9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عباس دھالیوال،
پورا عالم اس وقت کرونا کی ذد میں ہے دنیا کی عظیم ترین قوتیں امریکہ، اٹلی، اسپین اور انگلینڈ وغیرہ تو ایک طرح سے کرونا کے آگے گھٹنے ٹیک چکے ہیں. سپر پاور امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں اس وبا میں مبتلا ہونے والوں کی گنتی میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے.
لیکن افسوس صد افسوس ایسے نازک حالات میں بھی ملک کا بیشتر گودی میڈیا کرونا وائرس پر حقیقی خبریں دینے کی بجائے اور لوگوں میں اس تعلق سے بیداری کرنے کی بجائے. اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال کرونا کو مذہبی رنگت دینے پر کیا جا رہا ہے. تاکہ اس بیماری کی آڑ میں وبا سے لڑنے کے سرکار کے ناکافی انتظامات اور ناکارہ کارکردگی پر پردہ پوشی کی جا سکے. یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی روز سے میڈیا کرونا کے پھیلنے اور اس کی روک تھام کے لیے اصل خبریں نشر کرنے کی بجائے. صرف اور صرف ملک کے اقلیتی طبقہ کو بیماری کے پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرا نے پہ زور دے رہا ہے. میڈیا کی اس مفلسی فکر پہ دیش کے باشعور لوگوں کو ترس آ رہا ہے. دانشوروں کا خیال ہے کہ میڈیا کے ایسے خطرناک و جھوٹے پروپیگنڈہ سے یقیناً ملک کو جو نقصان پہنچے گا اس کی بھرپائی صدیوں تک نہیں ہو پائے گی.
ادھر تبلیغی جماعت کا والوں جن پر اکثر نیوز چینلز پہ دانت گھسائی ہو رہی ہے ان موقف ہے کہ جب جنتا کرفیو کا اعلان ہوا تو اس وقت بہت سارے لوگ مرکز میں موجود تھے اسی دن مرکز کو بند کر دیا گیا باہر سے کسی کو نہیں آنے دیا گیا جو لوگ مرکز میں تھے انھیں گھر بھیجے جانے کے بندوبست کیے جانے لگے تھے. 21 مارچ سے ہی ریلوے کی آمدورفت بند ہونے لگی تھی اس لیے باہر سے آئے لوگوں کو بھیجنا مشکل تھا. اس کے باوجود دہلی وہ اس کے گردونواح کے قریب 1500 افراد کو گھر بھیج دیا گیا تھا اور قریب 1000 لوگ مرکز میں بچ گئے تھے. جنتا کرفیو کے ساتھ ساتھ 22 مارچ سے 31 مارچ تک کے لیے دہلی میں لاک ڈاؤن کا اعلان ہو گیا بس یا پرائیویٹ ٹرانسپورٹ بھی ملنے بند ہو گئے پورے دیش سے آئے لوگوں کو ان کے گھروں میں بھیجنا مشکل ہو گیا. وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کا حکم مانتے ہوئے لوگوں کو باہر بھیجنا صحیح نہیں سمجھا ان کو مرکز میں ہی رکھنا بہتر تھا. 24مارچ کو ایس ایچ او نظام الدین نے ہمیں نوٹس بھیج دھارا 144کی خلاف ورزی کے الزام لگائے. ہم نے اس کے جواب میں کہا کہ مرکز کو بند کر دیا گیا ہے 1500 لوگوں کو ان کے گھر بھیج دیا گیا ہے اب ایک ہزار لوگ باقی بچے ہیں جن کو بھیجنا مشکل ہے ہم نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے یہاں ودیشی ناگرک بھی ہیں.
اس کے بعد ہم نے ایس ڈی ایم کو درخواست لکھ کر 17 گاڑیوں کے لیے کرفیو پاس مانگے تا کہ بقیہ لوگوں کو ان کے گھر بھیجا جا سکے. لیکن ہمیں کوئی پاس جاری نہیں کیا گیا. 25 مارچ کو تحصیلدار اور ایک میڈیکل کی ٹیم آئی اور لوگوں کی جانچ کی گئی. 26مارچ کو ہمیں ایس ڈی ایم کے آفس میں بلایا گیا اور ایس ڈی ایم سے بھی ملاقات کرائی گئی. ہم نے پھنسے ہوئے لوگوں کی معلومات فراہم کرائی اور کرفیو پاس مانگا. جبکہ 27 مارچ کو چھ افراد کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے میڈیکل جانچ کے لیے لے جایا گیا اور 28 مارچ ایس ڈی ایم اور ڈبلیو ایچ او کی ٹیم 33 لوگوں کو جانچ کے لیے لے گئی. جنھیں راجیو گاندھی کینسر ہسپتال میں رکھا گیا. اس کے ساتھ ہی 28 مارچ کو لاجپت نگر کے اے سی پی کا نوٹس آیا کہ ہم گائیڈ لائن اور قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں. جس کا مکمل جواب ہم نے دوسرے ہی دن بھیج دیا تھا. جبکہ 30 مارچ کو اچانک یہ خبر سوشل میڈیا میں پھیل گئی کہ کرونا کے مریضوں کو مرکز میں رکھا گیا ہے اور ٹیم وہاں ریڈ کر رہی ہے. اس طرح مرکز نے پولیس کو اور دوسرے افسران کو لگاتار معلومات فراہم کروائیں کہ ان کے یہاں لوگ پھنسے ہوئے ہیں. لیکن کہیں بھی سنوائی نہیں ہوئی.
جیسا کہ ہم نے بعد میں بھی کئی وائرل ویڈیو میں دیکھا کہ کس طرح سے جماعت والے لوگوں کا وفد ایک پولیس افسر سے پھنسے لوگوں کو ان کی منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے بس پاس مانگ رہا ہے لیکن وہ ان کو کوئی واضح راہ دکھانے کی بجائے ہڑکاتا ہوا نظر آ رہا ہے.
دوسری طرف کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق گجرات کے الگ الگ اضلاع کے قریب 1800 لوگ پھنسے ہوئے تھے جن گپ چپ طریقے سے نکال کر گاڑیوں میں بٹھا کر ان کے گھر وں تک پہنچا نے کا بندوبست کیاگیا. جبکہ اتراکھنڈ سے احمد آباد قریب 1200 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے.
یہاں قابل ذکر ہے کہ جس تبلیغی جماعت کو میڈیا بے شرمی سے کرونا جہاد اور معلوم نہیں کیسے کیسے القاب سے نواز رہا ہے. اس کی سادگی کا اندازہ اس بات سے ہی لگ سکتا ہے کہ بہت عرصہ پہلے آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے انٹیلی جنسی والوں کو جماعت کے کام کاج کو لیکر جب معلومات فراہم کروانے کی ہدایات دیں. تو تحقیق کے بعد افسران نے کہا کہ تبلیغی جماعت سے ملک کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ زمین سے نیچے اور آسمان سے اوپر کی بات کرتے ہیں یعنی درمیانی دنیا داری یا سیاست سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے. اپنی تبلیغ میں یہ لوگوں کو اچھے کاموں کی ترغیب اور برے کاموں سے رکنے کی تلقین کرتے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ اگر انسان برے کام کریگا تو اس زمین کے نیچے یعنی قبر میں عذاب چکھے گا اور اگر نیک اعمال کریگا تو یہی انسان آسمان پر رب کی مختلف نعمتوں سے نوازا جائے گا.
گودی میڈیا کے تبلیغی جماعت پر حملہ آور رخ کتنی ہی خبریں آئی ہیں جو عوام کے دکھ درد کی کتنی ہی ان کہی کہانیاں بیان کرتی ہیں جیسے کہ ہم نے مختلف خبروں میں دیکھا ہے کہ کس طرح 24 کے لاک ڈاؤن کے بعد ہزاروں کی گنتی میں دہلی میں اور ملک کے دوسرے حصوں میں رہنے والے دیہاڑی دار پرواسی مزدور کس طرح سے بے یارو مددگار پھنس گئے جبکہ دہلی میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح اپنے اپنے صوبوں میں جانے کیلئے( یوپی بارڈر) آنند وہار وغیرہ پر لوگوں کے جماوڑے نے لاک ڈاؤن کی روح کو تار تار کیا . جس کے نتیجے میں انھیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. بعد اذاں مختلف صوبوں کی ٹرانسپورٹ کی بسوں کے ذریعے انھیں ان کے شہروں تک پہنچا یا گیا. جبکہ اس سے پہلے ہزاروں کی گنتی میں لوگ سینکڑوں میل دور اپنے گھروں کی طرف پیدل ہی روانہ ہو گئے. جس کے بعد پیدل چلنے والوں کی جو دلخراش کہانیاں سامنے آ ئیں ان کے درد کو پڑھ اور سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں.
مذکورہ سبھی سنگین و مشکل حالات کا سامنا دیش کو صرف اس لئے کرنا پڑا کیونکہ لاک ڈاؤن سے پہلے کوئی پری پلاننگ نہیں کی گئی اور نہ ہی وزیراعظم نے کسی صوبائی سرکار سے اس ضمن میں کوئی مشورہ کیا اور نہ کوئی ایڈوانس ایڈوائزر ی جاری کی. اگر دوچار دن پہلے لاک ڈاؤن کے سلسلے میں بتا دیا ہوتا تو وہ غریب لوگ جو راستوں میں پھنسے ان کو اپنے گھر وں تک پہنچنے کا اچھا خاصا موقع مل جاتا اور شاید ملک ایک بہت بڑی تکلیف سے بچ جاتا.
