9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
دانش حماد جاذب
اللہ تبارک و تعالی نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اک ایسے دین کے ساتھ فرمائی جو صرف عبادت کے تعلق سے باتیں نہین کرتا بلکہ ایک انسانی زندگی کے ہر شعبے مثلا کھانا پینا، رہن سہن، سماج اور معاشرے کے آداب و اخلاق یہاں تک کہ قضائے حاجت کے طرہقے اور آداب بھی سکھاتا ہے ـ اسے لیکر یہودیوں نے مزاق بھی بنایا کہ کیسا دین ہے جو پیشاب پاخانہ کے بارے میں بتاتا ہے ـ مگر یہی اسلام کی خوبی ہے جسے سائنس نے دھیرے دھیرے ثابت بھی کیا ـ اللہ نے اس دین کے ذریعہ جو بھی اصول اور ضابطہ زندگی ہمارے لئے بنایا اس کے ہر اصول میں مصلحت پوشیدہ ہےـ جس جس چیز سے بھی اسلام نے ہمیں روکا ہے اس کے استعمال سے ہونے والے نقصان کی طرف اشارہ تو نہیں کیا مگر ترقی یافتہ تکنیک اسے ثابت کررہی ہے ـ اللہ کے منع کردہ اشیاء کے استعمال سے جو نقصان ہوا اس سے آج پوری دنیا جوجھ رہی ہے ـ سانپ بچھو کیڑے مکوڑے چمگادڑ کتے بلی خنزیر جس کا کھانا حرام ہے چین کے لوگوں کا ان اشیاء کو شوق سے کھانا آج پوری دنیا کے لئے مہلک ثابت ہورہا ہے ـ اللہ کی مصلحت کو چیلینچ کرنے والے لوگوں نے دیکھا کہ کس طرح چمگادڑوں میں ہونے والی بیماری نے ایک وائرس کا روپ اختیار کرکے انسانوں کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل گیا ـ چین کے ووہان شہر سے جنمے اس وبا نے کورونا کے نام سے اپنی پہچان بنائی اور رفتہ رفتہ پوری دنیا کے لوگ اس وائرس کا شکار ہورہے ہیں کیونکہ یہ مرض ایک دوسرے سے رابطے میں آنے سے ہی پھیلتا ہے ـ سب سے بڑی بات یہ ہیکہ ایک انسان جو کہ اس مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے اسے خود اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ وہ کرونا کا شکار ہوچکا ہے اور وہ خود کو صحت مند سمجھ کر سینکڑوں لوگوں سے رابطہ کر اس وبا کو ان تک بھی پہونچا دیتا ہے ـ یہی وجہ ہیکہ یہ عالمی وبا رکنے کا نام نہیں لے رہی ـ
اکتوبر ۲۰۱۹ میں اس وبا کی ابتداء چین کے شہر ووہان سے ہوئی اور تین مہینے کے اندر اس نے چین میں قہر برپا کردیا ـ ٹیلی ویژن کے سبھی چینل چین میں ہورہی اموات کے بارے میں بتارہے تھے مگر اس بات سے بے خبر تھے کہ انسانوں کے ذریعہ انسان تک پہونچنے والی یہ وبا ہندوستان بھی پہونچ سکتی ہے یا جانتے بوجھتے بھی مطمئن تھے یہ موقع تھا کہ ملک کے ماہرین اس پر چرچا کرتے اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں بتاتے مگر افسوس ملک کے اعلی حکام امریکی صدر کے استقبال میں مشغول تھے ـ جب یہ وباء دبے پاؤں ہندوستان میں داخل ہورہی تھی تب دیش کے ایکسپرٹ اور تجربہ کار لوگ شاہین باغ، این آر