Wednesday, May 8, 2024
spot_img
HomeCompetitionافسانہ

افسانہ

یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم حاصل کرنے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)

عطیہ بی

اِدھر سے اُدھر،اُدھر سے اِدھر بے چین قدموں کی رفتار نہ جانے کیوں اتنی تیز ہوتی جا رہی تھی اچانک یہ قدم دروازے سے باہر کی جانب لپکے او پھر سنّاٹا چھا گیا۔ چند ہی لمحوں میں یہ قدم زوردار چہکتی ہوئی آواز کے ساتھ دروازے سے گھر میں داخل ہوئے۔
’’کامیاب ہو گیا ،کامیاب ہو گیا، میری سالوں کی محنت رنگ لائی، امّی میں کامیاب ہو گیا۔‘‘
’’کیا ہوا کیا ہوا‘‘ کہتے ہوئے گھر کے سبھی لوگ آنگن میں اکٹھا ہو گئے ، ’’میں کامیاب ہو گیا ابو میں نے جس نوکری کے لئے انٹرویو دیا تھا وہ مجھے مل گئی ہزاروں نے اس نوکری کے لئے امتحان دیا تھا مگر اللہ کے کرم سے وہ مجھے مل گئی‘‘۔
’’بہت مبارک ہو شارق، اللہ دنیا کی تمام خوشیاں تم کو عطا کرے، لگتا ہے اب ہمارے دن بدلنے والے ہیں، اللہ ہم پر مہربان ہو گیاہے‘‘۔ امی نے ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں کو پوچھتے ہوئے کہا۔
آج شارق اور اس کے گھر والوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
’’مجھے آج ہی نکلنا ہوگا ابو میں اپنا سامان باندھنے جا رہا ہوں‘‘،یہ کہتے ہوئے شارق اپنے کمرے کی طرف بھاگا۔
’’رکو شارق! کہاں جا رہے ہو، اتنی رات میں کہاں جائو گے، شہر تو اتنا بڑا ہے اور وہاں اپنا کوئی ہے بھی نہیں پھر کس کے پاس رہوگے اور اپنے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ رہائش کا کوئی انتظام کیا جائے ‘‘۔ ابو نے شارق سے کہا۔
’’اللہ بہت بڑا ہے ابو، کچھ نہ کچھ انتظام تو ہو ہی جائے گا‘‘۔’’ آپ فکر نہ کریں میں کچھ کرتا ہوں‘‘۔ یہ کہتاہوا وہ گھر سے روانہ ہوگیا۔
نئی نوکری کی خوشی اس کے اندر نئے نئے جذبات پیدا کر رہی تھی۔ اپنے والدین کی خوشیاں ان کی خواہش، ضروریات زندگی اب شاید سب پوری ہو جائے گی…اس نوجوان کے کندھوں پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں ، بھائی کی پڑھائی، بہن کی شادی، اب سب ٹھیک ہونے والا ہے۔ یہ سوچ سوچ کر وہ بے حد خوش تھا۔ انہیں خیالات میں گم وہ گائوں سے بس پر سوار ہوا اور کب راستہ کٹ گیا پتہ ہی نہیں چلا اور بس کالی رات کے سائے کو چیرتی ہوئی آنکھوں کو چکا چوندھ کر دینے والی روشنی کے بیچ لہراتی ہوئی شہر کے بس اسٹاپ پر پہنچ گئی۔شارق نے جیسے ہی بس سے باہر قدم نکالا شہر کی تڑک بھڑک دیکھ کر اس کا دل مچل اٹھا۔ آج وہ اپنی منزل کے قریب آچکا تھا۔ اب اس کی ہر تمنا پوری ہوجائے گی وہ اپنے دوستوں کی طرح اچھے اچھے کپڑے پہنے گا، جو دل کرے گا خریداری کرے گا گھومنے جائے گا۔ یہ سوچ کر وہ بہت خوش تھا، کل سے اس کی زندگی کا نیا باب شروع ہونے والا ہے مگر… آج رات وہ کہاں رہے گا کہاں جائے گا اس کا تو اس شہر میں کوئی دوست بھی نہیں۔ ابو سے کہہ تو دیا کہ سب ہو جائے گا، مگر ہوگا کیسے اس کی تو اتنی حیثیت بھی نہیں کہ وہ شہر میں کہیں کرائے کا مکان لے کر رہ سکے۔ کوئی جانتا ہوتا تو شاید کم پیسوں میں جگہ مل جاتی یہ سوچتا ہوا وہ چائے کے ہوٹل میں جا بیٹھا۔
’’بھیا ایک چائے تو پلا دو اور کچھ کھانے کے لئے بھی لے آنا‘‘۔
’’اچھا بابو لاتا ہوں‘‘۔
چائے کا گرم پیالہ اور کھانے کا سامان ہوٹل کے بیرے نے لاکر رکھ تو دیا مگر اس سے نکلنے والی گرم بھاپ کا اثر بھی اس کو خیالات کے گہرے جنگلوں سے نکال نہیں پا رہا تھا۔
کچھ دیر بعد بیرے نے اسے ہلاتے ہوئے کہا۔
’’بابو چائے تو پی لو، رکھے رکھے اس میں برف پڑ گئی‘‘۔
شارق نے چونکتے ہوئے بیرے کی طرف دیکھا۔
’’ ہاں ہاں پیتا ہوں، پیتاہوں‘‘۔
’’کچھ اور چاہئے بابو‘‘؟ بیرے نے پوچھا۔
’’نہیں نہیں اور کچھ بھی نہیں بس چائے پی لوں تو نکلوں گا‘‘۔
یہ کہتے ہوئے شارق نے ٹھنڈے چائے کے پیالے کو اپنے ہونٹوں سے چپکا لیا، اور ایک ہی گھونٹ میں پیالہ خالی کر دیا۔
ادھر ذہن اس بات میں الجھا تھا کہ وہ آج کی رات کہاں گزارے گا۔ اس انجان شہر میں وہ جانتا بھی تو کسی کو نہیں، اسی سو چ میں گم وہ ہوٹل کے دروازے سے لگے کائونٹر پر جا کھڑا ہوا۔
’’کتنے پیسے ہوئے صاحب‘‘؟ شارق نے سامنے بیٹھے ہوئے سیٹھ سے کہا۔
پورے پچاس روپئے، سیٹھ نے تیور بدلتے ہوئے کہا۔
شارق نے اپنی جیب ٹٹولتے ہوئے شرمندگی کے تاثرات ظاہر کئے، ’’صاحب اتنے پیسے تو میرے پاس نہیں ہیں۔‘‘
’’ارے اتنے پیسے نہیں تھے تو یہاں کیا کرنے آئے تھے، پاس کھڑے ہوئے بیرے نے سیٹھ کو شیٔ دیتے ہوئے کہا۔ ارے مالک اس کی باتوں میں نہ آئیے گا مفت کا چائے ناشتہ کس کو اچھا نہیں لگتا۔ یہ بھی اسی لئے یہاں آیا ہوگا اب بہانہ کر رہا ہے۔ میں تو اسے دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ دھوکے باز ہے۔
’’کیوں بابو! کیا یہ سچ ہے‘‘؟ سیٹھ نے شارق سے پوچھا۔
شارق نے بے قصور ہوتے ہوئے شرمندگی سے سر جھکا دیا۔
’’ کیا ہوا کیوں اس شخص کو شرمندہ کر رہے ہیں آپ لوگ‘‘؟
پیچھے سے کسی سریلی اور خوبصورت آواز نے اس ہوٹل کے مالک سے کہا۔
’’ارے کیا بتائوں بیٹا یہ صاحب لگتے تو اچھے گھر کے ہیں مگر کارنامے ایسے کہ پوچھو مت، یہ صاحب ناشتہ پانی کرکے بنا پیسے دئیے رفو چکر ہونے کے فراق میں ہیں ،بتائو اب کیا کروں ان کاـ‘‘؟
شارق نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک بے پناہ خوبصورت نازک سی لڑکی جس کا چہرہ نور سے روشن تھا بالوں کی ایک موٹی سی چوٹی شانے پر کالے ناگ کی مانند لہرا رہی تھی۔ نرم لہجے میں اس دوکاندار سے مسکراتے ہوئے بولی۔
