کربلا میں بین الحرمین کی سرزمین پر ساتواں انٹرنیشنل جشن صبر و وفا انجمن غلامانِ سیدہ زینب ؑ کے زیراہتمام منعقد ہوا
لاکھوں کا مجمع جہاں تقریباً ایک ہی عقائد کے لوگ جمع ہوں، ان کے درمیان یہ پیغام اتحاد اس بات کی یقین دہانی کرانے کے لئے کافی ہے کہ کربلا ہی اتحاد کا مرکز ہے، یہ کسی ایک فکر ایک عقیدے کا محتاج نہیں بلکہ جو انسان ہے، جس کے سینے میں دل ہے وہ کربلا کی عظمتوں سے انکار نہیں کرسکتا۔ دیکھا گیا ہے کہ جب اپنا خالص مجمع ہوتا ہے تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقررین ہمیشہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں کرتے اپنے عوام کو مخالف کے خلاف ورغلانے کیلئے ایسی تقریریں کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں جہاد کے نام پر بے گناہوں کا خون بہایا جارہا ہے، لیکن یہاں جو مرجع کا پیغام اس کثیر تعداد میں جمع زائرین کو دیا گیا اس سے ظاہر ہے کہ امام حسین ؑ کےواقعی چاہنے والے کبھی ظالم کے ساتھ نہیں ہوسکتے کیونکہ ظلم کے خلاف ایک امام حسین ؑ کا وہ ایک انکار ہی تو تھا جس کے نتیجے میں کربلا کی تاریخ لکھی گئی۔ رہبر کا یہ پیغام ان سب کے لئے باعث عبرت ہے جو کسی غلط فہمی کا شکار ہوکر ظالم کا ساتھ جانے انجانے دے رہے ہیں۔
سب نے اپنی تقریر کے آغاز میں انجمن غلامانِ سیدہ زینب ؑ کو خاص طور سے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ہزاروں کلومیٹر دور انہوں نے تمام زحمتوں سے جشن صبر و وفا کا بیحد کامیاب جشن کا انعقاد کیا۔مرجع کے پیغام کو پڑھتے ہوئے مولانا ضامن جعفری نے کہا کہ اللہ نے قرآن میں بہت واضح اور بڑی تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے کہ تم سب اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑلو۔ تو کیا اس سے مراد کوئی ایسی رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکا دی گئی ہے۔ لیکن کسی نے نہیں دیکھا کہ ایسی کوئی رسّی ہو جو آسمان سے زمین کے درمیان اللہ نے لٹکا رکھی ہو۔ تو پھر اس سے کیا مراد ہے۔ ظاہر ہے اس سے صاف صاف مراد ہے کہ اہل بیت کا دامن مضبوطی سے تھام لیں یہ اللہ کی رسّی ہیں جنہیں اللہ نے تاکید کے ساتھ مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم صرف زبان سے اتباع کریں بلکہ یہ دین کے ذریعے ہمارے سلوک کے ذریعے سے ہمارے اخلاق کے ذریعے سے ہمارے عمل میں بھی نظر آنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ ہر مومن کو اپنے دوسرے مومن بھائی کے لئے ہر وقت دعاگو رہنا چاہئے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں پوری دنیا میں دشمنانِ اہل بیت اکٹھا ہوگئے ہیں۔ آج اپنی پوری طاقت کے ساتھ شیطانی قوتیں اکٹھا ہوگئی ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ ہم حق کو مٹاد یں، یہ وہ وقت ہے جب تمام حق پرستوں کو باہمی رنجشیں، باہمی اختلافات بھلاکر اکٹھا ہوجانا چاہئے، اس لئے دشمن ہمیشہ اس انتظار میں رہتا ہے کہ ہمارے درمیان کب اختلافات ہوجائیں اور وہ اس کا فائدہ اٹھاکر ہم سب کو نقصان پہونچا سکے۔ اس لئے ہم لوگوں کو ہر حال میں باہمی اختلافات ختم کرنا چاہئے اور قوم کی بقا کیلئے ایک ہوکر کام کرنا چاہئے۔
آج مسلمان اسلام کے نام پر بے قصوروں کو قتل کرتے ہیں لوگوں کو اجاڑتے ہیں اور بچوں کو یتیم کرتے ہیں اور دوسری طرف ہم سب جو آج بین الحرمین میں جمع ہوئے ہیں یہ سب کے سب علی ؑ کے چاہنے والے ہیں نبی کے پیروکار ہیں، ہم اہل بیت ؑ کے چاہنے والے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم پوری دنیا کے سامنے اپنے سلوک سے، اپنے عمل سے، اپنے اخلاق سے اور اپنے کردار سے لوگوں کو بتائیں کہ صحیح اسلام کیا ہے تاکہ وہ لوگ جو اسلام کو مسخ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں، وہ لوگ جواسلام کے نام پر بمباری کررہے ہیں اسلام کے نام پر بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں ان کی حقیقتیں سامنے آئیں اور یہ حقیقی اسلام کونے کونے تک پہونچے۔ ہم تمام مومنوں کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اس منبر حسین ؑ سے منسلک رکھیں، کبھی اپنے آپ کو اس منبر حسین ؑ سے الگ نہ ہونے دیں اس لئے یہ وہی منبر ہے جس نے ہمیں کربلا کے واقعہ کو بتایا اگرچہ یہ منبر نہ ہوتا تو آج ہمیں کربلا کے واقعے کا پتہ نہ ہوتا۔ کربلا جس کے لئے مدینے سے امام حسین ؑ یہ کہہ کر چلے تھے کہ میں جارہا ہوں تو صرف اس لئے کہ میں اپنے نانا کی اُمت کی اصلاح کرنا چاہتا ہوں۔ امام حسین ؑ نے اپنے نانا کی اُمت کی اصلاح کی خاطر اپنا پورا گھر لٹا دیا، اپنے جوانوں کو شہید کرادیا، خود اپنی قربانی دے دی یہاں تک کہ حسین ؑ کے اپنے گھر کی خواتین اسیر کردی گئیں کیا ہم اُمت محمد میں سے نہیں ہیں اور اگر ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام حسین اور ان کے گھر والوں نے اتنی بڑی جو قربانیاں دیں وہ سب کے سب ہمارے لئے تھیں آپ کے لئے تھیں انہوں نے ساری اذیتیں صرف ہمارے لئے اٹھائیں اس لئے ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس منبر سے اپنے آپ کو منسلک رکھیں جو امام حسین ؑ کا پیغام اُمت محمد کی اصلاح کیلئے ہے۔ یہ پوری تقریر اُن لوگوں کے لئے بڑی تشویشناک ہوگی جو اس منبر کااستعمال صرف عوام کو گمراہ کرنے اور باہمی اختلاف کو بڑھانے کیلئے کررہے ہیں وہ نہ صرف معاشرے کے لئے خطرناک ہیں بلکہ امام حسین ؑ کی اتنی عظیم قربانی کے مقصد کو بھی مٹانے کی کوششیں کررہے ہیں۔
تقریر کے بعد سبھی موجود معزز مہمانوں کو مہمانِ خصوصی اُترپردیش کانگریس کمیٹی کی اقلیتی سیل کے چیئرمین و سابق ایم ایل سی سراج مہدی نے انجمن غلامانِ سیدہ زینب کی طرف سے مومنٹو پیش کیا گیا۔ محفل کا آغاز کرتے ہوئے نیئر جلال پوری نے کہا کہ ہر شاعر جو مدح اہل بیت میں شعر کہتا ہے اس کے لئے تاریخی موقع تب ہوتا ہے جب وہ اس جگہ پر موجود رہ کر اپنا شعر پڑے جس کے لئے اس نے وہ شعر کہا ہے۔ آج ایسا ہی کچھ منظر ہے جب ہم سب مولا حسین ؑ اور مولا عباسؑ کے دونوں روضوں کے درمیان اس بین الحرمین پر جمع ہینں۔ انہوں نے اس شعر کے ساتھ محفل کا آغاز کیا:
ہم کرب و بلا جائیں یہ اوقات نہیں
عباسؑ بلالیں تو بڑی بات نہیں
منصب نہیں مانگا کوئی شاہی نہیں مانگی
خود مل گئی مرضیٔ الٰہی نہیں مانگی
لائیں گے کوئی دوسرا عباسؑ کہاں سے
حیدر ؑ نے کوئی اور دعا ہی نہیں مانگی
شروعات سب سے کم عمر شاعر محمد عباس نے اپنے کلام کا آغاز ان اشعار سے کیا:
کربلا یہ بھی محبت کا صلہ دیتی ہے
اپنے بچھڑوں کو محرم میں ملا دیتی ہے
اس کے بعد عزادار عزمی، رضا سرسوی اور پاکستان سے آئے منقبت خواں عدیل نے اپنا کلام پیش کیا لیکن سب سے کم وقت میں سب سے زیادہ واہ واہ حاصل کرنے والے آج کے شاعر چندن سانیال فیض آبادی رہے جنہوں نے بہت کم وقت لیا اور سب سے زیادہ واہ واہی حاصل کی، ان کے پڑھنے کے طریقے، اُن کی نقل و حرکت اور ان کے کلام نے سامعین کو بہت متاثر کیا۔ اس کے بعد قریب ایک گھنٹہ وقار سلطان پوری نے اپنا کلام پیش کرتے ہوئے پڑھا:
نہر عطش وفا کی ترائی ہے کربلا
کیا خوب ایک بھائی کو بھائی ہے کربلا
فطرس نے ایک بار ہی پایا تھا یہ شرف
تقدیر لے کے پھر ہمیں آئی ہے کربلا
کرب و بلا کا کیسے سبق بھول جائوں میں
گھٹی میں میری ماں نے پلائی ہے کربلا
ہزاروں کے مجمع کو آج مولانا ندیم اصغر کی نظامت کے بھی جوہر دیکھنے کا موقع ملا جب انہوں نے ڈاکٹر عباس رضا نیئر جلال پوری کو اپنا کلام پیش کرنے کی دعوت دی جس طریقے سے مولانا نے ان کا تعارف کرایا شاید ویسا تعارف خود نیر بھی اپنا نہ کراپاتے اور ان کے حاسد اگر اس تعارف کو سن لیتے تو دانتوں تلے اپنی انگلیاں دبا لیتے اور جل بھن کر خاک ہوجاتے کہ امام حسین ؑ اور حضرت عباسؑ کے روضہ کے بیچوں بیچ بین الحرمین میں ایک بڑے گھرانے کا معتبر عالم دین اُس شخص کا ایسے تعارف کرارہا ہے جس کی حسد میں شہر کے کچھ افرادہر لمحے جلتے بھنتے رہتے ہیں۔ نیئر جلال پوری نے اپنے تعارف کا بھرم رکھا اور اپنے تازہ ترین کلام پیش کئے:
کعبے کی خامشی کا سخن جنت البقیع
مشہد کی عظمتوں کا وطن جنت البقیع
کرب و بلا ہے پھول چمن جنت البقیع
دولھا نجف ہے اور دولھن جنت البقیع
روشن ہوا یہ راز شعاع یقین سے
سورج کو نور ملتا ہے اس کی زمین سے
قرآن کا وقار ہیں سارے بقیع کے
یثرب میں خود نبی ہیں سہارے بقیع کے
جگنو، چراغ، چاند، ستارے بقیع کے
دنیا سے کہہ رہے ہیں دلارے بقیع کے
انسانیت کی روح یہیں محو خواب ہے
ہجرت کی شب سوال ہے اور یہ جواب ہے
یہ کہہ رہی ہیں صبر و وفا کی علامتیں
دل ہوگا جس جگہ وہیںہوں گی حرارتیں
رہتیں نہیں الگ کبھی پھولوں سے نکہتیں
اللہ سے مصطفیٰ کے گھرانے کی قربتیں
عباس ؑ کربلا میں جو آقا کے ساتھ ہیں
اُم البنیں بقیع میںزہرا کے ساتھ ہیں
پھر مولانا ندیم اصغر اعظمی نے میں ہوں بین الحرمین کے عنوان سے بہت ہی جوشیلے انداز میں اپنا کلام پیش کیا انہوں نے کہا:
آئیے میری فضیلت کی کہانی سنیئے
شاعر آل پیمبر کی زبانی سینئے
مجھ کو اللہ نے بخشی ہے گرانی سینئے
حرم غازی سے آغازا گر میرا ہے
روضۂ شاہ پہ انجام سفر میرا ہے
کیوں نہ مجھ کو ہو بھلا اپنے شرف کا احساس
ایک طرف ہوتے ہیں شبیرؑ تو اک سو عباس
اس قدر قیمتی دولت ہے فقط میرے پاس
کسی رستے نے کہاں پائے ہیں ایسے رتبے
میری سرحد کی ہیں پہچان علیؑ کے بیٹے
منزل رفعت کونین کا جادہ میں ہوں
انبیاء جس پہ قدم رکھیں وہ رستہ میں ہوں
عصمتیں روندتی ہیں جس کو وہ خطہ میں ہوں
جس نے بھی سرور و غازی کے حرم چومے ہیں
میں نے اس چاہنے والے کے قدم چومے ہیں
حرم شاہ سے عباس کے روضے کی طرف
دیکھئے چشم بصیرت سے ہے اک نور کی صف
فاطمہ احمد و شبیر تو کہیں شاہ نجف
ان کے انوار نے پرنور بنا رکھا ہے
عصمتوں نے مری محفل کو سجا رکھا ہے
یوں بھی پہنچائیے کیا ربط ہے مکے سے مرا
دوریاں جتنی ہیں مابین صفا و مروہ
فاصلہ اتنا ہی خالق نے مجھے بھی بخشا
مرتبہ میرا جو حاجی نہ سمجھ پائے گا
