شاعر خود نوشت

0
341

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

ساجد ؔ جلالپوری

اس کا انگریزی نام ’’ آٹو بایو گرافی‘‘ ہے ۔آپ محبت سے آٹو فوٹو گرافی المعروف ’’ سیلفی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ شاعر اس صنف میں اپنی تصویر اپنے ہاتھوں سے خود کھینچتا ہے ۔خاکم بدہن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شاعروں نے مشاعروں کی قلت سے اپنی جبلت و فطرت تبدیل کر مصوری کا پیشہ اپنا لیا ہے ۔وہ تو مرزا غالب ؔ نے ایک بار حسینوں کے دیدار اور اصرار پر یہ پیشہ اختیار کیا تھا اور کھل کر اس کا اظہار بھی کیا تھا۔
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لئے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے
چونکہ شاعر اس میں اپنی زندگی کی تصویر قرطاس پر دماغی کیمرے سے کھینچتے ہیں اس لئے ان کو اختیار ہے وہ خود کو چاہے جتنا خوبصورت بنا کر بھولے بھالے قارئین کے سامنے پیش کریں ۔اب ہمارے شعراء اتنے بے شعور نہیں کہ وہ اپنے کو باشعور نہ بنا سکیں ۔وہ بھی اس ماڈرن زمانے میں ۔ جہاں نئی نئی ترکیب و ترغیب سے بدصورت آدمی بھی خود کو مس ورلڈ ثابت کرنے کے چکر میں نہ جانے کتنے لیٹر کریم اور فیس واش میں غسل کر چکے ہوتے ہیں ۔تو کیا شاعر اپنے کردار کو داغ دار رہنے دیں ۔ہر گز نہیں ۔
جب شعراء اپنی زندگی جی لیتے ہیں ۔اب چاہیں وہ حوروں کے عشق میں معطر مثل مشک ہو یا جہنم کے خوف میں مثل زاہد خشک ہو ۔ضعیفی میں دن بھی تو نہیں کٹتے۔ مشاعروں کی دنیا سے سبکدوش ہوتے ہی روپوش ہو جاتے ہیں ۔منظر نامہ سے ہٹ جاتے ہیں ۔ادبی دنیاسے کٹ جاتے ہیں ۔ تو بیٹھے بیٹھے دن بھی نہیں کٹتا ۔ بقول راحت ؔ اندوری
پائوں پتھر کر کے چھوڑے گی اگر رک جایئے
چلتے رہئے تو زمیں بھی ہم سفر ہو جائے گی
تو سوچتے ہیں چلو اپنی زندگی کی کہانی ’’ داستان امیر حمزہ و الف لیلہ ‘‘ کی طرح دہرائی جائے ۔’’ طلسم ہوش ربا‘‘ کی طرح بیان کر کے قارئین کے ہوش اڑائیں جائیں ( کیونکہ دادو تحسین سے مشاعروں کی چھتیں اڑانے کا طویل تجربہ تو ہے ہی ) خودپر دستاویزی فلم( ڈاکو منٹری فلم) تیار کی جائے ۔اسی بات کو سمجھانے کی غرض سے ایک عدد خود نوشت سوانح لکھنے بیٹھ جاتے ہیں یہ ایسی فلم ہوتی ہے جس کے کہانی کار ، اداکار ، ہدایت کار ، گیت کار ، سنگیت کار ، صنعت کار ، تقسیم کار وغیرہ یعنی سارے کار وہ خود ہوتے ہیں اس لئے اس کے ’’ ہٹ ‘‘ یا ’’ فلاپ ‘‘ ہونے کے ذمہ دار بھی خود ہوتے ہیں ۔لیکن یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ شاعر وہ قوم نہیں جو نقصان کا سودا کرے ۔ اس لئے اس میں ایسی ایسی دلچسپ باتیں تحریر کرتے ہیں کہ آپ گھنٹوں اپنے گھٹنوں میں سر رکھ کر پڑھتے جائیں طبیعت مکدر نہیں ہوتی بلکہ مکرر پڑھنے کہ خواہش باقی رہتی ہے۔