سوشل سایٹس پہ ایکٹو رہنے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے میڈیا کے دوغلے پن کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے لکھا ہے کہ جہاں یہ میڈیا والےتبلیغی مرکز نظام الدین کے لوگوں کو’ چھپا’ ہوا بتا رہے تھے وہیں ویشنو دیوی مندر اور گوردوارہ مجنوں کا ٹیلہ صاحب میں موجود لوگوں کو پھنسا ہوا بتا رہے تھے لفظوں کا مذکورہ ہیر پھیر یقیناً میڈیا کی نیتوں پر بڑے سوال کھڑے کر تا ہے. سچ تو یہ ہے کہ آج میڈیا کو مسلمانوں کی آنکھ کا بال بھی شہتیر نظر آتا ہے جبکہ اپنی کی آنکھ کے شہتیر دکھائی نہیں دیتے.
جیسے کہ میڈیا میں درج ذیل خبروں کا تذکرہ تک نہیں ہے. ممبئی کے الاسنگر میں 49 سال کی ایک خاتون کورونا سے متاثر پائی گئی. عورت نے جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ اس نے ایک آشرم میں حصہ لیا تھا جہاں پر قریب 1500 عقیدت مند موجود تھے جس کے بعد وہاں کی نگر نگم کے ہاتھ پاؤں پھول گئے.
جبکہ اس سے پہلے کرونا پازیٹو بالی وڈ سنگر کانکا کپور نے انگلینڈ سے بھارت آنے کے بعد کئی پارٹیوں میں حصہ لیا جس سینکڑوں افراد سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ برسراقتدار پارٹی لیڈران بھی موجود تھے جو بعد میں پارلیمنٹ اور راشٹرپتی بھون کے اندر تک گئے .
جبکہ ان نازک دنوں میں بھی پارلیمنٹ کو 23 مارچ تک چلایا گیا اور اسی بیچ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کے طور پر شو راج سنگھ چوہان نے حلف اٹھایا جہاں سوشل ڈسٹینسی تمام ہدایات کو بالائے طاق رکھا گیا. اسی طرح مدھیہ پردیش کے مُرینہ میں ہی ایک اور معاملہ سامنے آیا ہے جس میں ایک تیرہویں کے پروگرام میں شرکت کرنے والے 22 لوگوں کے نمونے لیے گئے جن میں دس لوگوں کے معاملے پوزٹیو آئے ہیں. دراصل مذکورہ پروگرام میں تقریباً 1500 لوگوں نے کھانا کھایا تھا دراصل مذکورہ نوجوان دبئی سے آیا تھا جہاں وہ ہوٹل میں ویٹر ہے 17 مارچ کو مرینہ آیا اور بیس مارچ کو اس نے اپنی والدہ کی تیرہواں کے موقع پر تقریباً 1500 لوگوں کو کھانا کھلا یا. اس کے 22 قریبی رشتے داروں کا ٹیسٹ ہوا جن میں 8 خواتین اور مردوں کے ٹیسٹ پازیٹو پائے گئے.
جب سے تبلیغی جماعت میڈیا کے راڈار پہ آئی ہے تب سے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آراء بھی سامنے آرہی ہیں.
اس ضمن میں جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے لکھا ہے کہ “اب کچھ لوگوں کے لیے تبلیغی جماعت سب سے آسان بہانہ بن جائے گا. کہ وہ ہر جگہ موجود مسلموں کو گالی دے سکیں. جیسے مسلموں نے ہی کرونا پیدا کیا ہو اور پوری دنیا میں پھیلا دیا ہو. دیش کے زیادہ تر مسلمانوں نے سرکاری قوانین کا اسی طرح پالن کیا ہے جیسے کسی اور نے کیا.”
معروف شاعر منور رانا نے ایک شعر میں میڈیا پہ طنز کستے ہوئے یہ شعر کہا ہے کہ
جو بھی یہ سنتا ہے حیران ہوا جاتا ہے
اب کرونا بھی مسلمان ہوا جاتا ہے.. !
افسانہ نگار شموئل احمد نے لکھا ہے کہ “تبلیغی جماعت سے نفرت کیوں ؟ یہ بے ضرر لوگ ہیں۔سیاست سے کام نہیں لیتےصرف دین کی تبلیغ کرتے ہیں راہ خدا میں اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں ۔”
ادھر امریکہ میں رہنے والے بھارتی نژاد کے مشہور سوشل ورکر اوی ڈانڈیا نے سی این این کے نیوز اینکر کی ایک ویڈیو پوسٹ کر لکھا ہے کہ جو بھارت میں ٹی وی اینکر آج بھی کرونا میں دھرم ڈھونڈ نے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو یہ ویڈیو دیکھنے کی ضرورت ہے ویڈیو جس میں ایک خاتون اینکر کرونا وائرس سے متاثرہ مریض کے ایک رشتہ دار کے ساتھ محو گفتگو ہے اور وہ اس سے بات کرتے ہوئے زار و قطار رو رہی ہے. انھوں نے میڈیا کو کہا ہے کہ ” تم لوگوں کا یہ کارنامہ بھارت کبھی نہیں بھولے گا اور اس کا بھگتان تمہیں یقیناً بھگتنا پڑے گا حساب اسی جیون میں ہوگا یہ طے ہے. ”
جبکہ بی جے پی کے قومی صدر نڈھا کہنا ہے کہ ‘کسی بھی پارٹی نیتا کو بھڑکاؤ یا تفرقہ ڈالنے والا بیان نہیں دینا ہے، میٹنگ میں موجود ایک دوسرے بڑے لیڈر نے کہا کہ ” ہمیں پہلے ہی ہدایت دی گئی تھی کہ کسی بھی طرح کی اکساؤ بات نہیں کہنی ہے. ہم پر دیش کے اقتدار کی بڑی ذمہ داری ہے اس وائرس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے.”
معروف صحافی رویش کمار نے اپنی ایک رپورٹ میں طنز کرتے لکھا ہے کہ” 12 کروڑ کی آبادی والے بہار کو مرکز نے چار ہزار پی پی ای دیئے ہیں 100 وینٹیلیٹر بھی نہیں دیئے ہیں. بہار کے لوگ مست ہونگے لیکن انھیں ڈاکٹر وں کے لیے فکر مند ہونا چاہیے بغیر پی پی ای.-این – پچانوے ماسک کے وہ کرونا مریضوں کا کیسے علاج کریں گے.
ان ناکامیوں پر دو ہی چیز سے پردہ ڈالا جا سکتا ہے ایک نوٹنکی سے دوسرا ہندو مسلم ڈیبیٹ سے. دونوں کا انتظام ہو چکا ہے وینٹیلیٹر کا انتظام ہوتا رہے گا ”
جبکہ مذکورہ کرائسس کی رو سے امریکی سفیر سیموئل براؤن بیک کا کہنا ہے کہ ” امریکی ایڈمنسٹریشن کے پچھلے کچھ دنوں میں کئی ایسے معاملے دیکھنے میں آئے ہیں کہ جس میں اس بیماری کے لیے اقلیتی فرقہ کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے ”
#کرونا جہاد کو لیکر سیموئل براؤن بیک نے کہا کہ’ اس طرح کے ہیش ٹیگ سے ایسا معلوم پڑتا ہے جیسے کہ کرونا وائرس مسلم فرقہ کے لوگوں کی طرف سے پھیلایا گیا ہو اس طرح کا غلیظ پروپیگنڈہ کئی علاقوں میں کیا جا رہا ہے جو بے حد بد شرمناک ہے سرکار کو اس پر روک لگانی چاہیے. ‘ انھوں نے مزید کہا کہ ‘سرکار کو اس معاملے میں واضح کرنا چاہیے کہ جماعت کے لوگ کرونا کے ذرائع نہیں ہیں. ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک وبا ہے جس سے پوری دنیا جوجھ رہی ہے اس کا مذہبی اقلیتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے. مجھے امید ہے لیکن بد قسمتی سے میں اس طرح کے الزام لگتے دیک رہا ہوں. مجھے امید ہے کہ سرکار اس مدعے پہ مخاطب کریگی اور لوگوں کے سامنے سختی سے اپنی بات رکھے گی. ‘
آخر میں ہم سمجھتے ہیں کہ آج ضرورت ہے اس وبا سے مل جل کر نپٹنے کی نہ کہ ایک دوسرے پہ الزام تراشی کر وقت ضائع کرنے کی. ہم دیش واسی اس وبا کی گمبھیر تا کو سمجھنے کو لیکر پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکے ہیں. دیکھا جائے اس بیماری سے نپٹنے کو لیکر جو جو ساز و سامان درکار ہے اس کی بے حد قلت محسوس کی جا رہی ہے. اس لیے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہمارے میڈیا کی یہ اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ادھر ادھر کے بحث مباحثوں میں وقت خراب نہ کر عوام کو اس وباکے تباہ کن اثرات سے واقف کروائے اور جہاں جہاں بھی کمیاں اور کوتاہیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں سرکار کو ان کی نشاندہی کروائے اسی میں ہم سب بھی بھلائی و خیر و عافیت ہے.
[email protected]