سفیر حسین ؑ ابن علی ؑحضرت مسلم ؑ ابن عقیل ؑ

0
1035

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

خورشید رضا فتح پوری

محسن اسلام حضرت ابو طالب علیہ السلام کے چار فرزند تھے۔ حضرت جعفر ؑ،حضرت عقیل ؑ، حضرت علی ؑاور حضرت طالب ؑ۔ حضرت مسلم علیہ السلام حضرت عقیل ؑ کے بیٹے تھے۔ جو حضرت علی ؑ اور جناب ام البنین ؐ کے داماد تھے۔ یعنی علمدار حسینی حضرت عباس ؑ کی ہمشیرہ جناب مسلم ابن عقیل سے منسوب تھیں۔ آپ انتہائی شجاع و بہادر ہو نے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانی خصوصیات کے مطابق انتہائی متقی و پرہیز گار ، دیندار اور امام حسین ؑ سے محبت کر نے والے ، شیدا اور وفادار تھے۔ امام حسین ؑ کو جناب مسلم ابن عقیل ؑ پر مکمل اعتماد و اعتبار تھا اور اسی اعتماد کی بنا پر امام حسین ؑ نے جناب مسلم ؑ کو اپنا سفیر بنا کر کوفہ بھیجا تھا۔ جہاں تک مسلم ؑ کی شجاعت و بہادری کا سوال ہے امام حسین ؑ کے پاس تین طاقتیں ایسی تھیں کہ اگر کربلا میں یہ تینوں قوتیں یکجا ہو گئی ہو تیں تو شائد جنگِ کر بلا کا انداز ہی دوسرا ہو تا۔ ان میں ایک شخصیت جناب محمد حنفیہ کی تھی دوسری جناب مسلم ابن عقیل ؑ کی اور تیسری جناب عباسِ علمدار کی مگر چوں کہ امام حسین ؑ کا مقصد جنگ نہیں بلکہ دین اسلام کی بقاء کے لئے قربانیاں پیش کر نا تھا لہٰذا امام عالی مقام نے ان تینوں طاقتوں کو تقسیم کر دیا۔ جناب محمد حنفیہ کو مدینہ منورہ میں ہی چھوڑ دیا اور جناب مسلم ابن عقیل ؑ کو اپنا سفیر و نائب بنا کر کو فہ بھیج دیا۔ صرف جناب عباس ؑ ابن علی ؑ کو اپنے ساتھ کربلا لے گئے۔
امام حسین ؑ کو جناب مسلم ابن عقیل پر مکمل اعتماد تھا جیسا کہ امام حسین ؑ کے ان خطوط سے بھی ظاہر ہے جو انھوں نے معززین کو فہ کے ان خطوط کے جوابات میں لکھے تھے جو اہلِ کوفہ نے انھیں کو فہ تشریف لا نے کے لئے تحریر کئے تھے۔ اہل کوفہ نے لکھا تھا کہ ’’ہم بلا امام ہیں آپ تشریف لے آئیں۔ ہم آپ کے منتظر ہیں۔ اگر آپ تشریف نہ لا ئے تو یوم حشر آپ ہمارے اعمال کے ذمہ دار ہوں گے۔ ہم نے اتمام حجت کر دیا ہے۔‘‘
امام حسین ؑ نے مومنین کو فہ کو خط لکھا کہ ’’چونکہ تم نے اتمام حجت کی بات کی ہے لہٰذا منجانب اللہ مجھ پر فرض ہے کہ میں تمہاری دعوت کو قبول کروں۔ مقد مہ کے طور پر میں اپنے برادرِ عم (چچا زاد بھائی) اور اپنے معتمد خاص مسلم ؑ ابن عقیل ؑ کو تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔ اگر مسلم ؑ نے مجھے لکھا کہ جو کچھ تم نے لکھا تھا تم اس پر قائم ہو تو میں بہت جلد تمہارے پاس آجا ئوں گا۔ ‘‘ امام حسین ؑ کے اس خط سے جناب مسلم ؑکا معتمد خاص ہو نا مسلم الثبوت ہے۔
