اردو اور ہمارا معاشرہ

0
721

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

عارفہ مسعود عنبر

زبان صرف اظہارِ خیال کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی کا پیمانہ بھی ہے، زبان ہی وہ ذریعہ ہے جو انسان کو زندگی میں عالیٰ مقام اور بلند درجات دلا سکتی ہے ۔ انسان اپنے شیریں، پر اثر اور دلفریب الفاظ کے ذریعہ ہی لوگوں کے دلوں پر تسلط کرکے محبتوں کو حاصل کر سکتا ہے، اس کے بر عکس غیر موزوں اور تلخ الفظ کے ذریعہ کسی کی نفرتوں کاشکار بھی ہو سکتا ہے۔ ہماری گفتگو، ہمارا انداز ،ہمارا لب و لہجہ ہمارے الفاظ قلبی سکون اور ذہنی تسکین کا ذریعہ بھی ہیں اور کسی حساس دل کی دل آزاری کا سبب بھی،۔ کسی زبان کو قبول کرنے کے معنی اس کی روایتوں اور فکر کو بھی قبول کرنا ہے، زبان صرف ہمارے خیالات کا لین دین ہی نہیں بلکہ الگ الگ نظریات، جذبات ،اور احساسات کو ظاہر کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، آج کے بدلتے ہوئے زمانے نے انسانی زندگی کو بالکل تبدیل کر دیا ہے ،نئ نئ ایجادات اور نئ ٹیکنالوجی نے ہر زندگی کو متاثر کیا ہے خطوط کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے، کتابوں سے مطالعہ کی جگہ اب گوگل اور ای بکس حاضرِ خدمت ہیں، دوست اور احباب سے ملاقات کے فرائض فیس بک ٹویٹر اور واٹس ایپ بخوبی انجام دے رہے ہیں، غرض یہ کہ انسانی زندگی کا معیار ہی بدل گیا ہے، گلوبلائزیشن کے اس دور میں جہاں بہت سارے فوائد سامنے آئے ہیں وہیں کہیں نہ کہیں اس ماڈرن ٹیکنالوجی کا نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ آج دنیا میں 6800زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن وہ آہستہ آہستہ اپنا وجود کھوتی جا رہی ہیں، اور چند زبانوں نے ہی اپنا قبضہ کر لیا ہے، ہمارے ملک ہندستان میں بھی سیکڑوں بولیاں بولی جاتی ہیں لیکن کوئی بھی زبان ایسی نہیں جو پورے ہندوستان میں یکجا طور سے رائج ہو، پنجابی، گجراتی، مراٹھی ہریانوی، قنوجی، کنّڑ وغیرہ یہ ساری زبانیں صرف اپنے اپنے علاقے تک محدود ہیں لیکن صرف اردو ایک ایسی زبان ہے جس نے تمام ہندستان ہندستانی معاشرہ اور ہندستانی عوام کو متاثر کیا ہے، سائنس کا ضابطہ ہے وہی چیز باقی رہ سکتی ہے جو وقت اور حالات کے حساب سے مطابقت پیدا کر لے اور اردو زبان میں وہ صلاحیت موجود ہے جو بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ خود کو بھی بدلتی رہتی ہے اردو نے اپنے دامن کو ہمیشہ وسیع رکھا ہے اور ہر زبان کے الفاظ کو محبت کے ساتھ ایک شفقت اور محبت والی مادر کی مانند اپنے آنچل میں سمیٹ لیا ہے اردو کی ان محبتوں اور شفقتوں کا ایسا اثر ہوا کہ ریختہ کہی جانے والی زبان جس کے معنی “گری پڑی زبان ” کے ہیں بادشاہوں کے درباروں سے لیکر عوام کی گلیوں تک سبھی کے دلوں میں ایک خاص مقام بناتی چلی گئی ،اور تب سے اب تک مسلسل ترقی کی منازل طے کر رہی یے یہی وجہ یے اردو کا ماضی بھی روشن رہا اور مستقبل بھی محفوظ ہے ۔اردو زبان وہ زبان ہے جس نےقلیل مدت میں ایسی ترقی کی جو کہ نہ صرف ہمارے ملک ہندوستان میں بلکہ بیرونی ملکوں میں بھی اہمیت کی حامل ہے، مگر افسوس! سیاست دان اس مخلوط محبت والی اور شیریں زبان کو بھی سیاست کا مدعا بنا کر طبقہِ خاص سے جوڑکر اردو کے وجود کو نذرِ آتش کرکے اپنی روٹیاں سینکنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ایسا ممکن نہیں۔ تاریخ گواہ ہے اردو ہے جسکا نام وہ، وہ زبان ہے جس نے ہر مزہب کے لوگوں کو اپنے گلے سے لگایا ہے، ہندو مسلم، سکھ، عیسائ، پارسی، جین، ہر مزہب کے لوگوں نے اس کے گیسو سنوارے ہیں اور اسے پروان چڑھانے میں اپنا حق ادا کیا ہے، فراق، پریم چندر، راجندر سنگھ بیدی، دیا شنکر نسیم، اپیندر ناتھ اشک، چکبست ۔مہندر بیدی سحر ۔اشوک ساحل ایسے سیکڑوں نام ہیں جن کے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی، زبان کے سیاست دانوں سے خاکسار کی گزارش ہے کہ اردو کو ایک طبقہِ خاص سے منسلک کرنے سے پہلے اردو ادب کی تاریخ سے یا تو ان ناموں کو نکال کر الگ کر دیں، یا پھر ان کے نام ہی بدل دیں،۔
اردو دنیاکی وہ خوشنما اور دلفریب زبان ہے جس نے معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے اردو نے ہندستانی معاشرے کی تعمیر اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
اردو کو اپنی حب الوطنی کا ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے اردو ہی وہ زبان ہے جس نے جنگِ آزادی میں ہندستان کی دوسری زبانوں کے شانہ بہ شانہ چل کر اپنا حق ادا کیا ہے ۔اردو اخبارات اور صحافت نے عوام کے دلوں میں ایسی بیداری پیدا کی کہ انگریزی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور آخرکار انگریز ہندستان چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔اردو ہی وہ زبان ہے جس نے” انقلاب زندہ باد” جیسا نعرہ دیا، “سارے جہاں سے اچھا ہندستاں ہمارا “جیسا ترانہ دیا، “سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے “جیسا نغمہ دیا۔. اردو نے ہندستانی فلموں اس کے گیت اور مکالموں کو بھی زندگی بخشی اور اسے اس لایق بنایا کہ آج ہندوستانی سینیما پوری دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے ۔ہندستان کی ترقی اور تعمیر میں ہندستانی شاعروں اور ادیبوں کا تعاون بھی قابلِ تحسین ہے اردو زبان اور ادب ہمیں ایک دوسرے سے میل جول کرنے کی خواہش، خوش رہنے کی فطرت، بزرگوں کی عزت، معاشرے کی بہتری کی روش ، ملک اے محبت اور اچھی زندگی ادا کرنےکا درس دیتی ہے اردو نے ہندستانی معاشرے کی تعمير بہت محبت اور خلوص کے ساتھ کی ہے جس کی وجہ سے اردو نے اپنے وجود کو ہمیشہ منفر رکھا ہے

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here