’’ارے چچا کوئی بات نہیں کتنے پیسے ہوئے بتائیے۔ میں دیتی ہوں ان صاحب کو کیوں شرمندہ کرتے ہیں‘‘۔
اس وقت شارق کو ایسا لگا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میںسما جائے۔
’’نہیں نہیں آپ کیوں دیں گی میں ہی دے دوں گا‘‘، شارق نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔
’’ اچھا تو کیا تمہارے پاس پیسے ہیں؟ پھر کیوں اتنی دیر سے تماشہ کھڑا کر رکھا ہے‘‘۔
سیٹھ صاحب نے چیختے ہوئے کہا۔
’’نہیں صاحب آج نہیں میں کل آکر آپ کو ہر حال میں دے دوں گا۔ میرا اعتبار کریں۔‘‘
’’اعتبار! کیا کہا تم نے! ارے جائو میاں، میری تو جوتی بھی تم پر اعتبار نہ کرے، چہرہ سے اتنے معصوم لگتے ہو اور کام ایسے کرتے ہو، کیسے کیسے لوگ آجاتے ہیں‘‘۔
شارق بے بس اپنے جسم کا بوجھ اٹھائے شرمندہ صرف کھڑا رہ گیا۔
سیٹھ جی اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو کیا ہوا ہم لوگ اس سے برتن دھلوا لیتے ہیں، بیرے نے اکڑتے ہوئے کہا۔
’’نہیں نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ اس خوبصورت لڑکی نے ۵۰ کا نوٹ اس ہوٹل مالک کو دیتے ہوئے کہا۔
آپ لوگوں کو پیسے چاہئے یہ لیجئے مگر کسی کی عزت کے ساتھ اس طرح نہ کھیلئے۔ شارق کا سر ابھی بھی زمین میں دھنسا تھا۔
’’چلئے جناب آپ کا قرض ادا ہوا اب یہ آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتے‘‘۔
اور یہ کہتے ہوئے وہ شریف لڑکی شارق کے ساتھ باہر نکل گئی۔
شارق کی آنکھیں اشک بار تھیں اس کا حوصلہ اس بات کی گواہی نہیں دے رہا تھا کہ وہ اس نیک لڑکی سے نظریں ملا سکے۔
’’ میں آپ کا احسان مند ہوں آپ نے آج میری عزت بچا لی‘‘۔
’’ میں آپ کے پیسے جلد ہی واپس کردوں گا، بس کچھ وقت دیجئے‘‘۔
’’ار ے نہیں اس میں احسان کی کوئی بات نہیں انسان ہی انسان کے کام آتا ہے پیسے واپس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ویسے آپ رہتے کہاں ہیں‘‘؟
’’مسافر ہوں اس شہر میں نیا ہوں میرا انٹرویو ہے کل اگر نوکری مل گئی تو یہیں بس جائوں گا ورنہ بیرن گھر واپس‘‘۔ اور وہ مسکرا دیا۔
لڑکی نے شارق کی بات کو غور سے سنتے ہوئے پوچھا ۔’’کیا آپ میرے چھوٹے بھائی کو پڑھا سکتے ہیں‘‘؟ شارق کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے وہ نوکری کرنے آیا تھا مگر یہ اس نے یہ سوچتے ہوئے حامی بھر ی کہ شاید وہ اسی طرح اس لڑکی کا قرض اتار پائے۔
’’جی ٹھیک ہے مگر میں پیسے نہیں لوں گا‘‘
’’یہ تو ممکن نہیں پیسے تو لینے پڑیں گے ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر آپ پیسے نہ لیں تو گھر میں نیچے ایک کمرہ خالی ہے جب تک آپ کا کوئی انتظام نہ ہو جائے آپ وہاں رہ سکتے ہیں۔ گھر میں صرف میں اور میرا بھائی ہی رہتے ہیں‘‘۔