امام حسین ؑ نے ضروری ہدایات اور دعا ئے عافیت کے ساتھ جناب مسلم ؑ ابن عقیل ؑ کو گلے لگا کے بعد کوفے روانہ کیا۔ قیس ابن مہصر صداوی اور ایک کوفی گروہ کو بھی ساتھ کیا۔ جناب مسلم ؑ نے اپنے دو بیٹوں جناب محمد اور جناب ابراھیم کو بھی ساتھ لیا اور ۵؍ رمضان المبارک عازم سفر ہو ئے۔ راستے میں بہت سی دشواریوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا خصو صاً پانی کی کمی اور پیاس کی زبردست تکلیف برداشت کر نا پڑی بمشکل تمام ۵؍ شوال المکرم کو کوفہ پہنچے۔ اشراف کوفہ نے مسلم ابنِ عقیل ؑ کا زبر دست استقبال کیا۔ نائب امام سمجھ کرآپ کے دست مبارک پر ۲۰؍ ہزار لوگوں نے بیعت کی۔
اس وقت کوفہ کا گور نر نعمان ابن بشیر تھا جس نے احتیاط سے کام لیتے ہو ئے جناب مسلم ؑ کے خلاف کوئی عملی کاروائی نہیں کی تھی ۔ کوفے کے لوگ جوق در جوق آکر جناب مسلم کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔ یہ خبریں یزید کے لئے اچھی نہیں تھیں۔ چنانچہ یزید نے نعمان بن بشیر کو ہٹا کر عبد اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا۔ جو انتہائی ظالم ، مکار و دشمن اہلبیت ؑ تھا۔ وہ چھپتے چھپاتے کوفہ پہنچا اور دار الامارہ میں داخل ہو کر اس کا دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ امومی سیاست کے تحت اس نے کو فیوں میں پھوٹ ڈالنا شروع کر دی اور ظلم و جبر کے ساتھ ان پر دبائو بنا لیا۔ ……لوگوں کی پکڑ دھکڑ گرفتاریاں کرائیں ظلم و تشدد کا بازار گرم ہو گیا۔ ہر طرف دہشت پھیل گئی لوگوں کی ہمتیں پست ہو نے لگیں۔ اہم اورباو قار شخصیتوں کو قید خانوں میں ڈال دیا گیا۔ بہتوں کو پھانسیاں دے دی گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لو گوں میں جناب مسلم ؑ کا ساتھ دینے کا جذبہ سرد پڑتا گیا جن لوگوں نے جناب مسلم ؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی وہ بیعت توڑ توڑ کے جانے لگے۔ جناب مسلم ایک دوراندیش اور محتاط شخص تھے۔ آپ نے کوفے کو خانہ جنگی سے بچائے رکھنے کی کامیاب کوشش کی۔ اگر آپ چاہتے تو اپنے اعوان و انصار کی مدد سے ابنِ زیاد پر چڑھائی کر سکتے تھے لیکن آپ کے لائحہ عمل میں دشمن پر حملہ کرنا نہیں تھا۔ امام حسین ؑ کی طرف سے اسکی اجازت بھی نہیں تھی۔ نفس کی بلندی اور خاندانی شرافت نے اسکی اجازت بھی نہ دی کہ دھوکے سے ابن زیاد کو قتل کر دیں جبکہ شریک کے گھر میں روپوشی کے درمیان آپکو اسکا موقع بھی ملا تھا۔ اگر جناب مسلم ؑ دھوکے سے ابن زیاد کو قتل کر ڈالتے تو نبی امیہ کو اہلبیت ؑ پر الزام تراشی کا موقع مل جا تا۔ جناب مسلم ؑ امام حسین ؑ کے نمائندہ تھے وہ دھوکھا و فریب کا سہارا نہ لے کر اپنی زندگی کی آخری سانس تک اہلبیت ؑ کی دعوت حق کی روش پر گا مزن رہے۔اہلبیت ؑ نے ناحق خونریزی کو نہیں پسند کیا۔ ظلم و زیادتی سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔د شمن سے جنگ میں کبھی پہل نہ کی انہوں نے انسانیت کی بقا اور اسلام کی سربلندی کے لئے ہمیشہ ایثار و قربانی کا راستہ ہی اختیار کیا۔ جناب مسلم ؑ اہلبیت ؑ کی ہی ایک فرد تھے۔ جناب مسلم جان دے سکتے تھے مگر دھوکہ نہیں دے سکتے تھے۔ ابن زیاد کے دبائو، خوف اور دہشت کے سبب مسلم ابن عقیل ؑ کی بیعت کر نے والوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ عشا کی نماز کے بعد جب مسلم نے گھوم کے دیکھا تو انکے پیچھے نماز پڑھنے والوں میں ایک فرد بھی نہ تھی۔
جناب مسلم ؑ ابن عقیل ؑ نے کو فہ کی ایک با اثر شخصیت صحابی رسول جناب ہانی کے گھر میں پناہ لی ۔ جناب ہانی سردارِ قبیلہ تھے جب وہ سوار ہو کے نکلتے تھے تو انکے جلومیں چارہزار زرہ پوش اور آٹھ ہزار پیادے ہو تے تھے اور جب وہ آواز دیتے تھے ۳۰؍ ہزار زرہ پوش سوار ان کی ایک آواز پر جمع ہو جا تے تھے۔ (مروج الزہب مسعودی جلد ۳) ۔
ابن زیاد نے حضرت ہانی کو دھوکے سے بلا یا اور دارلامارہ میں قید کر لیا۔ جب یہ خبر پھیلی تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ بہت بڑی جماعت جناب مسلم کی حمائت و قیادت میں اس امر پر آمادہ ہو گئی کہ جناب مسلم ؑ جناب ہانی کی رہائی کے لئے ابن زیاد پر حملہ کی اجازت دے دیں۔ ادھر ابن زیاد نے جناب ہانی کو قتل کر دیا۔
جناب مسلم کو جب یہ خبر ملی تو آپ ہانی کے گھر سے باہر نکل آئے اور اپنے چاہنے والوں کو ساتھ لے کر دشمن سے زبردست جنگ کی مگر محمد ابن اشعب ، شمر ذی الجو ش اور کنیز ابن شہاب شیش ابن ربعی نے لوگوں کو بہکا یا اور اس قدر خوف دلایا کہ جناب مسلم کے ساتھی ڈر گئے۔ سب نے ساتھ چھوڑ دیا ۔ یہاں تک کہ نمازِ مغربین میں آپ کے ساتھ ۳۰؍ آدمی رہ گئے تھے اور جب آپ نے نماز ختم کی تو کوئی نہ تھا آپ تن تنہا رہ گئے تھے۔ کو فے سے باہر جا نے کے تمام راستے بند تھے ۔ آپ نے محمد ابن کثیر کی دعوت پر انکے یہاں پناہ لی ۔ ابن زیاد نے محمد ابن کثیر کو مع فرزند بلوا یا اور سر زنش کی دربار میں زبر دست جنگ ہو ئی جس میں محمد ابن کثیر اور انکے فرزند دونوں نے جام شہادت نوش فرمائے۔ انکی شہادتوں کی خبر ملنے پر جناب مسلم انکے گھر سے بھی باہر نکل آئے اور بے یارو مدد گار لا چاری میں دن ایک مسجد میں گزارا۔ رات کو باہر آئے شدید بھوک اور پیاس کی حالت میں کو فے کی گلیوں کے چکر کا ٹتے ہو ئے ایک ضعیفہ طوعہ کے دروازے پر جا کر بیٹھ گئے۔ ضعیفہ در وازے پر کھڑی تھی آپ نے پانی پلا نے کی درخواست کی۔ اس نے پانی پلا یا اور کہا کہ ’’اے شخص کو فہ کے حالات بہت پرآشوب ہیں لہٰذا جلد اپنے گھر چلا جا ‘‘۔ جناب مسلم نے جواب دیا کہ اے مومنہ جس کا کوئی گھر ہی نہ ہو وہ کہاں جا ئے ۔