اب اپنی بات کو دلچسپ بنانے کے لئے تھوڑا نمک مرچ تولگانا ہی پڑے گا ۔سچ کے ساتھ کچھ جھوٹ کی آمیزش بھی کرنی پڑے گی ۔ورنہ ذائقہ کیسے ملے گا ۔مریض کی شفایابی کے لئے دوائوں میں ’’ الکوحل ‘‘ کو ’’ حل ‘‘ کرنا پڑے گا ۔ تھوڑا گناہ ہی سہی ۔ ویسے ایک شاعر کا قول ہے کہ اپنے کو کیوں کم ظاہر کریں ۔زمانہ حاسدین ومنافقین سے بھرا ہوا ہے ۔کسی کو خاطرمیں نہیں لاتا تو اگر ہم قلم قبیلے کے لوگ انکساری ، ایمانداری ، حق بیانی سے کام لیں تو کون ہمیں تسلیم کرے گا اور نتیجہ یہی ہو گا ۔
میں سچ کہوں گا مگر پھر بھی ہار جائوں گا
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
اس لئے بڑے زوروں سے منوانے کے لئے قلم کا زور تو لگانا ہی پڑے گا ۔اب چاہے کسی کو اچھا لگے یا خراب ۔ ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ایک تو کیسے کیسے دماغی گھوڑے کو مہمیز کر ’’ بیک گیئر ‘‘ میں پیچھے کی طرف دوڑاتے ہیں تو ٹھوکریں لگ سکتی ہیں ۔ایک خود نوشت سوانح نگار کا قول ہے کہ جب ہمارے دیش کے خادم اعظم المعروف ’’ پردھان منتری صاحب‘‘ دیش کے فروغ ( وکاس ) کے لئے دھڑلے سے دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں اور ان کے حوالی موالی یعنی بھکت اس ثواب جاریہ کی یہ کہہ کہہ کر حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ یہ مادر ہند کے وکاس کے لئے ہو رہا ہے ۔تو کیا ہم اپنی مادری زبان کے فروغ میں دروغ گوئی کے لئے داروغہ کا کردار نہیں نبھا سکتے ۔
ایک سخن فہم کو یہ تجسس ہے کہ خود نوشت کی ضرورت کیوں در پیش آئی تو ہم نے ایک نقاد سے سوال کیا تو محترم نے حسب لیاقت اس طرح وضاحت کی ۔ جب غزل ، قصیدہ ، مثنوی ، نظم ، آزاد نظم وغیرہ لکھ لکھ کر آزاد ہو جاتے ہیں ۔دوسروں کے گھروں میں گھس گھس کر معاملات ، تعلقات میں تفتیش کر کے سی بی آئی افسر کی طرح رٹائرڈ ہو جاتے ہیں ۔داستانوں ، افسانوں ،ناولوں میں موضوع کی تکرار ہونے لگتی ہے ۔تو پھر نیا مضمون چاہیئے اپنے سامعین و قارئین کو باندھنے کا ۔ میر انیسؔ مرحوم جیسی صلاحیت تو ہے نہیں کہ ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھ سکیں ۔دوسری بات یہ کہ اندرون خانہ ،صنف نازک اور بھی نازک ہو کر مرجھا جاتی ہیں لہٰذا اس صنف نازک کا دامن پکڑ لیتے ہیں ۔
دراصل ہمارے شعراء نہایت چالاک و بے باک ہیں وہ کسی کا حساب باقی رکھنا نہیں چاہتے ۔ وہ بھی اس دور میں جب لوگوں کی عمریں قلیل اور تمنائیں کثیر ہیں ۔ آئے دن نئی نئی سائنسی ایجادات کے ساتھ نئی نئی بیماریاں بھی ایجاد ہو رہی ہیں ۔

لہٰذا کب آخرت کی طرف ہجرت کرنا پڑ جائے ۔کفن میں لپیٹ کر جسم چلا جائے اور سفید و سیاہ کا کسی کو علم نہ ہو ۔اس لئے اتنا لمبا وقفہ قارئین کی نظروں سے اوجھل رہ کر ان کی طبیعت کو بوجھل نہیں کرنا چاہتے ۔چنانچہ کچھ اعمال و افعال کو لفظوں کی شمشیر بنا کر تحریر کر دیتے ہیں تاکہ اہل دانش طرز نگارش پر تنقید و تبصرہ کی سازش کر سکیں ۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ’’ اگر مرا ہاتھی سوا لاکھ کا ہو سکتا ہے تو کیا زندہ شاعر اس سے کم کا ہو گا ‘‘ اس بات کو کہنے میں ہمارا یہ مطلب نہیں کہ یہ شعراء بھی آئی پی ایل کر کٹر کی طرح کوئی خرید و فروخت کی چیز ہیں ۔