ایک نیا ناول ’بنارس والی گلی‘

0
310

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

عادل رضا منصوری

اردو کے سنجیدہ قارئین کے لئے فیاض رفعت ایک جانا پہچانا نام ہے ، ہم برسوں سے ان کی تخلیقات پڑھتے آئے ہیں – ” بنارس والی گلی” ان کا نیا ناول ہے جو حال ہی میں (٢٠١٨) میں آیا ہے – یہ ناول یوں تو دیر سویر پڑھ ہی لیا جاتا مگر شافع قدوائی صاحب کے ایک آرٹیکل جو ہندو میں چھپا تھا ، نے اسے جلد از جلد پڑھنے پر مجبور کر دیا … شافع صاحب نے اس ناول کے بارے میں جو باتیں کیں وہ توجہ طلب تھیں ، اور ان کا یہ کہنا کہ ” it looks incredible that the wide raging and nuanced potentialities of auto -fiction is explored by a celebrated urdu author Faiyyaz Rafat ” ….. اور پھر ” immoral saga of our struggle for survival is creatively articulated in the novel which is perhaps the first full -fledged example of auto -fiction in Urdu ” نے اس ناول کو پڑھنے کا اشتیاق بڑھا دیا –

اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ فیاض صاحب نے جو زبان استعمال کی ہے وہ کمال کی چست ہے ، ایسی زبان اب کم-کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے ، آپ اس ناول کو اس کی تکنیک ، بیانیہ اور جزئیات نگاری کے لئے بھی یاد رکھ سکتے ہیں – علی گڑھ ، دلی ، ممبئی ، جھارکھنڈ ، بنارس کی گلی کوچوں اور ان میں بسنے والی شقافت اور تہذیب اس ناول میں سانس لیتی ہوئی محسوس کی جا سکتی ہے … جس طرح سے ان سب کا بیان ہوا ہے آپ حیران ہو جاتے ہیں کہ ایک تخلیق کار نے کتنی باریک بنی سےان سب جگہوں کو اپنے مشاہدے میں لیا ہے … کردار نگار بھی ایک اہم وصف ہے … تقیم کے بعد ہندوستان میں مسلم سماج میں پیدا ہوئے انتشار کو بھی ناول میں خوبی سے دکھایا گیا ہے اور اسی کے ساتھ ہندوستان کے مشترکہ کلچر کو بھی ، یعنی یہ ناول ایک توازن کو سامنے رکھتا ہے ، ون سایڈڈ کچھ بھی نہیں ہے –
مگر پھر بھی اس ناول کے حوالے سے کچھ سوال تو پیدا ہوتے ہی ہیں ، جیسے یہ ناول صرف مرکزی کردار جوواحد متکلم اور راوی بھی ہے کی زندگی کے صرف ایک حصّے پر روشنی ڈالتا ہے اور وہ ہے طوائف خانوں یا جنسی سرگرمیوں کی طرف ، اور ان کرداروں پر جو اس سے جنسی طور پر جڑے رہے ، باقی جو اس کے دوست یا دیگر کردار آتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی طور پر اسی سلسلے کی کڑی ہیں – دوسری اہم بات یہ اس ناول میں کئی جگہ ایسا ہوا کہ پیش کی گئ بات یا تو آپس میں کونٹراڈکٹ ہو گئی ہیں یا پھر مصنف کی نظر اس طرف گئی نہیں جیسے ” جیب میں بھری ہوئی پستول تھی – اسے آرام سے باہر نکالا – اس کی گراری گھما کر خالی چیمبر میں پانچ گولیاں ڈالی” ( صفحہ ١٣ )
ڈبلیو ایچ آڈن کی نظم کا ذکر صفحہ ١٣٠ پر ہوا ہے ، جس کی اشاعت ١٩٩٦ بتائی گئی ہے ، یا تو یہ اس کے ترجمے کی اشاعت کی تاریخ ہوگی یا پھر یہ پروف کی وجہ ہے ایسا ہوا ہے
” نسرین کا دھرم پری ورتن کر کے گوری کے مندر میں سات پھروں کی رسم ادا ہوئی ….. اب وہ نسرین کی بجائے کویتا بن چکی تھی …… نصیرن سام ہونے سے پہلے مہا کالی کے مندر میں جا کر اپنے شیوا کی زندگی کی رو رو کر بھیک مانگتی تھی ……..عدّت کے دن پورے ہوئے تو وہ ماتھا ٹیکنے گوری کے مندر گئی”
یہاں مصنف نے دھرم پری ورتن کے بعد صرف ایک جگہ شیوا اور نسرین کو مسجد کی سیڑھی پر ماتھا ٹیکتا ہوا دکھایا ہے …. پھر ہر جگہ یہ بتایا ہے کہ نسرین میں اپنے شوہر کا دھرم اپنا لیا …. تو پھر صرف ” عدّت ” کا ماننا ذرا عجیب سا لگتا ہے –
بنارس میں نسرین کو یہ خیال کیوں کر آئیگا …. ” مندروں میں دوداسیاں تھیں ” …. دیوداسی پرتھا دکن میں تو موجود رہی آزادی کے بعد بھی ، مگر بنارس کے حوالے سے دوداسیوں کا تصوّر ایک ایسی بات ہے جو میری جانکاری میں نہیں –
اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ کہانی ہے کس کی ، بادشاہ کی یا نسرین کی … نسرین جس کا ذکر ناول کے پہلے ہی باب میں ہوتا ہے اور بیچ میں وہ غائب ہو جاتی ہے ، مگر صفحہ ١٨٩ پر وہ واپس آتی ہے اور اس کے بعد کے تقریباً ٧٠ صفحات نسرین ہی ہے …. یا تو وہ اپنی کہانی بادشاہ کو سنا رہی ہے یا پھر اس کے بعد اس کا اپنا عمل ہے … تو یہ آٹو فکشن اگر ہے تو کس کا ؟ یہ سوال اٹھنا لازمی ہے ، پھر نسرین جب بادشاہ کی زندگی میں واپس آتی ہے تو مصنف نے اسے کچھ یوں بیان کیا ہے ” اس نے اپنی نیم باز آنکھوں کے اشارے سے مجھے بہار چلنے کے لئے کہا اور میں جیسے سحر میں بندھا ہوا اس کے ساتھ ہو لیا ……. میں اساطیر کی دنیا سے بہار آیا تو میں نے دیکھا کہ نسرین شب خوابی کے نیلے لبادے میں ملبوس نٹ راج کی مورتی کے نزدیک کھڑی ارغوانی جام اپنے گلے کے نیچے اتار رہی تھی ……….. وہ میری گود میں آ کر بیٹھ گئی اور …..میرے چہرے کو چومنے لگی ……..اور پھر دو بدن پیار کی آگ میں جل اٹھے …” ( صفحہ ١٨٩-١٩٢ )
لیکن جو نسرین شیوا کی موت کے بعد خودکشی کرنے کی کوشش کرتی ہے ، وہ اپنی دوست نواب بنو کے ساتھ ممبئی آتی ہے ، تو کیا وہ اداکارہ بن جاتی ہے ؟ اس میں اور بادشاہ سے ملنے میں کتنا وقت تھا ، اب اگر وہ اس غم سے آزاد ہو گئی تھی اور بادشاہ سے اپنا رشتہ پھر استوار کر چکی تھی تو پھر وہ بادشاہ سے ملنے کے بعد بنارس کیوں لوٹی ؟
یہ ایک غمزدہ عورت کے کردار سے مراد لینا ذرا مشکل کام ہے
مگر ان سب سے قطع نظر یہ ایک پڑھا جانے والا ناول ہے ، جس کو پڑھ کر لطف آتا ہے ، اور کافی کچھ جانا اور سمجھا جا سکتا ہے ، مصنف کے شعری ذوق ، فلسفے اور دیگر زبانوں کے ادب سے اس کی واقفیت بھی متاثر کرتی ہے ، ہندو میتھ کی جانکاری بھی مثبت انداز میں سامنے آتی ہے ، اس ناول کو پڑھا جانا ہی چاہیے – فیاض رفعت صاحب کو بہت مبارک
ضضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here