورسٹی میں پی ایچ۔ ڈی۔ کی سند کے لیے جو مقالہ داخل کیا تھا اس میں انھوں نے اپنے اس نظریے کو ’’شرح و بسط‘‘ کے ساتھ بیان کیا تھا۔ اس نظریے کا ذکر انھوں نے اپنی دونوں کتابوں، Hindustani Phonetics(1930) اور ’ہندستانی لسانیات‘1932) (میں بھی کیا ہے۔
یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ محمود خاں شیرانی اور محی الدین قادری زور دونوں محققین کا اس بات پر ا تفاقِ رائے ہے کہ اردو سرزمینِ پنجاب میں پیدا ہوئی، لیکن اس سے ہرگز یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اردو پنجابی زبان سے پیدا ہوئی۔ ہمارے اکثر عالم ان دونوں باتوں میں فرق کو نہیں سمجھتے اور اپنی تحریروں میں ان دونوں باتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کردیتے ہیں، اور یہ نتیجہ اخذکرتے ہیں کہ اردو پنجابی سے ’’نکلی‘‘ یا پیدا ہوئی ہے، یا یہ پنجابی سے ماخوذ ہے۔(7)اردو کے پنجابی سے نکلنے، پیدا ہونے، یا ماخوذ و مشتق ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیوں کہ جس زمانے میں اردو کے بیج سر زمینِ پنجاب میں پھوٹے اس زمانے میں وہاں پنجابی زبان کا وجود نہ تھا۔ پنجابی اس کے بعد کی پیداوار ہے۔ محی الدین قادری زور نے بھی یہی نظریہ پیش کیا ہے اور مذکورۂ بالا اقتباس میں کہا ہے کہ جدید پنجابی زبانیں بعد کو عالمِ وجود میں آئیں۔ محمود خاں شیرانی نے بھی اپنی تصنیف ’پنجاب میں اردو ‘ (1928) میں پنجاب ہی کو اردو کی ولادت گاہ مانا ہے اور اس کے پنجاب سے دہلی جانے کا نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں، بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے اور چوں کہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں!‘‘(8)
شیرانی آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’اردو اور پنجابی زبانوں کی ولادت گاہ ایک ہی مقام ہے۔ دونوں نے ایک ہی جگہ تربیت پائی ہے اور جب سیانی ہوگئی ہیں تب ان میں جدائی واقع ہوئی ہے۔‘‘ (9)
اس کے علاوہ شیرانی نے ’پنجاب میں اردو‘کے شروع میں ’’عرضِ حال‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک مختصر سی تحریر میں بھی پنجاب کو اردو زبان کی ابتدا اور اس کی نشو و نما کا ’’گہوارہ‘‘قرار دیا ہے۔ ان بیانات سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اردو پنجابی سے ’’نکلی‘‘ یا پیدا ہوئی یا یہ پنجابی سے مشتق ہے۔ محی الدین قادری زور نے اس بات کی مکمل طور پر صراحت کردی ہے کہ اردو پنجابی یا کھڑی بولی میںسے کسی سے بھی مشتق نہیں ہے۔ وہ ’ہندستانی لسانیات‘ میں لکھتے ہیں:
’’اردو نہ تو پنجابی سے مشتق ہے اور نہ کھڑی بولی سے، بلکہ اس زبان سے جو ان دونوںکی مشترک سرچشمہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ بعض باتوں میں پنجابی سے مشابہ ہے اور بعض میں کھڑی سے۔ لیکن مسلمانوں کے صدر مقام صدیوں تک دہلی اور آگرہ رہے ہیں۔ اس لیے اردوز یادہ کھڑی بولی ہی سے متاثر ہوتی گئی۔‘‘ (10)
اردو کے آغاز و ارتقا کے بارے میں حافظ محمود خاں شیرانی اور محی الدین قادری زور کے نظریات کے بعد جس نظریے کی علمی دنیا میں گونج سنائی دی وہ مسعود حسین خاں کا نظریہ تھا جو اپنی معروضیت، تجزیاتی استدلال اور تاریخی و لسانی شواہد کی بنا پر آج بھی اردو کے آغاز و ارتقا کا سب سے قابلِ قبول نظریہ (Most Acceptable Theory)تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسعود حسین خاں کے نظریے کا بنیادی ماخذ ان کی تحقیقی تصنیف ’ مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ہے جو پہلی بار 1948 میں دہلی سے شائع ہوئی تھی۔(11) اس کتاب کی اشاعت سے دو سال قبل محمود خاں شیرانی کا انتقال ہوچکا تھا، لیکن محی الدین قادری زور نے مسعود حسین خاں کی اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا اور ان کے نظریے سے متعلق اپنی رائے کا اظہار اپنے مضمون ’’اردو کی ابتدا‘‘ میں کھل کر کیا جس کاذکر آئندہ سطور میں کیا جائے گا۔
اردو کے آغاز و ارتقا سے متعلق مسعود حسین خاں نے اپنی گراں قدر تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں جو نظریہ پیش کیا ہے اس کے بنیادی نکات یہ ہیں:
-1    اردو 1193 میں مسلمانوں کی فتحِ دہلی کے بعد پیدا ہوئی۔
-2    اردو کا مولد و منشاء ’’حضرتِ دہلی‘‘ ہے، پنجاب نہیں۔
-3    اردو کی پیدائش میں نواحِ دہلی کی بولیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے جن میں ہریانوی اور کھڑی بولی خاص ہیں، چنانچہ ’’اردو کا ماخذ یہی بولیاں ہیں۔‘‘
-4   دکنی اردو نہ تو پنجابی کی زائیدہ ہے اور نہ پنجاب کی زبان ہے (جو بہ قولِ شیرانی ہجرت کرکے دہلی آجاتی ہے، پھر دکن پہنچتی ہے)، بلکہ یہ وہی زبان ہے جو مسلمانوں کی فتحِ دہلی 1193) (کے بعد دہلی اور نواحِ دہلی میں پیدا ہوئی جس پر ہریانوی بولی کے گہرے اثرات مرتسم ہوئے۔ قدیم اردو اور دکنی کا ’’پنجابی پن‘‘ اس کا ’’ہریانوی پن‘‘ بھی ہے جس کی توجیہ ہریانوی  کے تجزیے سے کی جاسکتی ہے۔
سب سے پہلے ہم اردو کا نقطۂ آغاز لیتے ہیں، اور اس کا تقابل محی الدین زور اور محمود شیرانی کے نظریوں سے کرتے ہیں۔ مسعود حسین خاں کے نظریے کے مطابق ’’اردو کا نقطۂ آغاز 1193میں مسلمانوں کا داخلۂ دہلی ہے۔‘‘(12)اس نظریے کو وہ تاریخی تناظر میں یوں پیش کرتے ہیں:
’’پنجاب پر غوریوں کے حملے 1186 سے شروع ہوجاتے ہیں۔ 1193 میں بالآخر ایک شکست کھانے کے بعد شہاب الدین غوری دہلی کے آخری ہندو سمراٹ پرتھوی راج کو شکستِ فاش دے کر دہلی اور اجمیر پر قابض ہوجاتا ہے، جہاں اس کا سپہ سالار قطب الدین ایبک، اس کے انتقال کے بعد1206 میں سلطنتِ غلاماں کی داغ بیل ڈالتا ہے۔ اردو کی ابتدا اور ارتقا کی اصل تاریخ اس کے بعد ہی سے شروع ہوتی ہے۔‘‘ (13)
سید محی الدین قادری زور کا نظریۂ آغازِ زبانِ اردو اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس ضمن میں وہ جوبات کہتے ہیں وہ یہ ہے:
’’اردو کا سنگِ بنیادد راصل مسلمانوں کی فتحِ دہلی سے بہت پہلے ہی رکھا جاچکا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے اس وقت تک ایک مستقل زبان کی حیثیت نہیں حاصل کی جب تک [کہ] مسلمانوں نے اس شہر کو اپنا پایۂ تخت نہ بنالیا۔‘‘(14)
حافظ محمود خاں شیرانی کہتے ہیں:
’’اصل یہ ہے کہ اردو کی داغ بیل اسی دن سے پڑنی شروع ہوگئی ہے، جس دن سے مسلمانوں نے ہندوستان میں آکر توطن اختیار کرلیا ہے۔‘‘(15)
مسعود حسین خاں نے اپنے بعض مضامین اور اپنی تحقیقی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں متعدد بار اپنے اس نظریے کا ذکر کیا ہے کہ اردو کا آغاز مسلمانوں کی فتحِ دہلی1193) (کے بعد ہوتا ہے۔ اس نظریے کے دو مضمرات ہیں: اول یہ کہ فتحِ دہلی کے بعد ’’دہلی و پیرا منش‘‘(دہلی و نواحِ دہلی) کی بولیاں اردو کا ’’اصل منبع ا ور سرچشمہ‘‘ قرار پاتی ہیں،(16)دوم، ان بولیوں میں عربی و فارسی الفاظ اور لسانی اثرات ’’نفوذ‘‘ کرتے ہیں۔ چنانچہ مسعود حسین خاں لکھتے ہیں:
’’ہندوستان کی زبانوں میں عربی فارسی الفاظ کا داخلہ ہی اردو کی تخلیق کی ضمانت نہیںکرتا، بلکہ جب یہ لسانی اثرات ’’زبانِ دہلی و پیرا منش‘‘میں نفوذ کرتے ہیں تب اردو کا پہلا ہیولیٰ تیار ہوتا ہے، اور یہ ہوتا ہے مسلمانوں کی فتحِ دہلی 1193) (کے بعد۔ اس سے قبل مسلمان پنجاب ا ور لاہور میں حکمراں کی حیثیت سے دو سو برس تک متمکن رہ چکے تھے۔‘‘(17)
محی الدین قادری زور کے نظریے کے مطابق فتحِ دہلی1193) (سے قبل یہی ’’دو سو برس‘‘ کا زمانہ جس کے دوران میں مسلمانوں نے پنجاب میں قیام کیا تھا، اردو کی پیدائش کا زمانہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پنجاب1193 تک ایک آزاد حکومت رہا جس کا دارالخلافہ لاہور تھا۔ جب دہلی فتح ہوئی اور محمد غوری کے سپاہیوں نے اس پر قبضہ کیا تو پنجاب دہلی کا ایک صوبہ بن گیا۔ لیکن اس سے پہلے کے دو سو سالوں میں جب کہ پنجاب غزنویوں کاجائے قرار تھا، ایک بین قومی زبان کا پیدا ہونا ضروری تھا۔‘‘(18)
’’بین قومی زبان‘‘ سے ان کی مراد کوئی اور زبان نہیں، بلکہ اردو ہی تھی۔ مسعود حسین خاں اور محی الدین قادری زور دونوں نے اپنی تحریروں میں علی الترتیب ’’دو سو برس‘‘ اور ’’ دو سو سالوں‘‘ کا ذکر کیا ہے۔یہ ’’ دو سو برس‘‘ فتحِ دہلی 1193) (سے پہلے کا زمانہ ہے جس کے دوران میں مسلمان پنجاب میں سکونت پذیر تھے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پورے دو سو سال ( گیارھویں صدی کے اوائل سے بارھویں صدی عیسوی کے اواخر تک) کے عرصے میں جب مسلمان پنجاب میں سکونت پذیر تھے تو وہاں کون سی زبان رائج تھی؟ مسعود حسین خاں کا خیال ہے کہ لاہور کو مرکزی حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے یہاں پنجابی-ترکی -فارسی کی ادبی فضا قائم ہوگئی تھی۔ اسی ادبی فضا میں مسعود سعد سلمان کا ’’ظہور‘‘ہوتا ہے جو ترکی اور فارسی کے قادر الکلام شاعر تھے۔(19)مسعود سعد سلمان 1046-1121) (  ہندوی کے بھی شاعر تھے۔ ان کے بارے میں محمد عوفی 1171-1242) ( اور امیر خسرو 1253-1325) ( کی شہادتیں موجود ہیں، اس کے باوصف مسعود حسین خاں ان کے ہندوی دیوان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’یہ غالباًلاہوری (پنجابی) میں ہوگا، زبانِ دہلوی میں نہیں۔‘‘ (20)  زبانِ دہلوی سے ان کی مراد ہندوی یا ہندی ہے جو ا ردو کے قدیم نام ہیں۔ یہ فتحِ دہلی 1193) (کے بعد ارتقا پاتی ہے۔چنانچہ مسعود حسین خاں کے نظریے کے مطابق مسلمانوں کی فتحِ دہلی سے پہلے کے دو سو برسوں کے دوران میں پنجاب میں پنجابی زبان کا چلن تھا، ہندوی یا ہندی کا نہیں۔ اسی قیاس یا نظریے کی بنیاد پر انھیں مسعود سعد سلمان کے ہندوی/ ہندی کا شاعر ہونے سے انکار ہے۔
صورتِ واقعہ یہ ہے کہ 1000سنہِ عیسوی میں جب شورسینی اپ بھرنش کا خاتمہ ہوگیا تو اس کے بطن سے اس علاقے میں دبے پائوں جدید ہند آریائی زبانوں کے بیج پھوٹنے لگے جن میں مغربی ہندی (=کھڑی بولی، ہریانوی، برج بھاشا، بندیلی، قنوجی)، پنجابی (مشرقی)، راجستھانی اور گجراتی زبانیں شامل ہیں۔ شورسینی اپ بھرنش اپنے آخری دور میں متذکرہ جدید ہند آریائی زبانوں کی قدیم شکلوں سے بہت کچھ ملتی جلتی تھی کہ زبانوں میں تبدیلیاں اچانک رونما نہیں ہوتیں، بلکہ ا رتقائی عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔چنانچہ جس ’’دو سو برس‘‘ یا ’’دو سو سالوں‘‘ کے زمانے کا ذکر علی الترتیب مسعود حسین خاں اور محی الدین قادری زور کرتے ہیں، وہ شورسینی اپ بھرنش کے ارتقا اور اس سے جدید ہند آریائی زبانوں کے بیچ پھوٹنے کا زمانہ ہے۔ اسے شورسینی اپ بھرنش اور جدید ہند آریائی زبانوں کے درمیان کی ’’منزل‘‘ بھی کہا گیا ہے اور ’’اوہٹھ‘‘کا نام بھی دیا گیا ہے۔ چنانچہ شیرانی اور زور کے مطابق پنجاب میں اردو کا ارتقا اسی دور میں ہوتا ہے۔ ان ’’دو سوسالوں‘‘ کے دوران میں شورسینی اپ بھرنش سے پیدا شدہ زبانوں (جن کا ذکر اوپر آچکا ہے) میں بہت کم فرق تھا، چنانچہ محی الدین قادری زور لکھتے ہیں:
’’]جدید[ہند آریائی دور کے آغاز کے وقت پنجاب کی اور دہلی کے نواح کی زبانوں میں بہت کم فرق تھا۔ ان کی اُس وقت کے اختلافات ظاہر کرنے والی بہت کم خصوصیتوں کا اِس وقت تک پتا چلا ہے۔ یہ واقعہ در اصل بارھویں صدی عیسوی کے بعد کا ہے کہ موجودہ زبانوں نے ان اختلافات کی پرورش شروع کی جو آج انھیں ایک دوسرے سے جدا ظاہر کرتے ہیں۔‘‘(21)
محی الدین زور کا اس بات پر اصرار ہے کہ ا ردو مسلمانوں کی فتحِ دہلی1193) ( سے پہلے پیدا ہوئی اور پنجاب میں پیدا ہوئی۔ ان کے نظریے کے مطابق جس زمانے میں اردو پیدا ہوئی اس وقت پنجاب میں بولی جانے والی ز بان اور دو آبۂ گنگ و جمن کی زبان تقریباً ایک ہی تھی۔ ان دونوں علاقوںکی زبانوں میں آج جو فرق ہے وہ بعد میں پیدا ہوا۔ اسی نظریے کو وہ اور وضاحت کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’موجودہ زمانے میں یہ بتانا مشکل ہے کہ کس ٹھیک ٹھیک وقت سے پنجاب کی اور نواحِ دہلی کی زبان میں فرق پیدا ہونے لگا۔ یقین ہے کہ یہ فرق مسلمانوں کے قبضۂ دہلی کے بعد سے شروع ہوا ہے۔ ابتدا میں وہ صرف ایک تدریجی تغیر ہوگا، مگر آخر کار ان دونوں مقامات کی بولیوں کے درمیان ایک ا یسا خلیج حائل ہوتا گیا کہ ایک پنجابی بن گئی اور دوسری کھڑی بولی۔‘‘(22)
محی الدین زور پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ ’’اردو نہ تو پنجابی سے مشتق ہے اور نہ کھڑی بولی سے، بلکہ اس زبان سے جو ان دونوں کی مشترک سرچشمہ تھی۔‘‘ اس ’’مشترک سرچشمہ‘‘ یامشترک زبان کا ارتقا انھی ’’دو سو سالوں‘‘میں ہوا جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، یعنی پنجاب پر غزنوی حملوں کے آغاز 1001) (سے لے کر مسلمانوں کی فتحِ دہلی1193) (تک کا زمانہ۔
شیرانی کی طرح محی الدین زور بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اردو دہلی میں نہیں، بلکہ پنجاب میںپیدا ہوتی ہے اور جب مسلمان پنجاب میں تقریباً دو سو برس تک قیام کرنے کے بعد دہلی پہنچتے ہیں تووہ اپنی زبان کو بھی پنجاب سے دہلی لے جاتے ہیں۔ مشہور ماہرِ لسانیات سنیتی کمار چٹرجی 1890-1977) (بھی شیرانی اور زور کے اس نظریے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی کتاب Indo-Aryan and Hindi (1942)میں لکھتے ہیں:
“It is likely that Punjab Muhammadans who came to Delhi as followers of the Turki and Persian conquerers had … brought their dialect to Delhi.” (23)
محی الدین زور کے نظریے کی رو سے ’’نئے ہند آریائی دور‘‘ میں جس زمانے میں اردو پنجاب میں پیدا ہوئی، اس وقت پنجاب کی اور نواحِ دہلی کی زبانوں میں بہت کم فرق تھا، چنانچہ اس نظریے کی تائید سنیتی کمار چٹرجی کے یہاں بھی ملتی ہے جو یہ لکھتے ہیں:
“The language that they (Muslims) first adopted was naturally that current in the Punjab… It is even likely that an almost identical speech was current in central and western United Provinces and eastern Punjab.”(24)
واضح رہے کہ یہ نظریات محی الدین قادری زور اپنی کتاب ’ہندستانی لسانیات‘ میں 1932 میں پیش کرچکے تھے جن کی تائید چٹرجی نے اپنی متذکرہ کتاب میں دس سال بعد 1942) میں) کی ہے۔
اردو کی دکنی شاخ کے بارے میں محی الدین قادری زور کا یہ نظریہ ہے کہ یہ وہی زبان ہے جو پنجاب میں پیدا ہونے کے بعد دہلی آئی، پھر دہلی سے کھڑی بولی کے اثر سے بچتی ہوئی دکن پہنچی- ان کے خیال کے مطابق ’’اس نے ]دکنی اردو نے[بہت سی وہ خصوصیتیں محفوظ رکھیں جو آج پنجابی سے مشابہ ہیں۔ یہی در اصل وہ راز ہے جو شمال اور جنوب کی اردو میں آج تک ا ختلاف کا باعث ہے۔‘‘(25)اس بیان کے چند صفحات کے بعد وہ دکنی اور پنجابی کی مشابہت کا پھر سے ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شمالی ہندوستانی=]شمالی اردو[پر کھڑی بولی کا ایسا گہرا اثر مرتسم ہوا کہ اس کی بہت سی ابتدائی یا اصلی خصوصیتیں مفقود ہوگئیں اور جو کچھ باقی رہیں وہ مسخ شدہ حالت میں ہیں۔ اس کے برخلاف دکنی میں قدیم سے قدیم شکلیں ا ور خصوصیتیں بالکل محفوظ ہیں، جن کی بنا پر وہ جدید پنجابی کے بہت کچھ مشابہ ہے۔‘‘(26)
محی الدین قادری زور کے اس نظریے سے مسعود حسین خاں کوشدید اختلاف ہے۔ ان کے خیال کے مطابق قدیم اردو اور دکنی کا ’’پنجابی پن‘‘ اس کا ’’ہریانی پن‘‘ بھی ہے، کیوں کہ وہ یہ مانتے ہیں کہ ’’ہندوستان کی جدید آریائی زبانوں کے طلوع کے وقت ہریانی اور پنجابی میں خط ِفاصل قائم کرنا دشوار تھا،‘‘(27)چنانچہ وہ دکنی اردو کی توجیہ پنجابی سے کرنے کے بجائے ہریانی (ہریانوی) سے کرتے ہیں، کیوں کہ ہریانہ جہاں کی یہ بولی ہے، پنجاب کے مقابلے میں دہلی سے زیادہ قریب ہے اور زبانیں اپنے قرب وجوار کی ہی زبانوں سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’قدیم دکنی زبان کے مطالعے کے سلسلے میں اب تک ہریانی کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے، حالاں کہ یہی زبان ہے جو قطع نظر شہرِ دہلی، ضلع دہلی میں آج بھی بولی جاتی ہے۔