Saturday, May 4, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldاقبال مجید:رمزیہ حقیقت نگاری کا شہسوار

اقبال مجید:رمزیہ حقیقت نگاری کا شہسوار

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

سلام بن رزّاق
9967330204

اقبال مجید نے غالباً چھٹی دہائی کے آس پاس لکھنا شروع کیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک کے چراغ کی روشنی مدھم پڑنے لگی تھی اور جدیدیت کے ابتدائی نقوش واضح ہو رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جدیدیت ایک طاقتور رجحان کی شکل میں ابھری اور اس نے بعض ترقی پسندوں کے آمرانہ رویّے اور مقصدیت سے بوجھل ادب کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔
ادب کو جدیدیت کی سب سے بڑی دین یہ ہے کہ اُس نے ادیبوں اور شاعروں کو انحراف اور انکار کی جرأت عطا کی مگر اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ بعض کم سواد اور فیشن زدہ ادیبوں اور شاعروں نے تجربے اور تبدیلی کے نام پر جدیدّیت میں تجریدیت، ابہام، بے معنویت اور قنوطیت کے رجحانات کو عام کیا۔ ظاہر ہے اس میں جدیدیت کا کم اور جدیدیت پرست اور انتہا پسند ادیبوں اور شاعروں کا قصور زیادہ تھا۔
تحریکیں اور ادبی رجحانات جہاں ادیبوں کی ذہنی تربیت میں مدد کرتے ہیں وہیں ان کی گمراہی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ لیکن بعض ادیب تحریکوں کی شور انگیزی سے متاثر ہوئے بغیر زندگی کی صحت مند قدروں کو سینے سے لگائے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ ان ادیبوں میں اقبال مجید کا نام امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔
اقبال مجید جدیدیت کے ابتدائی زمانے سے لکھ رہے ہیں اور جدیدیت کے عروج کے زمانے میں بھی ان کا سفر برابر جاری رہا اور تاحال سُبک رفتاری سے جاری ہے۔
جدیدیت کے ہنگامہ خیز دور میں جب علامتی اور استعاراتی افسانوں کا بول بالا تھا، تجریدی اور معّماتی طرز اظہار جدیدیت کا طرۂ امتیاز سمجھا جاتا تھا۔ اُس لا یعنیت اور مہملیت کے دور میں بھی اقبال مجید نے ’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘، جیسا خالص بیانیہ اسلوب میں فنی لوازمات سے مزین افسانہ لکھا۔ تجریدی اور علامتی افسانوں کے ہجوم میں یہ افسانہ اپنی معنی خیزی، رمزیت اور تاثر پذیری کی بنا پر اپنی الگ شناخت بناتا نظر آتا ہے۔ اُس زمانے میں یہ افسانہ اتنا مقبول ہوا کہ اقبال مجید کی پہچان بن گیا اور آج بھی اردو افسانے کے نمائندہ افسانوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے ایک حلفیہ بیان، پوشاک، پیشاب گھر آگے ہے، جنگل کٹ رہے ہیں، ہائی وے پر ایک درخت مدافعت کہانی ایک نیزے کی جیسی معنی خیز کہانیاں لکھ کر افسانوی ادب میں اپنے قلم کا لوہا منوالیا۔
یوں تو اقبال مجید نے مختلف موضوعات پر افسانے لکھے ہیں مگر استحصال کے مسئلے کو انہوں نے کئی پہلوؤں سے برتا ہے۔ ان کی کہانیوں کے کردار متوسط نچلے متوسط بلکہ دبے کچلے ہوئے طبقے کے افراد ہیں۔ ان کے جذبات، محسوسات ، کشمکش اور آویزش کو اقبال مجید نے اپنے افسانوں کے ذریعے زبان عطا کی ہے۔ یہی موضوع اپنے وسیع تناظر میں جبر و قدر کا مسئلہ بھی بن جاتا ہے۔ ایک حلفیہ بیان اس کی بہترین مثال ہے یہ افسانہ بیانیہ اسلوب میں تمثیل طرازی کا عمدہ نمونہ ہے۔ افسانے میں بظاہر ایک کپڑے کی چھٹپٹاہٹ اور اس کی سعی رائیگاں کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اصل میں یہ افسانہ ایک معمولی آدمی کے اندرونی کرب و بے بسی اور لاچاری کی دہلا دینے والی داستان بیان کرتا ہے۔ غالباً یہ اردو کا واحد افسانہ ہے جس میں ڈرامائیت اور کہانی پن ایک دوسرے میں جذب ہو کر ہمیں قرأت کے ایک نئے ذائقے سے روشناس کراتے ہیں۔
