ایک نام ہزار داستان ،ڈاکٹر عمار رضوی سے خصوصی ملاقات

0
375

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

عبیرہے جس کی جہد و عمل اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

ایک نام ہزار داستان یعنی ڈاکٹر عمار رضوی نے محمودآباد اودھ کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھیں کھولیں ۔ابتدائی تعلیم اپنے قصبے میں حاصل کی اور پھرحصول علم کا جذبہ و جنون انھیں شہر نگاراں لکھنؤ لے آیا جہاں انھوں نے اعلی تعلیم کے مراحل مکمل کئے۔لکھنؤ یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی اور شیعہ ڈگری کالج میں انگریزی کے لکچرر ہوگئے ۔اسی دوران انھوں نے ائیر فورس بھی جوائن کی لیکن والدہ محترمہ کے اصرار پر ہندوستانی فضائیہ کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر واپس شیعہ ڈگری کالج جو ائن کیا۔ڈاکٹر عمار رضوی کی ملاقات ایک موقع پر جب متداول وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی(مرحومہ) سے ہوئی تو انھوں نے خود عمار رضوی کو کانگریس جوائن کرنے کی ترغیب دلائی۔اور عمار رضوی کے کہنے پر ہی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے دست مبارک سے انھیں کانگریس جوائن کرائی۔اس طرح ڈاکٹر عمار رضوی نے درس و تدریس کے میدان کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان بھی سرکرنا شروع کئے اور اپنے بہت سے سینئر ساتھیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مختلف وزارتوں کے قلمدان بھی سنبھالے ۔اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنا پردو مرتبہ اتر پردیش کے عبوری وزیر اعلی بھی مقر رہوئے۔ان کا سفر یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ اپنے قصبے محمود آبادمیں ایک ایسی درسگاہ کی بنیاد بھی رکھی جو عنقریب یونیورسٹی میں تبدیل ہونے والی ہے۔ڈاکٹر عمار رضوی کی حیات کے اس اہم سفرنامے کے مختلف پڑاؤ علم ،تہذیب،درس و تدریس،زبان و ادب اور سیاست کے حوالے سے اودھ نامہ نے ان سے خصوصی ملاقات کی ۔ قارئین کے لئے پیش ہیں اس گفتگو کے چند اہم اقتباسات

 

ڈاکٹر ہارون رشید
اودھ نامہ
محترم عمار رضوی صاحب ،یہ ہمارے لئے باعث شرف ہے کہ ہم آپ سے ہم کلا م ہو رہے ہیں۔منظر نامہ پر آنے سے پہلے اگر پس منظر پر بات کریں تو ہم دیکھتے ہیںکہ اودھ کے کلچر اور تہذیب میں قصبات کی بڑی اہمیت ہے ان میں آپ کے قصبہ محمودآباد کو بنیادی تشخص حاصل ہے۔ آپ خود اپنے قصبہ کے بارے میںکیا رائے رکھتے ہیں۔آپ کا گھرانہ ،آپ کے بزرگ،آپ کا بچپن،آپ کی تعلیم وغیرہ۔۔۔
عمار رضوی
بہت بہت شکریہ کہ آپ نے جو رائے یا جو الفاظ میرے بارے میں کہے ان کے لئے میں آپ کا تہ دل سے مشکور ہوں۔میری پیدائش محمود آباد میں ہوئی جو لکھنؤ سے آج تقریبا پچاس کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے لیکن پہلے سدھولی ہو کر جانا پڑتا تھا تب یہ سیدھی سڑک نہیں تھی اس وقت یہ فاصلہ پچاسی کلومیٹر کا تھا۔بعد میں میں نے وہ سڑک بنوائی جس سے بیگم حضرت محل محمودآبادسے ہوتی ہوئی نیپال گئیں تھیں۔ میں نے اس سڑک کا نام بھی بیگم حضرت محل کے نام پر رکھا ۔اس کا افتتاح اس وقت کے وزیر اعظم ہندراجیو گاندھی نے کیا تھا۔محمودآباد وہ قصبہ ہے جہاں لکھنؤ سے اپنے وقت کے بڑے علماء ،شعرا اور ادبا آتے رہے ہیں۔اور اس کی وجہ یہ رہی کہ جو والیانِ ریاست تھے۔ انھوں نے محمودآباد کی تو خدمت کی ہی لیکن ساتھ ساتھ ادب و تہذیب کو بھی فروغ دیا جس کی وجہ سے محمودآباد کی شہرت نہ صرف اتر پردیش بلکہ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں پہونچی۔لکھنؤ کے بہت ہی مشہور شاعر مصحفی،ظریف ،نفیس مرحوم صاحبان اور نہ معلوم کتنے بڑے اور پائے کے ادیب و شعرا کی آمد محمودآباد میں رہی۔آج افسوس یہ ہے کہ وہ جو وراثت تھی اور جس طر ح سے محمودآباد کو بنایا گیا تھا وہ وراثت بکھرتی نظر آ رہی ہے۔اور وہ رشتہ ٹوٹتا نظر آ رہا ہے۔۔۔۔تو اسی قصبہ میں میری پیدائش ایک ایسے گھرمیں ہوئی  جسے انگریزی میں آپ لوور مڈل کلاس فیملی کہتے ہیں۔نہ ہمارا تعلق کسی زمیندارانہ گھرانے سے ہے نہ کسی جاگیردار گھرانے سے نہ کسی سیٹھ یا سرمایہ دار فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔والد مرحوم کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ ان کی اولاد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں اور خداا کا شکر ہے کہ ہم سب کو اچھی تعلیم ملی اور ہم چھ بھائی بہنوں میں پانچ تو درس و تدریس سے ہی وابستہ ہوئے۔
محمود آبا دکے بارے میں میں آپ کو بتا رہا تھا کہ یہاں کی بہت سی چیزیں مشہور ہوئیں،یہاں کا محرم بھی مشہور رہا ،یہاں کے میلے بھی مشہور رہے۔یہاںکے عرس بھی مشہور رہے۔صحیح معنوں میں ہمارا قصبہ محمودآباد قومی یکجہتی کا ایک مرکز تھا۔اسی ماحول میں ہم نے آنکھ بھی کھولی اور اسی ماحول میں ہماری تعلیم بھی ہوئی۔تعلیم کے وسائل بہت محدود تھے۔ایک کانونٹ ہائی اسکول تھا جو ۱۸۷۴ء میں قائم کیا گیا تھا۔اور جب تک میں سیاست میں نہیںآیا تھاتب تک وہ ہائی اسکول ہی رہا تھا۔وہیں سے میں نے ہائی اسکول کیا۔اس کا سنٹر سیتا پور میں پڑا تھا۔سڑکیں بہت خراب تھیں۔بجلی بھی نہیں تھی ۔میں سوچتا تھا کہ اگر کبھی خدا نے مجھے اس قابل کیا تو میں تعلیم کے انتظامات میں درستگی لانے کی کوشش ضرور کروں گا۔ آگے کی تعلیم کے لئے میں اکیلا لکھنؤ آ گیا اور انٹر میڈیٹ بی اے اور ایم اے تک کی تعلیم پوری کرنے کے لئے رات کو بٹلر پارک میں بٹلر کے مجسمہ کے ہیٹ کے نیچے ایک بلب لگا تھا اسی بلب کی روشنی میںپڑھتا تھا۔وہیں قریب کے مکان میں ایک کوٹھری لے رکھی تھی جو بہت تنگ وتاریک تھی ۔میں ایک بنچ پر سوتا تھا ۔اگر چارپائی بچھاتا تو کتابوں کی میز نہیں آ سکتی تھی۔بعد میں دوسرے مجسموں کے ساتھ وہ مجسمہ بھی ہٹا دیا گیا۔لیکن میں جب منسٹر ہوا تو اس مجسمہ کو تلاش کروایا ۔ پولیس لائن میں کوین وکٹوریہ، جارج پنجم اور بٹلر وغیرہ کے مجسمے دھول مٹی میں اٹے ملے۔انھیں اٹھوا کے صاف کروایااور بنارسی باغ میں نصب کروایا جہاں پر آج بھی وہ مجسمے نصب ہیں۔میں نے بٹلر کے مجسمے کوایک پھولوں کا ہار پہنایا کہ آپ ہی کے مجسمے پر لگے بلب کی روشنی میں میںنے پڑھا ہے اس لیے آپ کو اپنا خراج پیش کرتا ہوں۔۔۔میںاس بات کے بالکل خلاف ہوں کہ اگر کوئی چلا گیا ہے تو اس کے کارناموں کو بھلا دیا جائے اور نشانیاں بھی مٹا دی جائیں۔میں آپ کو بتاؤں کہ میں انگلستان میں برسٹل گیا وہاں میں نے دیکھا کہ وہاں راجہ رام موہن رائے کا اسٹیچو لگا تھا۔جسے وہاں  کے لوگوںنے اپنے پیسوں سے لگوایا تھا۔ہمیں اپنا دل بڑا کرنا چائے۔یہ ہندوستان وہ ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ ساری دنیا ایک کنبہ ہے۔ اس ہندوستان کے لوگ تنگ نظر ہونے لگیں تو دیکھ کے بہت افسوس ہوتا ہے۔خیر تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ میں نے اس طرح سے لکھنؤ میں اپنی پڑھائی کی ،انٹر میڈیٹ امیر الدولہ اسلامیہ کالج سے کیا۔پھر بی اے اور ایم اے انگریزی میں کیننگ کالج (لکھنؤ یونیورسٹی سے )کیا۔
اودھ نامہ
آپ کی گفتگو سے میر کا وہ شعر یاد آگیا کہ
 دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
آپ محمود آباد سے لکھنؤ آئے اور یہاں انٹر ،بی اے اور ایم اے کیا ۔لیکن ایم کے بعد کا مرحلہ ایسا ہے جہاں انسان خود کو ایک عجیب بھول بھلیاں میں پاتا ہے۔کہ اب کدھر جائے اسے ملازمت بھی درکار ہوتی ہے اور زندگی کے دوسرے مسائل اور مراحل بھی طے کرنا ہوتے ہیں ۔آپ نے کیا سوچا اورملازمت کی راہ میں کیا تگ ودو کی۔
عمار رضوی
اس سے پہلے کہ میں ملازمت کی طرف آؤں میں یونیورسٹی کے ماحول کی طرف چلتا ہوں ۔اس وقت یونیورسٹی کا ماحول آج سے بالکل مختلف تھا۔اس وقت اساتذہ کے علاوہ جو طلبہ تھے وہ سب آج کے بہت مشہور و معروف لوگ تھے۔انجمن ترقی پسند مصنفین کی سرگرمیاں کافی تیز تھیں۔احتشام حسین صاحب شعبہ اردو کے صدر تھے۔خلیل صاحب تھے۔پروفیسرموسوی صاحب تھے،آل احمد سرور تھے۔ہم سے سینئر شارب ردولوی تھے۔عارف نقوی تھے،ذکی شیرازی تھے،اعراز نقوی تھے،حیدر عباس تھے،ابن حسن تھے۔یہ سب لوگ اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔اور بڑی زبردست طریقے سے سیاسی ،ادبی اور کلچرل سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔مجا زبھی لکھنؤ آ چکے تھے۔اس طرح سے لکھنؤ یونیورسٹی کی ایک دھاک سارے اتر پردیش میں تھی۔جب میںنے ایم اے کیا تو بڑا سخت معیار تھا اس وقت کوئی فرسٹ ڈویزن نہیں پاس ہوا تھا ۔میری بھی گڈ سکنڈ ڈویژن آئی تھی۔اسی وقت شیعہ کالج میں لکچرر کی جگہ خالی ہوئی چنانچہ میں نے بھی درخواست دے دی۔میں پہلے کانپور گیا وہاں میرا سلیکشن ہو گیا تھا اور مجھے کہا گیا کہ جب تم چاہو آ جاؤ۔۔اسی دوران ایک دن میں ٹنڈے کباب کی دکان سے کباب  پراٹھے لے کے اپنی سائیکل سے واپس آ رہا تھا ۔ شیعہ کالج کے سامنے سے گذرا تو وہاں کچھ گہما گہمی نظر آئی ۔پوچھا تومعلوم ہوا کہ آج یہاںانگلش لکچرر کا انٹر ویو چل رہا ہے۔اندر گیا اور رجسٹر پر دستخط کر کے میں بیٹھ گیا۔جب دیر ہوئی تو میں نے اپنے کباب پراٹھے کا پیکٹ کھولا اور ایک طرف بیٹھ کے وہیں کھا لیا اور نل سے پانی پی کر پھر وہیں بیٹھ گیا ۔نام پکارا گیا۔میں نے کوئی تیاری نہیں کی تھی بہر حال میں اند رگیا ۔اور انٹر ویو دیا اور چلا آیا۔یہ ۲۴یا ۲۵؍جولائی ۱۹۶۰ٗ ء کی بات ہے۔تیسرے دن مجھے اطلاع ملی کہ میرا تقررہو گیا ہے۔اس طرح میں شیعہ کالج میں انگریزی کا لکچرر ہو گیا۔
اودھ نامہ
میں کہاں رکتا ہوں عروش و فرش کی آواز سے
   مجھکو جانا ہے بہت آگے حد پرواز سے
آپ ملازمت کے حوالے سے زندگی کے اس مرحلہ میں ہیں جہاں عموما ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔لیکن ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ نے جب شیعہ کالج بحیثیت ایک انگلش لکچرر جوائن کر لیا اس کے بعد آپ کن میدانوں کی طرف اور کیسے ّآگے بڑھے۔
عمار رضوی
جب میں لکچرر ہوا اس وقت میری عمر بائیس تیئس برس تھی اور اکثر طالبعلم مجھے سے زیادہ عمر کے تھے۔اور شیعہ کالج نائٹ کالج ہوا کرتاتھا۔چھ ماہ گذرنے کے بعد ایک دن میں اخبار پڑھ رہا تھا اس میں ائیر فورس میں جگہ نکلی تھی۔میں نے اسے بھر دیا بہر حال میرا انتخاب اس میں بھی ہو گیا۔لیکن جب میری ماں کو معلوم ہوا تو انھوں نے طرح طرح کے خدشات کے پیش نظر اس ملازمت کو کرنے سے منع کیا۔چنانچہ میں نے وہ ملازمت ترک کر دی۔اور شیعہ کالج میں واپس آ گیا۔
اودھ نامہ
