جتنا بھی ہوسکے کیرالہ والوں کیلئے کرنا چاہئے

0
208

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

حفیظ نعمانی۔

ہم جہاں بیٹھے ہیں کیرالہ وہاں سے اتنی دور ہے کہ کسی ساتھی کی زبان سے یہ سننے کو نہیں ملتا کہ کالی کٹ گئے تھے اور کنا ّنور سے کل واپسی ہوئی ہے۔ 1968 ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا سلور جبلی دو روزہ کنونشن ہونا تھا۔ یونس سلیم صاحب کا فون آیا کہ کیا کیرالہ جائوگے؟ ہم نے کہہ دیا کہ اتنے پیسے خرچ کرنے کے حال میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہلی تو آسکتے ہو؟ یہاں سے میرے ساتھ چلنا۔ اور اس طرح کیرالہ بھی جانا نصیب ہوگیا۔
یہ بھی یونس سلیم صاحب کی رفاقت کا ہی تحفہ ہے کہ اجلاس میں شرکت کے بعد کیرالہ کے مغربی کنارے کنا ّنور کے ایک کالج میں ان کی وجہ سے ایک پروگرام میں جانا ہوا اور ریلوے کے ڈپٹی منسٹر ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سفر کار سے کریں گے تاکہ کیرالہ کو اندر سے بھی دیکھ لیں۔ آج جب ٹی وی کا کیمرہ پانی میں ڈوبے ہوئے علاقوں کو دکھلا رہا ہے تو حافظہ میں وہ تمام تصویریں آرہی ہیں جو کار کے سفر کی وجہ سے دیکھنے کو مل گئی تھیں۔ کئی سو کلومیٹر کے اس سفر میں دیکھا تھا کہ وہاں کی آبادیاں ایسی نہیں ہیں جیسی اپنے علاقہ میں لکھنؤ سے پنجاب جاتے ہوئے یا پٹنہ جاتے ہوئے راستہ میں نظر آتی ہیں۔ کیرالہ میں مکانات کے بجائے فارم ہائوس زیادہ نظر آئے سڑک کے دونوں طرف کھیت تو نظر نہیں آئے بس یہ دیکھا کہ زمین کے ایک ٹکڑے پر ایک کونہ میں خوبصورت بڑا یا چھوٹا بنگلہ بنا ہے اور باقی زمین میں ناریل ڈلی (جسے چھالی یا سپاری بھی کہتے ہیں) کاجو کالی مرچ اور نہ جانے کس کس چیز کے درخت لگے ہیں۔ میزبان احمد کٹی نے بتایاکہ یہی ان کا کاروبار ہے۔
جس پروگرام میں جانا ہوا تھا اس میں دوسرے دن شام کو ایک پروگرام کے آخر میں مسلم ایجوکیشنل تنظیم کی مدد کی اپیل کی گئی اور ایک صاحب نے ان حضرات کے نام پکارے جن لوگوں نے بڑی رقمیں دی تھیں جن میں دو لاکھ ڈیڑھ لاکھ اور ایک لاکھ یا اور کم تھے نظامت کرنے والے نام پکارکر انہیں قریب بلایا تاکہ لوگ دیکھ لیں۔ پھر ایک نام پکارا تو کوئی نہیں آیا پیچھے سے آواز آئی کہ یہاں بیٹھے ہیں۔ انہیں پھر بلایا اور پھر بلایا جب وہ نہیں اُٹھے تو ہر کسی کی گردن ان کی طرف گھوم گئی اور ان کو آنا ہی پڑا۔ مائک کے قریب آکر انہوں نے ہچکیوں سے رونا شروع کردیا اور روتے ہوئے کہا کہ جب کانفرنس کا دس سالہ جشن ہوا تھا تو میں نے ایک لاکھ روپئے دیے تھے۔ دو سال سے میرا کام بگڑا ہوا ہے میں نے بہت چاہا مگر 25 ہزار سے زیادہ میں نہ دے سکا میںاپنا چہرہ نہیںدکھانا چاہتا تھا لیکن آپ نہیں مانے۔ پورے مجمع نے جتنی دعائیں ان کو دیں کسی کو نہیں دیں۔ اور دو دوستوں نے سہارا دے کر ان کی کرسی تک پہونچایا۔
اس تنظیم کے بانی ڈاکٹر عبدالغفور مرحوم تھے انہوں نے مسلمانوں کیلئے جگہ جگہ چھوٹے اسپتال بنوائے تھے ایک میڈیکل کالج قائم کیا تھا دوسرے میڈیکل کالج کے لئے ہی سلور جبلی کنونشن میںاپیل کی تھی آج سے پچاس سال پہلے ایک لاکھ کا مطلب آج کے ایک کروڑ کے قریب ہوں گے۔ یہ ہیں کیرالہ والے اور ایسا ہے ان کا دل۔ یہ کون بتا سکتا ہے کہ پروردگار کی وہ کون سی مصلحت ہے جس کا مظاہرہ اس شکل میںہوا ہے کہ 350 سے زیادہ مرگئے 20 لاکھ امدادی کیمپوں میں پڑے ہیں اور ہزاروں ابھی جہاں تھے وہیں پھنسے ہوئے ہیں۔ فوج اپنا فرض اسی طرح ادا کررہی ہے جیسے اس نے اتراکھنڈ کے کیدار ناتھ اور کشمیر کے سری نگر میں کیا تھا۔ اور خبروں میں بتایا جارہا ہے کہ کیرالہ کے جن علاقوں میں خیریت ہے وہ اسی طرح مدد کررہے ہیں جیسے سگے رشتہ داروں کی کی جاتی ہے لیکن جو تباہی ہوئی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کا ہر آدمی اپنی حیثیت کے مطابق مدد کرے۔ فرمایا گیا ہے ’’ارحمو من فی الارض یرحمکم من فی السماء‘‘ تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو، آسمان پر رہنے والا تمہارے اوپر رحم کرے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر تم سیلاب میں پھنسوگے تو وہ رحم کرے گا بلکہ ہر پریشانی میں وہ دنیا میں ہو قبر میں ہو یا میدان حشر میں ہر جگہ تم پر رحم کرے گا۔ کیرالہ میں 20 فیصدی مسلمان ہیں ان میں اکثریت ان کی ہے جو عرب سے آئے تھے اور یہیں بس گئے ان کو موپلے کہا جاتا ہے اسی وجہ سے وہ جس بڑے علاقوں میں رہتے ہیں وہ موپلستان کہا جاتا ہے کیرالہ ہی ایک واحد صوبہ ہے جہاں مسلمان جب حکومت میں شریک ہوتے ہیں تو شو بوائے نہیںہوتے اپنے حصہ کے پورے مختار ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت ہندو مسلمان اور عیسائی کا مسئلہ نہیں ہے۔ وہاں کمیونسٹ حکومت ہے۔ اور جو طبقہ پورے ملک کی فضا خراب کرنا چاہ رہا ہے وہ ہر طرح وہاں بھی نفرت پھیلا رہا ہے جس سے کیرالہ کے لوگ بالکل ناواقف تھے۔
ایک بات پر حیرت ہے کہ ایسے ہر موقع پر دنیا کے ترقی یافتہ اور پڑوسی ملک امدادی سامان سے بھرے جہاز بھیجنا شروع کردیتے تھے لیکن ہم نے کوئی خبر نہیں سنی وزیراعظم نے پانچ سو کروڑ روپئے دیئے ہیں اور بتانے والے 20 ہزار کروڑ کے نقصان کا تو اب اندازہ کررہے ہیں لیکن جب امدادی کیمپوں سے 20 لاکھ ننگے بھوکے وہاں جائیںگے جہاں وہ رہتے تھے تو برس تو انہیں اپنا ٹھکانہ بنانے میں لگیں گے اور جو درخت اکھڑ گئے یا بیکارہوگئے انکا کیا ہوگا؟
کوئی شک نہیںکہ ملک کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ریاست انتہائی خوبصورت اور تعصب سے پاک صوبہ کے بہت پیارے لوگوں کے پاس پینے کاپانی بھی نہیں ہے۔ جو لوگ جس قابل بھی ہوں سب سے بہتر یہ ہے کہ وہ وزیراعلیٰ فنڈ میں چیک سے مدد بھیج دیں وہ کمیونسٹ لوگ ہیں جو بے ایمان نہیںہوتے۔ اور جو وہاں کام کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کھانے کا ایسا سامان جو جلدی خراب نہ ہو اور پانی بچوں، بڑوں، مردوں اور عورتوں کے کپڑے نئے ہوں یا پرانے اس لئے کہ جس کے جسم پر جو کپڑا ہے وہ اسی دن سے ہے جو پانی کا عذاب آنے سے پہلے پہنا تھا۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ سو سال سے ایسا عذاب نہیںآیا اور ہمارا خیال ہے کہ آج سے پہلے کبھی نہیں آیا ہوگا۔ وہاں جو بھی ہے اور جس مذہب کو مانتا ہے وہ بس اس سے رحم کی بھیک مانگے جس کے حکم کے بغیر پتّہ بھی نہیں ہل سکتا۔ ملک میںرہنے والے ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ جس چیز سے بھی مدد کرسکتا ہے اپنے ان بھائیوں کی مدد کرے اور جو روپیہ یا سامان بھیجنے کے قابل نہ ہو وہ ہر دن ہر نماز کے بعد اور عید کے دن نماز کے بعد ان سب کے لئے دعا کرے کہ پروردگار ہم سب کی اور ان کی خطائیں معاف کردے اور حالات ایسے بنادے کہ وہ اپنے گھر جاسکیں۔ آمین۔
Mobile No. 9984247500
خخخ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here