اللہ میگھ دے!

0
162

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

زائرحسین ثالثی

برسات کا موسم تھا۔مگر ساون کے مدمست مہینے کی کڑکتی دھوپ کنوارکی کرنوں کو شکست دے چکی تھی۔امسں جان لیواتھی۔گرمی سے جی الجھ رہا تھا۔زمین کی وہ تری بدلے میں گرم ہوااگل رہی تھی جو ساون کے پچھلے کچھ چھینٹوں سے سیراب نہ ہو پائی تھی۔کسی دن سفید بادلوں اور مٹیالی گھٹائوںکے گاتے ہوئے کالے بادل سورج سے آنکھ مچولی کھیلتے تو پیاسے اور مایوس کسان آسمان کی طرف بے بسی سے دیکھنے لگتے دھان کے چھوٹے مگر نوخیز پودھے حال کے غم اور مستقبل کے خوف سے پیلے پیلے پڑچکے تھے ۔درخت محبوب سے بچھڑی دوشیزہ کی طرح مرجھائے ہوئے تھے۔چہرے پسر مردہ اور دل اپنے گناہوں پر نادم اللہ سے لو لگائے ہوئے تھے۔
دھوپ کی شدت میں علم حضرت عباسؑ کے سائے میں جلوس نکل رہے تھے ۔ مسجدیںبے وقت آباد ہو رہی تھیں۔دعاخوانی کی صدائیں بے رس تھیں ۔نمازِ استسقاء کے لئے مسلمانوں کی صفیں آراستہ ہوتیں ۔ہاتھ اٹھتے ،ہونٹ کانپتے ،آنکھوں میں مایوسی تھی !ہندئوں میں پرارتھنائیںدھوم سے ہوتیں۔گھنٹیوںکی آوازیںگونجتیں، دیہاتوں میں جگہ جگہ کیرتن ہوتااور پوکھروں کے کنارے شریمد بھاگوت کا جاپ ہوتا ، دن رات بھگوان سے خوشامدیںکی جاتیں۔میگھ دوت سے التجائیں ہوتیں مگر …
ٹیلی ویزن اور اخبارات میں خبر آتی کہ فلاں جگہ بارش دھواں دھار ہوئی۔ فلاں علاقہ ڈوب گیا۔فلاں ندی میں باڑھ آگئی ۔خطرے کا نشان ڈوب گیا۔
ممبئی میں تو کئی دنوں سے بارش نہیں رک رہی ہے…سمندر لبریز ہیں …سڑکیں غرقاب ہیں … ٹرین کی پٹریان پانی میں ڈوب چکی ہیں … مکانوں کے لئے رہزن بن چکا ہے۔لکھنؤ میں بھی بارش کا زور و شور ہے۔مگر یہ گاؤںابھی ویسے ہی خشک سالی سے الجھ رہا ہے…
گاؤں میں ننگ دھڑنگ بچے دروازے دروازے کال کلوٹی ،اجر دھوتی، کالے میگھا پانی دے …کالے میگھا پانی دے…پانی دے …کال کلوٹی ،اجر دھوتی…کہہ کہہ کر چیخ رہے رتھے اور گلی کی مٹی میں سامنے پھینکے ہوئے پانی میں لوٹ رہے تھے۔تھوڑے سے پانی میں بچے لوٹتے تو دھرتی سوکھ جاتی اور زمین پر کچھ نشانات باقی رہ جاتے ۔ ٹولی دوسرے دوار پر شور مچاتی… بچوںکے منھ پر توے کی کالک ہوتی اور پورا بدن مٹی میں میلا ہو جاتا۔
گاؤں کے قریب بہتی ٹونس ندی سوکھی پڑی تھی ۔جہاں کہیں کہیں پانی ہوتا بھی تو اس میں بھینس کروٹ بدلتی نظر آتی۔ٹونس کے کنارے ٹیلے پر بنے ہوئے ہنومان مندر میں کئی دن سے مسلسل راما !راما!ہرے راما!…کرشنا !کرسنا! ہرے کرشنا…کی درد ناک آواز گونج رہی تھی۔ ہوائیں خاموش تھیں ۔سڑکوں کے کنارے نرکٹ کے جھاڑ سورج کے سرخ چہرے کو دیکھ دیکھ کر پیلے پڑ چکے تھے۔
مسلم آبادیوں سے جلوس برآمد ہوتا دکھائی دیا۔آگے مولا عباس ؑ کے علم نظر آرہے تھے۔علم کا جلوس مندر کے پاس سے ہو کر گزرتا ہوا ٹونس ندی کے کنارے اس منزل کی طر ف بڑھ رہا تھا جس سے کسی ایک فرقے کو ہی نہیں بلکہ گاؤں میں آباد ہر مذاہب کے لوگوں کی عقیدت جڑی ہوئی تھی۔ جہاں ایک طرف مولا حسین ؑ کا روضہ اور سامنے دوسری طرف باب الحوائج مولا عباس ؑ کاروضہ زیر تعمیر تھا۔ایک ہی زمین پر دو کربلا کی جنتیں نظر آرہی تھیں ۔ایک باوفا کی نگاہیں اب بھی اپنے آقا کی خدمت کے لئے پہرہ دے رہی تھیں۔دور ٹونس ندی غیرت کے مارے ڈوب چکی تھی۔ ساون کا پیاسا سفر ٹھہر گیا تھا۔دوپہر کا سورج آسمان پر غصے سے سرخ ہو رہا تھا اور نیچے زمین پر ننھے ننھے بکھرے ہوئے ذرّات کبھی اپنی آنکھ بند کرتے اور کبھی ڈر کے کھول دیتے ۔
ریگستانی نماذرّات نے بڑھ بڑھ کر لوگوں کا استقبال کیا ۔ ماتم کی صداؤں کے ساتھ آنکھیں برس رہی تھیں ۔مگر ابھی خدا کی رحمت انسانوں کاامتحان لے رہی تھی۔علم دو مرکز عقیدت کے بیچ لہرا رہا تھا۔علم کے پنجے کو دیکھ کر سورج شرمانے لگا ۔ معبود نے اپنے بندوں کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئے۔ دھرتی نے سسکاری بھری …بادل گرجا…اور بڑی بڑی بوندیں پڑنے لگیں… ٹپ… ٹپ… ٹپ… بادل غصے میں چنگھاڑنے لگا۔ہوا پاگل ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جل تھل ہو گیا۔
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here