غالب ایوارڈیافتہ فکشن نگار:پروفیسر حُسین الحق

0
756

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

شگفتہ دلدار

غالب ایوارڈ یافتہ فکشن نگارپروفیسر حُسین الحق صاحب افسانہ نگاری کے تیسرے دور سے لکھ رہیٔں ہیں ـــ ۔ یہ وہ دور تھا جب افسانہ نگاری میں نئے نئے تجربے ہو رہے تھے علامت نگاری کا بول بالا تھا ، شعور کی راہ پر کہانیاں لکھنا ایک فیشن بن چکاتھا یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بھی اس رجحان اور اس رویے کو اپنایا ، لیکن اس ڈھنگ سے اپنایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے جدید افسانوں کی دنیا میں ان کا نام اہمیت کا حامل بن گیا۔ انہیںاردو افسانوں میں اظہار کی تیز ترین دھار،نئے نئے الفاظ کے انتخاب اور جملوں کی تخلیقی سطح کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میںسبقت حاصل ہے اورمعاصر فکشن نگاروں میں جن لوگوں نے نوجوان قلمکاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ان میں حُسین الحق صاحب کا نام ناگزیر ہے ۔حُسین الحق صاحب کا تعلق شیر شاہ کے شہر سہسرام کے عظیم صوفی خاندانِ مشائخ سے ہے ۔ ان کے والد حضرت مولاناانوارالحق شہودی نازش سہسرامی تھے جو خودایک مشہور عالم دین، خطیب،شاعر اور ادیب تھے ۔ ان کی والدہ محترمہ شوکت آرا کا بھی تعلق سہسرام سے ہی تھا ۔ حُسین الحق صاحب ۲ نومبر ۱۹۴۹؁ء کو سہسرام میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم خانوادے کی روایات کے مطابق ان کے والد کے زیر سایہ دینی تعلیم سے ہوئی ، اس کے بعد انھوں نے مدرسہ کبیریہ سے مولوی کا امتحان پاس کیا بعدازاں آرا ضلع اسکول آرا سے ۱۹۶۳؁ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ ۱۹۶۸؁ء میں ایس ۔پی۔جیسن کالج سے گریجویشن مکمل کیا اور پورے یونیورسٹی میں اوّل ہوئے ۔ بعدازاں پٹنہ یونیورسٹی سے ۱۹۷۰؁ء میں اردو میں ایم اے کیا اور اس میں بھی ٹاپ ہوئے ۔ ۱۹۷۲؁ء میں مگدھ یونیورسٹی بودھ ،گیا سے فارسی میں بھی ایم اے کی سند حاصل کی بعدازاں گر و گو و یند سنگھ کالج ، پٹنہ میں عارضی طور پر بحیثیت لیکچرار ملازمت بھی کی ، بعدازاں یو جی سی سے جونیرفیلوشپ ملی اور غالباً۱۹۷۴؁ء تک ریسرچ فیلو کی حیثیت سے پٹنہ یونیورسٹی میں تحقیقی و تدریسی کاموں میں مصروف رہیں، ان کے اس زمانے کے شاگردوں میں پروفیسر شاداب رضی ، ڈاکٹر انیس صدری ، ڈاکٹر نعیم فاروقی اور آج کے کانگریسی لیڈر شکیل الزماں کا نام قابلِ ذکر ہے ۔۱۹۷۷؁ء میں ان کی شادی سیّد محمد اسرارالحق کی صاحبزادی نشات آرا خاتون سے ہوئی۔ا ﷲ نے انہیں دو بیٹی اور دو بیٹوں سے نوازہ۔ اسی درمیان ایس پی کالج دمکا میں ان کی پوسٹینگ ہوئی اور ۱۹۸۱؁ء میںشعبہ اردو پوسٹ گریجویٹ مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا (بہار) میں ان کا تبادلہ ہو گیا۔ مگد ھ یونیورسٹی بودھ گیا سے ہی محکمہ سربراہ کے عہدے سے ۲۰۱۳؁ء میں وظیفہ یاب ہوئے۔
