اردو زبان اور مشرقی تہذیب کی بقاء ؛ایک لمحہ فکریہ

0
483

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

محمد شاہ نواز ندوی
8210062804

ہمارے ملک کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں مختلف زبان و لغت اور تہذیب و تمدن کا اشتراک ہے ۔ یہی اس کی خوبصورتی ہے ،اس ملک کے بارے میں کہا جاتا ہے اور یہ اس کی پہچان بھی ہے کہ ہر دو میل کے فاصلہ کے بعد زبان و کلام اور بود و باش کے طریقہ میں قدرے تبدیلی پائی جاتی ہے ۔ زبان و لغت کے اختلاف میں جہاں دوری اور فاصلہ کا دخل ہے وہیں برادری اور ذات پات کا بھی گہرا اثر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی زبان اور طرز تکلم کی کیفیت ان کے علاقہ اور برادری کے بارے میں پتہ دیتی ہے ۔ جب ہم اپنے علاقے میںسو کلو میٹر کے فاصلہ پر شمال و جنوب اور مشرق و مغرب کے لوگوں سے ملتے ہیں تو سبھی کے لب و لہجہ میں معمولی سی تمیز نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتی ہے ۔ انداز گفتگو اور بول چال کی نوعیت سے ان کے علاقے کی نشاندہی بخوبی ہوجاتی ہے۔ ہندوستان کی دو بڑی ریاست یعنی یوپی اور بہار میں یہ نوعیت زیادہ تر پائی جاتی ہے ۔ ریاست بہار کے مختلف حصوں میں کئی علاقائی زبانیں بولی جاتیں ہیں ، متھلانچل میں متھلی بھوجپور اور اطراف میں بھوجپوری زبان بولی جاتی ہیں ۔ اسی طرح سیمانچل میں سورجاپوری ، شیرشاہ آبادی وغیرہ کئی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ عام بولچال میں سبھی برادری کے لوگ اپنی زبانوں کا استعمال کرتے ہیں۔اسی طرح یوپی کی صورتحال ہے کہ وہاں بھی مشرقی یوپی کی علاقائی زبان مغربی یوپی سے الگ تھلگ ہے ۔ دونوں کی بولچال سے علاقہ کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ علاقائی زبان کا رواج زیادہ تر انہی دونوں ریاستوں میں ہے ۔ لیکن سب کی دفتری زبان ہندی ہے ۔ ان کے علاوہ ہندوستان میں کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں کی خودساختہ زبانیں ہیں ، جس کا استعمال عام بولچال میں بھی ہوتا ہے تو آفس و دفتر میں بھی ہوتا ہے۔ جیسے کرناٹک کی زبان کنڑ ، آندھرا پردیش کی تیلگو ، اڑیسہ کی اڑیا ،مہاراشٹر کی مراٹھی ،تمل ناڈ کی تمل ،کیرالہ کی ملیالم ،پنجاب کی پنجابی ،بنگال کی بنگالی ،آسام کی آسامی ،میزورم کی میزو ۔منی پور کی منی پوری ، گجرات کی گجراتی ،کشمیر کی کشمیری ،میگھالیہ کی کاشی ،ناگالینڈ کی ناگا،سکیم کی نیپالی ،گوا کی کونکانی زبان ہے ۔جبکہ بہار ، جھارکھنڈ،اتر پردیش،مدھیہ پردیش،راجستھان،ہریانہ،اتراکھنڈ،دلی وغیرہ کی دفتری زبان ہندی ہے۔
لیکن پورے ہندوستان میں باہمی رابطہ کی زبان اگر کوئی ہے تو وہ اردو ہے ۔ جب کسی ریاست کے افراد دوسری ریاست کے افراد کے ساتھ ملتے ہیں جن کی دفتری اور علاقائی زبان مختلف ہونے کے باوجود اردو زبان انہیں ایک دو سرے سے باہم متعارف ہونے اور حال چال دریافت کرنے کا سنہرا موقع دیتی ہے۔ یہ اردو کی وسعت ظرفی اور کشادہ دلی ہے کہ اس نے سبھی باشندگان وطن کو اپنے دامن میں افہام و تفہیم کی جگہ دی ہے۔ اگر اردو زبان نہیں ہوتی تو لوگ اپنی ریاست سے نکل کر کسی دوسری ریاست کا سفر نہیں کر سکتے ہیں ۔ ایک ملک کے باشندہ ہونے کے باوجود لوگ ایک دوسرے سے قریب نہیں ہو سکتے ۔ لوگوں کے تعلقات محدود ہوجاتے ، تجارت،ملازمت،سیاحت،تعلیم ،دعوت و تبلیغ وغیرہ تمام اغراض و مقاصد میں بے حد دشواریاں پیدا ہوجاتیں ۔ ریاستی عصبیت کی دیورایں بلند سے بلند تر ہوجاتیں ، لوگوں کے دلوں میں حب الوطنی کی بجائے ریاستی عصبیت پروان چڑھتی ،گویا کہ ہندوستان ایک ملک ہونے کے باوجود یہاں کی تمام ریاستیں ملکی پیمانہ پر متحد نہیں ہوتیں ۔ آپسی اتحاد و اتفاق کی بجائے خانہ جنگی کی صورتحال بنی رہتیں ۔جس بات کی شہادت دور ماضی کے ہندوستان سے ملتی ہے ۔یعنی برصغیر پاک و ہند صرف تین ادوار میں ایک ملک رہا۔ ایک تو چندرگپت موریا کے عہد میں اور دوسرے مغلیہ دور میں اور تیسرے انگریزوں کے زمانے میں۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں مغلیہ سلطنت نسبتاً سب سے بڑی تھی۔ انگریزوں کے زمانے میں سلطنت مغلیہ دور سے قدرے کم تھی۔ ان تین ادوار کے علاوہ ہندوستان (موجودہ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان) ہمیشہ چھوٹی چھوٹی بے شمار ریاستوں میں بٹا رہا۔ اپنی ہزاروں سال کی تاریخ کے بیشتر دور میں ہندوستان چھوٹی ریاستوں ہی میں بٹا رہا ہے۔
اردو جو کبھی ہندوستان کی دفتری زبان ہوا کرتی تھی ، عدالتی فیصلوں سے لیکر بادشاہوں کے فرمان ، زمینی دستاویز سے لیکر معمولی سی درخواست کی زبان اردو ہی ہوتی تھی ۔ جس اردو کے تحت وطن عزیز کی آزادی ہوئی، مقررین کی تقریر اورقلم کاروں کی تحریر میں اردو نے روانی پیدا کی ۔ مجاہدوں کے قلب میں حریت کی للکار پیدا کی ۔ آزادی کی خاطر شوق شہادت کا جوش و خروش پیدا کیا ۔ یہی وہ اردو ہے جس نے مہر وفا اور محبت و الفت کی مثالیں قائم کی ۔جو کبھی پریم چندر کی زبان رہی تو گاندھی و نہرو کی زبان رہی ،جس نے ہر میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیا ،آج وہ دیش میں غریب الغرباء ہے ۔ اجنبیت کی زندگی بسر کر رہی ہے ۔ ذات پات اور مذہب کے دائرہ میں گھری ہوئی ہے ۔ چاہے قطب مینار کی بلندی ہو یا تاج محل کی حسین عمارت،لال قلعہ کی فصیل ہو یا جامع مسجد کی پرشکوہ تعمیر ،گول گنبد کی فن کاری ہو یا گون کنڈہ کی سنگ تراشی ان سبھوں کے اندر اردو ہی نے جاذبیت اور کشش کی روح پھونکی ہے ۔ آج بھی ان کی در ودیواروں پر تاریخی کتبے اردو میں آویزاں ہیں ۔
یہی وہ اردو ہے جس نے گنگا جمنی تہذیب کو جنم دیا ، غزل ، نعت و منقبت ، مرثیہ ، قصیدہ ، افسانہ اور ناول نگاری ، داستان سرائی اور قصہ گوئی کو پروان چڑھا یا۔ چاہے دکنی تہذیب ہو یا مشرقی ثقافت یا پھر گنگا جمنی تمدن سبھی کو اردو ہی نے اپنے خون سے سیراب کیا ۔ اسی اردو نے اقبال ، غالب ، حالی، حسرت ، میر تقی میر ، اکبر الہ آبادی ، نظیر اکبرآبادی ، امیر خسرو، مومن خا ںمومن ، جگر ، حفیظ جالندھری جیسے ممتاز شاعروں کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا حسین موقع دیا ۔ اس کی جاذبیت اور کشش کا نتیجہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا شوکت علی جوہر، مہاتماں گاندھی ، عطا ء اللہ شاہ بخاری، مولانا مظہر الحق ، اشفاق اللہ خاں جیسے خطیبوں کو اپنی طرف مائل کرکے مجاہدین آزادی کی فہرست میں شمار کرایا ۔ اسی اردو کی مقناطیسی طاقت کا ثمرہ ہے کہ مولانا آزاد کے قلم گوہر بار سے موثر کن ، جادو بیان مجلات شائع ہوئے ۔ سر سید کا مشن بام عروج کو پہونچا ، شبلی نے اپنے مقالات کا انبار لگایا ۔ اسی پر بس نہیں بلکہ بر صغیر میں شعراء کے دیوان ، ادیبوں کی ادبیات اور مصنفوں کی تصنیفات کی جلوہ نمائی اسی اردو زبان کی مرہون منت ہے ۔