ایک سنسان اندھیری برسات کی رات کو ایک حقیر بد شکل بدہئیت کیڑا کمرے کے چکنے فرش پر پیٹھ کے بل گر جاتا ہے اور سیدھا ہونے کی کوشش میں چھٹپٹانے لگتا ہے۔ اُس کی اس چھٹپٹاہٹ کو افسانہ نگار نے ’جبر و قدر‘ کا استعارہ بنا دیا ہے۔ اس دنیا میں کروڑہا انسان تقدیر کے ہاتھوں اسی طرح پیٹھ کے بل پٹک دیے گئے ہیں۔ وہ اپنے غموں، محرومیوں اور ناکامیوں کو سینے سے لگائے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی جدوجہد میں کھیپ ہوئے جا رہے ہیں۔ غور کریں تو تاریخی پس منظر میں کیٹرے کی یہ جدوجہد، بے بسی اور کش مکش ہمیں یونان کی عظیم المیہ داستانوں اور ڈرامائی کرداروں کی بھی یاد دلاتی ہے جو حالات کے شکنجے میں اس طرح جکڑے گئے ہیں کہ ان کے لیے کوئی راہ نجات نظر نہیں آتی۔ یہ افسانہ اپنی معنی خیزی، ہمہ جہتی اور منفرد اسلوب کے ساتھ ساتھ راست بیانیہ میں ڈرامائی عمل کے نفوذ کے لیے اردو افسانے کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہے گا۔
اقبال مجید کا ایک اور مختصر افسانہ پیشاب گھر آگے ہے، بھی ایک قابل ذکر افسانہ ہے۔ اگر چہ پیشاب گھر آگے ہے کا موضوع ایک حلفیہ بیان سے مختلف ہے مگر اسلوب اور پیش کش کے اعتبار سے دونوں میں خاصی مماثلت ہے۔ ایک حلفیہ بیان کی طرح تکرار لفظی سے اس افسانے میں بھی ڈرامائی آہنگ پیدا کیا گیا ہے جو رفتہ رفتہ قاری کو ایک ہیجان انگیز کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ بعض ناقدین نے اس افسانے میں پیشاب کے دباؤ کو فنی تخلیقی تناؤ کا مظہر کہا ہے۔ لیکن افسانے میں بعض اشارے ایسے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کے نزدیک پیشاب کا دباؤ دراصل ایک عام آدمی کے وہ ناقابل برداشت حالات ہیں جن سے وہ جلد از جلد نجات پانے کے لیے بیتاب ہے مگر نجات کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی لہذٰا اس کی بے چینی اور اضطراب میں ایسی شدت پیدا ہونے لگتی ہے کہ ضبط و تحمل کی طنابیں سی کھنچتی محسوس ہوتی ہیں، پیرائے اظہار کے انوکھے پن کے سبب اس افسانے کا شمار بھی اقبال مجید کے نمائیندہ افسانوں میں کیا جاسکتا ہے۔
اقبال مجید نے ایمرجنسی کے زمانے میں ایمرجنسی کے خلاف بڑی خوبصورت تمثیلی کہانیاں لکھی ہیں جن میں پوشاک اور مدافعت یا دھواں بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ’پوشاک‘ ہنیس اینڈرسن کی مشہور کہانی The Emperor’s New clothesکو نئے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ جس طرح کہانی میں سچ بولنے والے بچے کو بادشاہ گلا گھونٹ کر مار دیتا ہے اسی طرح ایمرجنسی میں بھی آزاد�ئ تحریر و تقریر کے ہم نوا ہزاروں افراد کو جیل کی کال کوٹھریوں میں محبوس کر کے ان کی آواز کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ پوشاک اقبال مجید کی ایک کامیاب تمثیلی کہانی ہے جو جبر و استبداد کو ہمیشہ آئینہ دکھاتی رہے گی۔ مدافعت میں بھی دھوئیں کے سبب پیدا ہونے والی گھٹن کو ایمرجنسی کے جبر کا اشاریہ بنایا گیا ہے۔
اقبال مجید نے اپنے افسانوں میں تاریخ اور داستانوں کے مشہور کرداروں کی باز آفرینی کے ذریعے آج کے سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل کی اس طرح تقلیب کی ہے کہ ماضی کے آئینے میں حال کی تصویر دکھائی دینے لگتی ہے۔ ’حکایت ایک نیزے کی‘ ’ملک یا قوت کا نوحہ‘ میراث اور شہر بدنصیب، اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بعض افسانے لوک کہانیوں اور حکایتوں کے روایتی اسلوب میں بھی لکھے ہیں۔ جن میں عصری مسائل کی تطبیق کی گئی ہے۔
ان میں حکایت ایک نیزے کی کو اس مشاقی سے بنا گیا ہے کہ کہانی قدم قدم پر تجسّس کا جادو جگاتی چلتی ہے۔ یہ کہانی حکایتی اسلوب میں لکھی گئی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہم عہد قدیم کے کسی وقوعے کو قصیّ کے طور پر پڑھ رہے ہیں مگر جب کہانی اختتام کو پہنچتی ہے تو منکشف ہوتا ہے کہ یہ کہانی تو انسان کی سفاّکی، لالچ، ہوس پروری اور فریب کاری کی کہانی ہے جو روپ بدل بدل کر ہر عہد میں دوہرائی جاتی رہی ہے۔
اسی طرح ’ہم گریہ سر کریں گے‘ میں لوک کہانی اور سوئیوں والی بی بی، میں حکایتی اسلوب کی رنگ آمیزی ان افسانوی کو ایک نیا ڈائمنش عطا کرتی ہے۔
’ہم گریہ سرکریں گے‘میں ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے درد ناک انجام کی تصویر پیش کی گئی ہے۔ مینڈک کی کہانی افسانے کے ماجرے کو نہ صرف دلچسپ بناتی ہے بلکہ اس کی معنویت میں اضافہ کرتی ہے۔
سوئیوں والی بی بی موضوع کے اعتبار سے انتظار حسین کے مشہور افسانے زرد کتا سے قریب ہے مگر افسانے کا ٹریٹ مینٹ اقبال مجید کا اپنا ہے۔ زرد کتا میں ملفوظات کی کثرت افسانے کو گراں بار بناتی ہے جب کہ سوئیوں والی بی بی میں کہانی سبک ردی سے آگے بڑھتی ہے اور ایک منطقی انجام پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ افسانے کی تھیم بابا فرید گنج شکر کے مشہور قول ’’مجھے قینچی نہیں دھاگہ دو۔ میں کاٹنے نہیں جوڑنے آیا ہوں۔‘‘ پر مبنی ہے جس میں قینچی نفس امارہّ کا اور سوئی دھاگہ خدمت خلق کا استعارہ بن جاتا ہے۔
اگرچہ اقبال مجید نے متنوع اسالیب کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے مگر بیانیہ کے دامن کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا یہی وجہ ہے کہ ان کے ہر افسانے میں کہانی پن بنیادی عنصر کے طور پر شامل رہتا ہے۔ اس ضمن میں ان کے ایک تازہ افسانے’ آگ کے پاس بیٹھی عورت‘ کا ذکر ناگزیر ہے۔ یہ افسانہ ان کے اسی نام سے شائع ہونے والے مجموعہ میں شامل ہے۔ بیانیہ اسلوب میں لکھا گیا یہ افسانہ حقیقت نگاری کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے مگر خاطرنشان رہے کہ یہ حقیقت نگاری نری فوٹوگرافی نہیں ہے۔راست بیانیہ کی تہہ میں معنوی ابعاد کی کئی پرتیں پوشیدہ ہیں جو قاری پر رفتہ رفتہ کسی اسرار کی مانند کھلتی جاتی ہیں اور کلائمکس میں ایسے حیرت خیز صدمے سے دوچار کرتی ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ افسانہ رمزیہ حقیقت نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔
ایک فلم ساز بڑے انعامات کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے سوّر پالنے والوں کی گندی اور غلیظ بستی پر فلم بنانا چاہتا ہے۔ اس مقصد براری کے لیے وہ ایسی ایک بستی کا انتخاب کرتا ہے اور وہاں کے لوگوں کی غربت اور گرُسنگی، عورتوں کی برہنگی، نیز کیچٹر میں لتھڑے ننگ دھڑنگ بچوں کی غلاظت اور گندگی کو پوری حقیقت پسندانہ سفاّکی کے ساتھ اپنے کیمرہ میں قید کر لینا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پیشہ ورانہ تشدد کا نظریہ یہ ہے کہ جس حقیقت کو آپ بیان کر رہے ہیں وہ سیدھی سیدھی ایک گھمسان کی جنگ کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہم کوئی سماجی ذمہ داری نبھانے کے لیے فلم نہیں بناتے۔
وہ آگے کہتا ہے۔’’ تماشائی کے لیے تشدد کو چرس کی سگریٹ کا ایک کش بنانا ہے ہمیں۔‘‘
دراصل افسانے میں میڈیا کے اس جارحانہ رویّے کو طشت ازبام کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں میڈیا خود اپنے اندر پل رہے وائلنس کی تسکین کی خاطر غلاظت سے پُر اور تشدد آمیز فلمیں بنا کر تماشائیوں کے جذبات کو برانگیخت کرتا ہے۔ اس حقیقت سے دلت بھی اچھی طرح واقف ہیں اور میڈیا کے اس رویّے سے شدید نفرت کرتے ہیں تاہم اس کے خلاف بر ملا اظہار کی ان میں تاب نہیں۔
افسانے کاروای آگ کے پاس بیٹھی اس نیم برہنہ عورت کی آنکھوں میں اس نفرت کی جھلک دیکھ لیتا ہے۔ افسانہ نگار نے نفرت کی اس شدت کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے وہ پورا اقتباس پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
’’آگ کے پاس بیٹھی عورت صرف آنکھیں کھولے سہما دینے والی بجلیاں چمکا کر ہمیں دیکھ لیا کرتی تھی وہ آنکھیں اپنے مقابل کی نظریں جھکا دینے والی آنکھیں تھیں۔ لگتا تھا زندگی کے حوادث نے کوٹ کوٹ کر ان میں بصیرت بھر دی ہے۔ اس بصیرت میں ایک مقناطیسی زور اور کشش تھی۔ وہ آنکھیں اپنی دونوں بھوؤں کے زاویے کو ایک پل میں ایسے بدل کر اور پھر ہمارے وجود کو مسترد کرتے ہوئے لپلپاتی تلوار کی طرح پورے منظر کو کاٹتی ہوئی گزر جاتی تھیں۔‘‘
افسانے کے کلائمکس میں دکھایا گیا ہے کہ ڈائریکٹر بھائی چارے کے جذبے کی نمائش کی خاطر دلتوں کے گندے ٹوٹے پھوٹے المونیم کے گلاس میں پانی پیتا ہے لیکن جب پتا چلتاہے کہ اس گلاس میں وہ عورت سوّر کے بیمار بچے کو دودھ پلایا کرتی ہے تو وہ سنّاٹے میں آجاتا ہے۔ اور ٹھیک اس وقت آگ کے پاس بیٹھی وہ عورت ایسی مطمئن اور مسرور نظر آتی ہے جیسے اس نے ایک لمبی اذیت سے چھٹکارا پالیا ہو نیز ان تمام ذرائع ابلاغ سے انتقام لے لیا ہوجو اپنے مطلب براری کی خاطر ان کی غربت بے کسی اور مجبوری کا استحصال کرتے ہیں۔ آخر میں وہ عورت المونیم کے گلاس کو لوہے کے چمٹے سے پکڑ کر آگ میں تپاتی ہے گویا وہ یہ جتانا چاہتی ہے کہ ڈائریکٹر کے اس گلاس میں پانی پینے کی وجہ سے وہ گلاس جھوٹا ہوگیا ہے اور اب وہ اس قابل بھی نہیں رہا کہ سور کے بچے کو اس میں دودھ پلایا جاسکے اس لیے وہ اس گلاس کو آگ میں تپاکر اس کے مضر اثرات کو زائل کرنا چاہتی ہے۔ نفرت کی شدت کا اظہار اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا تھا۔
افسانے کی قرأت سے پہلے افسانے کا عنوان آگ کے پاس بیٹھی عورت کچھ اٹ پٹا سا لگتا ہے لیکن افسانے کے اختتام پر محسوس ہوتا ہے کہ افسانے کا اس سے بہتر عنوان نہیں ہوسکتا تھا کیوں کہ آگ کے پاس بیٹھی عورت کے اندرون میں سلگتی نفرت کی آگ کی شدت کو جن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اس کی حدّت اور تپش باہر سلگتی آگ سے کئی گنا زیادہ تھی۔یہ افسانہ بھی موضوع، ٹریٹ مینٹ اور رمزیہ حقیقت نگاری کے سبب اقبال مجید کے چند بہترین افسانوں میں شمار کیا جائے گا۔
اقبال مجید نے بہت لکھا ہے ابھی ان کے قلم پر تھکن طاری نہیں ہوئی ہے۔ ان کا سفر جاری ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ آئندہ بھی اردو فکشن کو اپنے بہترین رشحاّت قلم سے نوازتے رہیں گے۔ ان کے افسانوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ ظاہر ہے یہ اُڑن چھو قسم کا مضمون اس کا حق ادا نہیں کرسکتا لہذٰا ختم کلام کے طور پر صرف اتنا عرض کیا جاسکتا ہے کہ یہ چند سطریں اپنے عہد کے ایک اہم افسانہ نگار کی خدمت میں خراج عقیدت کے سوا کچھ نہیں۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular