ندیم صدیقی
اُنیس سَو پینسٹھ کئی حوالے سے لوگوں کے ذہن میں ہونا چاہیے۔ ایک تو اسی سال ہند ۔پاک جنگ ہوئی تھی دوسری اہم بات یہ بھی کہ کانگریسی حکومت کے وزیر اعظم لال بہادرشاستری کے کابینی وزیر تعلیم محمد علی کریم چھاگلہ نے شوشہ چھوڑا کہ ’’اگر میں وزیر تعلیم رہ گیا تو مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر کسی غیر مسلم کو مقرر کر کے دِکھادوں گا۔‘‘
بات صرف اتنی ہی ہوتی تو شاید اس پر زیادہ توجہ نہ دی جاتی مگر چھاگلہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے نام سے لفظ ’ مسلم ‘ نکالنے کیلئے پارلیمنٹ میں بل(بھی) پیش کروں گا۔‘‘۔۔۔
ظاہر ہے کہ چھاگلہ کی یہ زہر بھری باتیں پورے ملک کے مسلمانوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں۔ مسلمانوں میں اشتعال کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ اُس وقت ملک میں ایک سے ایک سنجیدہ اور باشعور شخصیات مسلمانوں میں موجودتھیں، احتجاج اور ردِ عمل کا سلسلہ شروع ہوا۔ اُس دَور میں اخبار ہی بڑا ہتھیار تھا اوراُردوصحافی بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود تھے۔ لکھنؤ سے ہفت روزہ’ندائے ملت‘ نے چھاگلہ کی اس سازش کے خلاف ایک خاص شمارہ ’ مسلم یونی ورسٹی نمبر‘ کی اشاعت کا اعلان کیا ۔ صرف اس پر توجہ دیں کہ یہ نمبر ابھی شائع نہیں ہوا تھا مگر اُس کا شہرہ، اس کی طلب کا یہ عالم تھا کہ ندائے ملت کے دفتر میں روز بروز اس کی مانگ بڑھ رہی تھی۔ مختصر یہ کہ اشاعت سے قبل ہی اس خاص نمبر کی مقبولیت اور اہمیت کے پیشِ نظر سرکار حرکت میں آگئی اور پھر اس نمبر پر حکم ِامتناعی لگا دِیا گیا بہ الفاظ ِدیگر ندائے ملت کے مسلم یونی ورسٹی نمبر کی ضبطی کا حکم صادر کر دِیا گیا۔ مگر ندائے ملت کے روح رواں حفیظ نعمانی نے ایک جرأت اور پُر خطر حکمتِ علمی اپنائی اور کسی طور اِس نمبر کی خاصی تعداد لوگوں تک پہنچا ہی دِی۔ نتیجے میں انہوں نے اپنے دو رفقا کے ساتھ نو ماہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ اس جیل یاترا کی کہانی’’ رودادِ قفس ‘‘ کے نا م سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آچکی ہے۔
بہ حمد للہ حفیظ نعمانی پچیاسی(85) برس کی عمر میں بھی ذہنی طور پر توانا اور متحرک ہیں وہ تقریباً روزانہ اخبار کیلئے ایک مضمون لکھ لیتے ہیں جسے ملک بھر میں بصد شوق پڑھا جاتا ہے۔ محترم حفیظ نعمانی آج بھی مذکورہ’’ مسلم یونی ورسٹی نمبر‘‘ کو اپنی زندگی کا سب سے اہم کام سمجھتے ہیں۔ اس نمبر سے ان کی جذباتی وابستگی کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیے کہ انہوں نے ٹیبلائڈ سائز کے بہتر(72) صفحات کے اس نمبر کو ہو بہو یعنی شمارے میں شامل اشتہار سمیت دوبارہ شائع کر دِیا ہے ۔ 1965میں ’مسلم یونی ورسٹی‘ نمبر کی قیمت ایک روپیہ رکھی گئی تھی وہی قیمت آج بھی اشاعتِ ثانی میں درج ہے۔ہم نے اس خاص نمبر کے اشتہارات کا ذکر کیا ہے ، ممبئی میں ساٹھ ستر برس کی عمر کے لوگوں کے ذہن میں احمد (عمر آئل) ملز، راج آئل ملز، نور محمد فرنیچر اور گجرات ٹرانسپورٹس سروس (وغیرہ) کے نام تازہ ہونگے۔ ان تجارتی اداروں ہی کے اشتہارات اس نمبر میں نہیں بلکہ بعض ذاتی اعانتی اشتہار بھی اس میں شامل ہیں جس میں سے ایک نام یہاں درج کرتے ہیں وہ شخصیت تھی اے اے خان کی جو اُس وقت’ جمعیۃ علما مہاراشٹر کے سکریٹری تھے۔ ان کا تعاون بھی اس نمبر میں مرحوم کی ملی حمیت کا ثبوت بنا ہوا ہے۔
ندائے ملت کا یہ خاص شمارہ در اصل ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ کو
محترم حفیظ نعمانی نے اپنی نئی نسل تک پہنچانے کی سعیٔ احسن کی ہے۔ اس نمبرکے اکابرلکھنے والوں میں بدر الدین طیب جی، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر سید محمود، مولانا عبدالماجد دریابادی، مرزا افضل بیگ کشمیری، جاوید فیضی،حکیم عبد القوی دسنوی، شیو پرشاد سنہا(سابق جج ہائی کورٹ)، قاضی محمد عدیل عباسی ، یونس قنوجی، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی، گوپال متل، اختر بستوی، محمد اسحاق خاں (ایڈوکیٹ)، سلیمان ادھمی وکیل، انوار علی خاں سوزؔ،مولانا ابوالحسن علی ندوی، حسن واصف عثمانی، پروفیسر رشید احمد صدیقی، تیج بہادر سنہا(ایڈیٹر: روہیل کھنڈ اخبار۔ بریلی)، عثمان غنی(علیگ)، حیات اللہ انصاری(ایڈیٹر: قومی آواز۔ لکھنؤ)،ڈاکٹر ستیہ وادی(سابق ممبر پارلیمنٹ)، پروفیسر غلام احمد فرقت کاکوروی اور حضرتِ تخلص بھوپالی جیسے ممتاز اشخاص کے نام ہیں جن کی تحریروں سے یہ نمبر یادگار بنا ہوا ہے۔ اس شمارے کے جملہ مشمولات اُس عہد کی اُردو زبان کی زر خیزی کی بھی مثال بنے ہوئے ہیں۔ جاوید فیضی جیسے شاعر کہ آج ہمارے لئے یہ نام اجنبی ہے مگر جب اس شمارے میں اُن کی نظم’’کار گاہِ علم و دانش‘‘ پڑھی تو اپنی بے خبری پر ایک شرمندگی کا احساس ہوا۔ ایک کم چالیس اشعار پر مشتمل یہ نظم اس شمارے کے ابتدائی صفحات پرہے۔ نظم میں مسلم یونیورسٹی کی اہمیت و افادیت اور دانش گاہ کے تعلق سے شاعر کے جذبات ریکارڈہوگئے ہیں، یہ دوشعر نمونے کےطور پر ملاحظہ کریں:
تٗو مرے مخصوص کلچر کا اِک شائستہ روپ
تیری محرابوں پَہ لرزاں ہے مرے خوابوں کی دھوپ
رکھ دِیا تونے بدل کر وقت کا اندازِ فکر
تٗونے چھڑکا میرے پیراہن پَہ علم و فن کا عطر
مولانا عبد الماجد دریابادی کا یہ بیان بھی کیا تاریخ نہیں!!
’’ مسلم یونی ورسٹی۔ بہر حال مسلم یونی ورسٹی ہے۔ مسلم سب سے اوّل ہے ، مسلم سب سے آخر ہے۔ یہی مقصداس کا1920میں بھی تھا اور یہی مقصد و غایت اس کی آج بھی ہے۔(بنارس) ہندو یونیورسٹی بہت ٹھیک کر رہی ہے،جو اُس نے اپنے وہاں کے سارے اختیارات صرف ہندوؤں کے ہاتھ میں رکھے ہیں۔ مسلم یونیورسٹی میں بھی سارا اِختیار، اقتدار، انتظام صرف مسلمانوں کے ہاتھ میں رہنا چاہیے۔‘‘مولانا دریا بادی نے اسی تحریر میں سیکولر حکومت کی جو تعریف بیان کی ہے وہ بھی ایک اہم اوربنیادی نقطے پر مبنی ہے کہ’’ سیکولر حکومت کے معنٰی ہی یہ ہیں کہ ہر کیش و ملت کو اپنے عقائد و شعائر کے مطابق تعلیم و تربیت کی پوری آزادی حاصل ہو۔‘‘
حفیظ نعمانی( رابطہ:9984247500) نے’مسلم یونی ورسٹی نمبر‘ کو پچاس برس بعد دوبارہ شائع کر کے اپنی نئی نسل پر ایک احسان کیا ہے جس کیلئے بجا طور پر وہ ہمارےشکریے اور تکریم کے حق دار ہیں۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ نمبر کے ساتھ محترم حفیظ نعمانی نے اپنی عاقبت ہی نہیں تاریخ کے اوراق میں بھی اپنی زندگی درج کر وادِی ہے۔ حفیظ صاحب !مبارک ہو یہ زندگی۔!۔۔۔
اےکاش کوئی ادارہ یا کوئی شخص اس تاریخی دستاویزکو کتابی صورت دیدے تو یہ آئندگان کیلئے بھی استفادے کی چیز بن جائیگی یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں۔ دُنیا بھر میں ابنائے قدیم مسلم یونی ورسٹی پھیلے ہوئے ہیں اور اللہ نے انھیں اس قابل بھی بنا رکھاہے کہ اپنی دانش گاہ کے حوالے سے اس تاریخی پیش کش کوکتاب بنادیں۔
ہمیں یقین ہے کہ ایسا ضرور ہوگا۔ علیگیرین حضرات کی ایک ذرا سی توجہ درکار ہے اور بس۔