اُمتِ مسلمہ کا روشن ماضی اور اندھیرا حال

0
850

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ریاض ربانی کشمیری

جہاں ایک طرف اُمتِ مسلمہ کو بین الاقوامی سطح پر کافی سارے مشکلات کا سامنا ہے وہیں یہ اُمت اپنے کھوئے ہوئے درخشاں ماضی کو یاد کرکے خود کو تسلی دینے کی بھی زحمت نہیں کرتا۔حالانکہ وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ اس بچھڑی ہوئی اُمت کو اب نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ قومی و نجی سطح پر بھی ایسے حوصلہ مند،باغیرت اور دیندار رہنماؤں کی ضرورت ہیں جو اپنی مخلصانہ اور غیرت مندانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اس پسماندہ قوم کو ایک اعلیٰ اور منفرد مقام عطا کر سکیں اور اسے عصرِ حاضر کے تعلیمی،اسلامی،سیاسی،ترقیاتی،اقتصادی اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی آگے لے جا سکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس نے پوری دُنیا کو اعلیٰ تجربوں،بھاری مشینوں،جدید اشیاءاور ٹیکنالوجی سے متعارف کرایا اور انسانیت کو کسی حد تک ان سہولیات سے فائدہ پہنچایا لیکن دُوسری طرف انسانی قدروں،آپسی بھائی چارے اور مساوات کا جنازہ نکلوایا۔سائنس پہلے سے ہی متعارف رہا ہے جس پر انسانی ذہن اور فطرت کام کرتے آئے ہیں اگرچہ سائنسی دُنیا اتنی تیز رفتاری سے نہیں چلتی تھی جتنی کہ آج۔جدید سائنس کی تیز رفتاری اور ترقی نے نجی فائد وں کے ساتھ ساتھ انسانی رشتوں اور اخلاقیات میں دراریں پیوسط کیں ہیں جو کہ ایک بڑا حادثہ ہے۔ترقی اور سائنسی ایجادات کے ساتھ مذہبی عمل دخل بھی ضروری ہے۔جو صرف مہذب قوموں میں پایا جاتا تھا۔مگر اب بلکل نایات ہیں۔۔ترقی کے اس مادی دور میں نہ صرف انسان لالچی بلکہ خودغرضی کے اندھیرے میں اتنا گُم ہوچکا ہے جہاں سے اسکا واپس آنا مشکل ہوگیا ہے۔تواریخ کے اوراق پر یہ بات سنہرے الفاظ سے رقم ہے کہ دُنیا کی کئی تہذیب اور ترقی یافتہ قوموں میں انسانیت اور انسانی قدروں کو جہاں ایک اچھا خاصہ مقام حاصل تھا وہی ان کے علمی اور آفاقی تصور کو اعلیٰ نظریے سے گرداں جاتا تھا۔ان تہذیب اور ترقی یافتہ قوموں میں مسلمانوں کا مقام بلکل منفرد واعلیٰ تھا۔مگر دورِ جدید میں یہ قوم نہ صرف اپنے روشن کل کو بھول گئی بلکہ بڑی بدنصیبی اور حادثے کا شکار ہوئی ہے جس کی لاکھوں مثالیں ہمارے سامنے پڑی ہوئیں ہیں۔مغرب نے ایک طرف اسکی کردار کشی کی اور دوسری طرف اسکے اسلامی تصور اور تعلیم و ترقی کے شہرہ آفاق نظام کو اسکے دل و دماغ سے نکال کر اسے جدید تعلیم اور تقاضوں کے اندھیروں میں بند کردیا جہاں سے اسکو اپنی دُنیا بیکار اور غیروں کی دُنیا فائدہ مند لگنے لگی ہے۔جسکی وجہ سے امت مسلمہ نہ صرف اپنے تقاضوں سے بچھڑ گئی بلکہ جدید اور مادی دُنیا کے سامنے ایسے پیش ہونے لگی جیسے اس کا کوئی ماضی ہی نہیں۔اسطرح یہ قوم پسماندہ اور لاشعور سی ہوگئی۔