9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
جمال نصرت
ماحول، ہوا، آلودگی اور جنگل کے سلسلے سے ضابطے موجود ہیں۔ ان میں برابر ترمیم بھی ہوتی رہتی ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ پانی کے لیے مضبوط قسم کے ضابطے ہوں اور ان پر عمل بھی سختی سے کیا جائے۔ آئیں میں کیا درج ہے؟ اس روسے ہم کیا کیا فیصلے مرکز میں اور صوبوں میں لے سکتے ہیں۔ اس کا صحیح علم بھی ہو کہ ہماری سرکاریں کیا کیا اصول اور ضابطے مرتب کرسکتی ہیں۔ یہ جان لینا بہت اہم ہے۔
آئین ایک بہت زیادہ مضبوط حکم نامہ ہے۔ جس میں کچھ کی تبدیلیاں ممکن ہیں اور کچھ کی بہت ہی دشوار شرطوں کے بعد اور کچھ کی کسی بھی حالت میں نہیں۔
پانی کے تعلق سے جو ہم کو اور ہماری صوبائی سرکاروں اور مرکزی سرکاروں کو حقوق اور اختیارات ہیں ان کا خلاصلہ درج کیا جاسکتا ہے اور اس کے بعد یہ فیصلہ بھی ممکن ہوگا کہ موجودہ حالات میں ہم لوگ کیا کیا فیصلے کرسکتے ہیں۔ جب آئین سن 1949ء میں مرتب ہوا تھا تو فی ہندوستانی کی پانی ہر حصہ داری 5000مربہ میٹر تھی جو اب 1700بھی نہیں ہے۔ یہ صورت آگے اور بھی ابتر ہوتی جائے گی کیوں کہ وصائل تو بڑھ نہیں رہے ہیں لیکن ہماری ضرورتیں اور آبادی تو برابر بڑھ رہی ہے۔
یوں مرکز نے 2002میں پانی کے سلسلے میں جو اصول بنائے ہیں ان کا خلاصہ اس طرح سے ہے(water Policy):
٭پانی ایک بیش قیمت وسائل ہے اور اس کا انتظام پورے ملک کے لحاظ سے ہوناچاہیے۔
٭ہماری اولین ترجیح پینے کے پانی ہوگی۔
٭جو بھی فلاحی منصوبے ہوں گے ان میں سوکھے کے علاقوںکو ترجیح ہوگی۔
٭مرکز اور صوبائی انتظام صحیح خبریں رکھے جس سے فیصلے لیئے جاسکیں۔
٭بیسن کے حساب پانی کا انتظام ہونا نہ کہ کسی اور طریقے سے۔ بیسن کے معنی ہیں کہ وہ حلقہ جہاں کا سارے کا سارا پانی ایک نل سے بہایا جاسکتا ہو۔
٭کمی اور فاضل پانی والے حلقوں کو آپس میںاس طرح جوڑا جائے کہ ایک جگہ کا پانی دوسری جگہ لایا جاسکے۔
٭پانی سے بہت سے کام جڑے ہیں تو سب کا مجموعی اعتبار سے فیصلہ کرنا۔
٭منصوبے ایسے ہی نہ ہویں کہ ان سے فائدہ ہو بلکہ عوام کی مدد کا خاص خیال رکھا جائے۔
٭زیر زمین پانی کو بھرنا، اور بیجا نکالنے جانے پر معقول تدارک کیا جانا۔
٭پانی کے انتظام میں سرکاری محکموں اور عوام کی شمولیت کو یقینی بانایا جائے۔
٭پانی کی خصوصیات یعنی اہلیت اور خرابیوں کی برابرجانچ اور ضروری تدارک کرنا۔
٭ایک ایسا نقشہ بنے جس سے سوکھا اور باڑھ دونوں ہی قسم کے علاقوں کا درست انتظام ممکن ہو۔
٭عوام کے ہر طبقے کو پانی کی حفاظت اور بچانے کی تعلیم یقینی بنائی جائے۔و غیرہ
بنیادی ذمے داری جو آئین کے حصہiv-Aمیں درج ہے۔ جو یہ ضابطہ51-Aکے نقطہ جی میں ہے کہ ہر ہندوستانی کو لازم ہوگا کہ وہ قدرتی ماحول کی حفاظت کرے اور اسے بہتر بنائے جن میں جنگلات،جھلیں، ندیاں اور سبھی جانور شامل ہیں۔ ان کے لیے درد مندی بھی ضروری ہے۔ مرکز اور صوبوں کے آپسی تعلقات جو آئین کے حصہ XIمیں درج ہیں۔ اس میں پانی کے تعلق سے ضابطہ نمبر245،246،252،262اور 263میں رقم کیئے گئے ہیں۔
