بس احساس کـــــی بات ہـــے۔۔۔۔!!!!

0
276

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

ڈاکٹر مینا نقوی

برتر سمجھ کے خود کو عمارت ہوئے وہ ہ لوگ
احساسِ کمتری سے بھی غارت ہوئے وہ لوگ
عالی جناب ہو کے رہا جن میں انکسار
تاریخ کے صفحوں پہ عبارت ہوئے وہ لوگ
بعض انسان کم ظرف ہوتے ہیں۔ جب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ اس پر اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اسے اپنی کاوشوں کا نیتجہ سمجھتے ہیں۔ اپنی کامیابیوں کے زعم میں وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتے ہیں۔ دوسروں کو حقیر سمجھنا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرنا ان کی عاد ت بن اتی ہے۔ ہمیں اپنے گرد و پیش ایسے بہت سے کردار ملیں گے۔ غرور و تکبر کی بڑی وجوہات میں مال و دولت، اعلیٰ عہدہ، حسب و نسب اور سب سے بڑھ کر علم اور دین داری شامل ہیں۔
گوکہ احساسِ کمتری بھی کم جان لیوا نہیں، مگر اس احساس میں ضد، حسد، رشک، جیلسی، جستجو اور مقابلہ جیسے عناصر کے ہونے سے سیکھنے کا عمل باقی رہتا ہے۔
احساسِ برتری البتہ خالص گھاٹے کا سودا ہے۔ برتری کا احساس شعور پہ خوش گمانی کی ایک تہہ جما دیتا ہے، جس کا اثر براہ راست حافظے پہ پڑتا ہے۔ چیزیں بھول کی نذر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ نسیان اور بھول کا منتہائے کمال یہ ہے کہ انسان اپنی اوقات بھول جائے۔ اوقات سے باہر نکلتے ہی عقل ہوش کی ساری قسمیں خیال کے ایک ایسے خلا میں چلی جاتی ہیں، جہاں ہر آسائش میسر آسکتی ہے، ایک حقیقت کے سوا۔
حقیقت سے دوری کا کوئی نقصان۔۔؟
حقیقت اوجھل ہوجائے، تو ادراک اور وجدان کی شمعیں یک قلم بجھ جاتی ہیں۔ خوش گما نیوں کا مسحور کردینے والا ایک راوی پہلو میں بیٹھ کر ہر دم چین ہی چین لکھتا ہے۔ خیال اور تصور ہاتھوں میں ہاتھ دیئے زعم کی نغمہ سرائی پہ رقص کرتے ہیں۔ عظمت کا خبط جھوم جھوم کر خودفراموشیوں کی بلائیں لیتاہے۔ اکڑ کی سرمستیاں فنا کے اس مقام کو چھولیتی ہیں، جہاں غرور کی دیوی بانہیں پھیلائے انسان پہ تن و ومن فدا ہونے کو تیار کھڑی ہوتی ہے۔ دیوی نے اگر رام کر دیا،تو زمین سے رابطہ ختم۔ بالکل ختم۔ پھر جذبات کا ہر ورق ہر دم ہواؤں کے دوش پہ۔ حقیقت سے پرے خود پسندی کی اڑانوں میں کہیں مست۔ یہ وہ منزل ہے، جہاں انسان بہت بلند اور وقار بہت پست ہوجا تا ہے۔ آدمی بڑا سوچ چھوٹی۔ عزت ان کے منصب کی ہوتی ہے، مگر کندھے یہ اپنے اچکاتے ہیں۔ بیشتر خلق خدا جو کچھ غائبانہ انہیں کہتی ہے، اس کا احساس تک بھی کرلینا ان کے دسترس سے باہر ہوجاتا ہے۔ یوں پھر کسی دن کسی حادثے کی منہ زور لہریں سارے جاہ و حشم کو تنکے کی طرح بہا لے جاتی ہیں،تو غم گساریوں کیلئے صرف تنہائیاں اور ویرانیاں آگے آتی ہیں۔ سلامیاں اور جی حضوریاں منہ موڑ کر اپنی پشت دکھاتی ہیں جس پہ انسان کی اوقات کا کُل تخمینہ درج ہوتا ہے۔ پھر کہتا ہے
’’میں نے ہمیشہ اچھا ہی کیا اور اچھا ہی سوچا، سزا کس بات کی ملی۔؟ ضرور کسی نے جادو ٹونہ کروا دیا ہوگا‘‘
احساسِ برتری سے پناہ۔۔!!!
کیوں۔؟ کیونکہ۔۔!!
سوچنے سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیتوں کا خون ہوجا تا ہے، اور احساس کا نامہ بر اس سانحے کی خبر کرنے آتا ہے، تو رستہ بھول جاتا ہے۔ !!!!

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here