آپ لکچر رہو گئے پھر آپ ائیر فورس میں چلے گئے ،استاد ہو گئے اورپھر سیات کا رخ کر لیا۔اچانک پڑھاتے پڑھاتے سیاست کی طرف کیسے جانا ہوا۔
عمار رضوی
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ۱۸؍نومبر کو مجھ سے علی ظہیر صاحب جو اس وقت وزیر تھے انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں دلی جا رہا ہوں اور آپ کو بھی میرے ساتھ چلنا ہے۔میں نے کہا کہ وہاں کیا کرنا ہے۔فرمایا کہ ۱۹؍نومبرکو اندارا گاندھی جی کا یوم پیدائش ہے ان کو مبارک باد دینا ہے۔بہر حال میں ان کے ساتھ دلی چلا گیا۔جب اندرا جی کے گھر گئے۔تو اندرا جی نے پوچھا کہ یہ کون ہیں۔علی ظہیر صاحب نے کہا یہ میرے وائس پرنسپل ہیں۔اندرا  جی بولیں ارے یہ توخود طالب علم معلوم ہوتے ہیں(اس وقت میری عمر ہی ایسی تھی)میں نے کہا کہ ایک استاد بھی ہمیشہ علم کا طالب ہی رہتا ہے۔ہم بھی طالب علم ہیں۔ووہ بولیں کہ باتیں تو بہت اچھی کرتے ہیں،  سیاست میں کیوں نہیں آتے۔میں نے کہا کہ پالی ٹکس اچھی جگہ نہیں ہے اور برنارڈ شاکا کا مقولہ دہرا دیا ۔۔اس پر وہ مسکرائیں اور بولیں کہ اگر ہر شخص یہی سوچے گا تو اچھے لوگ سیاست میں کیسے آئیں گے۔تم کانگریس کے ممبر ہو جاؤ۔میں نے کہا کہ اس شرط پہ کہ یہ ممبرشپ آپ کے ہاتھوں سے ہو۔انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے کل آنا اور ایک روپیہ لیتے آنا۔اس طرح سے میں سیاست میں آ گیا۔۱۹۶۷ء میں محمودآباد بلاک کانگریس کمیٹی کا صدر ہوا۔پھر مجھے۱۹۷۰ء میں ضلع کانگریس کمیٹی کا صدر بنایا گیا ۔۱۹۷۲ء میں سیتا پور کی تاریخ میں سب سے پہلے کسی مسلمان نے ضلع کانگریس کمیٹی کاصدر ات لیکشن لڑ کے حاصل کی ،وہ میں تھا۔۱۲۸ /میں سے ایک سو ۱۲۴؍ ووٹ مجھے ملے تھے۔۱۹۷۴ ء میں اندرا جی کے کہنے پر میں الیکشن لڑا اور منسٹر ہو گیا۔۱۹۷۶ء میں نارائن دت تیواری کہیں جا رہے تھے تو مجھے ان کی جگہ پر ایکٹنگ چیف منسٹر بنایا گیا۔حالانکہ بڑے سینئر لوگ موجود تھے۔ پھر ۷۷ میں حکومت ختم ہو گئی تو پورے ہندوستان کا دورہ اندرا جی کے ساتھ کیا اس دورمیان ۱۳؍بار جیل بھی گیا۔جب دوبارہ انتخاب ہوئے اور میں نے پھر الیکشن جیتا تو وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی قیادت میں اتر پردیش حکومت میں دبارہ وزیر ہوا۔انھوں نے مجھے ۱۸؍قلمدان سونپ رکھے تھے۔ان کے زمانے میں بھی میں سواتین مہینے ایک بار پھر عبوری چیف منسٹر ہوا۔
اودھ نامہ
عمار صاحب ! ہر کمالے را زوال تو مرضی خداوندی ہے۔لیکن کانگریس کا جب زوال آیا ایسے دور میں بھی آپ نے اپنے قد کو اپنے سیاسی وقار اور تشخص کوآپ نے کس طرح قائم رکھا۔اور اتنی بڑی سیاسی جماعت کیوں مسلسل زوال پذیر ہے۔آپ اس پورے منظر نامے کو کیسے دیکھتے ہیں۔
عمار رضوی
دیکھئے جناب۔اندرا گاندھی صرف ہندوستان کی وزیر اعظم ہی نہیں تھیں بلکہ صحیح معنوں میں وہ ایک دانشور تھیں۔انھیں سیاسی سوجھ بوجھ کوٹ کوٹ کے بھری تھی اورایک بہت اعلی قسم کی خاتون تھیں۔میرے لیے تو ان کی شفقت ایک ماں کی طرح تھی۔کانگریس کے ورکر سے بہت قریب تھیں ۔جب وہ بات کرتیں تو ہر شخص یہ محسوس کرتا کہ وہ اسی سے مخاطب ہیں۔اندراجی سب سے پہلے لان میں عام آدمی سے ملتی تھیں ان کے ساتھ فوٹو کھینچواتی تھیں۔اس کے بعد وہ برآمدے میںبیٹھے لوگوں کے وفود سے ملتی تھیں پھر ڈرائنگ روم میں بیٹھے لوگوں سے۔اتنا زبردست انٹرایکشن ہندوستان میں گاندھی کی کے بعد کسی کا نہیںہوا تھا۔میرے والد ۱۹۷۷ء کے آخر میں بیمار ہوئے اور بلرام پور میں داخل ہوئے ۔میں اندرا جی کو رسیو کرنےاسٹیشن نہیں جا سکا۔