شارق کو ایک چھت کی تلاش تھی وہ راضی ہو گیا۔
گھر پہونچتے ہی ایک چھوٹا بچہ اپنی بہن کے پیروں سے اس طرح لپٹ گیا جیسے اس کی جنت اس کے سامنے کھڑی ہو۔
’’ آپی آپ آگئیں میں کب سے آپ کا انتظار کر رہا تھا آپ کہاں چلی گئی تھیں… یہ کون ہیں‘‘ شارق کو گھورتے ہوئے وہ بولا۔
لڑکی مسکرائی اور بولی یہ تمہارے نئے سر ہیں، آج سے یہ ہی تمہیں پڑھائیں گے۔
لڑکے نے شارق کی طرف گھورتے ہوئے کہا’’یہ نہیں میں ان سے نہیں پڑھوں گا یہ مجھے پسند نہیں‘‘۔
’’اعظم گندی بات ایسا نہیں کہتے، تم تو میرے اچھے بھائی ہو چلو معافی مانگو‘‘۔
’’مجھے معاف کر دیجئے سر‘‘ اعظم نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔
’’میرا اچھا بھائی چلو جائو ان کو نیچے کا کمرہ دکھا دو، یہ آج سے یہیں رہیں گے۔
اعظم شارق کے ساتھ چلا گیا اور شارق کی ایک نئی زندگی شروع ہو گئی۔
دوسرے دن شارق جس انٹر ویو کے لئے گیا تھا وہ کینسل ہو گیا۔ شارق بے حد پریشان تھا، مگر اللہ کا نام لے کر اس نے دوسری نوکری ڈھونڈھنی شروع کی۔
وہ نوکری کی تلاش میں روز نکل جاتا اور شام کو آکر اعظم کو پڑھاتا مگر ایک چیز اسے روز الجھن میں ڈالتی تھی کہ روز اس کے کپڑوں میں چند روپئے اور کچھ ٹوٹے ہوئے گلاب کی پنکھڑیاں کون رکھ دیتا ہے۔ اس کے کمرے میں اعظم کے علاوہ تو کوئی آتا بھی نہیں۔ مگر اعظم کیوں رکھے گا اور اس کے پاس اتنے پیسے آئیں گے کہاں سے۔
ایک دن شام کے وقت دروازے پر دستک ہوئی اعظم نے دروازہ کھولا۔
’’شارق بھائی آپ آگئے‘‘ ہاں اعظم تمہاری آپی کہاں ہیں؟
’’اندر ہیں بھائی بلائوں کیا؟‘‘
’’ہاں بالکل‘‘
’’آپی دیکھئے شارق بھائی بلا رہیں ہیں آپ کو‘‘۔
’’یہ کیا ہے بھائی ‘‘ اعظم نے کہا۔
شارق کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھا ’’تمہارے لئے مٹھائی ہے‘‘
’’کیا بات ہے شارق صاحب یہ کس خوشی میں لائے ہیں‘‘؟ لڑکی نے تعجب سے پوچھا۔
’’آج میری نوکری لگ گئی ہے اسی لئے مٹھائی لایا ہوں‘‘۔
’’ارے واہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘
’’آپ سب کی دعائیں ہیں بڑی اچھی جگہ نوکری لگی ہے میرا سارا خرچ وہی کمپنی اٹھائے گی اور وہی رہائش کا انتظام بھی کرے گی۔‘‘
یہ سن کر دونوں بھائی بہنوں کا چہرہ اتر گیا۔
’’کیا ہوا آپ لوگ خوش نہیں ہوئے‘‘۔
’’نہیں نہیں ایسی بات نہیں‘‘ لڑکی نے چہرہ کے تاثرات بدلتے ہوئے کہا۔
’’شارق بھائی کیا آپ ہم لوگوں کو چھوڑ کر چلے جائیں گے‘‘ اعظم نے معصومیت سے پوچھا۔
’’چھوڑوں گا کیسے، آتا رہوں گا، یہ کہتے ہوئے شارق نے اعظم کو گلے لگا لیا۔