‘‘(28)واضح رہے کہ مسعود حسین خاں 1987 تک اپنے اس نظریے پر قائم تھے کہ ’’قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست ہریانی کے زیرِ اثر ہوئی ہے، اس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑتے ہیں،‘‘(29)لیکن جب انھوں نے ’مقدمۂ تا ریخِ زبان اردو‘ کا 1987 میں ساتواں ایڈیشن شائع کیا تو اس میں ’’تھوڑی سی نظریاتی ترمیم‘‘ بھی کی۔ اردو کے آغاز کے سلسلے میں انھوں نے پہلے اولیت ہریانوی بولی کو دی تھی، لیکن جب ان کے نظریے میں تبدیلی واقع ہوئی تو انھوں نے کھڑی بولی کو اولیت دے دی اور ہریانوی کو ثانوی درجے پر پہنچا دیا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست دو آبہ کی کھڑی [بولی ]اور جمنا پار کی ہریانوی کے زیرِ اثر ہوئی ہے۔‘‘(30)
سید محی الدین قادری زور نے اپنے مضمون ’’اردو کی ابتدا‘‘ میںمسعود حسین خاں کے اس نظریے کی کہ قدیم اردو اور دکنی اردو کا ارتقا ہریانوی سے ہوا ہے، سخت تنقید کی ہے۔ مسعود حسین خاں نے اردو کی جو توجیہہ ہریانوی سے کی ہے اسے محی الدین قادری زور ان کی ’’ایک اہم فرو گذاشت‘‘ تصور کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ’’دکنی اردو نے جس وقت پنجاب میںنشو و نما حاصل کی اس وقت ہریانی اور کھڑی بولی تو کجا خود برج بھاشا بھی ایک جداگانہ زبان کی حیثیت سے عالمِ وجود میں نہیں آئی تھی۔‘‘(31)وہ مسعود حسین خاں کی کتاب ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قصہ مختصر یہ کہ ہریانی کو اردو کا ماخذ ثابت کرنے کی کوشش میں ڈاکٹر مسعود حسین خاں کی پوری کتاب ایسے گنجلک اور مبہم و متضاد بیانات سے معمور ہو گئی کہ ان پر ایک سرسری تبصرے کے لیے بھی کافی وقت اور فرصت درکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب محنت اور تلاش و جستجو سے لکھی گئی ہے اور مصنف نے لسانیاتی مسائل سے گہرے شغف کا ثبوت دیا ہے، لیکن محض جیولزبلاک کی سند پر ایک پورا نظریہ قائم کرنے اور پنجاب میں آغازِ اردو کے نظریے کو غلط ثابت کرنے کی سعی میںاپنی ساری قابلیت وقف کردی ہے۔‘‘(32)
حیرت کی بات ہے کہ محی الدین قادری زور، جنھوں نے اپنی کتاب ’ہندستانی لسانیات‘ 1932) (میں اردو پر ہریانوی کے ’’قابلِ لحاظ اثر‘‘ کا ذکر کیاتھا، اپنے (کافی بعد کے) ایک مضمون ’’اردو کی ابتدا‘‘ میں مسعود حسین خاں کے آغازِ اردو کے بارے میں ہریانوی کے نظریے کو اس طرح اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ چنانچہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ محی الدین زور نے ’ہندستانی لسانیات‘ 1932) (میں اردو کے تعلق سے ہریانوی (جسے ہریانی اور بانگڑو بھی کہتے ہیں) کے بارے میں کن خیالات کا اظہار کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہاں ایک اور بات مدِ نظر رکھنی چاہیے کہ اردو پر بانگڑو یا ہریانی زبان کا بھی قابلِ لحاظ اثر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ زبان دہلی کے شمال مغرب میں انبالہ کے اطراف اس علاقے میں بولی جاتی ہے]جو[پنجاب سے دہلی آتے ہوئے راستے میں واقع ہے، اور دہلی پر حملہ کرنے والوں یا وہاں کے حکمرانوں کے ہمراہ اسی علاقے کے رہنے والے بہیر و بنگاہ کی حیثیت سے دہلی اور اس کے نواح میں آکر آباد ہوئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فاتح و مفتوح کے میل جول سے جوزبان بنتی چلی آرہی تھی اس میں ہریانی عنصر بھی شامل ہوتا گیا۔‘‘(33)
