’’ستارہ جو ڈوب گیا‘‘ پروفیسر مجاور حسین رضوی کے مضمون کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ

0
382
प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

 ـــــــ محمد عارف اقبال ــــــ

ـ

بیسویں صدی میں اردو کے عظیم ادیب، شاعر اور ناول نگار ابن صفی (پ: اپریل 1928 بروز جمعہ۱؎) جن کا خاندانی نام اسرار احمد ہے، 26 جولائی 1980 کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ اس موقع پر اردو دنیا کے ادیبوں، دانشوروں اور ان کے قارئین نے تعزیتی تاثرات قلم بند کیے۔ ابن صفی کے قریبی ساتھی پروفیسر مجاور حسین (پ: 15 اکتوبر 1930) نے بھی ایک تاثراتی مضمون ’ستارہ جو ڈوب گیا‘ لکھا تھا۔ یہ مضمون ’جاسوسی دنیا الٰہ آباد کے علاوہ 1981 میں کراچی کے ’نئے افق‘ ڈائجسٹ میں بھی شائع ہوا۔ یہی مضمون من وعن کراچی کے راشد اشرف نے اپنی کتاب ’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘ (مطبوعہ 2012) میں شامل کیا ہے۔ البتہ پروفیسر مجاور حسین کے قائم کردہ عنوان کے ساتھ راشد اشرف نے غالباً عنوان کے سقم کو دور کرنے کے لیے مزید ایک عنوان کا اضافہ کرتے ہوئے اس کا عنوان اس طرح رکھا: ’’ستارہ جو ڈوب گیا — روشنی جو باقی رہے گی‘‘ پروفیسر مجاور حسین کا یہ تاثراتی مضمون یقینی طور سے اپنے موضوع پر بہتر اور معلومات افزا ہے۔ مجاور صاحب ہی ایسا مضمون لکھ سکتے تھے کیوںکہ ان کا اور ابن صفی کا ابتدائی سات سالہ ’یارانہ‘ بڑا ہی بے تکلف تھا۔ انہوں نے ایک اہم بات یہ بھی لکھی ہے کہ ’’محلے میں ان کی (ابن صفی) حیثیت ’امین‘ کی تھی۔ لوگ اپنی امانتیں رکھاتے تھے، پھر لے جاتے تھے۔‘‘ ایک جگہ مجاور صاحب نے درست لکھا ہے کہ ’’الٰہ آباد کے دورانِ قیام میں ایک شادی ہوئی لیکن سال بھر بعد ہی ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ ان سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔‘‘ ۲؎  اپنے مضمون میں وہ آگے لکھتے ہیں: ’’کراچی پہنچ کر ایک شادی کی جن سے ۴ لڑکے اور ۴ لڑکیاں ہیں۔ پھر عقد ثانی بھی کیا لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔‘‘۳؎   مجاور صاحب اپنی بات کو اگر اس طرح لکھتے کہ کراچی پہنچ کر عقد ثانی کیا، پھر تیسرا عقد بھی کیا تو اس سے یہ بات واضح ہوجاتی کہ ابن صفی نے اپنی حیات میں کل تین شادیاں کیں۔ اسی طرح مجاور صاحب نے 1960 میں ابن صفی کے عارضہ کو ’جگر کی خرابی‘ لکھا ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’میرے سامنے ہی وہ بیمار ہوئے اور یہ سلسلہ ۶۳ء تک چلا۔‘‘ حالانکہ ابن صفی 1960 سے 1963 تک تقریباً تین برس شیزوفرینیا (Schizophrenia) کے مرض میں مبتلا تھے جس کا شافی علاج حکیم اقبال حسین مرحوم نے کیا تھا اور وہ پہلے کی طرح بالکل صحت مند ہوگئے تھے۔ ناول نگاری وغیرہ کا سلسلہ حسب معمول جاری ہوگیا تھا۔ کینسر کی تشخیص 1979 کے اواخر میں ہوئی تھی۔ یہی مرض انتقال پر منتج ہوا۔ مجاور صاحب نے لکھا ہے کہ ان کو ابن صفی کے انتقال کی اطلاع ایک شاگرد نے یکم اگست کو کسی اخبار کے حوالے سے دی تھی۔ ان کے بقول انتقال 25 جولائی (1980) کو ہوا تھا اور 26 کو دفن کیے گئے۔ حیرت ہے کہ ابن صفی کے ورثا کی طرف سے جس بات کی تصدیق ہوئی وہ 26 جولائی ہے۔ اس کا مشاہدہ کراچی کے پاپوش قبرستان میں ابن صفی کی قبر پر لگے کتبے سے کیا جاسکتا ہے جس پر انتقال کی تاریخ 26 جولائی 1980 کندہ ہے۔ پروفیسر مجاور حسین ایک زمانے میں سہ روزہ اخبار ’نیادور‘ کے سب ایڈیٹر رہے۔ ’ابن سعید‘ کے قلمی نام سے ناول نگاری بھی کی۔ ان کے ناول بھی نکہت پبلی کیشنز سے شائع ہوتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ابن صفی الٰہ آباد سے کراچی ہجرت کرچکے تھے۔ مجاور حسین صاحب نے لکھا ہے کہ ابن صفی کے والد صاحب پاکستان ہی میں تقسیم سے قبل ملازم تھے۔ حالانکہ ان کو لکھنا چاہیے تھا ’کراچی میں تقسیم سے قبل‘۔ تقسیم سے قبل پاکستان کہاں تھا۔ ابن صفی ’اگست 1952‘ میں اپنی والدہ اور ہمشیرہ کے ہمراہ کراچی چلے گئے۔ انہوں نے کراچی میں اسرار پبلی کیشنز کے نام سے ادارہ قائم کیا اور اسی کے تحت اپنے ناول کی اشاعت کا آغاز کیا۔ کراچی سے شائع ہونے والے تمام ناولوں میں ابن صفی ’پیش رس‘ بھی لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے بنیادی طور پر دو قسم کے مستقل کرداروں پر ناول لکھے۔ یہ ناول دراصل دو طرح کے جغرافیائی ماحول میں لکھے گئے ہیں۔ فریدی- حمید کے کرداروں پر لکھنے کا آغاز الٰہ آباد (ہندوستان) میں کیا۔ اس کے بعد عمران سیریز کے ناول کا آغاز 1955 میں پاکستان سے کیا گیا۔ عمران سیریز کا پہلا ناول ’خوفناک عمارت‘ اگست 1955 میں شائع ہوا تھا۔ ابن صفی نے پاکستان ہجرت (اگست 1952) سے قبل صرف سات ناول لکھے تھے۔ کراچی جاتے ہوئے ابن صفی نے اپنے دیرینہ دوست (عباس حسینی) کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنے آئندہ تمام ناولوں کا مسودہ بلامعاوضہ الٰہ آباد ارسال کرتے رہیں گے۔ ابن صفی نے تاحیات اپنے اس عہد و پیمان کا پاس رکھا اور وہ ہندوستان کے اردو سرمائے کو سیراب کرتے رہے۔ گزشتہ دنوں راقم الحروف کو الٰہ آباد سے چھپے دو ناول (فریدی- حمید سیریز) ڈاکٹر محمود کاظمی (شعبہ دارالترجمہ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد) کے توسط سے موصول ہوئے تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ یہ دونوں ناول ’سائے کا قتل‘ اور ’روشنی کی آواز‘ بالترتیب اپریل، مئی 1971 میں نکہت پبلی کیشنز الٰہ آباد سے شائع ہوئے تھے۔ دونوں ناولوں پر ابن صفی کا نام درج تھا اور حسب معمول عباس حسینی کے اداریے سے مزین بھی۔ ابن صفی کا عام قاری بھی مذکورہ ناولوں کے مطالعے سے یہی کہے گا کہ یہ ابن صفی کے قلم سے نہیں لکھے گئے بلکہ ابن صفی کے نام کا استعمال کیا گیا ہے۔۴؎ کراچی کے راشد اشرف نے ’روشنی کی آواز‘ کے حوالے سے اپنے مضمون میں اس ناول کو مسترد کرتے ہوئے لکھا تھا:’’ابن صفی مرحوم کے پاس ان کے ناولوں کے الٰہ آباد ایڈیشن بھی پہنچتے تھے۔ گمان ہے کہ ابن صفی ’روشنی کی آواز‘ کی اشاعت کی خبر سے واقف نہیں ہوں گے۔ اگر ہوتے۔۔۔ اسے پڑھتے۔۔۔ تو شاید عباس حسینی مرحوم کو سچ مچ جھینپ کر مسکرانا ہی پڑتا۔۔۔ اور صفی صاحب کو ان پر ایک درجن کتابیں قربان کرنے کا موقع مل ہی جاتا۔۔۔!‘‘ ۵؎  راشد اشرف صاحب کا یہ گمان درست نہیں معلوم ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ابن صفی کو غیر اخلاقی ’ہندی ایڈیشن‘ کے علاوہ الٰہ آباد کی دیگر سرگرمیوں کا بھی علم تھا لیکن یہ ان کا ظرف تھا کہ اعتماد کو ٹھیس پہنچنے کے باوجود انہوں نے لب کشائی نہیں کی اور وہ ’عدم اعتماد‘ کا زخم لیے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس بات سے ’نکہت پبلی کیشنز الٰہ آباد‘ کی تاریخی حیثیت جہاں مجروح ہوتی ہے وہیں اردو اشاعت کے اس باوقار ادارہ کا شمار بھی ادبی سرقہ کرنے والے ناشرین میں ہوتا ہے۔