انھوں نے جب مجھے نہیں دیکھا تو معلوم کیا تو کسی نے بتایا کہ ان کے والد داخل اسپتال ہیں تو اسی وقت وہ سیدھی اسپتال آئیں اور میرے والد کا حال دریافت کیا۔یہ سلسلہ راجیو گاندھی تک قائم رہا۔بعد میں کسی حد تک سونیا جی نے بھی اس روایت کو قائم رکھا۔لیکن اس کے بعد کانگریس کے پرانے ساتھیوں کو نظر انداز کیا جانے لگا اور ان لوگوں کو اہمیت دی جانے لگی جنھوں نے برابر پارٹی چھوڑی اور کانگریس کو نقصان پہنچانے میں لگے رہے۔جب لیڈر ورکر سے دوری بنالیتا ہے تو ورکر کی گرمجوشی اور محبت بھی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتی ہے اس طرح سے زمین جڑوں کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔دوسری بات جو اہم ہے وہ یہ کہ کانگریس کو اتحاد کی پالیسی نے بھی کمزور کیا۔کیونکہ جب آدمی چھڑی لے کے چلنے لگتا ہے تو وہ پھر وہ سیدھا نہیں چل پاتا۔کانگریس بھی اپنے پیروں پر کھڑ ا ہونا بھول گئی اور اس نے ا لائینس کی وہ پالیسی اختیار کی جو اس کے لئے خطرناک ثابت ہوئی ۔میں ذاتی طور پر الائینس کی پالیسی کا سخت مخالف ہوں۔اس کا سب سے بڑا نقصان اقلیتوں کو ہوگا اور ہو رہا ہے۔بھاجپا کے لئے یہ کہنا اس کے حق میں ہوگا کہ الائینس اس کیخلاف کیا جا رہا ہے۔اگر آپ الائینس کرتے ہیں تو ہندوستان میںسب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچے گا۔کیونکہ جو دیوار اٹھائی جا رہی ہے جو خلیج پید اکی جا رہی ہے اسے پاٹنا بہت مشکل ہو گا۔تو کانگریس کا یہ زوال صرف دو وجہ سے ہوا یک تو لیڈر کی ورکرس سے دوری اور دوسری اپنے گراس روٹ پر نہ جا کر دوسروں کے کندھوں کا سہارا لے کر الائینس کی پالیسی۔اگر گذشتہ لیکشن الگ الگ لڑا جاتا تو بی جے پی شاید الیکشن نہ جیت پاتی۔بی جے پی کو جتانے کی ذمہ داری ان سیاسی پارٹیوں کی ہے جنھوں الائینس کیا۔جب آپ مسلمان کو بی جے پی سے ڈرائیں گے تو اس کا ری ایکشن ہندووں پر بھی ہوگا جیسا کہ پچھلے الیکشن میں ہوا۔
اودھ نامہ
علم او داب کی خدمت میں جو کچھ بھی میرا حصہ ہے
پل دو پل کی بات نہیں ہے نصف صدی کا قصہ ہے
عمار صاحب ،جس طرح سے فراق گورکھپوری انگریزی کے لکچرر رہے لیکن دنیائے ادب میں وہ ایک شاعر کی حیثیت سے جانے اور پہچانے گئے۔اسی طرح آپ کی بنیادی تعلیم ایک کانونٹ اسکول میں ہوئی اور انگریزی کے ہی لکچرر ہوئے ۔آپ کے انگریز دوست آپ کی انگریزی دانی پر نازاں ہیںلیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ آپ کے یہاں جو فارسی نوک زبان ہے اور کریمہ آ پ کو آج بھی حفظ ہے۔ اردو زبان کی سلاست اور روانی نیز بر محل رومی،حافظ،اقبال غالب اورمیر کے اشعار۔۔۔،ان سب کے پس منظر میںکیا ہے اور کون ہے۔
عمار رضوی
دیکھئے اس کا کریڈٹ جو ہے وہ میری ماں کو جاتا ہے۔میرے والدبہت اچھی اردو بولتے تھے۔ان کو رامائن بھی قریب قریب پوری یاد تھی۔دیوان غالب یاد تھااس کے علاوہ فارسی کے انھیں بے شمارا اشعار یاد تھے۔غالب سے انھیں اس درجہ عقیدت تھی کہ میرا نام بھی انھوں نے غالب کے نام پر نوشہ رکھا تھا۔لیکن جو تعلیم کی شروعات ہوئی وہ میری ماں نے الف ب سے ابجد ہوز حطی کلمن سعفص اوراسکے بعد انھوں نے فارسی کی گلستاں اور بوستان بھی مجھے پڑھائی۔قرآن پاک بھی پڑھایا۔ایک روز کا روٹین تھا ۔میں بتاؤں کہ میرے محلہ میں ایک مسجد ہے جہاں مجلس بھی ہوتی تھی اور میلاد بھی اور علم بھی اٹھتا ہے اور اس میں سبھی لوگ شریک ہوتے ہیں۔یہاںآج بھی قائم ہے ۔لکھنؤ کی لعنت وہاں نہیں ہے کہ جہاں مسجدیں بھی مسلک در مسلک بنٹ گئی ہیں۔