چند ہی لمحوں میں وہ اسے چھوڑ کر باہر نکل گیا شاید وہ اس شخص سے نظریں چرا رہا تھا جس کی وجہ سے وہ یہاں پہونچا تھا ۔ایسے ہی دن گزرتے گئے اور اب شارق کا آنا جانا بھی نہ کے برابر ہو گیا۔
ایک دن اعظم نے اخبار میں شارق کی فوٹو دیکھ کر بہن کو دکھایا، بیمار بہن نے جیسے ہی شارق کی فوٹو دیکھا اس کی سیاہ پڑ چکی آنکھیں ڈبڈبا اٹھیں۔
’’ آپی دیکھئے شارق بھائی کتنے اچھے لگ رہے ہیں یہ تو بہت بڑے آدمی بن گئے ہیں۔ بہن وہ تصویر دیکھتے ہی دیکھتے غنودگی میں چلی گئی، کیا ہوا آپی آپ کو کیا ہوا؟ اعظم کی آواز تیز ہو گئی، اور بہن کا جسم نڈھال ہو کر زمین پر ڈھیر ہو گیا۔
اعظم نے ہڑبڑاتے ہوئے شارق کو فون کیا’’بھائی آپ جلدی آجائے آپی کو پتہ نہیں کیا ہوا وہ بول نہیں رہی ہیں۔ اور یہ کہتے کہتے فون چھوٹ گیا۔
پڑوس کے لوگ اکٹھا ہو گئے اور اسے سنبھالتے ہوئے اسپتا ل میں داخل کرایا۔
آج وہ معصوم لڑکی اسپتال میں بے جان سی پڑی تھی۔ کبھی ہوش آتا تو نظریں کسی کو ڈھونڈھتی اور پھر بند ہو جاتی۔ ایک بار آنکھ کھلی تو سامنے شارق تھا۔ ’’ یہ کیا حال بنا لیا ہے شارق نے لڑکھڑاتے لہجے میں اس لڑکی سے کہا۔
’’تم چلے گئے نہ مجھے چھوڑ کر اسی لئے یہ حال ہوا‘‘ شارق تعجب سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’کیا دیکھتے ہو یہ سچ ہے، تمہیں اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ تمہاری پاکٹ میں گلاب کی ٹوٹی ہوئی پنکھڑیاں کون ڈالتا تھا۔‘‘
’’تو کیا وہ آپ رکھتی تھیں‘‘ شارق نے تعجب سے پوچھا۔
’’ ہاں میں ہی رکھتی تھی مگر کبھی تم نے غور نہیں کیا‘‘ اور یہ کہتے ہوئے اس کی سانس اکھڑنے لگی…
میں ابھی ڈاکٹر کو بلاتا ہوں… نہیں اب کوئی فائدہ نہیں اب وقت نہیں ہے۔ لڑکی نے شارق کو روکتے ہوئے کہا۔
میں تم سے محبت کرتی تھی جسے تم سمجھ نہ سکے۔ شارق کو پرانی باتیں یاد آنے لگیں… کہ وہ جب وہ رات کو گھر دیر سے آتا تو دوسرے کمرے کی بتی کھلی ملتی قدموں کی بے چینی کو اس کے آنے سے سکون ملتا۔ اس کی ہر ضرورت نہ جانے کیسے پوری ہو جاتی جسے وہ سمجھ نہ سکا مگر آج وہ سب شیشہ کی مانند صاف نظر آرہا تھا وہ اس لمحہ کو پکڑنا چاہتا تھا، اسے کیوں نہیں سمجھ میں آیا کہ ایک انجان انسان اس کی اتنی پرواہ کیوں کرتا ہے، جانے انجانے میں اس کو چھپ چھپ کر کیوں دیکھتا ہے مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی لڑکی کی ٹوٹتی ہوئی سانسیں شارق کی بے تابی اور بڑھانے لگی اور اچانک موت کی ایک ہچکی نے سارا ماحول ویران کر دیا۔ شارق صرف دیکھتا ہی رہ گیا جیسے اس کے ہاتھوں سے زندگی پھر سے اُڑ گئی ہو۔

وزیر گنج، لکھنؤ ، انڈیا

Previous article
Next article
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular