اپنے گھروں کو عبادتِ الٰہی کے نور سے روشن و منور کروانھیں قبر نہ بناؤ

0
450

الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی
(صدرالافاضل،واعظ)

ہر چیز کے لئے ایک موسم بہار ہوتا ہے قرآن کے بہار کا موسم ماہ مبارک رمضان ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ جو شخص اس مہینہ میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے تو اس کو ایک ختم قرآن کا ثواب ملے گا جو اس نے اس مہینہ کے علاوہ ختم کیا ہو۔مثلاً اگر کوئی شخص سورۂ قل ھواللہ احد پڑ ھے جس کی بسم اللہ سمیت پانچ آیتیں ہیں تو اس کو پانچ ختم قرآن کا ثواب ملے گا اور اگر اسی سورہ کو تین مرتبہ پڑھے گا تو پندرہ ختم قرآن کا ثواب ملے گا‘‘۔(اوصاف روزہ داران ص ۲۳۔ قرآن مکرم اور ھم صفحہ ۷۰)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :۔
’’ اپنے گھروں کو تلاوت ِ قرآن سے منور کرو اور انھیں قبر نہ بناؤجس طرح سے یہود و نصاریٰ ( یہودی اور عیسائی لوگ)کیا کرتے تھے کہ اپنے کلیسا اور گرجا گھروں میں تو عبادت کرتے تھے اور گھروں کو معطل رکھتے تھے ۔جس گھر میں کثر ت سے قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے تو اس گھر کی برکت میں اضافہ ہو تا ہے اور اس کے اہل میں فراخی ہوتی ہے اور وہ گھر آسمان والوں کے لئے یوں ہی چمکتا ہے جس طرح دنیا والوں کے لئے آسمان کے ستارے‘‘۔(تفسیر انوار النجف ج ۱ ص ۳۸)
گھروں مین قرآن کی تلاوت اور عبادت کرنا اعلائے کلمۂ حق اور نشر و اشاعتِ حقائق ِ اسلام اور وسیع پیمانہ پر قرآن کی تلاوت کا سبب ہے۔اس لئے کہ انسان جب اپنے گھر میں قرآن پڑھے گا تو فطری طور پر اس کے اہل و عیال کو بھی قرآن خو انی کا شوق پیدا ہوگا اور اس طرح سے معاشرے میں قرآن پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور قرآن خوانی میں وسعت پیدا ہوگی۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ جس گھر میں قرآن مجید پڑھا جاتا ہے یا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے اس گھر کی برکت بڑھتی ہے فرشتے اس میں موجود رہتے ہیں اور شیطان اس سے بھاگتے ہیں ۔اور اس گھر کی روشنی اہل ِ آسمان کو اسی طرح پہنچتی ہے جس طرح ستاروں کی اہل زمین کو ۔اور جس گھر میں قرآن نہیں پڑھا جاتا یا خدا کا ذکر نہیں کیا جاتا اس کی برکت کم ہو جاتی ہے ،فرشتے اس سے دور ہوتے ہیں اور شیاطین وہاں موجود رہتے ہیں‘‘۔(تہذیب الاسلام ،علامہ مجلسی علیہ الرحمہ ۔صفحہ ۴۷۶)
ایک موثق حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت امیر المومنین صلوات اللہ علیہ و آلہ نے اپنے مکان میں نماز کے لئے ایک حجرہ مقرر فرمایا تھا جو نہ بہت چھوٹا تھا نہ بہت بڑا۔جب رات ہوتی تو آپ اپنی جانماز اس میں لے جاتے اور نماز پڑھا کرتے تھے‘‘۔(تہذیب الاسلام ،علامہ مجلسی علیہ الرحمہ ۔صفحہ ۴۷۵)
حضر ت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:۔
’’ماہ مبارک رمضان کا استقبال قرآن سے کرو‘‘۔(بحار الانوار ج ۹۶ص ۳۸۶)
پیغمبر اسلام ؐ نے اپنے مشہور و معروف خطبۂ شعبانیہ میں ارشاد فرمایا ہے:۔
’’ اے لوگو ! خدا کا برکت،رحمت اور مغفرت سے بھرا مہینہ آرہا ہے۔یہ ایک ایسا مہینہ ہےجو تمام مہینوں سے بہتر ہے ،اس کے دن تمام دنوں سے بہتراور اس کی راتیں تمام راتوں سے بہتر،اس کے لمحات اور گھڑیاں تمام لمحات اور گھڑیوںسےافضل ہیں۔۔۔‘‘۔
ماہِ مبارک رمضان میں ہر نیک عمل کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔مگراس سال ہم ماہ مبار ک رمضان کا استقبال اس حال میں کر رہے ہیں کہ پورے ملک میںعالمی وبائی بیماری ’’ کورونا وائرس ‘‘ کا جان لیوا بھیانک حملہ جاری ہے۔ بعید نہیں ہے کہ مچھر ،پسّو اور چیونٹی سے بھی قلیل الجثہ بہت زیادہ چھوٹا یہاںتک کہ آنکھو ں سے بھی دکھائی نہ دینے والا یہ باریک و مہین تباہ کن ، ہلاکت خیز وائرس سائنس و ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور جدید اورایڈوانس زمانہ میں انسانی بد اعمالیوں،آپسی نفرتوں،بے جا عداوتوں اور آئے دن کے نت نئے قومی و فرقہ وارانہ ظلم وتشدد ، قتل و غارت گری،دھشت گردی، بربریت و سفاکیت،ظالموں کی حمایت اور مظلوموں کی اہانت ، عزت و شرافت کی نایابی، انسانیت و آدمیت کو تارتار اور شرمسار کر دینے والے بڑھتے خونی واقعات وغیرہ کی وجہ سے قدرتی قہر کی لہر یا خلاق ِ عالم کی طرف سے تازیانۂ عبرت ہے۔ بہر حال مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے اس وبا سے بچاؤکی غرض سے ہر ممکن اقدامات کئے جارہے ہیں۔ پو رے ملک میں ’’لاک ڈاؤن ‘‘اور ’’ سوشل ڈسٹینسنگ ‘‘ یعنی سماجی فاصلہ،جسمانی دوری کا نفاذ جاری ہے ۔سرکاری محکمۂ صحت کی جانب سے متعدد طبی حفاظتی تدابیر کی جارہی ہیں جن پر مکمل طور سے عمل کرنا چاہیئے۔مسجدوں،امامباڑوں اور گھروں میں بھی کوئی اجتماعی پروگرام فی الحال منعقد نہ کریں۔
بیشک ماہ رمضان المبارک تمام اہل ِ اسلام کے لئے نہایت اہمیت کا مہینہ ہے،خصوصی عبادت کا مہینہ ہے۔توبہ و استغفار اور دعا و مناجات کا مہینہ ہے۔رمضان المبارک اللہ کا مہینہ ہے۔یہ مہینہ تمام مہینوں کا سردار ہے۔اس مبارک مہینہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد پر کافی توجہ دی جاتی ہے،اور دینی بھی چاہیئے یہی دین کا تقاضا ہے۔یوں تو پورا یہ مہینہ رحمت وبرکت و مغفرت اور بے حد پر فضیلت ہے مگر چند تاریخیں بے حد خصوصیت کی حامل ہیں ،مثلاً یکم ؍ ماہ ِرمضان روز ولیعہدی امام علی رضا علیہ السلام ۲۰۱ھ؁،صحف ِ ابراہیم ؑ کا آغازِنزول،جنگ تبوک۹ھ؁۔۴؍ ماہ رمضان نزول ِ توریت۔۵؍ماہ رمضان امام ر ضا علیہ السلام کے ہاتھوں پر مامون نے بیعت کی ۲۰۱ھ؁۔۶؍ماہِ رمضان مسند نشینی امام رضا علیہ السلام کے نام کا سکہ جاری ہوا۔۷؍ ماہِ رمضان امام رضا علیہ السلام کے نام وثیقۂ ولیعہدی لکھا گیا۔۱۰؍ ماہِ رمضان وفات امّ المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ۱۰؁ بعثت۔۱۲؍ ماہِ رمضان جناب رسالتمآب ؐ نے اصحاب میں مواخات فرمائی۱ھ؁۔۱۳؍ ماہِ رمضان نزول انجیل۱۴؍ماہِ رمضان شہادت حضرت مختار ثقفی ؒ ۶۷ھ؁ ۔۱۵؍ ماہِ رمضان ولادتِ با سعادت حضرت امام حسن علیہ السلام ۳ھ؁۔۱۷؍ ماہِ رمضان جنگ ِ بدر فتح ہوئی۲ھ؁ رحلت ام المومنین عائشہ ۵۸ھ؁۔۱۸؍ ماہِ رمضان زبور کا نزول ہوا،آئندہ شب شبِ قدر۔۱۹؍ ماہِ رمضان مسجد کوفہ کے اندر حالتِ نماز میں سر مبارک امیر المومنین علیہ السلام پر عبد الرحمٰن ابن ملجم ملعون نے زہر آلود تلوار سے ضربت لگائی ۴۰ھ؁،روزِ مصیبت ہے۔۲۰؍ ماہِ رمضان آئندہ شب شبِ قدر، مکہ فتح ہوا،امیر المومنین ؑ نے خانۂ کعبہ مین بت شکنی کی۸ھ؁،روز ِ حزن ہے۔۲۱؍ شہادتِ امیر المومنین علیہ السلام۴۰ھ؁، یوم غم۔۲۲؍ ماہ ِ رمضان آئندہ شب شب ِ قدر ہے ،نزولِ قرآن ہوا۔۲۶؍ ماہِ رمضان آئندہ شب شبِ قدر ۔۲۸؍ ماہ رمضان آئندہ شب شبِ قدر ۔(ماخوذ از تحفۃ العوام و حسینی جنتری ادارۂ اصلاح لکھنو)۔
