غزل

0
80

محمد مجاہد سید

چراغ سا کوئی ہر دم دکھائی دیتا ہے
جو آنکھ بند ہو عالم دکھائی دیتا ہے
ہمیں جو راہ دکھانے پہ ہیں مصر اب تک
یہ مسئلہ ہے انہیں کم دکھائی دیتا ہے
نہ بے وفا اُسے کہئے ذرا سے جھگڑے پر
وہ سارے شہر سے برہم دکھائی دیتا ہے
وہ راستے کی تھکن ہے کہ چھپ مسافر ہیں
کہ ہر کوئی یہاں بے دم دکھائی دیتا ہے
اسی اندھیرے اُجالے میں صبح بھی ہے کہیں
یہ اختلاف جو پیہم دکائی دیتا ہے
جو کاٹ کھانے کو اب دوڑتی ہے تنہائی
عدو بھی دشت میں ہمدم دکھائی دیتاہے
ذرا سا غور سے دیکھو تو اس کے چہرے کو
جو اپنے چہرے سے بے غم دکھائی دیتا ہے

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here