ہجرت

0
162

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

اسلم آزاد

یوں تو حیدر بہار کا رہنے والا تھا لیکن اسے یہاں گجرات آئے ہوئے تقریباً 17 سال کا عرصہ گزر چکا تھا. حیدر نہایت ہی ایماندار، محنتی اور سادگی پسند انسان تھا ایک لمبے عرصے سے یہاں کام کرتے کرتے کارخانے کے کل پرزوں سے بھی جیسے اسکی جان پہچان سی ہو گئی تھی. اور اپنی محنت ایمانداری اور فراخ دلی سے معاشرے میں جو عزت کمایا وہ تو اسکا زندگی بھر کا سرمایہ تھا. کارخانے میں سب کامگار اسکے ساتھ عزت سے پیش آتے تھے. حیدر یہاں سورت میں اپنے کارخانے کے پاس ہی اپنے بیوی اور تین بچوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتا ہے اور ایک چھوٹے پریوار کے ساتھ خوشی خوشی اپنی زندگی جی رہا ہے. حیدر کو جو پگار ملتی ہے ان سے وہ اپنے بچوں کی فیس ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ رقم گھر بھی برابر بھیج دیا کرتا ہے. گھر میں حیدر کے والدین ہیں ماں کو اب دکھائی بھی نہیں پڑتا. حیدر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رمضان میں ہر سال کچھ دنوں کے لئے گھر ضرور آتا ہے. حیدر کو دیکھ کر قطعی یقین نہیں ہوتا کہ وہ بہار کا باشندہ ہے گزشتہ 17 سالوں میں وہ پوری طرح گجراتی بن چکا تھا اسکی پوری طرز زندگی کسی گجراتی سے بالکل بھی کم نہ تھی شاید یہی وجہ ہے کہ اس سے ملنے والا ہر شخص اسے گجراتی تصور کرتا ہے. میں جب بھی یہاں گجرات آتا ہوں حیدر سے ملے بغیر کبھی واپس نہیں جاتا ہوں اور گزشتہ سال تو میں یہاں سے حیدر کے والد محترم کا کرتا پاجامہ بھی لیکر گیا تھا حیدر کے تینوں بچے نہایت معصوم اور پیارے ہیں انہوں نے دو بچوں کا داخلہ پاس کے مدرسہ میں کرایا ہے جسکی وہ باضابطہ ہر ماہ وقت پر فیس ادا کر دیا کرتا ہے یہاں گجرات میں بڑے بڑے کارخانوں میں یہ لوگ محنت مزدوری کر کے اپنا اپنے پریوار والوں کے لئے دو جون کی روٹی کا انتظام کرتے ہیں انکا گھر بڑی مشکل سے چلتا ہے. ہاں! انکے چہرے پر یہ مشکل دکھائی بالکل بھی نہیں پڑتی ہے. اور ہاں ان مزدوروں میں زیادہ تر بہار اتر پردیش جھارکھنڈ وغیرہ کے لوگ شامل ہیں. گجرات کی تقریباً تمام کارخانے ان زندہ دل مزدوروں کی بدولت ہی سانس لے رہی ہے. ورنہ ان محنتی مزدوروں کے بغیر شاید ان کارخانوں کا کوئی وجود بھی باقی نہ رہے. شاید انکی محنت کی بدولت ہی یہاں کے بازار میں بھیڑ رونق اور فیکٹرییوں میں شور شرابا بھی باقی ہے؟ ان مزدوروں کا خون پسینہ اور پوری طاقت ان میں صرف ہو جاتی ہے اور ان محنت کا ثمرہ ان کی مزدوری ہوتی ہے. مزدوری صرف اتنی کہ اگر دوسرے دن کام پر نہ جائیں تو شاید بھوکے پیٹ سونے کی نوبت آ جائے. اتنی مزدوری سے انکا پیٹ بھر جاتا ہے پت دوسرے اخراجات پورے نہیں پڑتے. یقیناً انکو ملنے والا محنتانہ ان کے لیے ناکافی ہوتا ہے اور یہ انکی زندگی نہیں بدل سکتی ہے. پر یہ سچ ہے کہ انکی محنت نے ان فیکٹری کے مالکوں کی زندگی ضرور بدل ڈالی ہے. یہ حیدر اور ان جیسے ہزاروں مزدوروں کی محنت کا نتیجہ ہی تو ہے کہ گجرات آج گجرات بن گیا. وہ گجرات جسکی مثالیں ترقی کے لئے پیش کی جانے لگی؟ پر افسوس! کہ یہ بہاری مزدور جو اپنی محنت کے لئے جانے جاتے ہیں خود کے اوپر لگےداغ’’ بہاری‘‘کو نہ ہٹا سکے. یہ داغ شاید ان بہاریوں کے لیے مضر نہیں ہے جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں جو کہتے ہیں کہ میں بہار والوں کا کھویا ہوا وقار واپس دلاونگا. یا پھر اونچی کرسی اور لگزری گاڑیوں میں بیٹھنے کے بعد یہ لوگ بہاری کی اہانت کو بھول جاتے ہیں؟ کیا ان کوٹ پینٹ اور بوٹ پہننے والے بہاریوں کو اس بات کا علم نہیں؟ پر یہ کیسے ممکن ہے؟ شاید ان کالے اور بڑے بڑے چشمہ پہننے والوں کو اس القاب سے واسطہ ہی نہ پڑتا ہو. پر یہ داغ اتنا معمولی بھی تو نہیں ہے؟ السلام علیکم و رحمۃ اللہ! اچانک سے حیدر کے بڑے بیٹے کی آواز میرے کانوں میں داخل ہوئی تو میں نے جواب دیا کہ تبھی حیدر بھی گھر میں داخل ہوا لیکن وہ کچھ پریشان حال معلوم ہو رہا تھا انکی آنکھوں میں ایک عجیب سا خوف دکھائی دے رہا تھا. حیدر کی حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو خون نہیں. اس کے چہرے پر آج تک میں نے اس طرح کا خوف نہیں دیکھا تھا میں نے وجہ دریافت کیا تو بنا کچھ بتائے وہ جلدی سے گھر سے باہر کی اور لپکا. میری کچھ سمجھ میں آتا کہ حیدر پھر سے گھر آ گیا اور اس بار بیگم سے سفر کا سامان باندھنے کو کہکر میرا ہاتھ پکڑ کر گھر سے باہر لے آیا. حیدر زور زور سے سانس لے رہا تھا. اس نے بتایا کہ کل تک گجرات کو خالی کرنے کا فرمان جاری ہوا ہے نہیں کرنے کی صورت میں پتہ نہیں……. میں نے حیدر سے اسکی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ کسی شخص نے ایک پھول سی مسکراتی ہوئی بچی کو اپنی……….. حیدر خاموش ہو گیا. اسکی باتیں سن کر میرے پیروں تلے زمین کھسک گئ، کہ ایک کی سزا کروڑوں کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟ اور پھر سزا دینے والا عام انسان کون ہوتا ہے؟ حد تو یہ ہے کہ اتنے بڑے مسئلے پر حکومت کیوں خاموش ہے؟ کچھ دیر بعد ہم اسٹیشن پر پہنچ گئے تو دیکھا کہ لوگ ایک دوسرے کے اوپر سوار ہو جائیں گے. ٹرین میں اتنی بھیڑ تو شاید ملک کے بنٹوارے کے وقت بھی نہ ہوی ہوگی. لوگ بس کسی طرح یہاں سے نکل جانا چاہ رہے ہیں . آج سب کوئی اپنے چہروں پر مسکراہٹ کے بجائے خوف لیے گھر جا رہے ہیں . آج کروڑوں مزدور ایک ساتھ ہجرت کر رہے ہیں کروڑوں بہاری ہجرت کر رہا ہے اور ہاں! ان بہاریوں میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جنکے پاس بڑی گاڑیاں بڑا گھر بڑا عہدہ اور دیگر سہولیات موجود ہیں. آج بہار والوں کی ہجرت سے گجرات خالی ہو رہا تھا نہ کہ گجرات والوں کی ہجرت سے ہندوستان. اس بار ہجرت کی باری مزدوروں کی تھی نہ کہ مالکوں کی.. اب کارخانے سونے ہو رہے تھے اور شاید منتظر بھی تھی ان بہاریوں کی…….
گڈا جھارکھنڈ.،پرنسپل الحرا پبلک اسکول ہنوارا گڈا
موبائل نمبر 8210994074

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here