منہ پر اس حاجی کا حج مار دیا جائے گا
جاہد حق کو سمجھتا ہے مسافر میرا
خلد کی راہ پہ چلتا ہے مسافر میرا
روضۂ شہ پہ پہونچتا ہے مسافر میرا
جس کو غازی سے یہاں اذن سفر ملتا ہے
بس اسی کا در شبیر پہ سر جھکتا ہے
نیئر جلال پوری نے پروفیسر شارب رُدولوی کا ایک قصیدہ بارگاہِ حسین میں نذرانہ کے طور پر پیش کیا:
بے زری میںعمر گزری اور اب ہم پر کھلا
یہ قلم خسرو تھااور الفاظ تھے جوہر کھلا
کیا زمانہ آگیا ہے آج یہ ہم پر کھلا
ہے وہی رہزن سمجھتے تھے جسے رہبر کھلا
پھر زمانہ درپئے آزار ہے جائیں کدھر
پھر رہے ہیں لے کے دشمن ہاتھ میں خنجر کھلا
دوستی کیسی کہ یہ بھی دشمنوں کی چال ہے
ہر قدم پر دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
میں کہ اک ادنیٰ غلام خاندان مصطفےؐ
کچھ نہ تھا پوشیدہ اپنے پاس نا تھازر کھلا
مدح لکھنے میں تری الفاظ قاصر ہیں حسینؑ
لفظ کی وقعت ہے کیا یہ جاکے اب ہم پر کھلا
قفل ٹوٹا لفظ کا معنی کا دیکھو در کھلا
یہ خدا ہی جانے کس کے واسطے کیونکر کھلا
تہہ ہوئی دیکھو بساط شب چلے ما ہ و نجوم
آسماں پر شان سے پھر پرچم خاور کھلا
آخر میں نایاب ہلوری کے پاس محدود وقت بچا جس میں وہ اپنے تمام چاہنے والوں کو جو ان کو سننے کیلئے دیر رات رُکے تھے محظوظ نہ کرسکے، انہوں نے میزبانی کے فرائض نبھاتے ہوئے بہت ہی قلیل وقت میں اپنا کلام پیش کیا جب انہوں نے پڑھا ’’آئو ایک کام کریں کربلا عام کریں‘‘ ان کے ساتھ لاکھوں کے مجمع نے بھی ان کا پورا ساتھ دیا، پورے مجمع کی بے حساب فرمائشیں تھیں جن کے پورا کئے جانے کی وقت اجازت نہیں دے رہا تھا پھر بھی جو وہ پڑھ سکتے تھے انہوں نے پڑھا؛پیش ہے ان کی ایک منقبت:
جانے کیا چاہتے ہیں فرشِ عزا کے دشمن
کتنے بے شرم ہیں یہ شرم و حیا کے دشمن
کلمہ پڑھتے ہیں بھتیجے کا چچا کے دشمن
منکر مجلس و ماتم ہیں خداا کے دشمن
پردہ ان لوگوں کے چہروں سے ہٹانا ہوگا
ظلم کو ظلم کا انجام بتانا ہوگا
۔۔۔۔۔
سن لے جو نام وہ بے ساختہ لعنت بھیجے
صورتیں دیکھتے ہیں آئینہ لعنت بھیجے
فاصلہ رکھ کے ہر اک فیصلہ لعنت بھیجے
ایسے حافظ ہیں کہ خود حافظہ لعنت بھیجے
آلِ عمران کی تفسیر انہیں یاد نہیں
آیتیں یاد ہیں شبیر انہیں یاد نہیں
مرحبا چہلم شبیر ؑ منانے والے
گوشے گوشے سے چلے آتے ہیں آنے والے
محو حیرت ہیں اُمیہ کے گھرانے والے
کہہ رہے ہیں یہ زمانے سے زمانے والے
شرط مذہب نہیں جس میں وہ ادارہ ہے حسین ؑ
آج ہر قوم یہ کہتی ہے ہمارا ہے حسین
کبھی نقطہ کبھی آیت کبھی قرآن پہ شک
کبھی ایمان کبھی صاحب ایمان پہ شک
محسن احمد مختار کے احسان پہ شک
ہاں تو پھر ہم کو بھی ہے ایسے مسلمان پہ شک
ٹمٹماتے ہوئے سورج سے تو جگنو اچھے
ایسے کم ظرف مسلمانوں سے ہندو اچھے
ایسی محفل سجانا وہ بیھ اپنے شہر ہی نہیںاپنے ملک سے ہزاروں کلومیٹر دور ناممکن کے برابر ہے لیکن انجمن غلامانِ سیدہ زینب کے صدر ببلو نے اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ پیسہ تو بہتوں کے پاس ہے لیکن اُس پیسے کو خرچ کرنے کا دل اور جذبہ سب کے پاس نہیں ہوتا۔ یہ امام کی محبت ہی ہے جو وہ اپنے تمام خانوادے کے ساتھ لاکھوں روپئے خرچ کرکے یہاں بین الحرمین پر صبر و وفا کا جشن مناتے ہیں اس کے لئے ہر ایک کو ان کے لئے دعا گو ہونا چاہئے کہ ان کے توفیقات میں اللہ دن دونی رات چوگنی ترقی عطا کرے۔