Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldحبّ الوطنی جذبہ وگنگا جمنی تہذیب کا عکاّس برج نارائین چکبستؔ

حبّ الوطنی جذبہ وگنگا جمنی تہذیب کا عکاّس برج نارائین چکبستؔ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

محمد عباس دھالیوال

ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کی جب بات چلتی ہے تونظیرؔ اکبرآبادی کے بعد اس ضمن میںجونام سرفہرست ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ ہے اردو نظم میں اپنا ایک منفرد مقام رکھنے والے شاعر آنجہانی پنڈت برج نارائین چکبست ؔ کا ۔۔ کشمیری پنڈتوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے چکبست 19جنوری 1882 کو فیض آباد میں پیدا ہوئے ،مگر چند سال بعد ہی لکھنئو چلے آئے ۔آپ کی بقیہ تعلیم و تربیت، اردو ادب کی نفاست کا گہوارہ اور دبستاں کہلائے جانے وا لے اسی ادبی شہر یعنی لکھنئو کی فضائوں میںہوئی،آپ نے فارسی اور اردو زبان سیکھنے کے ساتھ مغربی تعلیم بھی حاصل کی۔1905ء میںکیننگ کالج سے بی۔ اے ۔کی ڈگری حاصل کی اور 1908ء میں قانون کا امتحان پاس کر کے اپنی وکالت شروع کر دی اسی دوران آپ کی شادی ہو گئی ،لیکن قسمت کا کھیل دیکھیں کہ آپ کی بیوی کی بچے کی پیدائیش کے دوران موت ہوگئی۔
چکبست نے اپنے پیشہ یعنی وکالت میںبہت ہی کم عرصہ میں وہ نمایاںمقام حاصل کیا کہ آپ کا شماراس وقت کے نامی وکلاء میں ہونے لگا تھا۔
آپ کوشاعری کا شوق اوّل عمری سے ہی تھااسی ضمن میں افضال احمد نے اپنی کتاب ’’چکبست حیات اور ادبی خدمات ‘‘ میں چکبست کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ ابھی آٹھ برس کی عمر تھی کہ ایک روز اپنے کوٹھے پر کھڑے تھے ۔سامنے نواب وزیر حسن صاحب کبوتر اڑا رہے تھے کہ اتنے میں کسی اور کا ایک کبوتر نواب صاحب کے کبوتروں کے جھنڈ میں شامل ہوکر گھر میں آگیا۔وزیر حسن صاحب نے فوراً کبوتر کو پکڑ لیاپھر اس کے پروں میں جیسے ہی گرہ لگاکرجیسے ہی اسکو چھوڑا،نہ معلوم کیسے گرہ کھل گئی اور کبوتر اڑگیانواب صاحب دیکھتے ہی رہ گئے۔چکبست نے جو اس تمام واقع کو دیکھ رہے تھے فوراً ایک شعر کہا۔۔
تڑپ کر توڑڈالے بند بازو کے کبوتر نے
بہت باندھا تھا کس کر ایک پر کو دوسرے پر سے
چکبست نے 1894 ء میں 12برس کی عمر میں ایک نظم ’’حب قومی ‘‘ کے نام سے لکھی تھی۔اس میں انکی پختہ خیالی کا اندازہ نظم کے اس شعر سے ہی کرسکتے ہیں کہ
لطف یکتائی میںجو ہے وہ دوئی میں کہا ں
برخلاف اسکے جو ہو سمجھو کہ وہ دیوانہ ہے
نخل الفت جن کی کوشش سے اگا ہے قوم میں
قابل تعریف ان کی ہمتِ مردانہ ہے
عموماً نئے شاعر اپنی شاعری کا آغاز غزلیات کی صنفِ شاعری سے کرتے ہیں لیکن چکبست نے اپنی شاعری کا آغاز پہلے پہل ہی نظم سے کیا ۔ آپ نے باقاعدہ کسی شاعر کو استاد نہیں بنایا،اردو شاعری میں چلی آرہیں پرانی روایا ت وفرسودہ طرز کہن کو آپ نے اپنی شاعری سے پاک رکھا اور اپنی شاعری میں نئے موضوعات اور خیا لات کے اظہار کا ذریعہ بنایا اس طرح انھوں نے اردو ادب میںنئے ایّام قائم کیئے۔
دراصل جب چکبست نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تب ملک میں جنگ آزادی کو لیکر ایک جدوجہد چل رہی تھی ۔ شاعر جس ماحول میں رہتا ہے اور جیتا ہے ان چیزوں کا اس کی زندگی کا عنصر بننا ایک قدرتی اور لازمی جز خیال کیا جاتا ہے چکبست ایک روشن دماغ و روشن خیا ل شاعر تھے اور اپنے وطن عزیز کی آزادی کے متمنیّ تھے ،یہی وجہ ہے کہ انکی بیشتر نظمیں جدوجہد آزادی کی مظہر و حمایت کرتی دیکھائی دیتی ہیں ساتھ ہی انکی نظمیں نوجوانوں کے خیالات وجذبات کی عکاسی و ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں۔