‘‘ طوعہ نے تعارف چاہا اور یہ معلوم ہونے پہ کہ آپ ہی جناب ِ مسلم ہیں اسی نے اپنے گھر میں بااحترام پناہ دی۔ طوعہ کے دشمن بیٹے نے ماں سے چھپا کر ابن زیاد کو جناب مسلم کے اپنے گھر میں موجود ہو نے کی خبر دے دی۔ صبح ہو تے ہی محمد ابن اشعث کی سر براہی میں تین ہزار سواروں کا لشکر آپہنچا ۔ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سن کر جناب مسلم طوعہ کے گھر سے باہر نکل آئے وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ فوجی طوعہ کے گھر میں داخل ہو جا ئیں اور اس کی بے پر دگی ہو جائے ۔ جناب مسلم نے تن تہاز بردست جنگ کی اور ہاشمی تیغ زنی کے جوہر دکھا ئے شجاعت کا یہ حال تھا کہ ایک سوار کی کمر پکڑ کر اسے آسمان کی طرف اچھا ل دیتے تھے اور جب وہ نیچے گر تا تھا تو اپنی تلوار پر روک لیتے تھے جس سے وہ کٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جا تا تھا۔ ابن اشعث نے مزید فوج مانگی تو ابن زیاد نے کہا کہ ایک انسان سے لڑنے کے لئے کتنی فوج چاہئے؟ تو ابن اشعث نے جواب دیا کہ تو کیا سمجھتا ہے کیا کسی بنئے بقال سے جنگ ہے؟ ارے یہ ہاشمی سورما عقیل کا فرزند اور علی ؑ کا بھتیجا ہے۔ ان سے جنگ کر نا آسان نہیں ہے۔‘‘ جناب مسلم کو دھوکے سے گرفتار کر نے کے لئے راستے میں ایک گڑھا کھود کر اسے خس و خاشاک سے ڈھک دیا گیا۔ جب جنگ کر تے ہو ئے جناب مسلم وہاں تک پہنچے تو اس گڑھے میں گر گئے۔ انھیں گر فتار کر کے بے حد زخمی حالت میں ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔ کسی نے کہا کہ ’’مسلم تم نے امیر کو سلام نہیں کیا‘‘۔ جناب مسلم نے جواب دیا کہ میرے امیر صرف حسین ؑ ابن علی ؑ ہیں۔ آپ کو پشت دارالامارہ پر لے جا یا گیا آپ نے نماز پڑھنے کی خواہش کی نماز ادا کر نے کے بعد مدینہ کی جانب رخ کر کے کہا ’’اسلام علیک یا ابا عبد اللہ ۔ کوٹھے سے آپکو نیچے پھینک دیا گیا ۔ نیچے تشریف لا نے پر آپ کا سر قلم کر دیا گیا۔ اس طرح ۹؍ ذی الحجہ کو جناب مسلم کی شہادت واقع ہو ئی۔
کوفے کے حالات بگڑنے سے قبل جناب مسلم کے امام حسین ؑ کو لکھے ہو ئے ایک خط (جس میں انھوں نے کوفے تشریف لا نے کے لئے لکھا تھا) کے مطابق وہ مدینہ سے نکل چکے تھے راہ میں ایک مقام (ابالہ) پرآپ خیمہ زن تھے جہاں آپ کو ایک کو فے سے آنے والے مسافر نے خبردی کہ جب وہ کو فہ سے چلا تھا تو جناب مسلم ابنِ عقیل اور جناب حانی کی پیروں میں رسی باندھ کر لاشوں کو کو فے کی سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا تھا۔ آپ نے گریہ کیا اور خیمے میں تشریف لا ئے مسلم کی دختر کو بلا کر سر پر دستِ شفقت پھیرا اور راہ میں خرید ے ہو ئے گوشوارے محبت و شفقت کے ساتھ پنھا ئے۔