والدصاحب کی رہنمائی میں لکھنے کا کام تو دس برس کی عمر سے ہی شروع ہو گیا تھا ۔ حُسین الحق صاحب کی پہلی کہانی عزت کا انتقال غالباً ۱۹۶۴؁ یا ۱۹۶۵؁ء میں ماہنامہ کلیاں لکھنوں میں صوفی بلیاوی کے نام سے شائع ہوئی ۔ اسی سال مہنامہ جمیلہ دہلی میں ان کا پہلا افسانہ پسند شائع ہوا۔ ۱۹۶۶؁ء میںانہوں نے بچّوں کا ایک رسالہ انوارصبح سہسرام سے نکالا ۔۱۹۶۹؁ء میں ان کا پہلا مضمون باعنوان اردوشاعری پر گاندھی جی کے اثرات بہار کی خبریں پٹنہ میں شائع ہوا۔
اردو فکشن کے آبرو جناب حُسین الحق صاحب کو صرف کہانی کار کہنا شاید ان کے ساتھ زیاںکاری ہوگی ،در حقیقت وہ ایک معلم ، مفکر ، فلسفی ، تاریخ داں ،مُتصوّف ، ماہرنفسیات ، مصلح اور عالمی ادبیات کے عارف بھی ہیں۔ ان کی شخصیت کے یہ پہلو ان کے ناولوں اور افسانوں میں بخوبی نظر آتے ہیں ، یہی خصوصیات انھیں ہم عصر فکشن نگاروں سے الگ کرتی ہے اور ان کی کہانیاں صرف کہانیاں نہیں رہتیں وہ ہمارے ادب عالیہ کا اہم فن پارہ بن جاتیںہیں۔ نامور افسانہ نگار ،ناقد ،اور محقق کلام حیدری صاحب فرماتے ہیں کہ؛
’’ ۔حُسین الحق صاحب کے پاس روایات کا خزانہ ہے اور وہ انہیں عہدجدید کے Relevant بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مذہب ان کی تربیت کا پسِ منظر ہے۔وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ حُسین الحق کے یہاں حق و باطل کی کشمکش ایک خاص موضوع ہے ،لیکن یہ کشمکش تو ازلی ہے لیکن حُسین الحق اسے حالاتِ حاضرہ پر منُطبق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، چنانچہ کوئی بھی تاریخی واقعہ نئے منظرنامے کا جزو بن جاتا ہے اس لیے کہ یہ کشمکش لافانی ہے۔‘‘
حُسین الحق صاحب کا ایک افسانہ ’’وَقِنَا عَذَابَ النّارِ ‘‘ جو میں نے بہت پہلے پڑھی تھی اُس کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ تیس برسوں سے ایک لاش کمرے میں گل سڑ رہی تھی ۔ اب لوگوں کو اس کا احساس ہوا ہے ۔ لوگ اس سے نجات حاصل کرنے کی فکر میں ہیں کہ لاش غائب ہو جاتی ہے اور دو حصّوں میںتقسیم ہوکر وقت بے وقت گھروں پر دستک دیتی ہے اور انھیں اپنا شکار بناتی ہے ۔ ہو سکتا ہے حُسین الحق صاحب ہندو مسلم نفاق کا استعارہ لاش کو بنائے ہوئے ہوں کہ دونوں ایک دوسرے کی زندگی کے درپے ہیں ۔ یہ لاش ہندو مسلم فساد کی ہے ۔ یہ لاش انسانیت کی ہے جو برسوں سے لوگوں کی بے حسی سے تنگ آکر اب خود انھیں جگانے چلی آتی ہے۔ طارق سیعدصاحب ان کے بارے میں اظہارِ خیالات کرتے ہیں کہ :
’’ حُسین الحق صاحب کا فن علامت ، استعارہ اور تمشیل کے بوتے پر مہملیت سے کنارہ کشی اور مادرائی کائنات اور اقدار کی کہانی عبارت ہے خارجی حالات کی نامساعد کیفیات کا لامتناہی سلسلہ ایک طرف اور ہزاروں خواہشات کی تکمیلیت دوسری طرف ایسی صورت میں انسانی زندگی میں تضاد کا پیدا ہو جانا کوئی تعجُّب کی بات نہیں۔‘‘
گزشتہ دو عشروں میں حُسین الحق صاحب فکر و فن اور علم و بصیرت کے اس بلند مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ان کے ہم عصروں میں شاید ہی کوئی ہو ۔ حُسین الحق صاحب کو شاعری سے بھی خوب لگائو رہا۔ انھوں نے لاتعداد غزلیں اور نظمیں لکھی ان کی نظموں کا مجموعہ ’’آخری گیت ۱۹۷۱؁ء میں شائع ہواڈیڑھ سو سے زیادہ افسانوں اور تین عہدساز ناولوں کے خالق حُسین الحق کے افسانوی مجموعوں میں (۱)پش پردہ شب ۱۹۸۱؁ء (۲)صورتِ حال ۱۹۸۲؁ء (۳)بارش میں گھرا مکان ۱۹۸۶؁ء (۴) گھنے جنگلوںمیں ۱۹۸۹؁ء (۵)مطلع ۱۹۹۵؁ء (۶) سوئی کی نوک پر رُکا لمحہ ۱۹۹۷؁ء (۷)نیو کی اینٹ ۲۰۰۹؁ء قابلِ ذکرہیں۔ غور سے دیکھیں تو ایک سو سے زیادہ حُسین الحق صاحب کے افسانے اردو فکشن کی آبرو قرار دیئے جاسکتے ہیں ۔ لیکن افسانہ نیو کی اینٹ ، چپ رہنے والا کون ، ندی کنارے دھواں ، استعارہ ، ایندھن ، مورپاوں ، جلیبی کا رس، کربلا، زخمی پرندے ، گونگا بوبولنا چاہتا ہے ، سبحان اﷲ ، وَقِنَا عَذَابَ النّارِ ، انحد ، کہاں سے میںخواب ، مردہ راڈار، لڑکی کو رونامنع ہے ، اور جلتے صحرا میں نگئے پیروں رقص ، وغیرہ ایسی تخلیقات ہیں جنھیں افسانوی ادب میں دوام کا درجہ دیا جاتا ہے ۔ ان کی کہانیوں کے متعلق یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ تاریخ ،کلچر ،مذہب اور اساطیر سے کم آگاہ قاری ان سے پوری طرح محظوظ نہیں ہوسکے گا۔ دراصل ان کا تخصص یہ ہے کہ انھوں نے ماضی کے واقعات اور اساطیر کے حوالے سے اپنے عہد کی سنگین حقیقتوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ افسانہ نیو کی اینٹ میں بھی انہوں نے مسلمانوں کے حالات پر روشنی ڈالی ہے خصوصاً اس نقطہ نظر سے کہ کس طرح انھیں Fundamentalism کی آز میں بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ یہ سازش مسلمانوں کی اہمیت پر ضرب لگانے کی ایک نامشکور کوشش ہے ۔ حُسین الحق صاحب نے اس موضوع کو کسی عامیانہ انداز میں پیش نہیں کیا بلکہ فنی صورت اس طرح دی کے اثرات دورس ہو جاتے ہیں ۔ دراصل بابری مسجد کی شہادت پرلاتعداد کہانیاں لکھیںگئیں ہیں ۔حُسین الحق صاحب کا لازوال افسانہ ’’نیو کی اینٹ‘‘ بھی اسی المیہ پر مبنی ہے لیکن نیو کی اینٹ کو اس لے بابری مسجد المیہ کے ضمن میں شاہکار کا درجہ حاصل ہے کہ یہ واحد تخلیق ہے جو حیرت ناک طور پر اکثریتی اور اقلیتی طبقہ کے سماجی اور تہذیبی رشتوںکے روایتی استحکام کو ظاہر کرتی ہے ۔ یہ بہار کے گیا شہر کے شیو پوجن اور سلامت اﷲ کی دوستی کی کہانی ہے ۔
بابری مسجد شہید ہو چکی ہے ، فتح کی علامت مسجد کی اینٹوں کی شہر شہر میںنمائش ہو رہی ہے ۔ شیوپوجن کے یہاں بھی اینٹ آتی ہے ، اس وجہ سے اس کے گھر پر بڑی رونق ہوگئی ہے لیکن جب اس سے نقص امن کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے تو سرکار سخت مزاجی سے کام لیتی ہے ، اسلئے شیو پوجن پکڑے جانے کے ڈر سے مسجد کی اینٹ سلامت اﷲ کے حوالے کر دیتا ہے کیونکہ سلامت اﷲکے گھر پر پو لیس کی دبش پڑنے کا خطرہ نہیں تھا ۔ تب اچانک سلامت اﷲنے ایک بہت ہی عجیب سوال کر ڈالا،کہانی کا یہ آخری حصہ جس میں افسانے کے عنوان کو بڑی ہی فن کاری کے ساتھ عیاں کیا گیا ہے ۔
سلامت اﷲ ، شیوپوجن سے پوچھتا ہے ۔
’’اچھا یہ تو بتایئے یہ کس حصّے کی ہے؟‘‘
تب شیو پوجن نے بلاجھجھک بڑی صفائی سے جواب دیا۔
’’یہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ یہ نیو کی ہیں ۔ ہاں یہ’’ نیو کی اینٹ‘‘ ہے ۔‘‘

حُسین الحق صاحب نے ہندوستانی مسلمانوں کی قدیم روایات ، سماجی اقدار و زوال اور تباہی کی کبھی نہ بھولنے والی کہانیاں تخلیق کی ہیں ۔ آج کے ہندو مسلم افتراق کی جو غیر فطری صورت حال پیدا ہوتی ہے وہ کسی بھی افسانہ نگار کو مسلسل پریشان کرنے کے لئے کافی ہے ۔ وہ تخلیقی سطح پر بیدار ہوکر اسے برتنے کی سعی میں مصروف نطر آتا ہے ۔ اسی سلسلے کی کہانی ’مورپاؤں ‘ بھی ہے جس میں غیر فطری طور پر جس طرح ہندوستان اور مسلمانوں کے درمیان دیوار کھینچنے کی کوشش کی جارہی ہے اور کلچرل طریقے پر ان کی تقسیم کا بگُل بجایا جارہا ہے وہ حُسین الحق کے کرب کی ایک صورت ہے ۔ جسے وہ تخلیقی طور پر برت کر ایک طرح کی کتھارس کرتے نظر آتے ہیں ۔ افسانہ’گونگا بولنا چاہتا ہے ‘ میںبھی انہوں نے گلوبل ایشوز کے موضوع پر سوالات کھڑے کئے ۔ اسی طرح دوسرے افسانوں میں بھی بعض ایسے حالات کو کہانی کی شکل دی گئی ہے جس میںعالمی مسائل در آئے ہیں، فی زمانہ عالموں کا ایک جم غضیر ہے جس میں چند عالم با عمل ہیں اور زیادہ تعداد بے عمل عالموں کی ہے۔ یہ حالات کا جبر ہے ، عالم ِباطل مسلسل فروغ پارہے ہیں۔ ایسی تصویر دیکھنی ہو تو افسانہ ’’ زخمی پرندہ‘‘ پر ایک نگاہ ڈالنی چاہیئے۔حُسین الحق صاحب کا افسانہ ’’جلیبی کا رس‘‘ سیاست کے میدان میں کامیابی اور عہدوں کی آرزو میں ضمیر کا سودا کرنے والے کرداروں کی کہانی ہے ۔ انھوں نے ہندوستانی معاشرے کے جس پہلو پر بھی افسانہ لکھا ہے وہ ناقابل فراموش ہے ۔ بہر حال یہ کچھ کم نہیں کہ شترمرغ کی طرح حالات کی دھوپ سے بچنے کے لئے غفلت کی ریت میں سر چھپانے والی جماعت میںسے ایک شخص نے سچائی بیان کرنے کی جرات و شجاعت کی ہے ۔ مذہب فلسفہ ، تاریخ، تصوف ، سیاست اور پھر عہدحاضر کے رجحانات ان سب سے آگہی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے حُسین الحق صاحب نے جو دعوتِ فکر دی ہے وہ فوری طور پر قابلِ قبول نہ ہو مگر قابلِ غور ضرور ہے ۔
حُسین الحق صاحب کے نوُک ؤقلم سے اب تک تین شاہکار ناولوں کی بھی تخلیق ہو چکی ہے ۔(۱) بولو مت چپ رہو ۱۹۹۰؁ء (۲) فرات ۱۹۹۲؁ء (۳) اماوس میں خواب ۲۰۱۷؁ء قابلِ ذکر ہیں۔
ان کا پہلا ناول بولو مت چپ رہو( ۱۹۹۰؁ء )آج کی دنیاں میں تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کے مسائل پر یہ اردو ادب کو حُسین الحق صاحب کی فکر انگیز دین ہے ۔ ’’بولو مت چپ ر ہو ‘‘ ناول کا بہترین تعارف یہ ہے کہ بولومت چپ رہو !! ناول میں جس فنکارانہ خلوص اور مفکرانہ اسلوب میں ہندوستان کے تعلیمی نظام کا مُحاکمٰہ کیا ہے وہ بڑا ہی دلچسپ ہے ۔ یہ اس موضوع پر اب تک کا سب سے اچھا ناول ہے ، لیکن ان کا شہرہ آفاق ناول ’’فُرات‘‘ اردو کی عصری ناول نگاری میںایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ناول ’فرات‘ کو ملک گیرسطح پر مقبولیت حاصل ہے ۔حُسین الحق صاحب نے تاریخی ، تہذیبی ، ثقافتی ، اور معاشرتی شعور سے اپنا تخلیقی نظام قائم کیا ہے ۔ انھوں نے فکشن کے رائج سانچوں کو توڑ کر اظہار کے نئے رویوں کو فروغ دیا ہے ۔ ناول فُرات اس کی واضح مثال ہے جو تشنہ لب انسانیت کا اعلامیہ ہے ۔ حُسین الحق صاحب نے اپنے ناول کے کردار وقار احمد کے توسط سے پانچ نسلوں پر مشتمل ایک کہانی قاری کے سامنے پیش کردی اور سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کے نئے در کھول دیئے ۔ اس عبرت ناک کہانی کا مرکزی کردار وقار احمد ہے جن کی پشت پر اباجان اور دادا حضرت کی یادیں، سامنے بیٹے ،بیٹی ،پوتے ،پوتی اور درمیان میں خود وقار احمد اور اُن کی پچھتّر سالہ زندگی کے نشیب و فراز ہیں ۔ ’’ فُرات‘‘کی کہانی بظاہر ایک خاندان کی کہانی کی طرح ابھرتی ہے لیکن آہستہ آہستہ اس کا کینو س وسیع ہوتا جاتا ہے اور پھر اس میں ماضی کا جبر ، جنریشن گیپ ، مذہبی رویّے ،سیاستِ تہذیب، ثقافت غرض زندگی کے مختلف پہلوؤں کے در کھلتے چلے جاتے ہیں اور وہ بھی اس تخلیقی خوبی اور فنی چابک دستی کے ساتھ کہ قاری کی دلچسپی ناول کے آخری صفحات تک مسلسل برقرار رہتی ہے ۔ ناول اس کرب کا بھی شدت سے احاطہ کرتا ہے جس میں ہندوستانی مسلمان تقسیمِ وطن کے بعد سے آج تک عدم تحفظ کے حالات سے دوچار ہیں ۔ فرقہ وارانہ فسادات کس طرح صرف مسلمانوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچاتے ہیں اور پولیس اس میں برابر کی شریک رہتی ہے۔یہ ناول اس بات کی نشاندہی کرتا ہے اور لاشعوری طور پر یہ بھی احساس دلاتاہے کہ مسلمانوں کے پاس یاتوعظمت رفتہ کی داستانیں ہیں یا حال کی بدحالیاں اور وہ ان ہی کے وسیلوں سے جی رہیںہیں۔
حُسین الحق صاحب کا تیسرا ناول ’’اماوس میں خواب‘‘ جو کہ اکتوبر ۲۰۱۷؁ء میں منظر عام پر آیا ۔ انہوں نے ایک شعر کے ذریعہ ہم قارئین سے ناول کی پہچان کرائی ہے ۔
؎ نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے، ہواچل رہی ہے
ناول تقسیم کی کوکھ سے جنم لینے والے ایسے انسان کی کہانی ہے جو تہذیب کی شکست و ریخت سے نہیں بلکہ تہذیب کے ہر پل بدلتے منظر نامے سے پریشان ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار اسمٰعیل مرچنٹ نام کا ایک شخص ہے جو بھیونڈی ،مہاراشٹر کے دوسرے علاقوں میں ہونے والے فسادات سے پریشان در بدر بھٹکتا ہوا اپنی آبائی ریاست بہار کا رخ کرتا ہے ، لیکن رفتہ رفتہ یہاں کے حالات بھی خراب ہوتے جاتے ہیں اور ایک دن وہ کسی بم دھماکے کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اسمٰعیل کی ناگہانی موت کے بعد اسمٰعیل کی اولادوں کو جن حالات سے گزرنا پڑا ان کا بیان یا تو ناول نگار کے اس احساس کی پیداوار کہا جا سکتا ہے کہ نئی نسل بھی کم و بیش پرانے مسائل سے ہی دوچار ہوتی ہے میں نے محسوس کیا ہے کہ عہدحاضر کے چھوٹے چھوٹے واقعات و حادثات پر بھی ناول نگار کی نگاہ ہے۔
آج تقریباً دو سو افسانے ، ڈیڑھ سو مضامین ، سات افسانوی مجموعے ،تین عہدساز ناول ، چار نثری کتابیں شائع ہو چکی ہیں جس میں’ مطلع ‘ کو بہار اردو اکیڈمی نے پہلے انعام اور ناول ’’فُرات‘‘ کو دوسرے انعام سے نوازا، اور افسانوی مجموعوں ’ پس پردہ شب‘ اور ’صورتِ حال ‘ کو بھی دوسرے انعام کا مستحق سمجھا۔پچھلے سال یعٰنی کے ۲۶ مئی ۲۰۱۷؁ء کو مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی طرف سے ان کو مغربی بنگال اردو اکا دمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔ حُسین الحق صاحب کو ۲۰۱۸ کا غالب ایوارڈبرائے اردو نثر سے بھی سرفرازکیا گیا ، یہ ایوارڈ ۲۱ دسمبر ۲۰۱۸ کو بین الاقوامی غالب تقریبات کے افتتاحی جلسے میںعطا کیا گیا۔ انھوں نے تصوّف و روحانیت کے موضوع پر بھی مسلسل مقالات تحریر کئے۔ آپ نے (۱)آثار حضرت وحید تصنیف حضرت سرور اورنگ آبادی (۲) غیاث الطالبین تصنیف حضرت مولانا غیاث الدین اخلاقی (۳) فوز و فلاح کی گمشدہ کڑی تصنیف مولانا انوار الحق شہودی (۴) شرفِ آدم کا نقطہ عروج تصنیف مولانا انوار الحق شہودی کی اذسر نو تالیف و تدوین کی ۔ برگزیدہ دینی و روحانی شخسیت حضرت وصی کی سوانح اور عظیم مجاہد بزرگ حضرت قاضی علی کا تذکرہ ’’آثار بغاوت ‘‘ ان کی مشہورتالیفات ہیں ۔ انھوں نے اپنے والد حضرت مولانا انوار الحق شہودی سہسرامی کی دو شعری مجموعے مرتب کرکے شائع کیا۔ انھوں نے قاضی علی حق اکیڈمی کے نام سے باقاعدہ اشاعتی ادارہ ’’ آمڈاری ہاؤس‘‘ سہسرام میں قائم کیا ، جہاں سے اپنی اور اپنے والد محترم کی نگارشات کے علاوہ شعراء و ادباء کی معیاری کتابیں بھی شائع کیئں۔ان سب کے علاوہ اتحاد ، اساتذہ کی اہمیت ، نثر کی اہمیت ، اور اردو فکشن ہندوستان میں ان کی گراں قدر تنقیدی و تحقیقی کاوشیں ہیں۔
درس و تدریس کی اہم ذمہ داریوں کے ساتھ تصنیف و تالیف میں وہ آج تک پوری ذہنی شعوری اور تخلیقی توانائی کے ساتھ مشغول ہیں۔ فی الوقت حُسین الحق صاحب سر سیّد کالونی ، نیو کریم گنج ، گیا، بہار میں مستقل قیام پذیر ہیں۔ بحیثیت اردو ادب کی ایک ادنیٰ طالبہ کے میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ حُسین الحق صاحب کے فن اور شخصیت پر یہ باقاعدہ مضمون نہیں یہ محض چند تعارفی چھلکیاں ہیں۔
ریسرچ اسکالر:مگدھ یونیورسٹی ، بودھ گیا

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here