مگر جب جب ایسا ہوا قوم کے کچھ بالغ العقل اور وسیع النظر علما اور اکابر خبردار کرنے میں جڑے اور اس قوم کی پسماندہ حالات پر رونے لگے۔آج بھی ایسے اکابر اس قوم کو اُن کا روشن ماضی یاد دلاکر یہی تقاضہ کررہے ہیں کہ اب بھی وقت ہے اس قوم کو جاگ جانے اور اپنے روشن ماضی کو پھر ایک بار تلاش کرنے اور اُس پر عمل پیرا ہونے کے لئے ایک ہوجائیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ اسلامی و تعلیمی میدان میں اپنی نئی نسل کو اس طرح تیار کرنے کی تلقین کر رہے ہیں تاکہ یہ قوم پھر ایک بار دُنیا کے سامنے اسطرح اُبھر کر آسکے اور اپنا کھویا ہوا سنہیرا کل واپس حاصل کرسکیں تاکہ دُنیا کے عظیم اور شہرہ آفاق اور تہذیب وتعلیم یافتہ قوموں کی سربراہی کر سکے۔
اگر چہ یہ بات دیدہ دنیا کے سامنے اوجھل ہے کہ دُنیائے علم و سائنس میں شاید مسلمانوں کا نہیں بلکہ صرف اور صرف غیر مسلموں کا ہی حق اور رول ہے یہ بات بلکل حقیقت برمبنی نہیں بلکہ ایک شوشہ ہے۔پیغمبر لولاک ﷺ اور انکے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالے علیہم اجمعین سے لیکر نہ صرف مسلمانوں نے اسلام کی اشاعت و ترویج کے لئے کام کئے ہیں بلکہ سائنس،فلسفہ،فلکیات،ادب اور دیگر علوم وفنون میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔دُنیا کی جدید سائنس یا فلسفہ وغیرہ اگرچہ مسلمانوں کے رول کو یک سو کرکے نئی نسل کو ایڈیسن، نیوٹن، آینسٹائن،افلاطون،سقراط وغیرہ کے بارے میں پوری معلومات فراہم کررہی ہیں وہی دُنیا کے تمام مسلمانوں کا اب یہ حق بنتا ہے کہ وہ اپنے مسلم معاشرے کو بالخصوص اور پوری دُنیا کو بالعموم مسلمانوں کے روشن ماضی کے حوالے سے متعارف کرائیں اور اپنی نسل کو اسلامی دُنیا سے جوڑ کر رکھیں۔مسلمانوں کا یہ بھی حق بنتا ہے کہ وہ اپنے مسلم معاشرے کے ذریعے ایک ایسی مہم چلائیں جس سے نہ صرف اسلامی ہستیوں اور بزرگوں بلکہ مسلمان بادشاہوں،سائنس دانوں،فلسفیوں،دانشوروں،ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں معلومات ہوں۔
اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کا سائنس،فلکیات،ریاضیات وغیرہ مضامین کے ساتھ ہمیشہ سے ہی دلچسپی رہی ہیں اور ہر کسی نے اپنے اپنے شعبے میں اہم کردار اور رول ادا کیا ہیں۔مثلاً
1۔ ”الحمیاری“ جس کا شمار ساتویں/آٹھویں صدی کے کیمیا دان جابر بن حیان کے معلمین میں کیا جاتا ہے خود ایک کیما یہ دان تھے۔
2۔”ابراھیم الفرازی“جو 777 میں پیدا ہوئے خلافت عباسیہ کے دور میں خلیفہ ہارون رشید کے تحقیقاتی اداروں سے وابسطہ ایک فلکیات دان تھے۔جن کا بیٹا ”محمد الفرازی“ بھی ایک فلکیات دان تھے۔
3۔”جابر بن حیان“ (721 تا 815 ) جو ایک کیمیاگر یعنی Chemist ہی نہیں بلکہ طبیعات،علم الادویہ،علم الہیت،چاند پر موجودہ حفرہ وغیرہ کی تحقیقات کرنے والا ایک ایسے مسلمان سائنس دان تھے جنہیں آج بھی بابائے کیمیا یعنی
FATHER OF CHEMISTRY
کہا جاتا ہے۔
4۔”یعقوب بن طارق“( 796 ) ایک مشہور مسلم ریاضی دان،فلکیات دان اور فلسفی تھے۔