اور یکم ماہ ِ شوال المکرم روزِ عید الفطر ۔عید کی نماز بھی بڑی شان و شوکت اور عقیدت و احترام سے عید گاہوں اور بڑی مسجدوں میں اجتماعی طور سے ادا کی جاتی ہے،اور پھر عید ملن کا انداز ہی پیار و محبت سے لبریز نرالا شاندار با وقار تہوار ہوتا ہے مگر اس سال یہ سب بھی وقتی اور جزوی طور پر بند رہیں گے۔نماز عید بھی گھروں ہی میں رہ کر فرادیٰ ادا کی جائے گی۔خطبۂ نماز عید معطل رہے گا۔
واضح رہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتےہیں ۔مثبت اور منفی ۔ایک تعمیری دوسرے تخریبی۔اور فلسفی نقطۂ نظر سے ہر تعمیر کے پیچھے تخریب اور ہر تخریب کے پیچھے تعمیر کا عنصر بھی چھپا ہوا ہوتا ہے۔ساری دنیا میں’’کورونا وائرس ‘‘ کے باعث برپا موجودہ تباہی و بربادی اور تخریبی حالات میں ایک تعمیری و فلاحی معاملہ تو کھل کر سامنے آیا کہ نماز صرف مسجدوں ہی میں نہیں پڑھی جاتی ۔بلکہ بہت سی مسجدوں ہی سےنماز پنجگانہ کے اوقات پر دی جانے والی اذانوں میں حیّ علی الصلوٰۃ کا فقرہ نکال دیا گیا ہے اور اس کی جگہ صلّوا فی بیوتکم یعنی نماز اپنے گھروں میں پڑھو‘‘ ایسا بلند آواز سے لاؤڈاسپیکروں پر اعلان کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مناسب وقت آگیا ہے جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے فرمان پر پوری امتِ مسلمہ کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’ اپنے گھروں کو تلاوت ِ قرآن سے منور کرو اور انھیں قبر نہ بناؤ‘‘۔لہٰذاممکن ہو تو ہر مسلمان اپنے اپنے گھروں میں ایک کمرہ نماز،تلاوت قرآن،ذکر خدا اور عبادت کے لئے مخصوص کردیں اور اسی کے اندر ایک چھوٹا سا عزاخانہ بھی ہو جس میں چھوٹے چھوٹے علم مبارک اور تعزئیے سجائے گئے ہوں۔ گجرات ھندوستان میں تمام شیعہ خواہ سادات ہو ں، شیخ ہوں،مومن ہوں،خوجہ شیعہ اثنا عشری ہوں ،جلالی ہوں سب کے یہاں میں نے ایسا دیکھا ہے۔لکھنو میں اور کچھ دوسری جگہوں پر کہیں کہیں ایسا ہے مگر بہت کم۔ھندوستان میں اکثر علاقوں میں ایسا نہیں ہے۔جب کہ امریکہ ۔لندن ،انگلینڈ اور افریقہ مڈگاسکر،موریشس وغیرہ میں بھی میں نے بچشمِ خود دیکھا ہے کہ جو اصل گجراتی ھندوستانی نژاد شیعہ مسلمان آباد ہوگئے ہیں وہاں بھی ان کے گھروں میں ایک حجرہ نماز وغیرہ کے لئے مخصوص ہوتا ہے، جہاں قرآن مجید اور اورادو وظائف و اعمال وغیرہ کی کتابیں اردو ۔ھندی۔انگریزی ۔گجراتی ترجموں کےساتھ بڑے سلیقے سے موجود و مہیا ہوتی ہیں ۔اور اسی میں چھوٹا سا عزاخانہ بھی ہوتا ہے جس میں چھوٹے چھوٹے علم مبارک سجے ہوتے ہیں اور حضرت امام حسین ؑ اور حضرت عباس ؑ کی ضریحیں بھی رکھی ہوتی ہیں ۔کیونکہ نماز کے فوراً بعد شیعوں کا یہ طریقۂ عبادت ہے کہ وہ روضۂ رسول ؐ (سعودیہ عربیہ)۔روضۂ امام حسین ؑ (کربلاء معلّیٰ،عراق)اور روضۂ امام رضا ؑ (مشہد مقدس،ایران )کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو کر ائمۂ معصومین علیہم السلام کی زیارتیں پڑھتے ہیں۔وما توفیقی الّا باللہ العلی العظیم۔
ززز
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here