ادھر کو فے میں ظلم کی انتہا ابھی نہیں ہو ئی بلکہ جناب مسلم کے دونوں کم سن فرزندوں کو جو قاضی شریح کے گھر میں پو شیدہ تھے ابنِ زیاد نے گرفتار کرا لیا۔ دربانِ زندان اتفاقاً محبت آلِ محمد تھا اس نے رات کے وقت بچوں کو آزاد کر دیا۔ جسکو صبح کو قتل کر دیا گیا۔ پسران مسلم قید سے رہا ہو کر قادسیہ کی طرف چلے مگر راستہ بھول گئے ساری رات گزارنے کے بعد صبح ہو تے ایک درخت پر چڑھ کر چھپ گئے درخت کے نیچے ایک کنواں تھا۔ اتفاقاً ایک عورت پانی بھرنے آئی اس نے پانی میں بچوں کا عکس دیکھ کر اپنی مالکہ کو خبر دی جو مومنہ تھی۔ یہ جان کر کہ فرزندانِ مسلم ہیں وہ دوڑ کر آئی اور بچوں کو اپنے گھر لیجا کر ایک خالی گوشہ میں ٹھرا دیا۔ اس مومنہ کا شوہر حارث بن عروہ ایک ملعون تھا۔ وہ ابن زیاد سے انعام و اکرام کی لالچ میں بچوں کو تلاش کر رہا تھا۔ کھانے کے بعد وہ سونے کے لئے اپنے بستر پر لیٹ گیا کہ شب کے سناٹے میں بچوں کی سانسوں کی آواز محسوس کی۔ اٹھ کر بیوی سے پوچھا حجرے سے یہ کسی کی سانسوں کی آواز آ رہی ہیں ۔ بیوی نے کوئی جواب نہ دیا۔ حارث زبردستی حجرے میں داخل ہو گیا اور معصوم بچوں کے رخساروں پر طمانچے مار کر ایک کھمبے سے باندھ دیا۔ ساری رات بے بسی و بے کسی میں کٹی صبح ہو تے ہی بچوں کو قتل کر نے کے لئے دریا کی طرف لے چلا پسر بیوی اور غلام کے منع کرنے پر اور راہ میں حائل ہو نے پر بیٹے اور غلام کو قتل کر دیا۔ نہر فرات پر لیجا کر وہ بچوں کو قتل کر نا چاہتا تھا۔ بچوں نے وصیتیں کر نے کے بعد(۲) دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت مانگی۔ نماز ادا کر نے کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھا ئے ہی تھے کہ ملعون حارث نے تلوار تان لی۔ بڑے بھائی نے منت کی کہ پہلے مجھے قتل کرو اور چھوٹے نے بھی التجا کی کہ پہلے مجھے قتل کرو۔ غر ض کہ حارث نے دونوں کو قتل کر کے انکی لاشوں کو نہر میں ڈال دیا ۔ پہلے بڑے بھائی کی لاش پانی میں ڈالی جو پانی پر ٹھری رہی جب چھوٹے بھائی کی لاش پانی میں ڈالی گئی تو دونوں لا شیں بغل گیر ہو کر پانی میں ڈوب گئیں۔ حارث نے دونوں بچوں کے سروں کو لیجا کر ابن زیاد کو پیش کئے وہ تین بار اٹھا بیٹھا اور ھکم دیا کہ یہ سر اسی جگہ پانی میں ڈال دیئے جا ئیں۔ جب سروں کو پانی میں ڈالا گیا تو ڈوبے ہوئے جسم اطہر سطح آپ پر ابھر آئے اور اپنے اپنے سروں سمیت پھر ڈوب گئے۔ اس طرح جناب ِ مسلم ابن عقیل اور انکے فرزندوں کی شہادتیں بھی شہیدانِ کربلا کی طرح ہی انتہائی درد انگیز و اندوہناک ہو نے کے ساتھ ساتھ راہ خدا میں بقائے دین اسلام کی اعلیٰ ترین مثالیں قرار پائیں۔ جو ہر درد مندا نسان کو آنسو بہا نے پر مجبور کر دیتی ہیں۔لعن اللہ علی ادعہم الظالمین۔
٭٭٭
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here