رویت ہلال اور چاند گرہن

0
183

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

علی سنجر نیازی گونڈوی

آج کل رویت ہلال پر جو فیصلے لئے جارہے ہیں یہ حالات کے مدنظر آنے والے وقت کے لئے نیک فال نہیں ہیں۔ رویت ہلال پر ایسے ہی فیصلے ہوتے رہے تو تہواروں کی چھٹیاں خطرے میں پڑجائیں گی کیونکہ کلینڈر، جنتری میں جوتاریخیں درج ہوتی ہیں اسی حساب سے ہر سرکاری دفتروں میں نظام الاوقات اور تیاریاں فکس کی جاتی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ چھٹیاں سرکاری تعطیل کی فہرست باہر ہوجائے۔ اس لئے آپ سبھی حضرات کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
سورج یا چاند گرہن کی تاریخ کا اعلان دو یا ڈیڑھ ماہ پہلے ہوجاتا ہے تو پھر 29 یا 30 کی تاریخ کا اعلان صحیح وقت پر کیوں نہیں ہوپاتا۔ گرہن کا وقت بھی فکس وقت دے دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں نظر آئے گا یا نہیں اس کی بھی تصویر پیش کردی جاتی ہے۔ اگر ہم پیش کریں کہ 2019 ء میں پہلا روزہ 6 مئی کو اور عیدالفطر 5 جون کو ہوگی تو اسے کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ جبکہ ابھی کلینڈر یا جنتری بھی ابھی نہیں آئی ہے۔ جس طریقے سے ذی الحجہ کے چاند کا اعلان ہوا اگر اسی طرح عید الفطر کے چاند کا اعلان ہوا ہوتا تو دو عیدیں ہونا فطری تھا بھلا ہو ہونہار علماء کا وقت رہتے سوچ سمجھ کر فیصلہ لے لیا تھا۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ سورج کے حساب سے ایک سال میں 365¼ دن ہوتے ہیں اور چاند کے حساب سے 354 دن ہوتے ہیں۔ اس لئے ہر سال 11 دن گھٹ جاتے ہیں اس سے رویت ہلال کے بارے میں آسانی سے پتہ لگا لیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ رویت ہلال کے اعلان کا طریقہ یہ ہے کہ آسام سے ممبئی تک کی تحویل میں تقریباً ایک گھنٹے کا فرق ہے اگر آسام میں سورج غروب ہوا تو اترپردیش والے آسام سے دریافت کریں گے کہ رویت ہلال کی تصدیق ہوئی یا نہیں۔ اگر یوپی میں سورج غروب ہوا تو وممبئی والے دریافت کرسکتے ہیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ دوگھنٹے کے اندر چاند کی تصدیق ہوئی یانہیں یہ آئینہ کی طرح صاف ہوجائے گا۔
تیسری بات یہ کہ ہر سال 11 دن گھٹتے ہیں یعنی ایک سال میں 11 دن تو 100 سال میں 1100 دن اور 1400 سال میں 15,400 دن (43.5 سال) گھٹ گئے۔ یہ 43 سال کہاں ہیں؟ یہی نہیں جس وقت 2800 سال گذرے گا اس وقت 85 سال نکل چکے ہوں گے پھر 4200 سال پورے ہوتے ہی ایک صدی نکل جائے گی۔ اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اگر ہجری اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو عیسوی سے بھی آگے نکل جائے گی۔ تب یہ سوال پیدا ہوگا کہ کیا حضرت عیسیٰؑ سے پہلے حضوراکرمؐ کی ہجرت ہوئی تھی؟ اس سے اُمت مسلمہ پس و پیش میں پڑجائے گی اور سوچے گی اُس وقت ہمارے علمائے کرام کیا کررہے تھے جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔
رویت ہلال کے بابت جو تماشہ ہورہا ہے اس سے غیرقومیں مذاق اُڑائیں گی۔ اس ٹیکنالوجی کے دَور میں ہر قومیں ترقی کی منزلیں طے کررہی ہیں اور اُمت مسلمہ پستی کی طرف جارہی ہے۔ اس لئے چند سطریں پیش کردی ہیں تاکہ اُمت مسلمہ کو آگے چل کر پچھتانا نہ پڑے۔
ایک مودبانہ گذارش
علمائے کرام سے مودبانہ گذارش ہے کہ کوئی چیز بنانے میں کافی وقت لگ جاتے ہیں اور بگاڑنے میں کوئی وقت نہیں لگتا۔ حضور اکرمؐ نے اپنی اُمت کو ایک پلیٹ فارم لانے کیلئے کتنی مشقتیں کیں۔ یہاں تک کہ سماجی بائیکاٹ کیا گیا، مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا، کوڑے پتھر پھینکے گئے، راہ میں کانٹے بچھائے گئے جنگیں ہوئیں، حضرت امیر حمزہ کی شہادت ہوئی حضور اکرمؐ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے اور کیا کیا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود حضور اکرمؐ نے ایک ایک کر سب کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر کھڑا کردیا تھا۔
لہٰذا ایک بار پھر آپ سے گذارش ہے کہ کوئی چیز بگڑنے میں دیر نہیں لگتی اور بننے میں مدتوں گذر جاتے ہیں۔ اُمید ہے کہ آپ اس قول پر ضرور غور فرمائیں گے۔ وہ دن کتنا اچھا تھا جب بلاتعصب، بلاتکبر اور بلاتفریق مذہب و ملت کی بیار چل رہی تھی ۔ اس ضمن میں حضرت علامہ اقبالؔؒ کا شعر
ہاں دکھادے وہ تصور پھر صبح و شام تو
دَوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو

(486/32 ببووالی گلی، ڈالی گنج لکھنؤ پن کوڈ۔ 226020 )

[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here