یوں تو چکبست نے اپنی شاعری میں اپنی راہیں خود ہی بنائی اور خود ہی ہموار کی ،لیکن کہیں کہیں وہ انیس کی شاعری کی تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ہاں ان کے یہاں مرثیہ تو نہیں ،لیکن انھوں نے انیس کے مرثیہ والے انداز بیاں کو رامائن کے بیان میں صرف کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔غزلوں ،نظموں کے علاوہ انھوں نے شخصی مرثیے بھی لکھے ہیں ۔اپنی قابل قدر تخلیقات کی بدولت اہل ادب کی نظر میں وہ آج بھی عزّت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔
چکبست ایک نقلابی شاعر تھے انھوں نے بیوہ عورتوں کی شادی کا بیڑہ اٹھایا حالانکہ ان کی مذہبی روایا ت میں اس فعل کو معیوب اور گنا ہ کے مترادف سمجھا جاتا تھا لیکن انھوں نے اس بات کی پرواہ کیے بغیر اپنے قوم میں پائی جانے والی طرز کہن کے خلاف آواز اٹھائی اسی طرح جہاں انھوں نے رامائن کے گیت لکھے وہیں انھوں نے مسلم قوم کو انکی امیر وراثت کا واسطہ دیکر بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔اس طرح انھوں نے اپنی شخصیت کے مطابق اپنی شاعری میں بھی اپنے ملک کے عوام کو ایک سیکولر سوچ والی ذہنیت رکھنے کی تلقین کی۔
شاعر ی کے ساتھ ساتھ آپ نے نثر نگاری میں نمایاں کارنامے انجام دیئے ۔ مضامین کے مجموعہ کے مطالعہ کے بعد چکبست کی شخصیت کے بہت سے مزید خوبصورت پہلو کھل کر سامنے آتے ہیں۔چکبست نے 1918ء میں ’’صبح امید‘‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا۔اسکے علاوہ ’’صبح وطن‘‘ انکے دیوان کا نام ہے دراصل یہ دونوں انکے وہ عظیم کارنامے ہیں جن سے ان کے حبّ الوطنی کے جزبہ کی بھرپور عکّاسی ہوتی ہے۔
آئیے اب ہم چکبست کے الگ الگ اشعار کے ذریئے ان کی شاعری کے مختلف محاسن سے روشناس و لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک جگہ آپ استاد کی قدر کرنے کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت ِ استاد کرتے ہیں
ایک دوسرے شعر میں عمر رفتہ کے یونہی عبث گزارنے کا پچھتاوا کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
نہ جانی قدر تیری عمر رفتہ ہم نے کالج میں
نکل آتے ہیں آنسو جب تجھے ہم یاد کرتے ہیں
ایک اور جگہ انسان کے دردِ محبت سے آشنا ہونے کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں کہ
اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا
اگر دم بھر بھی مٹ جاتی خلش خار تمنّا کی
دل حسرت طلب کو اپنی ہستی سے گلا ہوتا
چکبست ؔ کی حکمت و فلسفہ کی بصیرت کی عکاسی کرتا انکا یہ شعر دیکھیں۔
اک سلسلہ حوس کا ہے انساں کی زندگی
اس ایک مشت خاک کو غم دو جہاں کے ہیں
ایک ہی خیال پر جب دو بڑے شاعر طبع آزمائی کرتے ہیں تو کیا سماں باندھتے ہیں پہلے مو من خاں مومن کا ایک شعر دیکھیں کہ
ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو انکی بزم میں
بوند بھر پانی سے ساری آبرو جاتی رہی
اسی طرح کے خیال کو چکبست نے اپنے ایک شعرمیں کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے کہ
رلایا اہل محفل کو نگاہِ یاس نے میری
قیامت تھی جو اک قطرہ ان آنکھوں سے جدا ہوتا
ایک اور خوبصورت ومرصع غزل سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
انھیں یہ فکر ہے ہر دم نئی طرزِجفا کیا ہے
