انور جمال انور کی شاعری

0
310

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

رفعت عزمی

حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ جو شخص شاعر ہو اس کے اجداد بھی شاعر رہے ہوں گے یا شاعر کا بیٹا بھی شاعری کرتا ہو۔لیکن ایسے مفروضے راہ پاجاتے ہیں کہ فلاں کو شاعری ورثے میں ملی ہے۔اگر باپ شاعر ہو تو یہ توقع ضرور کی جاتی ہے کہ اس کے گھر میں ادب کی شمع جلتی رہنی چاہئے۔
میں اس وقت سید انور جمال انور کی شاعری کا ذکر کرنے بیٹھا ہوںاور یہ بتانا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ وہ معروف ترقی پسند شاعر مسعود اختر جمال کے بیٹے ہیں۔آئل اینڈ نیچورل گیس کمیشن (او این جی سی ) میں انجینئر کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد سبکدوش ہو کر اب وہ شعر و شاعری سے پوری طرح وابستہ ہو گئے ہیں یعنی ان کے اندر کا تخلیق کار پوری طرح بیدار ہو چکا ہے۔
سید انور 4جنوری 1944کو اپنے آبائی وطن ردولی میں پیدا ہوئے۔ان کے اجداد کو پہلی جنگ آزادی میں عملی طور پر شریک ہونے کی پاداش میں قصبہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔جنہوں نے پہلے وارانسی (بنارس) میں سکونت اختیار کی اس کے بعد الہٰ آباد کارخ کیا۔ملازمت کے سلسلہ میں انور کا زیادہ تر وقت آسام اور گجرات ریاستوں میں گزرا ,وقتاً فوقتاً وہ ردولی آتے رہے ان سے میری پہلی ملاقات شاہ خلیل احمد یعنی شبلی بھائی کے ہاں ہوئی تھی ۔
اردو انور جمال انور کے خون اور سانسوں میں رچی بسی ہے۔انجینئرنگ سروس سے منسلک ہونے کے سبب وہ دوران ملازمت ادب کی طرف پوری طرح راغب نہیںہو سکے،لیکن شعر و شاعری سے اپنا ناطہ کامیابی کے ساتھ برقرار رکھتے ہوئے اپنے ذوق سلیم کی رہنمائی میں پیش قدمی کرتے رہے۔دیکھتے ہی دیکھتے ان کی شاعری کے متعدد مجموعہ شرمندہ اشاعت ہو گئے۔پہلا مجموعہ 2001میں حرف تمنا ، دوسرا مجموعہ صبح امید 2004میں ، تیسرا مجموعہ نقوش حیات 2007میں اور چوتھا مجموعہ 2014کے دوران انبساط حیات طبع ہوا ۔یہ چاروں غزلیہ مجموعے ہیں۔سید انور کا پانچواں اور چھٹا مجموعہ خیالات کی بارات اور پرواز حیات بالترتیب 2016اور 2017میں قارئین تک پہنچے ۔شاعر نے غزلوں کے ساتھ ساتھ گیت ، نظمیں ، اور قطعات تو کہے ہی ہیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے حمد ، نعت ، منقبت اور سلام کی وساطت سے بھی اپنی صلاحیت کے تنوع کوبھی آشکار کیا ہے۔ان میں کچھ مجموعے دیو ناگری رسم الخط میں بھی شائع ہوئے ہیں۔سید انور کے تمام شعری مجموعوں تک میری رسائی تو ممکن نہ ہو سکی لیکن جو کلام میرے زیر مطالعہ رہا اس کی بنیاد پر ان کی شاعری کے حوالے سے کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ قارئین کوان کے تخلیقی جوہر کا اندازہ ہو سکے۔
پہلے غزلوں کی بات کی جائے۔ شاعر کے پاس اگر پختہ شعور اور ادراک موجود ہو اور وہ اردو شاعری کی روایت سے واقف بھی ہو تو اسے اپنے جذبات و نظریات الفاظ کے قالب میں ڈھالنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ترقی پسندی کے زیر اثر پروان چڑھا انور کے گھر کے ماحول اور ان کی فکر اس شعر میں پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔بظاہر یہ ایک شادہ سا شعر ہے لیکن اس کا رجائی پہلو اسے غیر معمولی بنا دیتا ہے۔اور غالباً اسے ان کی شاعری کا منشور بھی کہا جا سکتا ہے۔