واضح رہے کہ ہریانوی دہلی کے شمال مغربی علاقے کی بولی ہے اور اس کا شمار نواحِ دہلی کی بولیوں میں ہوتا ہے۔ مشہور فرانسیسی ماہرِ لسانیات ژول بلاک (Jules Bloch) نے اپنے ایک مضمون “Some Problems of Indo-Aryan Philology” (مطبوعہ بلیٹن آف دی اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز]لندن[، جلد5 ، بابت(1928-1930میں اردو کے آغاز کے سلسلے میں ہریانوی کی اہمیت پر ’’زور‘‘ دیا ہے۔(34)واضح رہے کہ یہ وہی ژول بلاک ہیں جو پیرس یونیورسٹی (فرانس) میں محی الدین  زور کے ڈی. لٹ(D.Lit.)کے مقالے “Gujrati Form of Hindustani” (ہندستانی کی گجراتی شکل) کے نگراں تھے۔ مسعود حسین خاں کا خیال ہے کہ ژول بلاک کی تحریروں ہی سے متاثر ہو کر انھوں نے ’ہندستانی لسانیات‘ 1932)) میں اردو پر ہریانوی کے ’’قابلِ لحاظ اثر‘‘ کا ذکر کیا ہے،(35)لیکن جب مسعود حسین نے ژول بلاک کی تحریروں سے تحریک پاکر ہریانوی اور اردو کے لسانیاتی رشتے پر غور و خوض کیا اور اردو کے ہریانوی سے مشتق ہونے کا ایک مدلل نظریہ پیش کیا تو عقل حیران ہے کہ زور نے اس نظریے کی اتنی شدت کے ساتھ کیوں کر تردیدکی؟
اس بحث و تمحیص کے بعد ہم سید محی الدین قادری زور کے نظریۂ آغازِ زبانِ اردو کے اہم نکات کو اجمالی طور پر یوں بیان کرسکتے ہیں:
-1 اردو پنجاب میں پیدا ہوئی، دہلی و نواحِ دہلی میں نہیں۔
-2 نئے ہند آریائی دور کے آغاز 1000) (کے بعد گیارھویں اور بارھویں صدی عیسوی کا زمانہ اردو کی پیدائش کا زمانہ ہے۔ (یہ مسلمانوں کی فتحِ دہلی] 1193 [سے قبل تقریباً دو سو سال کے عرصے کو محیط ہے)۔
-3 اردو نہ تو پنجابی سے مشتق ہے، اور نہ کھڑی بولی سے، کیوں کہ جس زمانے میں اردو پنجاب میں پیدا ہوئی،  اس وقت ان زبانوں کا وجود نہ تھا۔
-4 اردو اس زبان سے پیدا ہوئی جو پنجابی اور کھڑی بولی دونوں کا مشترک سرچشمہ تھی۔
-5 جب اردو پنجاب میںپیدا ہوئی، اس وقت پنجاب کی زبان میں اور دو آبۂ گنگ و جمن کی زبان میں بہت کم فرق تھا اور صوبۂ سرحد سے الٰہ آباد تک لگ بھگ ایک ہی زبان رائج تھی۔
-6 دکنی (اردو) پنجاب میں پیدا ہوئی اور جب یہ دہلی آئی تو اس نے خود کو کھڑی بولی کے اثر سے بچا کر رکھا۔ اس میں اور پنجابی زبان میں مشابہت کی یہی وجہ ہے۔ دکنی اردو کے لسانی امتیازات کی توجیہہ پنجابی زبان سے کی جاسکتی ہے، نہ کہ ہریانوی سے جو کہ فتحِ دہلی کے بعد کی پیداوار ہے۔
ان میں سے بعض نکات حافظ محمود خاں شیرانی کے نظریۂ آغاز زبانِ اردو سے تو میل کھاتے ہی ہیں، لیکن اردو کے ایک معروف یورپی اسکالرٹی۔گریہم بیلی (T.Grahame Bailey)کے بعض خیالات سے بھی مطابقت رکھتے ہیں جو لندن میں محی الدین قادری زور کے استاد تھے۔ (36)
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ٹی ۔ گریہم بیلی نے بھی اپنی کتاب A History of Urdu Literature (1932)میں اردو کے پنجاب میں پیدا ہونے کا نظریہ پیش کیا ہے۔ بیلی کی یہ کتاب اگرچہ لندن سے 1932 میں شائع ہوئی، لیکن وہ اسے 1929 ہی میں مکمل کر چکے تھے۔ اس زمانے میں محی الدین قادری زور لندن ہی میں مقیم تھے، چنانچہ بیلی کی اس کتاب کی پروف خوانی کا سارا کام انھوں نے ہی انجام دیا جس کے لیے بیلی نے اپنی اِس کتاب کے دیباچے (“Preface”) میں ان کا شکریہ ادا کیا۔ گمانِ غالب ہے کہ محی الدین زور کے ذہن میں اردو کے پنجاب میں بننے یا پیدا ہونے کا خیال بیلی کی اس کتاب کے مطالعے سے آیا ہوگا۔ بیلی لکھتے ہیں:
“The formation of Urdu began as soon as the Ghaznavi forces settled in Lahore in 1027.” (37)
بیلی ’’1027‘‘ کو اردو کا نقطۂ آغاز قرار دیتے ہیں، اور ’’لاہور‘‘ کو اردو کی جائے پیدائش بتاتے ہیں۔ وہ اسے ’’لاہوری اردو‘‘ کہتے ہیں جو ان کے بہ قول قدیم پنجابی پر مشتمل ہے جس پر فارسی کے گہرے اثرات پڑے۔ بیلی لاہوری اردو کی دوسری (بعدکی) شکل کو ’’دہلوی اردو‘‘ کہتے ہیں جس کی ابتدا 1193 سے ہوتی ہے اور جس پر کھڑی بولی کے گہرے اثرات پڑتے ہیں ، لیکن جو اُس وقت لاہوری اردو سے بہت مختلف نہیں تھی۔