سی، این پی آر جیسے معاملوں پر ڈیبیٹ ( بحث و مباحثہ) کررہے تھے ـ انہیں ہوش تب آیا جب غیر ممالک سے بہت سارے افراد جن میں سبھی مذہب اور فرقے کے لوگ شامل تھے ہندوستان آئے اور اپنے ساتھ اس وبا کو لیکر آئے وہ جہاں جہاں گئے یہ اس وبا کو وہاں عام کیا مگر وہ خود اس بات سے بے خبر تھے ـ ان میں تبلیغی جماعت کے بھی لوگ تھے جو دہلی کے مرکز میں ہورہے اجلاس میں شرکت کی غرض سے آئے تھے چونکہ اس جلسے میں شرکت کیلئے ملک کے کئی ریاستوں سے لوگ پہونچے جس کی وجہ سے یہ وبا تیزی سے پھیلنے لگی ـ اس واقعے کو ٹیلی ویژن میڈیا نے خوب اچھالا جس سے عوام کے ذہنوں میں یہ بات ثبت ہوگئی کہ کرونا وائرس پھیلنے کے ذمہ دار مسلمان ہیں ـ ایسے حالات میں غیر سماجی عناصر فورا حرکت میں آئے اور چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہاتوں میں خبر پھیلانے لگے مسلمان کرونا پھیلارہے ہیں ـ جھارکھنڈ میں ہی کئی جگہہ ان تین دنوں کے اندر بہت سارے واقعات ہوے جس سے ایسا ماحول بن گیا کہ وہ وقت دور نہیں کہ ملک کرونا کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا ـ ملک کے دانشور لیڈران کے بیان بھی آگ میں گھی کا کام کررہے ہیں کوئی اسے کورونا جہاد تو کوئی خود کش بم کا نام دے رہا ہے ایسے میں غیر سماجی عناصر موقع بھنانے میں لگ گئے ہیں اور ایک بار پھر ہندو مسلم سیاست گرم ہونے لگی ہے ـ یہ غیر سماجی عناصر گاؤں گاؤں جاکر اس طرح کی جھوٹی افواہ پھیلارہے ہیں کہ مسلمانوں کی بستی میں مسجدوں تبلیغی جماعت کے لوگ چھپے ہیں اس لئے مسلمانوں کی بستی میں نا جائیں اور نا ہی ان سے کسی قسم کا لین دین کریں ـ جبکہ سرکاری محکمے کے افسران اور محکمہ پولس کے افسروں نے ہر مسجد کی جانچ کی ہے ـ اس طرح کی خبروں سے پورے دیش کا مسلمان پریشان ہے اور کسی انہونی خطرے کے اندیشے سے خائف ہے ـ ہندوستان کے کئی جگہوں سے ماب لنچنگ کی خبریں بھی آرہی ہیں کل ایک ویڈیو دیکھا جو زبان کے اعتبار سے ہریانہ کے اطراف کی لگ رہی تھی جس میں ایک نوجوان کو بری طرح پیٹا جارہا ہے اور اس سے اس کا پلان پوچھا جارہا تھا جیسے بھیڑ نہیں سی بی آئی کے افسر ہوں نوجوان بار بار ان سے التجا کررہا ہے کہ مجھے پولس کے حوالے کردیں مگر قانون ہاتھ میں لینا عام بات ہوگئی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے ان کے خلاف مقدمہ ہوا بھی تو جلد ان کو بیل مل جائے گی اور پھولوں کی مالا سے ان کا استقبال ہوگا ـ ان تین دنوں کے اندر جو واقعات ہوئے اس نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کردیا جھارکھنڈ اڈیشہ کی سرحد کا واقعہ ہیکہ کچھ مسلم نوجوان اپنے پاس کے گاؤں میں بسے آدی واسیوں میں جو روزانہ مزدوری کرتے تھے اشیائے خوردونوش کی