۶؎  پروفیسر مجاور حسین صاحب کے مضمون ’ستارہ جو ڈوب گیا‘ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے بین السطور میں متضاد اور غیر مستند باتیں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مجاور صاحب کے ذہن میں ابن صفی کے ’ادبی مقام‘ کا واضح تصور یا نقشہ نہیں تھا۔ یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک ابن صفی اردو کے ایسے ہی ادیب و ناول نگار تھے جن کا تذکرہ ایک ڈیڑھ جملے میں کردینا ہی ’ادبی مقام‘ کو متعین کرنے کے لیے کافی ہے۔ پروفیسر مجاور حسین کے اس مضمون سے مزید جو اشکالات پیدا ہوتے ہیں، ذیل میں ملاحظہ کیجیے: .1 مجاورحسین نے ’جاسوسی ادب‘ کے آغاز کا جو پس منظر بیان کیا ہے وہ خود ابن صفی کے بیان کردہ پس منظر سے متصادم ہے۔ جبکہ ابن صفی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ فحاشی کے سیلاب کو روکنے کے لیے انہوں نے ناول نگاری کا آغاز کیا۔۷؎ .2مجاور حسین صاحب کی یہ بات درست نہیں ہے کہ ’’جنوری 53ء میں ناول نگار کا نام ابن صفی منتخب ہوا کہ اسرار صاحب کے والد کا نام صفی اللّٰہ تھا اور اسی مہینہ میں جاسوسی دنیا کے پہلے شمارہ کی حیثیت سے یہ ناول شائع ہوا۔‘‘۸؎  .3 مجاورحسین نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ہندی میں ان کے ناولوں کا ترجمہ شائع ہوتا تھا۔ ابھی تقریباً ستّر پچھتّر ناول ایسے ہیں جو ہندی میں شائع نہیں ہوئے۔ وہ ہندی میں بھی اتنے ہی مقبول تھے جتنے اردو میں، البتہ ہندی میں ان کے دو کرداروں کے صرف نام بدلے ہوئے تھے۔ یعنی فریدی کی جگہ ونود اور عمران کی جگہ راجیش۔‘‘ مجاورحسین صاحب کا یہ اعتراف بے حد سنگین ہے۔ تاہم ان کی یہ بات بھی جزوی طور پر ہی درست ہے۔ واضح ہو کہ عباس حسینی (و: 20 اگست 1990) نے ابن صفی کے جملہ ناولوں کو ہندی میں منتقل کرایا تھا جن کے مترجم کوئی ’پریم پرکاش‘ تھے۔ ان ناولوں میں بعض حصوں میں کتر و بیونت کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حمید اور قاسم کے نام کو چھوڑ کر تقریباً تمام ہی مستقل کردار کے نام تبدیل کردیے گئے تھے۔ فریدی کو ونود، عمران کو راجیش، ایکس ٹو کو پون، فیاض کو ملکھان، صفدر کو مدن وغیرہ سے موسوم کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ نام کے ساتھ کرداروں کا مذہب بھی تبدیل ہوگیا جبکہ ابن صفی نے تمام اہم کرداروں کا خاندانی پس منظر بھی بیان کیا ہے۔ یہ بات خود نکہت پبلی کیشنز، الٰہ آباد کے کردار کی پستی کا پتہ دیتی ہے۔ .4 مجاور حسین اپنے مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’52 سے 60ء تک ہم لوگ ایک دوسرے سے دور رہے۔ صرف خط و کتابت ہی کا سہارا تھا۔ ہر ہفتہ انتہائی پابندی سے خط موصول ہوتا تھا۔ خط اتنے دلچسپ ہوا کرتے تھے کہ پڑھنے میں ناول کا مزہ آتا تھا۔‘‘ اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں: ’’میرے پاس نومبر 79ء تک ان کے خطوط آتے رہے۔‘‘ ہر ہفتہ کے لحاظ سے آٹھ برسوں میں مجموعی طور پر خطوط کی تعداد تقریباً 350 ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ابن صفی مرحوم اپنے انتقال سے قبل (نومبر 79 تک) مجاور حسین صاحب کو خط لکھتے رہے۔ بہتر ہوگا کہ مجاور صاحب ان خطوط کو خود شائع کردیں یا ابن صفی کے اہل خانہ کے سپرد کردیں۔ کیوںکہ ابن صفی کے یہ خطوط جو ناول کا مزہ دیتے ہوں، دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں راز و نیاز کی باتیں بھی ہوں گی، وہ باتیں بھی جو ناخوش گوار ہوسکتی ہیں۔ .5 اسی مضمون میں مجاور حسین لکھتے ہیں: ’’یہ درست نہیں کہ ادبی حلقوں نے انہیں نظر انداز کیا۔ اردو میں آزادی کے بعد لکھے جانے والے ناولوں کے دور پر بہت کم لکھا گیا ہے پھر بھی ڈاکٹر اعجاز حسین نے ’اردو ادب آزادی کے بعد‘ اور ڈاکٹر علی حیدر نے ’اردو ناول سمت و رفتار‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔‘‘ گویا پروفیسر مجاور حسین کے نزدیک ابن صفی کا ادبی مقام یہی ہے کہ چلتے چلتے ان کا تذکرہ کردیا جائے۔ ان کا یہ کہنا بھی حقیقت کی نفی ہے کہ ادبی حلقوں نے انہیں نظر انداز نہیں کیا۔ ایک عظیم ادیب و ناول نگار جس نے کئی نسلوں کو متاثر کیا، اردو زبان سکھائی، اردو ادب میں گراں قدر علمی سرمایہ چھوڑا، اس پر کام کرنے کا اگریہی انداز ہے جیسا کہ مجاور حسین صاحب نے لکھا ہے تو اردو دنیا کے دیگر ادیبوں اور نقادوں کے منفی رویے پر ہمیں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ .6 پروفیسر مجاور حسین ایک جگہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’یہ درست ہے کہ ان کے یہاں واقعات کی رفتار پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ پورے منظر، پس منظر و پیش منظر کی تصویر کشی پر نہیں۔‘‘ حیرت ہے کہ پروفیسر مجاور حسین جیسے ادب کے پارکھی اور محترم استاد کی رائے ابن صفی کی منظر نگاری پر اتنی سطحی اور کمزور ہے۔ حالانکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اردو ناول نگاری کے میدان میں ابن صفی واحد مصنف ہیں جنہوں نے اردو افسانہ اور ناول نگاری میں لفاظی سے گریز کرتے ہوئے ایک نئے انداز کی منظر نگاری کی طرح ڈالی۔ ممکن ہے کہ کوئی ناول نگار ایک ’منظر کشی‘ میں دو صفحے سیاہ کردیتا ہو لیکن ابن صفی کا طرہ امتیاز یہی ہے کہ انہوں نے ’اجمال میں تفصیل‘ کی طرح ڈال کر اپنے قاری کے وقت کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھا اور فصاحت و بلاغت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ اس فن میں ابن صفی واحد ناول نگار ہیں۔ البتہ قرۃ العین حیدر کی رپورتاژ نگاری میں بھی منظر اور واقعات نگاری کے حوالے سے جامعیت اور فصاحت و بلاغت کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ ابن صفی کے ناولوں سے منظر نگاری و جزیات نگاری کے انتخاب کو مرتب کرکے شائع کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں جو اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ پروفیسر مجاور حسین اردو کے ایک ماہر استاد کی حیثیت سے حیدرآباد یونیورسٹی سے ریٹائرڈ ہوئے اور ان کی نگرانی میں ایک درجن سے زائد طلبا نے پی ایچ-ڈی کے مقالے مکمل کیے۔ افسوس کہ انہوں نے اپنی نگرانی میں ابن صفی کی ادبی خدمات پر ایک مقالہ بھی نہیں لکھوایا۔ حالانکہ ابن صفی کا ان پر حق تھا اور دونوں نے رفاقت کے کم سے کم سات برس ساتھ ہی گزارے تھے۔ یہ امر بھی باعثِ افسوس ہے کہ نکہت پبلی کیشنز، الٰہ آباد کے زیراہتمام ابن صفی کی ادبی خدمات پر کوئی سمپوزیم یا سمینار منعقد نہیں کیا گیا تاکہ ان کے ادبی مقام کو متعین کرنے کا سلسلہ آج سے پچاس برس قبل ہی شروع ہوجاتا۔ ابن صفی کے انتقال کے بعد نکہت پبلی کیشنز، الٰہ آباد نے بار بار اعلان کے باوجود ’ابن صفی کی حیات و ادبی خدمات‘ کے حوالے سے کوئی خاص نمبر بھی شائع نہیں کیا۔

(ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here