آج کے پر فتن دور میں جب کہ ہر چیز کو مذہب کے عینک دیکھا جاتا ہے ، اردو بھی اسی کی شکار ہوگئی ہے ۔ جو کبھی حکومت کی زبان ہوا کرتی تھی ۔ مجاہدین آزادی کی زبان ہوتی تھی آج اسے صرف مسلموں کی زبان قرار دیکر اردو کے ساتھ ظلم و زیادتی برتی جارہی ہے ۔ اس کے فروغ کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ حالانکہ حکومت کا اچھا خاصہ بجٹ اردو کے فروغ کے لئے مختص ہے ۔ جس کے تحت فروغ اردو کے تمام شعبہ کو بحال رکھا جا سکتا ہے۔ سرکاری اسکول میں اردو زبان کی تعلیم کا مستحکم نظام ہونے سے اردو زبان کے ماہرین کو سرکاری ملازمت مل سکتی ہے ۔ سائنس و ٹکنالوجی کی تمام کتابیں اردو زبان میں منتقلی کرنا بھی بے حد ضروری ہے ۔ تاکہ آسانی کے ساتھ ہندوستان کا ہر بچہ اپنی تہذیب کو برقرار رکھتے ہوئے علم کی بلندی حاصل کرسکتا ہے ۔ اردو کو روزگار سے جوڑنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک اسے روز گار سے جوڑا نہیں جاتا ہے تب تک اردو کی ترقی نہیں ہو سکتی ہے۔ آج ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہم صرف دور ماضی کے اردو داں حضرات کو اپنے سرمایہ کے طور پرپیش کرتے ہیں ، انہی پر ناز کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہمارے لئے بہت بڑا سرمایہ ہیں ۔ لیکن افسو س اس بات پر ہے کہ عصر حاضر میں ان کی طرح شخصیات نہیں جنم لیتی ہیں ۔ جس کی وجہ سے جدید دور کے دیوان اور ادبیات منظر عام پر نہیں آپاتے ہیں ۔ آج ہم صرف دور ماضی کے شعراء اور ادیبوں کے کارناموں کا سراہنا کرتے ہیں ۔لیکن نئی تخلیقات وجود پذیر نہیں ہوپاتی ہیں ،اس کی کبھی چرچا نہیں کرتے ہیں۔ جو بلکی پھلکی کوششیں ہمارے اردو کے محبین کی طرف سے ہوتی بھی ہیں تو وہ جاذبیت کے اس مقام تک نہیں پہونچ پاتی ہیں ۔ جیسا کہ ہمارے اسلاف کے کلاموں میں ہوا کرتی تھیں ۔ لیکن اردو کے باب میں جو بھی سعی و کوشش ہورہی ہے اسے برقرار رکھتے ہوئے اسے زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی ضرور ت ہے ۔ ورنہ یہ سرمایہ بھی ناپید ہوجائے گا ۔
آج اردو کے نام پر جو چیز ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رہتی ہے وہ اردو تصانیف اور روزنامہ اردو اخبارات ہیں ۔ جن کے ذریعہ سے اردو سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوجاتا ہے ۔ جدید صحافت کی جھلکیاں سامنے آتی رہتی ہیں ۔ اردو کے ذوق رکھنے والے لوگ اخباروں سے اپنی تشنگی بجھانے کی کوشش کرتے ہیں ،جبکہ اسکول و مدارس کے اساتذہ اور طلبہ اردو ادبی کتابوں سے زیادہ منسلک ہیں۔ لیکن المیہ ہے کہ اردو زبان میں کثیر مقدار میں اردو اخبارات کی اشاعت کے باوجود قارئین کی تعدادخاطر خواہ نہیں ہیں۔ریاستی پیمانہ پر بہت سے اخبار ایسے ہیں جو صرف ایک یا دو شہر تک محدود ہیں ۔کئی اخبار تو ایسے ہیں جو محض نیٹ کی دنیا تک محدود ہیں ،البتہ دو چار اخبار ہی ایسے ہیں جو ہندوستان کی کئی ریاست سمیت انکے کئی اضلاع تک پہونچ پاتے ہیں۔ لیکن دیہی علاقوں تک زیادہ رسائی نہیں ہو پاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے ہندی کے اخبارات پابندی سے دیہی علاقوں کے ہر چھوٹے بڑے بازار اور گاوں میں پابندی سے پہنوچائے جاتے ہیں ۔ اگر اخبار کے نمائندگان اپنے اخبار کے قارئین کے حلقہ کو مزید بڑھانے کی کوشش کرے ، اور اردو اخبار سے لوگوں کو جوڑنے کی کوشش کریں گے تو اس سے کئی طرح کے فوائد سامنے آسکتے ہیں ۔ اس سے اردو کا فروغ بھی ہوگا ۔ اردو کے تئیں لوگوں کی دلچسپی بڑھے گی ۔ اخبار کی زیادہ سے زیادہ خرید و فروخت ہوگی ۔ اور اخبار کے ذریعہ سے اردو ادب کی حلاوت و چاشنی سے لوگ مستفید ہوں گے ۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here