9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
صہیب قاسم ندوی
رمضان المبارک کا محترم مہینہ ایک بار پھر ہمارے اوپر سایہ فگن ہورہا ہے۔ ایک طرف کورونا وائرس کی یلغار نے جہاں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور کئی لاکھ افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ایسے سنگین حالات پورے عالم میں پیدا کردیے کہ پوری دنیا مقفل ہوکے رہ گئی، تمام حکومتیں اور طاقتیں اسں مہلک بیماری کے خلاف میدان عمل میں کود پڑیں مگر ابھی تک کوئی اطمنان بخش کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ اسی عالمی سطح کی جنگی صورت حال کے درمیان مسلمانوں کے ایک متبرک مہینہ کی آمد ہوا چاہتی ہے، جو اپنے ساتھ رحمتیں، برکتیں اور بے شمار و لازوال چیزیں لیکر ہم پر کرم فرما ہونے والا ہے۔ رمضان کے مبارک مہینہ کا پہلا عشرہ رحمتوں کے نزول کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ دوسرا عشرہ گناہوں کی خلاصی کا ہے، انسان سے اگر برے کام سرزد ہوئے ہوں اور وہ گناہوں میں مبتلا ہو تو اپنے رب سے تعلق بناکر اس سے معافی تلافی اور مغفرت طلب کرکے اپنے آپ کو پاک کرنے کا ہے۔ اور تیسرا عشرہ نار جہنم سے نجات حاصل کرنے کا ہے۔ رمضان المبارک میں کیا ہوا ایک ایک عمل باعث اجر و ثواب اور نجات پانے کا ذریعہ ہے۔ اس مبارک ماہ میں قرآن کا نزول ہوا ہے جس وجہ سے اسے شھر القرآن بھی کہا جاتا ہے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ قرآن زیادہ سے زیادہ سنے سنائے اور تلاوت کرئے تاکہ ثواب دوگنا حاصل کیا جاسکے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔ (سورۃ البقرۃ،آیت 185). رمضان کی آمد سے پہلے ہی ہمارے آقا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تیاری میں لگ جاتے، روزے کا کثرت سے اہتمام فرماتے اور اس ماہ مبارک کے انتظار میں رہتے۔ رمضان کو شھر الصیام بھی کہتے ہیں۔ لوگ اللہ تعالی کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے لئے صبح سے شام تک بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کرتے ہیں گرچہ کھانے پینے کی تمام چیزیں میسر ہوتی ہے اس کے باوجود اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لئے پورے مہینہ روزوں کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ ان کا خالق ان سے راضی ہوجائے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہئے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے) اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔ (بخاری شریف:1894)۔ دن بھر بھوک اور پیاس کی شدت اور اپنے کام کاج کی تھکن کے باوجود رات میں تراویح کا اہتمام کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان المبارک میں بحالت ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (بخاری شریف:2009)۔ نیز اس ماہ میں کیا ہوا ہر ایک عمل بے شمار اجر و ثواب کا باعث ہے۔ بدنی ریاضت و مجاہدہ کا تذکرہ تو کچھ قدرے ہو گیا اب مالی تعاون پر کچھ روشنی درکار ہے۔ جس طرح بدنی اعمال کے بے شمار فائدے ہیں اسی طرح ضرورت مندوں اور محتاجوں کی مالی معاونت کرنا بھی باعث اجر و ثواب اور بڑی نیکی ہے۔ لاک ڈاون کے چلتے پوری دنیا کی معیشت خطرے میں پڑ چکی ہے۔ بے روزگاری بڑھنے کا خدشہ ہے، مزدور طبقہ فاقہ کشی کا شکار ہونے لگا ہے۔ ایسے برے حالات میں صاحب ثروت اور اصحاب خیر حضرات کی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، ان حالات کے تئیں حاجت مندوں کی مدد کرنا ضروری ہے تو کیوں نہ دوہرا ثواب کمانے کی امید میں زیادہ سے زیادہ اللہ کے راستے میں مال کو خرچ کیا جائے تاکہ ان کی ضروریات بھی پوری ہوجائے اور ہمارا بیڑا بھی پار ہوجائے۔ فضیلت والا مہینہ ہے ہمیں چاہئے کہ ہر عمل ایمان اور احتساب کے ساتھ ادا کیا جائے جس کی برکت سے ہمارے ماضی میں ہوئی خطائیں محسنات میں تبدیل ہوجائے۔ نیز سلمان فارسی ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخری روز ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: لوگو! ایک با برکت ماہ عظیم تم پر سایہ فگن ہوا ہے، اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ نے اس کا روزہ فرض اور رات کا قیام نفل قرار دیا ہے، جس نے اس میں کوئی نفل کام کیا تو وہ اس کے علاوہ باقی مہینوں میں فرض ادا کرنے والے کی طرح ہے اور جس نے اس میں فرض ادا کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اس کے علاوہ مہینوں میں ستر فرض ادا کیے، وہ ماہ صبر ہے جب کے صبر کا ثواب جنت ہے، وہ غم گساری کا مہینہ ہے، اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، جو اس میں کسی روزہ دار کو افطاری کرائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا اور جہنم سے آزادی کا سبب ہو گی اور اسے بھی اس (روزہ دار) کی مثل ثواب ملتا ہے اور اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول ﷺ! ہم سب یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ ہم روزہ دار کو افطاری کرائیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرما دیتا ہے جو لسی ّ کے گھونٹ یا ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کی افطاری کراتا ہے اور جو شخص کسی روزہ دار کو شکم سیر کر دیتا ہے تو اللہ اسے میرے حوض سے (پانی) پلائے گا تو اسے جنت میں داخل ہو جانے تک پیاس نہیں لگے گی اور وہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول (عشرہ) رحمت، اس کا وسط مغفرت اور اس کا آخر جہنم سے خلاصی ہے، اور جو شخص اس میں اپنے مملوک سے رعایت برتے گا تو اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اسے جہنم سے آزاد کر دے گا۔ (رَوَاہُ الْبَیْہَقِیّ، مشکاۃ المصابیح 1965 / 469،حکم: ضعیف)۔
الٰہی باغ سرینگر، شعبہ عربی، یونیورسٹی آف کشمیر
[email protected]
9469033846