اس حقیقت سے انکار نہیںکیا جاسکتا کہ اردو کے آغاز و ارتقا کے سلسلے میں محی الدین قادری زور کے نظریے کو آج استناد کا درجہ حاصل نہیں، کیوں کہ اس نظریے کے قیام کو پون صدی سے بھی زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے۔ اس دوران میں لسانیاتی تحقیق کافی آگے نکل چکی ہے اور مسعود حسین خاں جیسے جیّد عالمِ لسانیات کو بھی اپنے نظریے میں ترمیم کرنی پڑی ہے۔ اب اردو کے آغاز کا یہی نظریہ مستند تسلیم کرلیا گیا ہے کہ اردو کی بنیاد کھڑی بولی پر قائم ہے اور کھڑی بولی ہی سے تشکیل پاکر وہ یہاں تک پہنچی ہے۔ کھڑی بولی دہلی کے شمال مشرق اور مغربی یوپی کی بولی ہے جسے جاٹ بولتے تھے۔فتحِ دہلی 1193) (کے بعد نو وارد مسلمانوں نے عوامی رابطے کی غرض سے اس بولی کو اپنا لیا، اس میں عربی و فارسی کے الفاظ داخل کیے اور اسے ہندوی /ہندی کے نام سے موسوم کیا۔ اسے ادبی اظہار کا ذریعہ بھی مسلمانوں ہی نے بنایا۔ اردو نے اپنی ارتقاپذیری کے عمل کے دوران نواحِ دہلی کی دوسری بولیوں کے اثرات بھی قبول کیے جن میں ہریانوی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ دکنی اردو پر ہریانوی کے اثرات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ جس زمانے میں اردو دہلی و نواحِ دہلی میں تشکیل پارہی تھی، اس زمانے میں پنجابی (مشرقی) اور ہریانوی میں ’’خطِ فاصل‘‘ قائم کرنا دشوار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دکنی اردو کے جن لسانی امتیازات کی توجیہہ مسعود حسین خاں ہریانوی سے کرتے ہیں انھیں محی الدین قادری زور پنجابی کے مشابہ قرار دیتے ہیں۔
تحقیق ایک ایسا شعبۂ علم ہے جس میں کوئی بھی چیز حرفِ آخر تصور نہیںکی جاسکتی۔ لسانیاتی تحقیق اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ اردو کا لسانیاتی ادب اس امر کا شاہد ہے کہ ماضی میں ا ردو کے آغاز و ارتقا کے کئی نظریے قائم ہوئے، لیکن نئی تحقیقات کی روشنی میں رَد کردیے گئے۔ آج کا مستند نظریہ بھی کچھ عجب نہیں کہ آنے والے کل کی نئی تحقیقات کی روشنی میں رَد کردیا جائے۔ کسی بھی نوع کے تحقیقی نتیجے کے استحکام کی کوئی بھی محقق ضمانت نہیں دے سکتا۔ سید محی الدین قادری زور اگرچہ ایک بلند پایہ لسانی محقق تھے جنھوںنے مغرب کی دانش گاہوں میں رہ کر لسانیاتِ جدید کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی، لیکن ان کے نظریے کو بھی استحکام حاصل نہ ہوسکا اور آج اس کی محض ایک تاریخی اہمیت رہ گئی ہے اور بس!چنانچہ اردو کی لسانی تاریخ جب جب رقم کی جائے گی، محی الدین قادری زور کے نظریۂ آغازِ زبان اردو کا ذکر ضرور آئے گا۔انھوں نے زبان اور علمِ زبان کے بارے میں مکمل آگہی کے بعد ہندوستان میں ایک ایسے دور میں لسانیاتی مطالعات کو فروغ دیا جب لوگ بہ مشکل اس شعبۂ علم کی جانب منعطف ہوتے تھے، لیکن افسوس کہ وہ لسانیات اور لسانیاتی مطالعہ و تحقیق سے اپنی دل چسپی اور شغف کو برقرار نہ رکھ سکے۔ ا نھیں بعض دوسری علمی و ادبی مصروفیات نے اس بات کا موقع ہی نہ دیا کہ وہ لسانیات کے میدان میں کوئی اور قابلِ قدر کارنامہ انجام دیتے۔ گیان چندجین نے بجا طور ان کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر وہ ’’لسانیات سے دل چسپی لیتے رہتے تو ملک کے بڑے ماہرین لسانیات میں شمار کیے جاتے۔‘‘(38)انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ڈاکٹر زور لسانیات کی دنیا میں بڑی گھن گرج سے آئے۔ وہ نہ صرف اردو میں ، بلکہ ہندوستان کی جملہ زبانوں میں علم زبان کے قافلہ سالاروں میں سے ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس، انھوں نے نے اپنے شوق کو جاری نہ رکھا۔ ‘‘ (39)
حواشی
-1 دیکھیے مسعود حسین خاں کے نظریے کے لیے ان کی جامع تحقیقی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘،ساتویں اشاعت (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہائوس، 1987)۔
-2 حافظ محمود خاں شیرانی علومِ شرقیہ کے ماہر تھے، لیکن انگریزی زبان میں ان کی استعداد بہت معمولی تھی، پھر بھی ان کے والد نے بیرسٹری کی تعلیم کے لیے انھیں 1904 میں انگلستان بھیجاتھا۔
-3 اردو کے پنجاب میں پیدا ہونے کا نظریہ حافظ محمود خاں شیرانی سے قبل شیر علی خاں سرخوش اپنے تذکرے ’اعجازِ سخن‘1923) (میں پیش کرچکے تھے۔