ہر ایک صبح نئی اک امید پیدا ہو
ہر ایک شام نیا اک چراغ جل جائے
حالانہ کہ نرگسیت ہر دور میں موجود رہی ہے، لیکن فی الوقت اسے کچھ زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔بلکہ آج کا انسان صرف اپنی ہی تعریف کا متقاضی معلوم ہوتا ہے۔ایک مثال پیش ہے۔
خود پسندانہ نظر ہر ایک کی
کون اپنے حق میں توصیفی نہیں
غزل کے اشعار کا انتخاب پیش کرنا صرف میرا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ سید انور جمال انور صرف ایک بندھے ٹکے نظریہ سے شاعری نہیں کرتے بلکہ ان کے ہاں زندگی کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔
تم جوئے رواں ہو تو مگر اتنا سمجھ لو
کشکول فقیروں کا سمندر کی طرح ہے
اس شعر میں شاعر نے نئے طریقے سے ایک نیا اسلوب اختیار کرتے ہوئے عجیب انداز سے اپنی بات کہی ہے۔درج ذیل شعر غور کریں تو اپنی معنوی اور اسلوبی نوعیت کے لحاظ سے منفرد بھی ہے اور متاثر کن بھی۔پانی کی طرح اشکوں میں بھی طاقت ہوتی ہے اشکوں میں پوشیدہ توانائی کو محفوظ رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے شاعر نے بے کار اشک بہانے سے اجتناب کرنے کی تلقین کی ہے۔
لہو میں جن سے ہے رفتار ان کو روک کے رکھ
فضول اشک بہانے سے فائدہ کیا ہے
زمانہ سازی کے دور میں فن کار کی حساسیت حالات کے چپیٹوں میں آجاتی ہے اور وہ دانستہ طور پر حق بات کہنے کی جسارت نہیں کر پاتا اور اپنے ذاتی مفادات کا اسیر ہو جاتا ہے۔ اس کے فن کار ہونے پر سوالیہ نشان بھی عائد ہوجاتے ہیں۔
مصلحت دے نہ اجازت تو ہے یہ بات الگ
ورنہ بے حس کوئی فن کار نہیں ہوتا ہے
جب ملک میں دور درشن نشریات کی توسیع ہو رہی تھی تو اس دوران قومی نشریاتی رابطہ پر دیر رات ’اے سرٹیفیکٹ ‘(بالغان) کی فلمیں دکھائی جا تی تھیں ۔ نوجوان ان دنوں اپنے والدین کو نیند کی آغوش میں پہنچانے کا انتظار کر تے اور خود جاگتے رہتے تاکہ وہ ان فلم سے لطف اندوز ہو سکیں ۔ یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ معاشرتی نظام میں تبدیلی کے باعث اب بچے نا نی اور دادی سے کہانیاں سننے کی روایت سے نا واقف ہوچکے ہیں ۔موجودہ ما دی دور میں فنکا ر جب تک اپنا ہنر فروخت نہیں کر تا ہے تب تک اسے گزر بسر کے لیے دولت حا صل نہیں ہو پا تی ورنہ وہ مفلس کی طرح اپنی زندگی مکمل کر نے پر مجبو ر ہو جاتا ہے ۔ دو شعر دیکھئے ۔
بچوں میں نظر آتے ہیں انداز جوانی
اب سنتے نہیں نانی سے پریوں کی کہانی
زردار کی میزان نہیں جا دوگری ہے
سکوں کے عوض اپنا ہنر تول نہ دینا
درا صل دل کی بات کسی سے کہنے کا مطلب ہے را فاش کر دینا ، صرف دل کا معاملہ ہو تو بات رسوائی اور بدنا می تک محدود رہتی ہے اور شرمندگی کا سبب بنتی ہے ، لیکن اگر کوئی سنجیدہ مسئلہ ہو تو تمام کام بگڑ جا تے ہیں اس لیے رازداری بر قرار رکھنا نہایت ضروری ہے ۔شعر میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
میںنے دل کی بات جس سے بھی کہی جا سکے دشمنوں سے وہ تو مل گیا
خود ہی اپنے راز داں بنے رہو، کوئی راز داں تلا ش مت کرو
آج با زار بھاو ¿ تیز نہیں
دل کے سودے میں اب گریز نہیں
تنہا ہمیں نہیں ہیں خطاوار تم بھی ہو
دل کے معاملے میں گنہگار تم بھی ہو
ہوش مندی کا تقاضا ہے یہی دیوانو
تم گریباں میں کوئی تار نہ رہنے دینا
دن کی سب رو نقیں سمیٹے ہوئے
میرے آنگن سے جا رہی ہے دھوپ
دھیرے دھیرے چھا رہی ہیں آسماں پر بدلیاں
لمحہ لمحہ پھر سبو بر دوش ہو جانے کو ہے
بھانسی دینا والا منصف کرتا بھی تو کیا کر تا
گیتا اور قرآن اٹھانے والے اکثر جھوٹے تھے
عدل مبنی ہو آستھا پہ اگر
عدل ہر گزنہیں سیا ست ہے
انور جمال انور کے چنندہ اشعار پیش کر دیئے ہیں تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ ان کی غزلیں کہاں تک روایت اور موجودہ حالات سے ہم آہنگ ہیں ۔
انور کی شاعری کا مکمل جا ئزہ ان کی نظموں کے تذکرے کے بغیر ادھورا رہ جائے گا۔ لہٰذا ان کی کچھ اہم نظموں کے بارے میں تاثرات پیش کیے جا رہے ہیں ۔ نظم ’پروانہ ¿ آزادی‘ میں انہوں نے ملک کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے اپنی جان کی قر با نی دینے والوں کا جہاں ذکر کیا ہے اسی کے ساتھ آزادی کے بعد پیش آئے اندوہناک واقعات کی ترجمانی بھی کی ہے ۔ دوشعر حا ضر ہیں ۔
کتنے جانباز تھے وہ اگلے زمانے والے
ہم کو زنجیر غلامی سے چھڑانے والے
جن کے گھر جل گئے بے چین ہیں وہ دھرتی پر
کتنے آرام سے ہیں آگ لگانے والے
نظم ’سنسکاری گجرات ‘ کا اگرذکرنہ کیا جائے تو بات ادھوری رہ جائے گی ۔
گجرات ایک مر کز امن و امان تھا
ہر فرد کامیاب تھا اور کامران تھا
مخلو ط بستیوں میں تھا آپس میں میل جول
قومی یگانگت کا مثالی نشان تھا
انور کوئی ٹھکا نہ نہیں حادثات کا
جب بجلیاں گری تھیں کھلا آسمان تھا
”سر زمین با پو“ بھی ان کی ایک اہم نظم ہے ۔ نظم ” عصری میڈیا “ مخمس کے طور پر کہی گئی ہے ۔ جس کی ٹیپ کا بند ” سارے چینل ہم نے مول خریدے ہیں “ میں شاعر نے اس بند میں انسانی نفسیات کو خوبی سے بیان کیا ہے کہ سیکولر جمہوری نظام میں ایسا بھی ہوتاہے ۔
مسلم کا ایک نام فضا میں چھوڑ دیا
قوم کو ہی آتنک واد سے جو ڑ دیا
بھائی چارے کا ہر بندھن توڑ دیا
بھارت واسی لاچاری سے تکتے ہیں
سارے چینل ہم نے مول خریدے ہیں
” نظر اٹھا کے یہاں کون بیقرار نہیں “ ، ”اندھے عقیدے “ ، ” قیدیوں کے لیے “ ، ” گجرات کا ماضی “ ، ” قومی اتحاد “ ، ” میں ایک ویکتی ہندوستانی “ ، ” تصویر ہندوستان “ اور ” واتا ورن “ ان کی کامیاب نظمیں کہی جا سکتی ہیں ۔ نظموں میں انہوں نے جا بجا ضرورت کے مطابق ہندی الفاظ کا خوبصورت استعمال کیا ہے اور ان کا لہجہ غزلوں کے مقابلہ نظموں میں زیا دہ بیانیہ ظاہر ہو تا ہے جو کہ اس صنف کا تقاضا بھی ہے ۔
آخر میں سلام کا ایک شعر جس میں ایک آفاقی پیغام عوام تک پہنچانے کی کو شش کی گئی ہے ،پیش کر تے ہوئے اپنی بات ختم کر تا ہوں ۔
درمیان حق و با طل جنگ پیہم دیکھئے
کربلا ہے آج تک باطل سے برہم دیکھئے
B-314سول لائنس بارہ بنکی 225001( یوپی )
موبائل نمبر 9451818310

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here