دیکھئے ان بڑے لوگو ں کی خرید و فروخت پر ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک بار خلیفہ ہارون رشیدنے بہلول دانا سے پوچھا کہ اگر میں بادشاہ کی جگہ عام آدمی ہوتا تو میری کیا قیمت ہوتی ۔تو بہلول نے جواب دیا ایک دینار ۔ یہ سن کر ہارون رشید نے شاہانہ فخر سے کہا ۔یہ جو تہبند میں نے پہنی ہے اس کی قیمت ایک دینار ہے۔ تو فوراً بہلول بولے ۔میں نے بھی صرف تہبند کی قیمت لگائی ہے ورنہ خلیفہ کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔
ایک بار ہم نے اردو کے صاحب دیوان و عرفان شاعر سے سوال کیا کہ محترم آپ کو صنف نازک کی موجودگی میں اس صنف سخت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تو انہوں نے جواب دیا کہ پوتی پوتوں کے ساتھ دل بہلاتے بہلاتے ، ان کے ساتھ کھیلتے کھیلتے ،کہانیاں سناتے سناتے ہمیں اپنا بچپن یاد آگیا ۔اور ہم نے کتاب لکھنے کا فیصلہ کر لیا ۔پھر غور کیا کہ مختلف موضوعات پر سو دو سو کتابیں تحریر کر لکیر کے فقیر کیوں بنیں ۔ پروفیسرمولوی ذکاء اﷲ مرحوم کی طرح بنئے کی دکان کیوں کھولیں ۔ ایسی حکمت اپنائیں کہ سارے معاملات ، تعلقات ، سامان ، دیوان ، اصناف ، اوصاف کو ایک ہی کتا ب میں تلخیص کے طور پر جمع کر دیں ۔ جس سے قارئین کو اپنے محبوب شاعر کے بارے میں اچھی خاصی جانکاری ایک مشت مل جائے ۔ جب دنیا اتنی فاسٹ چل رہی ہے کہ لوگوں کو دکان دکان سے سامان خریدنے کی فرصت نہیں ۔یہاں تک کہ کھانے کی بھی فرصت نہیں ۔اس لئے سپر مارکیٹ اور فاسٹ فوڈ کا رواج عام ہو گیا ۔ایک تاجر کا قول ہے کہ ہم نے یہ طریقہ خود نوشت شاعروں سے سیکھا۔کیوں کہ ان سے سپر فاسٹ قوم دنیا میں نہیں ہے ۔اس لئے سپر سے سپر مارکیٹ اور فاسٹ سے فاسٹ فوڈ کی اختراع و ایجاد کی ۔
دیکھئے اب بہت فاسٹ چلنے کے چکر میں تھک کر گر سکتے ہیں ۔جلدی میں کتاب میں غلطیاں اور تلخیاں بھی ہو سکتی ہیں ۔سرسری اور نرسری باتیں بھی ۔اس لئے ان باتوں پر گرفت ٹھیک نہیں
؎ گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں
حضرت مرزا غالبؔ اس صنف کے قائل نہ تھے ۔لیکن لگتا ہے کہ جب ان سے دوستوں نے ضد کی ۔آپ اتنے مقبول ومعتبر شاعر ہیں ۔اپنی زندگی کے حالات اپنے قلم سے قلم بند کر دیجئے ۔تو انہوں نے یہ کہہ کر دامن چھڑایا ہو گا کہ دیکھئے بھئی میں نماز،روزہ نہ کرنے والا پکا مسلمان ہوں ۔شطرنج کھیلتا ہوں ۔جام پر جام لنڈھاتا ہوں ۔ قرض لے کر بھی میں یہ شغل جاری رکھتا ہوں ۔درباروں سے دور رہتا ہوں ۔خوشامد پسندی و چاپلوسی نہیں کرتا ۔اپنی بیگم امراو سے محبت کرتا ہوں ۔میرا حلقۂ احباب وسیع و عریض ہے ۔یہ سب باتیں اپنے قلبی و جگری دوستوں کو اپنے خطوط میں کھلی کتاب کی طرح بتا دیا ۔ اب کیا بچتا ہے جو میں اپنی سر گزشت لکھوں ۔
میں کوئی بات رازمیں نہیں رکھتا ۔کھلم کھلا بیان کرتا ہوں۔جب خدا سے پردہ نہیں تو گنہگار بندوں سے کیسا پردہ ۔ اور ویسے بھی پردہ تو عورتوں کا حق ہے ۔ہم ’’ مردوں ‘‘ پر واجب نہیں (اس کو پیش کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں ) ۔
دیکھئے میں نماز روزہ بھلے نہ اد ا کروں ۔لیکن خدا پر مکمل اعتماد و اعتقاد رکھتا ہوں ۔اس کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہوں ۔اﷲ نے مجھے آٹھ اولاد عطا کرکے سب کو واپس لے لیا ۔میں نے صبر و شکر کیا ۔بھتیجے عارف کو گود لیا اس جواں سال کو بھی لے لیا ۔اس کی امانت تھی لوٹا دی ۔ بھئی میری کیا سب کی حیات اس کے قبضے میں ہے ۔ہم یہاں کرایہ دار کی حیثیت سے ہیں جس دن وہ کہہ دے گا بوریا بستر ، کنکر پتھر ، نیزہ خنجر ، سب چھوڑ کر چل دیں گے ۔ تو یہ سب باتیں میں علی الاعلا ن سناتا رہتا ہوں تو پھر کیا بچا ہے جو میں خود نوشت لکھوں ۔
ویسے مجھے میرے فرشتوں نے خبر دی ہے کہ مرزا صاحب آپ پر لوگ سورۂ فاتحہ یعنی ایصال ثواب کم اور ایصال کتاب زیادہ کر رہے ہیں ۔
چنانچہ جب غالبؔ صاحب پر سوانح تحریر کرنے کا دبائو بڑھا تو ایک شعر سے یوں گھما دیا ۔
؎ پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا
عقلمند کے لئے اشارہ کافی تھا ۔ آگے چل کر ان کے شاگرد مولانا حالیؔ نے ان پر ’’ یادگار غالب‘‘ لکھ کر اپنی اور استاد کی دور اندیشی کا ثبوت دیا ۔
خیرغالبؔ صاحب کا ذکر آ گیا تو بات شب فراق کی طرح طویل ہو گئی ۔پھر موضوع پر آتے ہیں ۔ اس صنف میں شاعر اپنے تجربات ، حادثات ، سانحات ، واقعات کو بڑے پر لطف انداز میں بیان کرتا ہے ۔جیسے ہم سائنس کو تجربہ کر کے سیکھتے ہیں ۔بالکل اسی طرح پسندیدہ شاعروں کے کارناموں کو بہ قلم شاعر ملاحظہ کرتے ہیں ۔مثلاً ایک عدد محبوبہ حاصل کرنے کی خاطر کتنے فرلانگ کی چھلانگ لگائی ۔ کتنی اونچی دیوار سے فرار کیا ۔ شب فراق میں کتنے لاکھ تاروں کو شمار کیا ۔ ان کے عشق میں کون سا حلیہ اختیار کیا ۔کتنے تارے توڑ کر محبوبہ کے قدموں میں نچھاور کئے ۔ کتنی سرد اور زرد راتیں مجاہد مرد نے گذاریں ۔ آگ کے دریا میں ڈوب کر معہ محبوبہ کیسے زندہ نکل آئے وغیرہ یہ سب جادوئی کرشمے اسی خود نوشت کے چشمے سے نظر آ سکتے ہیں ۔
خود نوشت میں آپ کو لطائف و ظرائف ، تاریخی ، ادبی ، جاسوسی ، رومانی ، ناولوں کی ہلکی جھلک بھی مل جائے گی ۔اگر آپ کے پاس موقع پر ٹی وی اور اسمارٹ فون نہ ہوں تو یا اس کی بیٹری ڈسچارج ہو گئی تو اس قسم کی کتاب کو اٹھایئے اور پھر دیکھئے کہ وہ لذت ملے گی کہ آپ کی دماغی بیٹری چارج ہو جائے گی ۔ داستان و مثنوی کی طرح محیر العقول ، مافوق الفطرت و ماتحت الفطرت واقعات آپ کے سامنے ایسے رقص کر رہے ہوں گے گویا آپ شداد کی جنت میں ہوں ۔ راقم الحروف کو بھی ایک زمانے سے مطالعہ کا ذوق وشوق رہا ہے یقین مانئے کہ وہ لطف آتا ہے کہ زبان و بیان سے باہر ہے ۔وہ خوشی ملتی ہے کہ تن میں نہیں سماتی ۔یہ طلباء و طالبات کے لئے بہت کار آمد صنف ہے ۔امتحان میں شاعروں کی سوانح و ادبی خدمات تحریر کرنے میں آسانی ہو گی۔ اس کے ساتھ ریسرچ اسکالر بھی شاعروں پر سرچ کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر فخر سے شرٹ کا کالر کھڑا کر سکتے ہیں ۔ اس صنف میں شاعر اپنا ’’ نارکو ٹسٹ ‘‘ خود کرتے ہیں ۔ بقول شخصے جھوٹ بولنے کے لئے چائے خانہ ، اور جھوٹ پڑھنے کے لئے خود نوشت سے بہتر متبادل نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ’’ انسان دو ہی جگہ کھلتا ہے یا شراب کے جام کے بعد یا خود نوشت میں کلام کے بعد ‘‘ حالانکہ شاعر اس کو شروع کرتے وقت قارئین کی عدالت میں یہی اقرار کرتا ہے کہ جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا ۔ اس کے سوا کچھ نہ کہوں گا ۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ جھوٹ کا عنصر شامل ہوجائے ۔ کیونکہ شاعر کی زبان قلم حرکت کر سکتی ہے تو لکنت بھی کر سکتی ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خود نوشت کی بُک (Book (میں کچھ بھی بَک دیجئے کوئی برا بہیں مانے گا ۔ ہمارے قارئین با تمکین جاہل و بے وقوف نہیں بلکہ واقف معانی و حروف ہیں ۔ آپ کے اس سبجیکٹ کو فوراً ریجیکٹ کر دیں گے ۔ یہ ان کی فراخ دلی کی دلیل ہے کہ آپ کو ذلیل نہ کر کلام بے ربط کو ضبط کریں ۔
اس لئے محتاط و احتیاط سے مثل خطاط لفظوں کو آرایش و زیبایش کریں تا کہ قارئین پر کیف و نشاط کاعالم طاری ہو جائے وہ کتاب سے لطف اندوز ہو کر آپ کو مقبولیت کے آسمان پر بٹھادیں ۔ جہاں سے آپ فخر سے کہیں گے۔
؎ سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اس صنف میں دماغی ورزش و کا وش کے ساتھ ذہنی سازش بھی کرنا پڑتا ہے شعورو تحت الشعور ہی نہیں تحت الثریٰ کی گہرائیوں سے مضمون نکالنا ہوتا ہے ۔یادداشت کو واپس لانے کے لئے بہت کچھ برداشت کر کہنا پڑتا ہے۔
؎ یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اب تو یاد داشت لکھنا بھی ایک فیشن بن چکا ہے ۔جس کو بھی دیکھئے کر کٹر، ایکٹر ، حکمراں ، سائنسداں ، رٹائرمنٹ کے بعد ایک عدد خود نوشت لکھنے بیٹھ جاتے ہیں ۔ یہ تو صحیح ہے جو صاحبان قلم اور علم یعنی بھاری بھرکم اور پر مغز شخصیت ہیں ان کی کہانی اچھی لگتی ہے ۔لیکن بعض جاہل ، نادان ، بے زبان ، بد زبان ، انجان ، سب نے اپنی کہانیاں لکھ ڈالیں ۔ جب ان پر ریسرچ ہوئی تو کھلا کہ انہوں نے اپنے ذاتی خرچ سے کرائے کے مضمون اور قلمکاروں کی خدمات حاصل کیں ۔ لیکن اس فعل قبیح پر ان کو شرم نہیں ۔ بلکہ اپنی بات کو صحیح ثابت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب اس ماڈرن دور میں بے اولاد سروگیٹ مدر ( کرائے کی کوکھ) کے سہارے صاحب اولاد ہو سکتے ہیں تو کیا ہم کرائے کے قلم سے صاحب کتاب نہیں ہو سکتے ۔ ایک صاحب تو زیادہ ہی شدت پسند ٹھہرے۔کہتے ہیں جب کرائے کے شوٹرون سے قتل کروانے والے دامن پر خون کا داغ نہ لے کر بھی قاتل میں شمار ہو سکتے ہیں تو کیا ہم ’’ قلم کی سیاہی کے بغیر قلم کے سپاہی نہیں بن سکتے ‘‘۔
ایک نقاد کے بقول کوئی بھی شاعر یا شخص جب خود نوشت تحریر کرنے کا ارادہ کرے تو یہ سمجھ لو کہ اب دنیا سے استفادہ ہو چکا ۔محبوب کی گلیوں میں رنگ رلیوں سے جی بھر چکا ۔کوچۂ یار کے طواف سے انحراف کر آخرت کا راستہ صاف کر رہے ہیں ۔ اب انہیں موت کا تھوڑا تھوڑا یقین ہونے لگا ہے ۔ورنہ یہ تو آخری سانس تک جوان رہتے ہیں ۔دن اور سن ڈھلنے کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ یہی وجہ ہے اکثر شعراء نزاعی کیفیت تک فکری اعتبار سے صحت مند رہتے ہیں ۔بقول وزیر آغا
؎ دن ڈھل چکا تھا پھر بھی پرندہ سفر میں تھا سارا لہو بدن کا رواں مشت پر میں تھا
اسی لئے جن شعراء نے خدا کی ذات کا نکار کر دیا تھاجب موت سر پر ناگن بن کر لہرانے لگی تو خوف سے شاعر ہی نہیں گھر والی بھی گھبرانے لگی ۔ بیوی کا سہاگ اجڑنے اور محبوبہ کا بھاگ بگڑنے کا خیال ستانے لگا ۔ اور یقین ہو گیا کہ جب حضرت سقراط ،بقراط جیسے ۲۴ ؍قیراط سونے کے فلسفی رخصت ہو گئے ۔جمشید ،دارا،سکندر بھی قبر کے اندر ہو گئے ۔خدا کے منکر’’ لینن‘‘بھی لحد کی کیبن میں چلے گئے ۔تو ہماری کیا اوقات دنیا میں ٹکنے کی۔
حالانکہ ادب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ کوئی صنف جدید نہیں بس اس کی تجدید ہوئی ہے ۔زمانہ ٔ قدیم میں راجہ مہا راجہ ،بادشاہ ، شہنشاہ اپنی اپنی فتوحات ،تقریبات ، تعمیرات ، تخریبات ، تفریحات ، ترجیحات ، خوراک ، پوشاک ، مسواک حتیٰ کہ بیگمات اور زیورات تک کا ذکر اپنے قلم سے فخریہ انداز سے کرتے تھے۔کیونکہ وہ شاعر یا شاعر ساز تھے۔مغل بادشاہ ،ظہیر الدین بابر کی خود نوشت ’’تزک بابری‘‘ (بابر نامہ) ،جہانگیر کی ’’ تزک جہانگیری‘‘ وغیرہ سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔جو سلاطین حکومت کے کاموں سے فرصت نہیں پاتے وہ یہ فریضہ درباری شاعروں ، مورخوں یا عزیزوں کے سپرد کرتے ۔ جیسے اکبر نامہ (ابو الفضل) ،ہمایوں نامہ(گل بدن بیگم ) ، عالم گیر نامہ(کاظم شیرازی) وغیرہ ۔
خود نوشت کی روایت اس وجہ سے اور مستحکم ہوئی کہ شعراء کو خوف تھا کہ اگر ان کے بعد ان کی داستان رقم کرنے والے مناسب جانشین نہ ہوں ،اخلاف میں اختلاف ہو ۔اسے کیسے شناخت ہو ،کیسے ہائی لائٹ ہوں ۔ سب شاعر نہ مرزا غالب ؔ جیسے ’’بھاگیہ شالی‘‘ہیں نہ سب کے سوانح نگار مثل مولانا حالیؔ ہیں ۔نہ سب کی تقدیر میں ذوق ؔ جیسے استاد ہیں نہ شاگردی میں مولانا محمد حسین آزاد ؔ ہیں ۔
چونکہ اس صنف کا سارا کاروبار قوت یادداشت اور بیگم کی برداشت پر منحصر ہے اس لئے ان کتابوں کے اسمائے گرای لفظ ’’ یاد ‘‘ کی سلامی لیتے رہتے ہیں ۔مثلاً یادوں کا حساب ،یادوں کا عذاب ، یادوں کی کتاب ، یادوں کی محفل ، یادوں کی منزل ، یادوں کا ساحل ، یادوں کی رہ گذر، یادوں کا ہم سفر ، یادوں کی بارات ، یادوں سے نجات ، آپ بیتی ، پاپ بیتی وغیرہ اسی قبیل کے لفظوں سے سجے رہتے ہیں ۔
ویسے اس صنف نے اس صدی میں بہت ترقی کی ہے نہ جانے کس مخلص شاعرنے خلوص سے اس صنف کی اول خشت رکھی ،اس کا تخم بویا کہ تا حد نگاہ خود نوشت کی کشت لہلہا رہی ہے ۔یہ بحر بیکراں سات سمندر پار تک ٹھاٹھ سے ٹھاٹھیں مار رہا ہے ۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here