امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کا نظریۂ تعلیم

0
196

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

ڈاکٹر مشتاق احمد
حال ہی میں مولانا آزاد کے تعلق سے شائع ہونے والی ایک کتاب کی تقریظ میں میں نے یہ بات تحریر کی ہے کہ بیسویں صدی کی جن شخصیات کو عالمی شہرت حاصل ہے ان میں مولانا ابوالکلام آزاد امتیازی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے افکار ونظریات کو ایک اسکول آف تھاٹس کا درجہ حاصل ہے ۔ میرے محدود مطالعے کے مطابق دنیا کی تمام ترقی یافتہ زبانوں میں مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور افکار ونظریات پر بے شمار کتابیں اور تحریریں موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی عبقری شخصیت نے نہ صرف برصغیر کے سنجیدہ افراد کے اذہان کومتاثر کیا بلکہ عالمی سطح پر حلقۂ دانشور کو مخاطب بھی کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج برصغیر کی اجتماعی، سیاسی ، مذہبی ، تہذیبی ، ثقافتی ، معاشرتی اور تعلیمی صورتحال کی واقفیت کے لئے مولانا آزاد کی تخلیقات کا مطالعہ ناگزیر ہے ۔یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ روز بروز ابوالکلام آزاد کے ذخیرۂ علمی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ چوں کہ مولانا آزاد پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ ان کے افکار ونظریات کا کوئی گوشہ اب پردۂ خفا نہیں رہا مگر ایک عظیم شخصیت کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان کے فکری ونظری اثاثے کے مطالعے کا در کبھی مقفل نہیں ہوتااور ہر شخص اپنے فہم وادراک اور تنقیدی بصیرت وبصارت کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرتا ہے ۔ کیوں کہ ہر انسان کے اندر غوروفکر کا مادہ الگ الگ ہوتا ہے اور اسی فطری قوت کی بدولت اپنی رائے قائم کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ مولانا آزاد کی ہمہ جہت شخصیت پر بھی یہ بات صادق آتی ہے کہ ان کے افکار ونظریات پر جتنا کچھ لکھا گیا ہے اس سے کہیں زیادہ لکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے ۔
قصہ مختصر یہ کہ راقم الحروف گذشتہ دو دہائیوں سے مولانا آزاد جیسی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف گوشے سے واقفیت حاصل کرنے کی جد وجہد میں ہے ۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ان کی عبقری شخصیت اور افکار ونظریات ایک بحر ذخّار کی حیثیت رکھتی ہے اور اس میں غوطہ زن ہو کر گوہرِ آبدار حاصل کرنا ہم جیسے ناتواں کے بس کی بات نہیں ۔ہاں ساحل پہ کھڑے ہو کر ان کے مدوجزرِ علم ودانش کو دیکھ کر جو کچھ سمجھ پایا ہوں اس کی بنیاد پر صفحۂ قرطاس پر وقتاً فوقتاً بکھیرتا رہتا ہوں۔ بالخصوص ان کی یومِ پیدائش اور یومِ وفات کے موقع پر اپنے قلم کو جنبش دیتا رہتا ہوں۔ پیشِ نظر مضمون بھی اسی کی ایک کڑی ہے ۔
اس مضمون میں متعینہ عنوان کے تقاضے کے تحت آپ سے مخاطب ہوں ۔ حالیہ دنوں میں اکثر یہ خبراخبار ورسائل میں شائع ہوتی رہی ہے۔بالخصوص حلقۂ سیاست کے افراد کے تعلق سے یہ فکر مندی ظاہر کی جاتی ہے کہ ہمارے تاریخی مدارس کے نصاب میں تبدیلی ہونی چاہئے یا پھر مدرسوں کو عصری علوم کے نصاب کا پابند ہونا چاہئے۔ سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم دی جانی چاہئے۔ ایک مایوس کن بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ مدرسہ سے فارغین صرف مدارس اور مسجدوں میں اساتذہ اور امامت کی جگہ کے ہی لائق ہیں۔ انہیں دیگر شعبۂ حیات میں جگہیں نہیں مل رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ تغیرِزمانہ کے ساتھ تمام شعبۂ حیات میں تبدیلی فطری عمل ہے ۔جہاں تک تعلیم کا سوال ہے تو اس میں بھی انقلاباتِ زمانہ کے ساتھ تبدیلی لازمی ہے ۔ لیکن تبدیلی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو نظام پہلے سے چل رہاہے اسے سرے سے خارج کردیا جائے یا رد کردیا جائے اور اس کی جگہ نیا نصاب داخل کرکے نئی دنیا کے متلاشی بن جائیں۔مولانا ابوالکلام آزاد نے آج سے تقریباً 100سال پہلے اس مسئلے کی طرف ملّتِ اسلامیہ کی توجہ مبذول کرائی تھی ۔ اگر آپ مولانا ابوالکلام آزاد کی اس تقریر کو سامنے رکھیں جوانہوں نے افتتاحِ مدرسہ اسلامیہ موجودہ مدرسہ عالیہ کولکاتا مورخہ ۱۳؍ دسمبر ۱۹۲۰ء کو کی تھی۔ ان کی اس تقریر میں جو درد مندی ہے وہ اس حقیقت کی تلقین کرتی ہے کہ وہ ہندوستانی تعلیم میں کیا کچھ تبدیلی چاہتے تھے ۔ یعنی ان کا نظریۂ تعلیم کیا تھا ۔ اس خطبہ میں مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں:
’’ہندوستان میں سرکاری تعلیم نے جو نقصانات ہمارے قومی خصائل واعمال کو پہنچائے ہیں ان میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ تحصیلِ علم کا مقصدِ اعلیٰ ہماری نظروں سے محجوب ہوگیا ہے ۔ علم خدا کی ایک پاک امانت ہے اور اس کو صرف اس لئے ڈھونڈنا چاہئے کہ وہ علم ہے ۔ لیکن سرکاری یونیورسٹیوں نے ہم کو ایک دوسری راہ بتلائی ہے ۔ وہ علم کا اس لئے شوق دلاتی ہے کہ بلا اس کے سرکاری نوکری نہیں مل سکتی ۔ پس اب ہندوستان میں علم کو علم کے لئے نہیں بلکہ معیشت کے لئے حاصل کیا جاتاہے ۔یہ بڑی بڑی تعلیمی عمارتیں جو انگریزی تعلیم کی نو آبادیاں ہیں ،کس مخلوق سے بھری ہوئی ہیں مشتاقانِ علم اور شیفتگانِ حقیقت سے نہیں ایک مٹھی گیہوں اور ایک پیالہ چاول کے پرستاروں سے ، جن کو یقین دلایا گیا ہے کہ بلا حصولِ تعلیم کے وہ اپنی غذا حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن میں آپ کے علم میں یہ حقیقت لانی چاہتا ہوں کہ علم کی اس عام تذلیل وتوہین کی تاریکی میں سچی علم پرستی کی ایک روشنی برابر چمکتی رہی ہے ۔یہ ہندوستان کے طالبینِ علم کی وہ جماعتیں ہیں جو اسلام کے قدیم مذہبی علوم اور مذہبی زبان کے فنون، مختلف عربی مدرسوں میں حاصل کر رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔یہ جذبہ بجز علم پرستی اور رضائے الٰہی کے اور کوئی دین بھی غرض نہیں رکھتا اور اس لئے ہندوستان بھر میں علم کو علم کے لئے اگر کوئی پڑھنے والی جماعت ہے تو وہ عربی مدارس ہی کی جماعت ہو سکتی ہے ‘‘۔
(خطباتِ آزاد۔مرتب مالک رام،ساہتیہ اکادمی، ایڈیشن 1974، ص:38-37)
مذکورہ عبارت سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی نگاہ میں علم کی کیا اہمیت ہے اور وہ تعلیم کے تئیں کس قدر سنجیدہ تھے اور علم کے تقاضے سے کس قدر واقف تھے، اس کا ثبوت ملتا ہے ۔اب ان کا ایک دوسرا خطبہ جو انہوں نے ۲۲؍ فروری ۱۹۴۷ء کو لکھنؤ میں دیا تھا جب وہ بہ حیثیت وزیر تعلیم لکھنؤ کونسل ہائوس میں عربی وفارسی نصاب ِ تعلیم کی اصلاحی کمیٹی کے جلسہ کی صدارت کر رہے تھے ۔اس خطبہ میں مدرسۂ اسلامیہ کی تاریخ ،اس کے تعلیمی نصاب ، اس کی افادیت اور اس میں تبدیلی کی ضرورت کوواضح کیا گیاہے ۔ انہو ںنے اس خطبہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مدرسہ کی تعلیم محض اس لئے عصری تعلیم سے پیچھے رہ گئی ہے کہ ہم نے اپنے اصل طریقۂ تعلیم کو چھوڑ دیا ہے ۔ اگر ہم اپنے اکابرین کے اصولِ تعلیم کو حرزِ جاں رکھتے تو ہم کسی بھی شعبۂ حیات میں پسماندہ نہیں ہوتے۔ ہم زمانے کے ساتھ قدم ملا کر چلتے اور تغیرِ زمانہ کے ساتھ تبدیلی بھی لاتے۔ انہوں نے پوری تاریخ پر روشنی ڈالی ہے اور یہ انکشاف کیا ہے کہ ساتویں صدی ہجری تک پہنچتے پہنچتے ہم اپنے مقصدِ اعلیٰ سے منحرف ہو جاتے ہیں ۔ نتیجہ ہے کہ ہم تمام تر نئے علوم سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔بقول مولانا آزاد:
’’علم وفن کے ہر گوشے میں یہ چیز آپ کو نظر آئے گی کہ جو درخت تہذیب وتدوین کا پھل پھول رہا تھا اس کی شاخیں ساتویں صدی تک کمال مرتبہ تک پہنچ گئیں اور بجائے اس کے کہ پھلتا پھولتا اچانک آپ کو نظر آئے گا کہ اب پت جھڑ شروع ہوگئی ہے اور درخت بڑھنے کی جگہ گھٹ رہاہے چنانچہ ساتویں ہجری کے بعد اسلامی علوم پر ایک عالم گیر تنزل کا دور شروع ہوگیا ۔چنانچہ اس کے بعد سے کسی علم وفن میں الّا یہ کہ کسی گوشے میں کبھی کبھی کوئی نادر شخصیت پیدا ہوگئی‘‘۔
  (خطباتِ آزاد۔ ص:307)
دراصل مولانا آزاد کی فکر مندی یہ ہے کہ ہمارے پاس جو اثاثۂ علم وہنر تھا اس سے ہم نے خاطر خواہ استفادہ نہیں کیا ۔ بلا شبہ تاریخِ اسلامیہ کے اوراق اس حقیقت کے غمّاز ہیں کہ ساتویں صدری سے پہلے پوری دنیا ہمارے اکابرین کے افکار ونظریات سے استفادہ کرتی نظر آتی ہے ۔ تہذیب وتمدن اور نئے علوم کے معاملے میں ہم روم ویونان سے آگے نظر آتے ہیں اور یہ سب کچھ اس نصاب کی بدولت ہوا جسے ہم آپ عربی مدارس کا نصاب کہتے ہیں ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب تک ہم نے اپنے اس نصاب سے خود کو وابستہ رکھا اور علم حاصل کرتے رہے تو ہمارے درمیان ابنِ خلدون اور علاّمہ ابن تیمیہ جیسے نہ جانے کتنے قطب مشتری پیدا ہوئے ۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا وہ جگ ظاہر ہے ۔ اس لئے مولانا آزاد نے اپنے اس خطبہ میں طریقۂ تعلیم مدارس اسلامیہ کی پوری تاریخ بیان کی ہے اور اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ عصری تعلیم اور قدیم تعلیم میںکیا فرق ہے ۔ بقول ان کے :
’’چند کتابوں کا علم حاصل ہو جاتاہے اور علوم حاصل نہیں ہوتے۔ آپ جانتے ہیں کہ چند کتابوں کا علم حاصل کرنے میں اور نفسِ علم حاصل کرنے میں بڑا فرق ہوتاہے ‘‘۔(خطباتِ آزاد۔ص:311)
مولانا آزاد ہمیں یہ بھی احساس دلاتے ہیں کہ :
’’میں جس چیز کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ساتویں ہجری میں ایک بنیادی تبدیلی ہوئی اور اس نے اسلامی علوم اور ا س کی بنیاد کو ہلا دیا ۔ اس سلسلے میںیہ بات آپ یاد رکھئے کہ ترقی اور تنزلی کا معاملہ ایک عجیب معاملہ ہے ۔ اتنی کھلی ہوئی اس تنزل کی باتیں ہوں یا ترقی کی باتیں ہوں ان کوآپ یا آپ کا زمانہ فوراً نہیں پکڑ سکتا یا محسوس نہیں کر سکتا ترقی یا تنزل دونوں بڑی دھیمی چال چلتے ہیں ۔ ایسی دھیمی چال چلتے ہیں کہ آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کوئی چل رہا ہے لیکن کافی وقت گذر جاتا ہے اور کافی مسافت زمانہ جب طے کرلیتا ہے تب آپ چونکتے ہیں ، مؤ رخ چونکتا ہے اور لکھتا ہے کہ حقیقت یہاں سے یہاں آگئی ۔ لیکن وہ اچانک نہیں آئی ہے‘‘۔(خطابِ آزاد۔ ص:315)
اسی خطبہ میں آگے کہتے ہیں :
’’اب جب ہم نے اس زمانے کو ایک حد تک متعین کرلیا تو ہمارے لئے یہ چیز صاف ہوگئی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تدرس وتدریس کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا تو وہ کس خمیر سے پیدا ہوا تھا ۔ ترقی کے خمیر سے یا تنزل کے خمیر سے ۔ہندوستان میں اول ہی روز سے اسلامی علوم کے درس وتدریس کی بنیاد جو قائم ہوئی تھی وہ تنزل کے دور کا نتیجہ تھی ترقی کے دور کا نتیجہ نہیں تھی ‘‘۔(خطباتِ آزاد۔ ص:316)
انہوں نے اپنے خطبہ میں بیرن توسیؔ کا بھی ذکر کیا ہے ۔ واضح ہو کہ توسیؔ انیسویں صدی کا ایک دانشور تھا اور اس نے سو سے زیادہ ممالک کا سفر کیا تھا  ۔ بالخصوص ممالک اسلامیہ کے سفر کے بعد اپنا سفر نامہ جو گیارہ جلدوں میں ہے اس میں اس حقیقت کا انکشاف کیا تھا کہ جن طریقوں پر اسلامی تعلیم کا ڈھانچہ چل رہا ہے وہ کامیاب نہیں ہے ۔پھر اس کے بعد شیخ عبدہٗ اور سید جمال الدین نے بھی ۱۸۹۲ء میں اس طرف اشارہ کیا تھا کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں تبدیلی ہونی چاہئے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم نے شاید ان اکابرین کے فلسفۂ تعلیم کو اپنی فکر ونظر کا حصہ نہیں بنایا ۔مولانا آزاد نے اسی حقیقت کی طرف اس خطبہ میں اپنی فکر مندی ظاہر کی ہے ۔یہ خطبہ اس نقطے سے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں انہو ںنے ذریعۂ تعلیم کے متعلق بھی اپنے نظریے کی وضاحت کی ہے اور اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہماری تعلیم کا ذریعہ مادری زبان ہونی چاہئے ۔چوںکہ مدرسہ میں اس وقت عربی اور فارسی ہی ذریعۂ تعلیم تھی اس لئے انہوں نے اس خطبہ میں اکابرین سے یہ گذارش کی تھی کہ آپ مدرسو ںکا ذریعہ تعلیم مادری زبان رکھیں تاکہ پڑھنے والے بچے اپنی مادری زبان میںنئے علوم کو سیکھ سکے۔بلا شبہ آج عالمی سطح پر اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے اور یونیسکو نے بھی اس بات کی وکالت کی ہے کہ پرائمری سطح کی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہئے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا :
’’اگر ہم اصلاح چاہتے ہیں تو بہر حال ہمیں یہ تسلیم کرنا ہے کہ ہندوستان میں عربی علم اور تعلیم میں جس فن کی تعلیم بھی شروع کی جائے اس کی پہلی رونمائی مادری زبان میں ہونا چاہئے تاکہ وہ اس کو فوراً پکڑ لے ۔ اگر پہلی رونمائی مادری زبان میں نہیں ہوتی ہے اور ایک اجنبی روپ اس کے سامنے آتا ہے جسے وہ پہچانتا نہیں ہے تو پھر کافی وقت اس کے دماغ کو لگ جاتاہے کہ وہ اپنے دماغ کو اس اجنبی صورت سے آشناکرے۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ بنیادی اصول یہ ہونا چاہئے کہ ہر فن کی ابتدائی رونمائی مادری زبان میں ہوا کرے ۔کوئی علم جو اس کے سامنے آئے، پہلی مرتبہ جو اپنا گھونگھٹ ہٹائے اپنے چہرے سے، تو وہ یہ سمجھے کہ یہ جانی بوجھی ہوئی صورت ہے ‘‘۔(خطباتِ آزاد۔ص:322)
جہاں تک عصری علوم حاصل کرنے کا سوال ہے تو اس معاملے میںبھی مولانا آزاد کا ذہن بالکل صاف تھا اور وہ ایک مکمل ضابطۂ حیات رکھتے تھے۔ ان کی نگاہوں میں اصل تعلیم وہ ہے جو انسان کو بدلتے وقت کے ساتھ اس کے فہم وادراک کی وسعت میں معاون ہو۔ اس لئے انہو ںنے اپنے قدیم طریقۂ تعلیم یعنی مدارس کی تاریخی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے باور کرایا کہ ابوالفضل، فیضی، طوسی جیسے علماء اور فضلاء نے انہیں مدارس سے تعلیم حاصل کی تھی اور حکیم فتح اللہ شیرازی نے جو عہدِ اکبر میں پیمائش کا طریقہ ایجاد کیا وہ کوئی بڑی یونیورسٹی سے فارغ نہیں تھا۔ شرط یہ ہے کہ ہمارے پاس جو نصاب ہے اس کو ہم نے محض سند کی چیز تصور کرلیا۔وہ عصری تعلیم کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’وقت اور زندگی کی چال کے متعلق کوئی تعلیم کامیاب نہیں ہو سکتی اگر وہ وقت اور زندگی کی چال کے ساتھ نہ ہو ۔ جو تعلیم ہو وہ ایسی ہونی چاہئے کہ زمانہ کی جو چال ہے وہ اس کے ساتھ جڑ سکے۔‘‘(خطباتِ آزاد۔ص:329)
مولانا آزاد کے دونوں خطبات کے اقتباسات کی روشنی میں اب یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جاتاہے کہ ہم آج جس طریقۂ تعلیم یا حصولِ علم کی بات کرتے ہیں اس کی طرف مولانا نے ہماری توجہ ایک صدی پہلے دلائی تھی ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ہم نے اس پر سنجیدگی سے نہ غوروفکر کیا اور نہ عمل پیرا ہوئے۔ اگر ہم مولانا آزاد کی فکر مندی سے آگاہ ہوگئے ہوتے اور ان کی درد مندی کو اپنے دل میں تھوڑی سی بھی جگہ دی ہوتی تو آج ہمارے مدارسِ اسلامیہ میں جو سنّاٹا ہے وہ نہیں ہوتا اور ہندوستان کی تاریخ میں ہماری پسماندگی کا باب نہیں لکھا جاتا۔اب بھی وقت ہے کہ ہم مولانا آزاد کی فکر مندی اور دردمندی کو اپنی فکر ونظر کا حصہ بنائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں انقلاب آسکے اور ہماری تعلیمی پسماندگی کا ازالہ ہو سکے،کہ تعلیم ہی ایک ایسا نسخۂ کیمیا ہے جو ہماری تقدیر بدل سکتا ہے ۔
پرنسپل ، سی ایم کالج، دربھنگہ
   موبائل:9431414586
 ای میل:[email protected]
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here