ضابطہ نمبر245میں جو اصول اور ضابطے پارلیامیٹ اور صوبے کی سرکار یں بنائیں گی ان کے عمل در آمد کے بارے میں:
(۱)پارلیامیٹ کل ملک یا کسی حصے کے لیے مناسب ضابطہ بناسکتی ہے۔
(۲) پارلیامیٹ کا تیار کیا ہوا ضابطہ اس وجہ سے خارج نہیں ہوگا کہ اس نے اپنے حقوق سے اضافی فیصلہ لیا ہے۔
ضابطہ نمبر246۔ضابطہ کے اصول کے بارے میں جو کہ مرکز اور صوبے کی سرکار بنائے میں ،اس میں ۴؍نقطے ہیں۔
یہاں یہ واضح کرنا لازمی ہے کہ آئین کی ساتویں فہرست میں تین حصے ہیںجن میں پہلی میں مرکزی سرکار کی اہلیت ہے دوسری میں صوبائی سرکار کی اور تیسری میں کام جس میں دونوں کی اہلیت ہوگی۔
(۱)فہرست سات کی پہلی مرتبہ، جو کہ مرکز کے لیے ہے۔ کے لیے مناسب قانون وہ تنہا ہی بناسکتی ہے۔ بس یہ شرط ہوگی کہ وہ نقطہ 2اور3کے حدود میں ہو۔
(۲) فہرست سات کی تیسری مرتبہ جو مرکز اور صوبے دونوں کے لیے ہے کی رو سے دونوں ہی قانوں مرتب کرسکتے ہیں۔ بس یہ شرط ہوگی کہ نقطہ ایک کی حد میں ہو۔
(۳) صوبے کو یہ کلی حق ہوگا کہ نقطہ ایک اور دو کی حدود میں رہ کر وہ اپنے صوبے کے لیے جو بھی مناسب قانون ہو اسے بنائے اور اس پر عمل پیرا ہو۔ بس یہ اس کی فہرست ساتھ کی دوسری مرتبہ میں درج ہو۔
(۴) جو صوبائی فہرست میں نہ ہو ان معاملات میں مرکز کوئی بھی ضابطہ مرتب کرسکتا ہے۔
ضابطہ نمبر 252۔ اگر پانی کے سلسلے میں صوبوں میں تکرارہو
(۱)ہنگامی حالات کے علاوہ اگر تکرار کرنے والے دویا سبھی صوبے اپنے اپنے ممبران سے یہ طے کرالیں کہ پارلیامیٹ اس معاملے میں فیصلہ لے لے جب کہ اس کو یہ حق نہیں ہے تو بھی وہ ضابطہ مرتب کرسکتا ہے اور صوبے اس پر کار بند ہوں گے۔
(۲)اس ضابطے کے بعد بھی اگر کسی ترمیم کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر پورا عمل کیا جائے گا یہ نہیں کہ کوئی ایک صوبہ یا پارلیا میٹ ہی فیصلہ لے لے۔
ضابطہ نمبر262۔ صوبائی سرکاروں میں پانی کے سلسلے سے تکرار کی صورت میں :
(۱) پارلیامیٹ صوبوں کی تکرار میں بیچ بچائو کے لیے قانونی حکم کے لیے جو کہ پانی کے استعمال بٹوارے اور انتظام سے تعلق رکھتا ہے کے لیے کوئی ضابطہ بناسکتی ہے۔
(۲) پارلیامیٹ یہ بھی طے کرسکتی ہے کہ سپریم کورٹ،ہائی کورٹ یا کوئی دوسرا کورت پہلے نقطے میں کوئی دخل نہ دے۔
ضابطہ نمبر 263۔ دوصوبوں میں آپسی تال میل کے لیے :
(۱)ملک کاصدر ایک کونسل بناسکتا ہے ، جس میں مناسب خیال کے ممبر ہوں اور وہ اسے اپنی صلاح دیں۔ جن میں :
(اے)تکرار کی وجہ اور اس پر صلاح۔
(بی)معاملے کی تحقیق کرے ۔ متعلقہ صوبوں سے بات چیت کرے۔ اور مرکز کو بھی شامل کرتے ہوئے مشورہ دے۔
(سی) اپنی سفارشات دے، جس سے یہ طے کیا جاسکے کہ جس کہ ملک کی بہبود ہو اور وہ ایک ایسے طریقے کا بھی مشورہ دے گا، جس سے آگے اس قسم تکرار کی صورت ہی نہ ہو۔ اس لیے ضروری ہوگا کہ صدر کوئی ایک ایسی کونسل بنادے، جس میں ممبران کے لیے طریقے اور ان کے حقوق درج ہوں، جس سے وہ ان کو مشورہ دے سکیں۔
ساتویں فہرست جو کہ ضابطہ نمبر246کے سلسلے سے ہے، میں بے شمار کام رقم ہیں۔ جیسے ملک کا دفعہ، ہوائی کام، سمندری بیڑے، ریلوے،سڑک، اسلہے، بجلی وغیرہ، لیکن یہاں صرف ذکر پانی تک ہی محدود ہے۔
(۱) یونین(مرکز)کی فہرست میں 56پر :
صوبوں سے گزرنے والی ندیوں و گھاٹیوں کی نگرانی اور ترقی کے کام بس اس حد تک کہ جہاں پارلیامیٹ نے مرکزی حکومت کو اختیار دے رکھے ہیں اور یہ عوام کے سہولت اور بہبود کے لیے ہوں۔
(۲) صوبوں کی فہرست میں نمبر13اور17پر :
نمبر13پر درج ہے کہ عوامی رابطہ ، سڑکیں، پل،پانی کی نائوں ، اور بیڑے، روپوے (Rope way)، ٹرام(Tram)۔ اس میں مشینوں سے چلنے والی و رابطے کی چیزیں نہیں ہیں، جن کا تعلق مرکزاورمرکز و صوبے کی فہرست میں بھی نہیں ہے۔
نمبر17۔ پینے اور دیگر کام والاپانی، سینچائی کی نہریں، نالیں، بندھے،پانی جمع کرنے کے تعلق والی چیزیں، پانی سے بجلی کے تعلق والوں کو صوبوں کی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔
(۳) مرکز و صوبوں کی مشترکہ فہرست ۔ اس میں جنگلات، جانور کی بہبود وغیرہ تو ہے لیکن پانی کے تعلق سے صرف نمبر31اور32کا شمار ہے۔
31۔پانی کی بندرگاہ جس کا اعلان پارلیامیٹ سے منظوری لے کر کیا گیا ہو۔
32۔ اس کے علاوہ پانی کے جہاز جن سے سمندری راستوں سے سمان اور مسافروں کا بندو بست ہوتا ہواور اس کا خیال مرکز کی فہرست میں بھی رکھا گیا ہو۔
ہمارے دستور میں بہت غور کرکے حال کے ساتھ ساتھ مستقبل کا بھی بہت خیال رکھا گیا ہے۔ دشواریوں اور تکرار کا بھی ازالہ کرنے کا طریقہ بھی موجود ہے۔ یوں کسی نے پیشین گوئی کی ہے کہ تیسری عالمی جنگ کی وجہ پانی ہی ہوگا۔ ہم اپنے ہی ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ پڑوسی صوبوں میں کھینچ تان اور من مُٹائو چل رہا ہے۔ عدالتوں میں بھی مقدمے درج ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی سرگرم ہیں۔ اس پر سب لوگ ایک رائے ہیں کہ پانی بچایا جائے اور اس کا خرچ بھی درستی سے ہو۔ جس سے ملک کی ترقی ہو، لیکن کوئی بھی خود قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں قریب چھ ہزار کلو میٹر سمندری کنارہ ہے ،جہاں پانی کھاری ہے۔ اسے میٹھا بنانے کی چنوتی ہمارے سائنس دانوں کے سامنے ہے۔ اگر اس امتحان میں جلدی پاس ہوگئے تو پانی کی بربادی، پیڑوں کی کٹائی،عادتوںکی بُرائی وغیرہ سے ہوئے نقصان کی بھرپائی ممکن ہوگی۔ اور پھر گذشتہ کی غلطیوں کا ازالہ ہوجائے گا ؎
یوں سمجھئے اپنے ہاتھوں میں خزانہ آگیا
خود ہمارے پاس چل کر آب و دانہ آگیا
٭٭٭