ہمیں یہ شوق ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے
گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف
سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے۔
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسم شہادت سے
بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے
امیدیں مل گئی مٹی میں دور ضبط آخر ہے
صدائے غیب بتلادے ہمیںحکم خدا کیا ہے
چکبست اپنے پیشہ سے وابستہ یعنی وکیلوں کی حالت زار پر بھی مزاح کرنے سے نہیں چوکتے ،ملاحظہ فرمائیں۔
مرتے دم جب ملک الموت مقابل آیا
دل ناشاد یہ سمجھا کہ مئو کل آیا
ہم لائے مئوکل کو تقدیر اسے کہتے ہیں
وہ پھنس کے نکل بھاگا تقدیر اسے کہتے ہیں
قومی یکجہتی کی منظر کشی کرتا ایک بند مالحظہ فرمائیں
دیوار ودر سے اب ان کا اثر عیاں ہے
اپنی رگوں میں اب تک ان کا لہو رواں ہے
اب تک اثر میں ڈوبی ناقوس کی فغاں ہے
فردوس گوش اب تک کیفیتِ اذاں ہے
کشمیر سے عیاں ہے جنّت کا رنگ اب تک
شوکت سے بہہ رہا ہے دریائے گنگ اب تک
چکبست کی نظم رامائن کا ایک سین میںسے ایک بند ملاحظہ فرمائیں اس بند میں رام چندر جی جب اپنی ماں سے رخصت لینے کے لیے آتے ہیں اس سین میں والدین کی فرمانبرداری اور بیٹے کی رخصتی کا ماں کوکس قدر درداور ملال ہے اسکا منظرچکبست نے نہایت دلکش انداز میںپیش کیا ہے ،ملاحظہ فرمائیں۔
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
راہ ِ وفا کی منزل ِ اوّل ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام
دامن سے اشک پوچھ کے دل سے کیا کلام
اظہار ِ بیکسی سے ستم ہوگا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی
دل کو سنبھالتا ہو ا آخر وہ نو نہال
خاموش ماں کے پا س گیا صورت ِ خیال
دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتا سا ہو گیا ہے یہ ہے شدّت ملال
تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویر ِ سنگ ہے
کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
نورِ نظر پہ دیدہء حسرت سے کی نگاہ
جنبش ہوئی لبوں کو بھری ایک سرد آہ
لی گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رخ کی راہ
اپنی نظموں میں چکبست نے نہ صرف ہندوئوں کو مخاطب کیا ،بلکہ انھوں نے مسلمانوں کو بھی انکے قابل فخر ورثہ کا واسطہ دیکر جگانے کی پر زور کوشش کی ۔نظم سے ایک بند حظہ فرمائیں ۔
دکھادو جوہر اسلام اے مسلمانوں
وقار قوم گیا قوم کے نگہبانوں
ستون ملک کے ہو قدر فوقیت جانو
جفا وطن پہ ہے فرضِ وفا کو پہچانو
نبی خلق مروت کے ورثہ دار ہو تم
عرب کی شان حمیت کی یادگار ہو تم
اردونظم کے یہ عظیم شاعر 12 فروری 1926ء کو ایک مقدمہ کی پیروی کے سلسلے میں رائے بریلی تشریف لے گئے ،دوران پیشی عدالت میں بحث کی اور سہ پہر کو لکھنئو کے لیے واپسی کی خاطر اسٹیشن پہ جو آئے ،اور ریل میں سوار ہو کر اپنی سیٹ پر بیٹھے ہی تھے کہ دماغ پر فالج کا اٹیک ہوا ۔جس کے چلتے مسافروں نے اسٹیشن پر ہی اتار لیا اور ویٹنگ روم میں لٹا دیا گیا ۔جہاں قریب شام 7بجے آپ اس دنیائے فانی سے قریب 44سال کی قلیل عمر میں ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد محشر ؔ لکھنوی نے آپ ہی کے مصرع سے تاریخ نکالی ۔
انھیں کے مصرع سے تاریخ سے ہمراہ عزا
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
مالیر کوٹلہ،پنجاب
Phone.9855259650
[email protected]

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular