اک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں ہے

0
241

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

شاہ نواز قریشی

عالم نقوی ایک ایسے قلمکار اور صحافی ہیں۔ جن کے بارے میں ہم یہ فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں کہ وہ ممتاز زیادہ ہیں یا معروف زیادہ۔ ایک زمانے میں وہ ہمارے ہم جماعت تھے اور ہم مسلک بھی۔ اس وقت وہ فلم بھی دیکھتے تھے اور فلم پر بات بھی کرتے تھے۔ جہاں تک یاد آتا ہے۔ اس وقت عالم کا جھکاؤ بائیں بازو کے نظریات کی جانب تھا۔ چنانچہ وہ اس وقت کے سوویت یونین کے حامی بھی ہوا کرتے تھے۔ مگر عالم کے علم نے پہلے تو انہیں فلم سے دور کیا۔ پھر یہ ظالم علم عالم کو مذہب کی جانب ایسا لے گیا کہ یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہوگیا کے مصداق مذہب کے ہی ہوکر رہ گئے اور وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے کے مطابق وہ آج تک اسی کے ہیں۔
1974 میں عالم نے علی گڑھ یونیورسٹی سے نفسیات میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد بھی انہوں نے چہرے پڑھنے کے بجائے کتابوں پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔ انٹرمیجیٹ میں ہم نے بھی دو سال نفسیات پڑھی۔ مگر ہم ہمیشہ چہرے ہی پڑھتے رہے۔ وہ کتابیں اور ہم چہرے پڑھتے پڑھتے بوڑھے ہوگئے۔
ایم اے کرنے کے بعد عالم نے بہت سی ملازمتیں کیں وہ کلکتے میں بھی رہے اور وہاں ایک اسکول میں ہیڈماسٹر رہے۔ کلکتے سے ہمارا بھی تعلق رہا۔ 1969 میں ہم بھی وہاں ایک پرائمری اسکول میں ٹیچر تھے اور سوچا کرتے تھے کہ جنہیں ہم پڑھارہے ہیں، ان کا مستقبل بھلا کیا ہوسکتا ہے؟ لیکن وہ اسکول کچھ ہی عرصے بعد بند ہوگیا تو ہمیں اطمینان ہوا کہ چلو اسکول کے بچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ گیا۔ 1975 میں عالم دہلی چلے گئے تو اسی سال ہماری شادی خانہ آبادی لکھنؤ میں ہوئی۔ اس دوران عالم سے ہمارا رابطہ بالکل منقطع رہا۔ یہ تو اب معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے کہاں کہاں کیا کیا پاپڑ بیلے۔ وہ جب اخبار سے جڑے تو دوستوں کو شاید بار یعنی بوجھ سمجھ لیا۔ دہلی اور ممبئی دونوں شہروں میں وہ بڑے اخبارات سے وابستہ رہے۔ جن میں قومی آواز انقلاب اور اردو ٹائمز وغیرہ شامل تھے۔ لکھنؤ میں عالم، جمیل مہدی صاحب اور ان کے اخبار عزائم سے بھی منسلک رہے۔ سچائی یہ ہے کہ صحافی کے طور پر وہ دلی، لکھنؤ اور ممبئی ایک کرتے رہے۔ یعنی کبھی دلی میں ہیں، تو کبھی لکھنؤ میں اور کبھی ممبئی میں۔ ممبئی کے اردو ٹائمز سے 30اپریل 2011 کو سبکدوش ہوکر وہ لکھنؤ آگئے اور اودھ نامہ سے جڑ گئے اور انہوں نے اودھ نامہ کی شکل ہی بدل ڈالی اور اسے ظاہری اور باطنی دونوں حیثیتوں سے اپنا ہم شکل بنادیا لیکن ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں ہے کے مصداق اس اخبار سے چار سال تک منسلک رہنے کے بعد انہوں نے اودھ نامہ سے ترک تعلق کرلیا اور لکھنؤ بھی چھوڑ دیا پھر وہ علی گڑھ جاکر وہیں بس گئے۔
عالم نقوی لکھے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ چنانچہ وہ اتنا بے تحاشہ لکھتے ہیں کہ ان کے اداریوں اور مضامین کے مجموعوں کی شکل میں ان کی 9کتابیں شائع ہوکر منظرعام پر آچکی ہیں۔ ان کی ایک کتاب عذاب دانش کی اتنی مانگ ہوئی کہ اس کا دوسرا ایڈیشن بھی انہیں شائع کرانا پڑا۔ ماضی و حال اور ’’مستقبل‘‘ پر ان کی گہری نظر ہے۔ وہ ’’بیسویں صدی کا مرثیہ‘‘ بھی لکھ چکے ہیںاور ’’زمین کا نوحہ بھی‘‘ لوگوں کو ’’عذاب دانش‘‘ سے محفوظ رکھنے کے لیے انہوں نے ۔’’لہو چراغ‘‘ روشن کیے ہیں۔
جہاں تک عالم کے موضوعات کا تعلق ہے، انہوں نے سیاست، سماج اور ادبیات، ہر موضوع پر لکھا ہے اور بڑی بے خوفی اور بیباکی سے لکھتے چلے جارہے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی بدترین جارحانہ اور تخریبی پالیسیاں اور کارروائیاں عالم کے محبوب ترین موضوع ہیں۔ بین الاقوامی اور ملکی سطح پر مسلمانوں کی صورت حال اور ان کے مسائل پر بھی وہ برابر لکھا کرتے ہیں۔ کیونکہ ملت کا درد انہیں پریشان کرتا ہے اور یہ درد ایسا ہے کہ اس کا علاج نہ کسی پین کلر سے ممکن ہے نہ کسی سرجری سے۔ چنانچہ لکھنا اور لکھتے رہنا ان کی مجبوری ہے۔ شاید اسی طرح یہ درد کچھ کم ہوجاتا ہوگا۔
9956813853

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here