اس مسجد میں سب لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں میرے والد بھی وہیں نماز پڑھتے تھے ساتھ میں ہمیں بھی لے جاتے تھے ۔نماز کے بعد باورچی خانے میں اپنی والدہ کے سامنے ہم ایک سپارہ پہلے تلاوت کرتے تھے بعد میں چائے ناشتہ۔آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونا چاہئے کہ جب میں ساتویں درجہ کا طالب علم تھا میں نے طلسم ہوشربا مکمل جلدیں،ایرج نامہ تورج نامہ ،داستان حمزہ وغیرہ پڑھ لی تھیں۔آج جس کے متن کی قرأت ایم اے کا طالبعلم بھی شائد ٹھیک سے نہ کر سکے۔اور یہ بھی ہے کہ اردو کبھی یونیورسٹی میں میری زبان نہیں رہی۔تو جو کچھ اردو فارسی ہے میری والدہ نے سکھائی اور پڑھائی ہے۔یہ انھیں کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔
اودھ نامہ
ہمیں شعور جنوں ہے کہ جس چمن میں رہے
نگاہ بن کے حسینوں کی انجمن میں رہے
بجا فرمایا کہ کانگریس اپنی زمینی حقیقتوں سے دور ہوتی گئی اور اپنی قدر ومنزلت کھوتی گئی۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب جب حکومتیں بدلیں توارباب اقتدار سے آپ کی قربت سے عوام کو ایسا لگا کہ آپ کانگریس چھوڑ کر اس میں شامل ہونے جا رہے ہیںخواہ وہ ملائم کا زمانہ ہو یا اکھلیش کاعہد ہو یا بی جے پی کا دور ہو۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔پھرجماعت میں اور آپ میں جو رویوں کا فرق ہے اسے کیسے آپ دیکھتے ہیں یہ قارئین کے لئے جاننا دلچسپ ہوگا۔
عمار رضوی
جہاں آپ تشریف فرما ہیں یہی وہ جگہ ہے کہ یہاں ایک بڑی نشست ہوئی تھی جس میں حامد انصاری صاحب نائب صدر کی حیثیت سے لکھنؤ آئے تھے انھیں میں نے کھانے پر مدعو کیا تھا۔ ملائم سنگھ تشریف فرمار تھے۔کپل سبل موجد تھے۔سبرت راؤ جی،ڈاکٹر منصور حسن صاحب ،پٹنائک جی اور گورنر جوشی جی۔یہ لوگ یہا ں پر تھے۔ ملائم سنگھ نے کہا کہ کانگریس نے جتنا ذلیل عمار ضوی کو کیا ہے وہ افسوسناک ہے ۔میں تو بار بار کہتا رہا ہوں کہ ان کو کانگریس چھوڑ دینا چاہئے۔وی پی سنگھ نے بھی اپنی حکومت بنائی تھی تو مجھے آفر کیا تھا۔شرد پوار نے بھی آفر کیا تھا اور اپنے گھر پر کہا تھا کہ آپ ساتھ آ جایئے۔اکھلیش نے بھی کہا تھا۔لیکن یہ وضع داری ہے۔ہم کسی بھی پاررٹی میں جا سکتے تھے۔بی جے پی میں بھی جا سکتے تھے۔میری دوستی سب سے رہی ہے۔میں نےاپنے دور حکومت میں کبھی سیاسی تعصب سے کام ہی نہیں کیا ۔اس لئے میرے تعلقات سب سے ہیں۔افسر بھی میری عزت کرتے ہیں کیونکہ میں نے کبھی افسران کی توہین نہیں کی۔کانگریس میں میں تھا اور ہوں۔میں پھر کہتا ہوں کہ کانگریس اگرالائینس کی پالیسی کو ترک نہیں کرتی تو بچا کھچا ورکر بھی بھاگ جائے گا۔
اودھ نامہ
عمار رضوی صاحب،کچھ دھندلا سا یاد آ رہا ہے کہ شاید کبھی آپ نے گفتگو میں یہ فرمایا تھا کہ جب آپ سیاست کے میدان میں سفر کر رہے تھے اور دہلی کی طرف جا رہے تھے اس وقت آیت اللہ سعید الملت صاحب آپ کے ساتھ تھے اور شاید جنت البقیع کے روضوں کی تعمیر کے سلسلہ میںآپ نے بڑا قدم اٹھایا تھا۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے قارئین کے لئے ان باتوں کو تازہ کر دیں کہ۔۔۔۔
عمار رضوی
نہیں جناب وہ میرے ساتھ نہیں گئے تھے بلکہ میں مولانا سعید الملت کے ساتھ گیا تھا ۔جب وہ دلی جاتے تھے اکثر مجھے لے جاتے تھے۔یہ میرا خیال ہے کہ ستمبر۱۹۶۷ ء کا زمانہ تھااور انھوں نے کہا کہ میںدلی جا رہا ہوں تم بھی چلو۔وہاںدو اہم اپائنٹمنٹ تھے ایک سعودی عرب کے ایمبسیڈر کے ساتھ دن میں۔دوسرا ڈاکٹرذاکر حسین صاحب کے ساتھ تھا شام کو۔تو سعودی عرب کے ایمبسیڈر کے ساتھ یہ مسئلہ قریب قریب اس طرح طے ہو گیا تھا۔کہ جنت البقیع میں تعمیر پر پابندی ہے تو ہم تعمیر نہیں کریں گے بلکہ کوئی یادگاری نشانی کے طور پر باہر سے لاکر رکھ دی جائے۔پھر ہم نے کھاناوہیں کھایا تھا۔جب اس کا ذکر ذاکر صاحب سے کیا تو انھوں نے نے اس کی ستائش کی تھی۔مولنا اس طر ح کی تحریک چلا رہے تھے کہ ہم اس کی یادگار کو باقی رکھ سکیں بغیر کسی باقاعدہ تعمیر کے۔یہ ایک بڑی کنونسنگ بات تھی۔اسی د ن شہر کے ایک شیشے کے تاجر نے ہمیں کھانے پر بلایا تھا۔کھانا کھا کر ہم لوگ پرانی دلی اسٹیشن آ گئے اورٹھرٹی ڈاؤن سے لکھنؤ روانہ ہو گئے۔غازی آباد سے جب گاڑی آگے چلی تو ان کے سینے میں کچھ تکلیف شروع ہوئی۔میں ان کی پیٹھ دبانا شروع کر دی تاکہ انھیں آرام ہو جائے۔پھر وہ باتھ روم گئے ،لوٹے تو میں نے محسوس کیا کہ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہے میں نے کنڈکٹر سے رابطہ کیا چنانچہ اناؤنس کیا گیا کہ کوئی ڈاکٹر ہو تو مدد کرے۔دو لوگ آئے انھوں نے بتایا کہ دل کا دورہ ہے۔ہاپڑ میں کوئی ڈاکٹر نہیںملا،مرادآباد تک آتے آتے مولانا کا انتقال ہو گیا۔پھر بہت بحث و مباحثے کے بعد گاڑی میں الگ سے کمپارٹمنٹ لگایا گیا اور میں ان کی نعش کے ساتھ لکھنؤ آیا۔مولانا اس مسئلہ کو حل کرنے میں دل سے لگے تھے ۔اس مسئلہ کو جتنی سنجیدگی سے عملی طور مولانا سعید الملت نے اٹھایا میں سمجھتا ہوں کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے
اودھ نامہ
یہ مہر تاباں سے کوئی کہہ دے کہ اپنی کرنوںکو گن کے رکھے
ہم اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو کود چمکنا سکھا رہے ہیں
جس طرح سے آپ بے تکان گفتگو کر رہے ہیں  وہ بے شک آپ کی شخصیت کا حصہ ہے۔ہم ا س کیلئے مشکور ہیں اب ہم ایک ہی سوال میں دو باتیںجاننا چاہیں گے۔ایک تواردو زبان کا مسئلہ ہے دوسرا یہ کہ آپ نے محمود آباد میں جس دانش کدہ کی بنیاد رکھی
عمار رضوی
اندرا گاندھی نے وی پی سنگھ سے کہا تھا کہ دیکھو اردو کے لئے کچھ کرو۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب بہارمیں جگن ناتھ آزاد نے اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔اخلاق الرحمن قدوائی گورنر تھے۔وی پی سنگھ جی نے مجے بہار بھیجا میں وہاں گیا اور ان کا ایکٹ لایا اور اس کی ر وشنی میں یہاں بھی تیاریاں کیں۔پہلے کیبنٹ میں آیا پھر اسمبلی میں لایا گیا۔جب بل پیش کرنے کا وقت آیا تو وہ صاحب جنھیں یہ بل پیش کرنا تھا وہ ’’ذرا آیا‘‘ کہہ کر چلے گئے۔میں پارلیمانی امور کا وزیر تھا۔تو جب ان کا نام پکارا گیا تو میں نے جلدی سے فائل اٹھائی اور پڑھنا شروع کر دیا۔اسی اثنا میں دو کانگریس ممبروں نے اعتراض وارد کر دیا۔شری پت مصرا اس وقت صدر تھے۔انھوںنے کہا کہ آپ ہی کی سرکار کے ممبر مخالفت کر رہے ہیں۔میں نے کہا کہ ان کی مخالفت اس وقت تک غیر آئینی ہے جب تک یہ استعفی نہ دیں۔بہر حال اس طرح اردو کو سرکاری زبان بنانے کا بل کانگریس حکومت میںپاس ہو ا۔
جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا کہ محمود آباد میں کوئی قابل ذکر درس گاہ نہیں تھی صرف ایک وہی اسکو ل تھا جہاں میں نے پڑھا تھا میری بڑی خواہش تھی کہ محمود آباد میں ایجوکیشن ہب بنے۔ جب میں منسٹر ہوا تووہاں انٹر میڈیٹ کالج قائم کیا اور فخرالدین علی احمد کے نام سے ڈگری کالج کھولا۔ حکومت ختم ہو گئی تو میں نے سوچا کہ مولانا آزاد جنھوں نے تقسیم ہند کی سخت مخالفت کی تھی۔ وہ ہمارے پہلے وزیر تعلیم تھے اور ہندوستان کا سارا ایجوکیشن سسٹم جس شخصیت کی دین ہے اس کے نام پر ایک کالج کھولا۔جتنی زمین ہمارے پاس تھی وہ سب کالج کی نذرکر دی۔ہماری بیوی کی تمام چیزیں اسی میں لگ گئیں۔ ۲۵,فروری ۲۰۱۵؍کو اکھلیش یادو نے اسے یونیورسٹی ڈکلئیر کیا لیکن اس میں شرط یہ تھی کہ چالیس ایکڑ زمین شہری علاقہ میں ہونا چاہئے۔اب اتنی زمین یعنی دو سو بیگھا زمین شہری علاقہ میں ہونا آجکل نا ممکن ہے۔پہلے ایک وزیر تھے انھیںجب اپنی یونیورسٹی بنانا تھی تب انھوں نے حکومت کی مقررہ پچیس ایکڑ کی شرط کو گھٹا کر دس یکڑ کرا لیا تھا اور جب ان کی یونیورسٹی بن گئی تو پھر اس دس ایکڑ کو پہلے سے بھی زیادہ بڑھاتے ہوئے چالیس ایکڑ کر دیا(تاکہ کوئی دوسری یونیورسٹی بن ہی نہ سکے)پھر میں نے گورنر اتر پردیش عالی جناب شری رام نائک اور ویزر اعلی اتر پردیش یوگی صاحب کا شکر گذار ہوں کہ انھوں نے اس شرط کو بیس ایکڑ کر دیا ۔چنانچہ ہم نے اپنے پورے خاندان کی زمین جو بیس ایکڑ سے زیادہ تھی یونیورسٹی میں دے دی ہے اور پرسوں کمیٹی آئی تھی وہ اپنی رپورٹ دے گی ۔انشاء اللہ جلد ہی ہمیں حکومت کی طرف سے لیٹر مل جائے گا اور اس طرح سے یونیورسٹی بنانے کایہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔
اودھ نامہ
اے اہل ادب آؤ یہ جاگیر سنبھالو
ٍمیں مملکت لوح و قلم بانٹ رہا ہوں
بڑی خوشی کی بات ہے کہ اودھ نامہ اپنے صحافتی سفر کا پندرھواںسال مکمل کر رہا ہےاس سفرکے آپ شاہد بھی ہیںاور مشاہد بھی۔اس موقع پر آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے۔
عمار رضوی
دیکھئے اودھ نامہ ایک اخبار نہیں ایک مومنٹ ہے ایک مشن ہے۔اور میں سمجھتا ہوںکہ وقار صاحب اور ان کے رفقائے کار نظام صاحب،ہارون رشید صاحب،شکیل رضوی صاحب،اور مولاناحفیظ نعمانی کی سرپرستی بھی شامل ہے ،وقار رضوی کی بیگم صاحبہ بھی اس میں شامل ہیں۔جس طر ح سے ان لوگوں نے جن حالات میں اردو کی خدمت کی ہے وہ صرف انسانی کوششوں سے ممکن نہیں تھا۔وہ ایک شعر ہے نا۔۔۔ٍٍٍ
کہ لکھتے رہے جنوں میں حکایات خوں چکاں
   ہر چند ہاتھ اس میں ہمارے قلم ہوئے
اردوزبان اور ادب کی بہت بڑی خدمت کی ہے، نہ صرف اردو ادب اور زبان کی خدمت،بلکہ جس طرح سے روز مرہ کے مشکلات ہیںمسائل ہیں جو تعصبات کی ہوائیں ہیں،ان سب کا مقابلہ کیا ہے نہایت واضح طور سے اور بے باک اور نڈر ہو کر سماج کو ایک مثبت پیغام اور دعوت فکر و عمل دی ہے۔اور اودھ کی جو تہذیب ہے جو کلچر ہے اس کی نمائندگی بھی بھر پور طریقہ سے اودھ نامہ کر رہا ہے۔زبان کی حفاظت کر رہا ہے،کلچر کی حفاظت کر رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ جو ظلم ہورے ہیں اس کے خلاف پوری قوت سے کھڑا بھی ہے۔اور سب سے بڑی بات یہ کہ اودھ نامہ نے خو د کو کسی پارٹی سے منسوب یا منسلک نہیں کیا۔ یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اودھ نامہ کانگریس کا ترجمان ہے،سماج وادی کاترجمان ہے،بی جے پی کا ترجمان ہے۔اودھ نامہ انسانیت اور انسانی حقوق کا ترجمان ہے،میری نیک خواہشات اودھ نامہ کے لئے ہیں اور میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس مومنٹ میں حصہ لیں۔
اودھ نامہ
مرحلہ طے نہ ہوا اس کی شناسائی کا
جب بھی دیکھا اسے انداز دگر دیکھا ہے
رات ختم ہو جاتی ہے بات ختم نہیں ہوتی،بہت کچھ رہ گیا جس پر گفتگو ہوتی لیکن وقت کا تقاضا تھا کہ ہم عمار رضوی صاحب سے اجازت لیں۔
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here