5۔”ابنِ ترک“ جنہوں نے ریاضیات پر تحقیق کی۔الجبرا Algebra پر کام کیا جس کا آج چکوری مساواتوں Quadratic Equations سے متعلق صرف ایک باب دستیاب ہے۔
6۔”الاصمعی“ (739 تا 831 ) حیوانیات ونباتیات پر تحقیق و تحریر کرنے والا یہ مسلم سائنس دان عباسی خلیفہ ”مامون رشید“ کے اُستاد اور بہت بڑے عالمِ دین،عربی لغت میں درجہ امامت پر فائز ہیں۔
اسی طرح
”الخوارزی“ (780 تا 850 )
”الجاحظ“ (776 تا 868 )
”الکندی“ (801 تا 873 )
”ابنِ فرناس“ (810 تا 887 )
”علی ابن ربان الطبری“ (838 تا 870)
”جابر بن سنان البتانی“ (850 تا 923 )
اسی طرح الفرعانی،ابوبکر الرازی، الفارابی، المسعودی، احمد بن وحشیہ،عبد الرحمٰن الصوفی،ابنِ سینا،البیرونی،عمر خیام،احمد بن ماجد وغیرہ جیسے مسلمان سائنس دانوں،محققوں،عالموں اور روشن ستاروں وغیرہ کی ایک لمبی فہرست معلوم ہو سکتی ہے جنہوں نے اپنی قابلیت، بالغ نظری اور شہرہ آفاق صلاحیتوں سے دنیائے علم،سائنس،فلسفہ،ریاضیات،فلکیات،دینیات،کیمیات وغیرہ جیسے علوم و تحقیقات کی دُنیا میں سکے بٹا دیے ہیں۔اور عالمِ انسانیت کو کئی ایسی تحقیقات سے متعارف کرایا جو واقعی دیگر شخصیات کے علم و ادراک سے باہر تھا۔
مگر افسوس ! آج جدیدیت کے اس دوڑ بھری زندگی میں مسلمان اپنے ان روشن ستاروں کا نام تک بُھول بیٹھے ہیں۔وجہ صرف مغربیت کی غلامی اور اصل علم و تحقیق سے دُوری اختیار کرنا ہے۔مسلمانوں نے ماضی میں ایسے بھی بڑے بڑے سپہ سالار،فوجی جرنیل،فلسفی،دانشور،علما قرا،حفاظ ،شعرا ،ادبا وغیرہ پیدا کئے ہیں جن کی مثال پوری دنیا میں نہیں مل سکتی۔جس پر کسی اور دن ایک تفصیلاتی تحریر شائع ہوگی۔مسلمانوں کا ماضی یقیناً روزِ روشن کی طرح عیاں ہے مگر دورِ جدید کے اُن مسلمانوں کی وجہ سے تاریک ہو کر رہ گیا ہے جنہوں نے اپنی اصلیت اور سنہری تواریخ کو بھُلا کر دُوسری قوموں کی ایجادکردہ اشیا کا سہارہ لیا جن کے وہ غلام اور عادی بن کر رہ گئے ہیں۔گویا وہ اپنے ماضی سے شاید ہی کبھی وابسطہ تھے۔یہ وہ کھوکھلا مسمان رہ گئے ہیں جو اپنی نئی نسلوں کو بھی دوسری قوموں کی غلاظت کے رحم و کرم پر ہی چھوڑ دینا گوارا کریں گے مگر اپنی کھوئی ہوئی میراث کو پانے کے لئے اقدام نہیں اُٹھائیں گے۔حالانکہ مسلمان دُنیا کا وہ واحد بالغ النظر،وسیع القلب اور ذہین قوم ہے جو اگر چاہئے تو اپنی قابلیت اور ذہانت سے پوری دنیا کو حیران کر سکتی ہے مگر بدقسمتی سے یہ اپنی آزاد خیالی کو غلام بنا کر دوسروں کے سامنے بھیک مانگ رہا ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔حالانکہ حکیم الاُمت ڈاکٹر اقبال ؒ نے بھی اس قوم کو شاہین خیالی کا لباس پہنا کر پیش کیا تھا اور بار بار اسے جاگنے کی تلقین کرتا رہا۔جس کا عکس اُن کے ان اشعار میں واضع ہیں۔
تو اے مسافرِ شب خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نُورانی
اگر کھو گیا اِک نشیمن تو کیا غم
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں


Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here