خواتین کی خودمجازیت

0
326

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

شبینہ بانو

مجازیت کے معنی ہیں ’’ با اختیار ہونا‘‘ یہ اصطلاح خواتین کی شخصیت کے ارتقاء اور ان کی انفرادی اور اجتماعی خوشحالی اور سیاسی، سماجی ، اقتصادی غرض کہ ہر اعتبار سے انکی ہمہ جہت ترقی اور فیصلہ سازی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ Empowerment Women کے مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عورت کی رائے کو، اس کے مشوروں کو وہی مقام دیا جائے جو مرد کی راے اور مشوروں کو حاصل ہے۔ سیاسی پیمانہ پر سرکار کی طرف سے ان کو 33% Reservation دیا گیا ہے۔ اگر ہم Election کی بات کریں تو صرف نام کے لیے ہی ان کو Election میں امّیدوار کے طور پر عوام کے درمیان لایا جاتا ہے لیکن فیصلہ سازی کا حق مکمل طور پر مرد ہی ادا کرتے ہیں، ان کو کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حق نہیں دیا جاتاہے۔جب کہ عورت کو بھی سماج کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے وہ سارے مواقع اور سہولتیں حاصل ہونی چاہئے جو مردوں کو حاصل ہیں اور اس کو بھی اپنی صلاہیتوں کے لحاظ سے سماجی ذمّہ داریوں کو انجام دینے کی آزادی حاصل ہوجس کے لیے خواتین میں سماجی شعور کا بیدار ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت ہی سماجی شعور سے مزّین ہوتی ہے بشرطیکہ اس میں احساس ذمّہ داری اور خود اعتمادی بھی ہو، ان صفات کے ساتھ وہ فیصلہ سازی کے موقوف میں آسکتی ہے گویا سماجی شعور، خود اعتمادی اور فیصلہ سازی وہ کام ہیں جو خواتین کو سماجی طور پر Empower کرنے کے لیے ضروری ہیں۔لہٰذابہتر منصفانہ سماجی ماحول ، مسائل معاش و صحت، تعلیم، مذہبی آزادی ان تمام چیزوں میں خواتین کو بیدار کرنا بہت ضروری ہے اور ان کے حصول کے لیے ان میں صلاحیت پیدا کرنا اور قوت فیصلہ کی تربیت کرنا خواتین کے مجازیت کے تصورات میں شامل ہے۔
خواتین کو Empower کرنے کی اہمیت:-
خواتین صدیوں سے کسی نہ کسی سطح پر استحصال کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ وہ تخلیق انسانی کی عظیم ذمہ داری سمبھالنے کے ساتھ ساتھ سماج کی اہم ذمّداریوں کو بھی نبھاتی آئی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی ہی اہمیت اور با وقار حیثیت سے نابلد ہیں۔ صدیوں کی غلامانہ ذہنیت نے انھیں اپنی مظلومیت پر صابر بنا دیا ہے ان کی سوچ اس قدر تھم گئی ہے کہ وہ اس پستی میں ہی عورت کی عزت و عافیت کو محفوظ تصور کرتی ہیں اور اپنی بہنوں کو بھی یہی درس دیتی ہیں کہ عورت سماج میں ثانوی حیثیت کی حامل ہے اور یہی ا س کا مقدر ہے لیکن ہم سماج سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سماج کون ہوتا ہے ہماری تقدیر متعین کرنے والا اور ہماری حیثیت کو ثانوی بنانے والا؟ کیا ہم خواتین اتنی کمزور ہیںکہ ہم اپنے مقدر کو خود نہیں سنوار سکتیں؟ اگر ایک عورت اپنے خون کے ذریعہ نسل انسانی کی پیدائش اور پرورش جیئسے بڑے کام کو انجام دے سکتی ہیں تو کیا وہ ہل چلا کر اور کڑی محنت کر کے اپنی معاش کا انتظام نہیں کر سکتیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ اس کام کو بہ حسن و خوبی انجام دے سکتی ہیں اور حاکم بھی بن سکتی ہیں۔ ہمارے سماج میں تو Masculinity اور Femineity کا تصور پیدا ہو چکا ہے۔ اس سماج کے مرد حضرات کے اذہاں میں کہیں نہ کہیں یہ بات سرایت کر گئی ہے کہ عورت ایک ایسی چیز کا نام ہے جو کمزور اور دبی کچلی ہوتی ہے اور اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے اسکے برعکس مرد حضرات کو عورتوں کے مدّ مقابل زیادہ طاقتور خیال کیا جاتا ہے۔ اسیMasculinity کی وجہ سے وہ Femineity پر پوری طرح قابض ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کے حالات زیادہ بہتر نہیں ہیں ، جو عورتیں سماج کے Bariar کو توڑ کر اس کی حدود سے باہر نکل جاتی ہیں صرف وہی کامیابی تک پہنچتی ہیں۔
آج تعلیم کے عام ہونے کے باوجود بھی خواتین تعلیمی میدان میں پچھڑی ہوئی ہیں اور معاشی اعتبار سے بھی خستہ حال ہیں۔ بعض اوقات تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی اپنے شریک حیات کے انتخاب میں انھیں اپنے خاندان کے فیصلوں پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ خاندانی معاملات میں وہ اپنی رائے، اپنی پسند اور خواہشات کے بارے میں فیصلہ لینے کا کوئی حق نہیں رکھتیں۔ خاندان سماج کی ایک اکائی ہوتا ہے اور اس اکائی کو بنانے میں خاندان کے ہر فرد کی اہمت ہوتی ہے لیکن ہمارے سماج میں خواتین کو خاندان کی اکائی کی حیثیت سے کم ہی سمجھا جاتا ہے۔
خواتین کی پسماندگی اور ان کے ذاتی مسائل کا جہاں تک تعلق ہے تونصف سے زیادہ خواتین اس حالت پر قانع ہیں۔ نازک ہونے کے ناطے اپنے آپ پر ہونے والے ہر قسم کے ظلم و تشدد کو برداشت کرنا اپنی ازلی قسمت تصور کرتی ہیں اور اپنے مسائل پر کسی سے گفتگو کرنا بھی معیوب سمجھتی ہیں۔ اس کے علاوہ نہ تو وہ اپنے معاشی مسائل کھل کر بیان کر سکتی ہیں اور نہ ہی وہ اپنی صحت ، غذا ، رہن سہن اور پسند و ناپسند کے بارے میں اپنے آراو خیالات کا اظہار کر سکتی ہیں۔خواتین سمجھتی ہیں کہ اگر وہ اپنے مسائل کے سلسلہ میں لب کشائی کرتی ہیں تو یہ تہذیب کے خلاف ہے کیوں کہ ان کو ہمیشہ سے یہی درس دیا گیا ہے۔
لہٰذا اس صورت حال کو اور اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کو مردوں سے مقابلہ یا سابقت کے لیے تیار کیا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ بھی بحیثیت انسان خوشحال ، متمعن اور پرسکون زندگی گزار سکیں اور ان کو بھی یہ احساس دلایا جائے کہ وہ سماج کی ایک فرد ہونے کی حیثیت سے اپنی صلاہیتوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی ذمّہ داریوں کو پوری طرح سے نبھایئں اور Empowerd ہوکر اپنی صلاحیتوں کا اندازہ کریں اسکے ساتھ ساتھ سماجی ستح پر ایک دوسرے سے باہمی تعلقات کو فروغ دے کر اپنے احساسات و جذبات و ضروریات کو اپنی ساتھیوں کے سامنے کھل کر بیان کریں اور اس کے حصول کے لئے ایک سنجیدہ سوچ بنائیں اور اس حقیقت کو سمجھیں کہ وہ معاشرے کی ترقی کی بنیادوں میں ایک اہم اکائی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لہٰذا معاشرے میں دی جا رہی تمام سہولتوں سے مستفید ہونے اور ترقی کے مواقع حاصل کرنے میں وہ بھی برابر کی حق دار ہیں۔
خواتین کی مجازیت(Empowerment) کا مقصد یہی ہے کہ ان میں سماجی بیداری پیدا ہو اور وہ اپنے حقیقی مقام اور حیثیت کو سمجھ کر اپنے حقوق کے حصول کے لئے اٹھ کھڑی ہوں اور ان کو حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں۔
Women Empowerment کی ضرورت:-
اس حقیقت سے کوئی بھی صاحب عقل انکار نہیں کر سکتا کہ عورت نصف انسانیت ہے ، مرد ایک حصہ کی ترجمانی کرتا ہے تو عورت دوسرے حصہ کی ترجمانی کرتی ہے۔ اس طرح کسی ایسے سماج کا تصور نہیں کیا جا سکتا جو صرف مردوں پر منحصر ہو اورجس میں عورت کی ضرورت نہ ہو۔ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے یکساں محتاج ہیں دونوں ایک دوسرے سے بے نیاز رہ کر اپنی زندگی ہرگز نہیں گزار سکتے سماج کی ترقی کے لیے دونوں کا اشتراک عمل ضروری ہے۔ اجتماعی زندگی اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ قدم سے قدم ملا کرکام کریں اور اپنے معاشرے کو کامیاب بنائیں ، عورت کو نظر انداز کر کے بنی نوع انسان کا کوئی بھی کام کیا جائے گا وہ ادھورا ہی رہے گا۔
اجتماعی زندگی اس وقت ترقی کر سکتی ہیں جب مرد اور عورت دونوں کا سماجی رشتہ ٹھیک ہوعورت کی سعی اور جد وجہد سے جو خلاء رہ جائے وہ مرد پورا کریں اور مرد کی دوڑ دھوپ میں جو نقص رہ جائیں تو عورت اس کو پورا کرے اس کے لئے عورت کو Empower کر کے اس کی پسماندہ حیثیت کو ختم کرنا ضروری ہے۔
موجودہ تمدنی اور معاشرتی حالات پر غور کرنے والا کوئی بھی فرد ہو یہ اعتراف کرنے پر مجور نظر آتا ہے کہ عورت کے سماجی مقام کی غیر منصفانہ تقسیم نے تہذیب کی بنیادیں ہلا دی ہیں اور انسان کو ایسے مقام پر لا کڑا کیا ہے جہاں ساری مادی ترقی کے باوجود چین و سکون میسّر نہیں کیوں کہ اس ترقی کے باوجود بھی عورت کے مسائل حل نہیں ہوتے ، لہٰذا یہ ترقی ادھوری ہے اور مرد حضرات کو بھی اس ادھورے پن کا احساس ہے خواہ وہ اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں ۔ اب جہاں عورت کا تعلق ہے صدیوں کی محرومی نے اس سے چین و سکون کا انتظار بھی چھین لیا ہے اسی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبالؔ نے کیا خوب کہا ہے:-
میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقیدئہ مشکل کی کشود!
لہٰذا جب تک سماج کو اعتدال پر لاکر صنفی امتیاز ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک معاشرہ حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے تحت عورت کوEmpower کرنے کی ضرورت ہے۔ عورت کا Empowerment مرد و عورت کے درمیان مقابلہ آرائی یا سابقت کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ دونوں کے درمیان بھرپور ہم آہنگی کے معنی میں ہے تا کہ اس سے کسی ایک صنف کو نہیں بلکہ دونوں اصناف کو فائدہ پہنچے اور جب ایسا منصفانہ سماج قائم ہو جائے جہاں وہ پورے اعتماد اور وقار کے ساتھ ایک متمعن زندگی گزار سکیںتو یقینا اس کی گود سے ایسی نسل تیار ہو سکتی ہے جو ذہنی ، فکری اور اخلاقی غرض کہ ہر اعتبار سے صحت مند ہوگی۔علامہ اقبالؔ نے ایسی مائوں کی تعریف میں کہا تھا کہ :-
وہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی
Deptt. of Women Education
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here