-4 سید محی الدین قادری زور، ’’اردو کی ابتدا‘‘، مشمولہ ’اردو لسانیات‘، مرتبہ فضل الحق، (دہلی: شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، 1981 (، ص 41۔
-5 گیان چند جین، ’’ڈاکٹر زور کی لسانی خدمات‘‘، مشمولہ ’لسانی مطالعے‘ از گیان چند جین (نئی دہلی : ترقیِ ارد و بورڈ،1973، ص 265۔
-6 سید محی الدین قادری زور، ’’اردو کی ابتدا‘‘، مشمولہ فضل الحق (مرتب)، محولۂ بالا کتاب، ص 41۔
-7 عبدالغفار شکیل نے اپنے ایک مضمو ن کا عنوان ’’اردو پنجابی سے نکلی -نظریۂ شیرانی نہیں‘‘ تجویز کیا جو ان کے مجموعۂ مضامین ’لسانی و تحقیقی مطالعے‘(علی گڑھ : شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1975 (میں شامل ہے۔
-8 محمود خاں شیرانی، ’پنجاب میں اردو‘(لکھنؤ: نسیم بک ڈپو، 1970)، ص 19۔
-9 ایضاً ،ص 99۔
-10 سید محی الدین قادری ز ور، ’ہندستانی لسانیات‘ (لکھنؤ: نسیم بک ڈپو، 1960 (، ص95۔]پہلی اشاعت، 1932 (،
-11 مسعود حسین خاں کی تحقیقی تصنیف ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ کے 1948 سے لے کر اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کتاب کا ساتواں ایڈیشن 1987 میں علی گڑھ سے شائع ہوا جس میں انھوں نے اردو کے ماخذ کے بارے میں ’’تھوڑی سی نظریاتی ترمیم‘‘ کی ہے۔
-12 مسعود حسین خاں، ’اردو زبان: تاریخ، تشکیل، تقدیر‘ (علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1988 (، ص 5۔]خطبۂ پروفیسرایمے ریٹس جو 13جنوری 1988 کو علی گڑھ میں دیا گیا[۔
-13 مسعود حسین خاں،محولۂ بالا کتاب ص 77-78۔
-14 سید محی الدین قادری زور، محولۂ بالا کتاب ، ص 94۔
-15 حافظ محمود خاں شیرانی، محولۂ بالا کتاب، ص 54۔
-16 مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ص 262۔
-17 ایضاً، ص 76۔
-18 سید محی الدین قادری زور، محولۂ بالا کتاب ، ص 93۔
-19 مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ص 76۔
-20 مسعود حسین خاں، محولۂ بالا خطبۂ پروفیسرایمے ریٹس ، ص 16۔
-21 سید محی الدین قادری زور، محولۂ بالا کتاب ،ص 95۔
-22 ایضاً، ص 95۔
-23 سنیتی کمار چٹرجی، Indo-Aryan and Hindi،دوسرا ایڈیشن (کلکتہ: فرما کے ایل ۔مکھوپادھیائے، 1960)، ص 67۔]پہلا ایڈیشن، 1942 [
-24 ایضاً ،ص 167۔
-25 سید محی الدین قادری زور، محولۂ بالا کتاب ، ص 97۔
-26 ایضاً، ص 103۔
-27 مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ’’پیش لفظ‘‘۔
-28 ایضاً، ص 236۔
-29 دیکھیے ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ کی 1987 سے قبل کی اشاعتیں، مثلاً چوتھی اشاعت (علی گڑھ: سرسیدبک ڈپو، 1970) کا صفحہ 241۔
-30 دیکھیے مسعود حسین خاں کی کتاب ’مقدمہ تاریخِ زبانِ ا ردو‘ کا ساتواں ایڈیشن (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہائوس، 1987)، ص 236۔
-31 سید محی الدین قادری زور، ’’اردو کی ابتدا‘‘، مشمولہ فضل الحق (مرتب)، محولۂ بالا کتاب، ص52۔
-32 ایضاً ،ص 53۔
-33 سید محی الدین قادری زور، محولۂ بالا کتاب، ص 95-96۔
-34 دیکھیے مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ’’پیش لفظ‘‘ اور ص 237۔
-35 مسعود حسین خاں، محولۂ بالا کتاب، ص 237۔
36ـ- ٹی ۔ گریہم بیلی (T.Grahame Bailey) اپنی کتاب A History of Urdu Literature (1932)کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
“I wish to express my thanks to an old student of my own, Mohiuddin Qadri, of the Osmaniya University, for having read all the proofs of the volume and made valuable suggestions.
T. Grahame Bailey.  London, April, 1932.”
-37 ٹی ۔ گریہم بیلی (T.Grahame Bailey)، A History of Urdu Literature(لندن، 1932) ، ص 3۔
-38 گیان چند جین، محولۂ بالا کتاب، ص 264۔
39- ایضاً ۔
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here