کلام آتش اپنے زمانے کے حالات کا روشن باب

0
1658

”کلاسیکی عہد اور خواجہ حیدر علی آتش“ پر دوروزہ قومی سیمینارکامیابی سے ہمکنار

لکھنؤ:اسے آتش کی بد نصیبی ہی کہا جائے گا کہ ان کا نام ایک ایسے مکتب فکر سے جڑا ہوا ہے جہاں خارجیت اور داخلیت کی کشمکش ہے ۔روح کی جگہ جسم کا بیان ہے اور لفظی تراش و خراش پر بہت زیادہ زور دیا گیاہے ۔ان خیالات کا اظہارڈاکٹر صبیحہ انور نے اتر پردیش اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام دوروزہ قومی سمیناربعنوان کلاسیکی عہد اور خواجہ حیدر علی آتش کے دوسرے دن صدارتی خطاب کے دوران یوپی پریس میں کیا۔ڈاکٹر مظہر احمد نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔اس اجلاس میں شائستہ عالم، اطہرحسین، عزہ معین، موسی رضا، مجتبیٰ حسن، اور محمد سعید اختر نے آتش سے متعلق مختلف موضوعات پر مقالے پڑھے۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر عمیر منظر نے انجام دیے۔ ڈاکٹر صبیحہ انور نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ دبستان آخر ہیں کیا ۔دراصل یہ سوچنے اور زندگی پر غو رکرنے کے طریقے ہیں ۔ڈاکٹر صبیحہ انور نے مقالہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اچھا تجربہ ہے اور خوشی کی بات ہے کہ اردو کے ایک باکمال شاعر کو جو کہ لکھنؤ کا تھا اسے دوروز سے لکھنؤ میں یاد کیا جارہا ہے ۔صبیحہ انور نے کہا کہ کسی بھی فن کار کے لیے اپنے عہد اورسماج کے تقاضوں سے منہ موڑناغیر فطری عمل کہلائے گاکیونکہ وہ اسی زمانے میںسانس لیتا ہے وہی مسائل اور وہی ماحول اسے میسر ہیں اس لیے تفہیم آتش کے لیے اس زمانے اور اس عہد کے عام حالات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا ۔
صفدر امام قادری نے آتش شناسی کے عنوان سے مقالہ پڑھا ۔انھوں نے کہا کہ دبستانِ لکھنؤ کے جن شعرا نے اس خطّۂ ارض میں اپنی غزل گوئی سے ایک معیارِ سخن مرتّب کیا، ان میں خواجہ حیدر علی آتش کے علاوہ کوئی دوسرا شاید ہی سرِ فہرست قرار دیا جائیانھوں نے کہا کہ بڑے بڑے نقّادوں نے اگر ان کے شاعرانہ مرتبے کے تعیّن کی کوشش کی تو وہاں بھی اشارے ، کنایے، اختصار کو زیادہ دخل رہا۔ بعض ادبی تاریخیں اور دبستانِ لکھنؤ کے جائزوں پر مشتمل گوشے سامنے آئے جنھیں آتش کے شاعرانہ مقام کے تعین کے حوالے سے بنیادی نوعیت کا کام کہنا مشکل ہے۔ آج سے ستّر برس پہلے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے مقالہ لکھتے ہوئے خلیل الرّحمان اعظمی نے جو تحریر پیش کی تھی، اسے ہی اب بھی آتش کے شاعرانہ مقام و مرتبے کے تعین کی کلید سمجھنا ہمارے لیے ناموزوں نہیں ہے۔اپنے مقالے میں انھوں نے تذکروں کے علاوہ محمد حسین آزاد،امداد امام اثر ، پروفیسر شاہ عبدالسلام ، خلیل الرحمن، سیّد ظہیر احسن ،ڈاکٹر سید اعجاز حسین کا ’انتخابِ کلامِ آتش‘ مع مقدّمہ،ڈاکٹر شعیب راہی ،پروفیسر محمدذاکر کی تحریروںکا جائزہ لیا ۔
سمینار کے بعد آتش کی یاد میں مشاعرہ کا اہتمام کیا گیاجس کی صدارت استاد شاعر قمر سنبھلی نے فرمائی۔ نظامت کا فریضہ رضوان احمد فاروقی نے انجام دیا ۔ مشاعرہ میں بیخود لکھنوی، مخمور کاکوروی، سنجے مصرا شوق، عقیل فاروقی، طارق قمر، عمیر منظر، خالد قیصر، ڈاکٹر احمد عیاض، عائشہ ایوب، محمد ارشدمرکزی اور محمود الحسن نے اپنے کلام سے نوازا۔اس موقع پرڈاکٹر تبسم قدوائی،عارف نگرامی،سہیل وحید،عرفان علی، ڈاکٹر پروین شجاعت، ڈاکٹر طارق حسین، ڈاکٹر شجاع الحق،شاداب عالم،شہانہ سلمان،ڈاکٹر ریشماں پروین، ڈاکٹر نیہا اقبال، ڈاکٹر شائستہ تبسم، عطیہ بی،نثار احمد، ضیا اللہ،ڈاکٹر مسیح الدین،گلشن جہاں، شاہد حبیب وغیرہ نے شرکت کی۔پروگرام کے اختتام پر اویس سنبھلی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here