تقسیم کیلئے گئے ان غریبوں نے خوشی خوشی قبول کیا اور دعائیں دی مگر شام ہوتے ہی جیسے ہی غیر سماجی عناصر کو اس بات کی خبر ہوئی وہ ان غریبوں پر دباؤ بنانے لگے اور ان سے کہا کہ ان اشیاء کو واپس کردو اس میں کچھ ملا کر دیا گیا ہے جس سے تمہیں بھی کورونا ہوجائے گا اب یہ بھولے بھالے دیہاتی آدیواسی کیا جانیں کورونا کا مرض پھیلتا کیسے ہے انہوں نے ڈر اور دباؤ میں آکر ان اشیائے خوردونوش کو واپس کردیا ـ ۹ اپریل کی شام کو جھارکھند اڈیشہ کی سرحد کے ایک اور گاؤں جہاں بمشکل دس مسلم گھرانے ہیں دو نوجوانوں کو پتھر مار کر بھگادیا گیا کہ جاؤ یہاں سے تم لوگ ہی کورونا پھیلارہے ہو نوجوانوں نے احتجاج کیا اور نوبت ہاتھا پائی تک پہونچ گئی ـ اسی شام تقریباً دو تین سو لوگ جمع ہوکر اس گاؤں کو گھیر لیا اور جے شری رام کے نعرے لگانے لگے اور ان پر بستی خالی کرنے کا دباؤ بنانے لگے قلیل تعداد کے مسلمان دہشت میں تھے قریبی تھانے میں اطلاع دی گئی مگر وہاں بہت کم پولس افسر تھے جن سے حالات پر قابو پانا مشکل تھا قبل اس کے کہ بات بڑھتی جھارکھنڈ اور اڈیشہ سے آس پاس کے تھانے سے پولس پہونچنے لگی اور بھیڑ کو بھگایا بلکہ رات بھر پہرہ بھی دیا محکمہ پولس کی اس چوکسی پر بہت خوشی ملی واقعی ان حالات میں محکمہ پولس کافی سرگرم ہے اور اب تک غلط افواہ اور جھوٹی خبر یا پرتشدد باتیں سوشل میڈیا میں پوسٹ کرنے والے بہت سے لوگوں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں ـ یہ تو چند مثالیں ہیں جو میرے قریب میں ہوئیں جس کا مین عینی شاہد ہوں مگر جو پورے دیش میں ہورہا ہے نا جانے تعصب کی اس وبا سے دیش کب شفایاب ہوگا ـ کہیں مسلمانوں کا داخلہ بند کردیا جارہا ہے کہیں لوگوں اپنے گاؤں کو لاک کردیا ہے ہر جگہ مسلمانوں کو طنز کا نشانہ بنایا جارہا ہے مسلمانوں کی اس زبوں حالی پر رونا کیوں نا آئے کیوں کر ایک قلم کار کا قلم نامچلے ـ ایسے حالات میں ضرورت ہے کہ ہم احتیاط برتیں کوشش اس بات کی کریں کہ اپنی جانب سے کوئی کوتاہی نا ہوـ لاک ڈاؤن کے قوانین کی پابندی سختی سے کریں کرونا نامی اس عالمی وبا سے جنگ لڑنے میں وطن کے ساتھ بنے رہیں ـ سماجی دوریاں بنائے رکھیں یہ دیکھا جارہا ہیکہ لاک ڈاؤن کے قوانین توڑنے میں ہمارے نوجوان اول رہتے ہیں ـ اگرآپ کے آس پاس کچھ ایسا ہو یا آپ دیکھیں کہ پر تشدد ماحول بنانے کی سازش ہورہی ہے تو بلاتاخیر مقامی پولس کو خبر کریں یا اعلی سطح پر محکمے کو جانکاری دیں کبھی بھی قانون اپنے ہاتھ میں نا لیں کہ آپ ہی مجرم ہو جائیں ـ پورے احتیاط کے ساتھ دیش کے ساتھ بنے رہیں جب تک اس وبا سے ملک جیت نہیں جاتا ـ
٭٭٭
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو ٹاٹا کالج چائباسہ جھارکھنڈ